مت سمجھو ہم نے بھلا دیا
آج اس سانحہ کو گزرے ایک برس ہوگیا، لیکن اب تک قانون کے رکھوالے ایک بے ضرر شہری کے قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام ہیں۔
یہ کس کی تحریر ہے؟ ڈاکٹر یاسر رضوی نے ایک کاغذ میرے اور عصمت زیدی کے سامنے لہراتے ہوئے پوچھا؟ سر یہ میں نے لکھا تھا، میں نے سر جھکا کر کہا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ دوست کے سامنے عزت افزائی ہوگی کہ کیا اول فول لکھ دیا۔ اتنی ہی دیر میں ایک آواز آئی، اس کو کسی اخبار میں ای میل کر دیجئے تاکہ یہ شائع ہوجائے، پختہ تحریر ہے۔ مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ سر نے یہ الفاظ میری تحریر کے بارے میں کہے ہیں، مجھے لگا کہ شاید سر ازراہ مذاق کہہ رہے ہیں، لیکن سر کا چہرہ سنجیدہ تھا۔ اپنی رائے کا اظہار ضروری ہے اور یہ اسائنمنٹ اسی لئے دیا گیا تھا کہ طلبا کو اپنی رائے کو تحریر کی صورت میں بیان کرنے کی مشق ہو۔ ایک لمحے توقف کے بعد دوبارہ گویا ہوئے کہ سیکھنے کی ضرورت تو ہر وقت ہوتی ہے، اس لیے انداز تحریر کو مزید بہتر بنائیے، ایک کام کیجئے کہ اس تحریر کو فائنل سیمسٹر کے ضیا جعفری کو دے دیجئے وہ اخبار کے متعلقہ سکیشن تک پہنچا دیں گے، اور سنو اگر وہ چائے پانی کا خرچہ مانگے تو مجھے بتانا، آخر میں انہوں نے اپنی مخصوص بذلہ سنجی سے کہا۔
استاد کی طرف سے مزید لکھنے کی ترغیب نے مجھے کس قدر اعتماد دیا، یہ قابل بیان نہیں۔ یقینی طور پر انسان کی صلاحیتیں اس وقت زیادہ نکھرتی ہیں جب اس کی خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مناسب حوصلہ افزائی کی جائے اور ڈاکٹر یاسر رضوی اس خوبی کا پیکر تھے۔ ہر وقت سر کے کمرہ کے آگے طلباء کا تانتا ہی بندھا رہتا۔ جو کورس سر نہیں پڑھاتے تھے اس کے موضوعات بھی ڈاکٹر یاسر رضوی سے ہی ڈسکس کئے جاتے تھے۔ وجہ ان کا پر شفقت لہجہ اور دوستانہ انداز تھا۔ اسی دوران ڈاکٹر یاسر رضوی ترقی کی اگلی منزل طے کرتے جامعہ اردو سے جامعہ کراچی جا پہنچے۔ اس کے بعد تھیسسز کی تیاری کیلئے جب بھی جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ جانا ہوا، وہاں بھی ڈاکٹر یاسر کو طلباء کے ہجوم میں ہی پایا۔ ہمارے متحرک اور فعال استاد کے پاس وقت کی بہت کمی تھی، لیکن اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود انہوں نے پورے اخلاص سے تھیسز کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا، یہ ان کا بے پناہ اخلاص ہی تھا کہ شکریہ کے چند الفاظ انتہائی بے معنی اور بے وقعت لگتے ہیں۔
ستمبر 2014ء میں جامعہ کراچی کے استاد پروفیسر شکیل اوج کو جب فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تو ڈاکٹر یاسر رضوی اس معاشرے کے متشدد رویے اور لاقانونیت پر بہت ملول نظر آئے۔ وہ اپنے استاد کے قتل اور قاتلوں کی عدم گرفتاری پر مایوس تھے۔ لیکن ان کو شاید یہ خبر نہ تھی کہ ایک دن وہ بھی اس شہر قائد میں دن دیہاڑے اسی لاقانونیت اور دہشت گردی کا نشانہ بن جائیں گے۔ 29 اپریل 2015ء کو صبح 11:30 کے قریب ملنے والی ڈاکٹر یاسر رضوی کی شہادت کی خبر نے ان کے احباب، ساتھیوں اور طلبا کو سوگوار کردیا۔
آج اس سانحہ کو گزرے ایک برس ہوگیا، لیکن اب تک قانون کے رکھوالے ایک بے ضرر شہری کے قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام ہیں۔ کبھی قاتل پکڑنے کا دعویٰ کرکے میڈیا پر ایک شخص کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں تو بعد میں اسی قاتل کو کیس 'سی کلاس' کرکے بری کردیا جاتا ہے، اور اس کے بعد سے اب تک کوئی خبر سامنے نہ آسکی کہ قاتل کون ہے؟ قاتلوں کو پکڑنا تو درکنار ایک برس بیتنے کے بعد بھی ڈاکٹر یاسر رضوی کا جائے وقوعہ سے ملنے والا زیرِ استعمال موبائل فون بھی اب تک ان کے اہل خانہ کو لوٹایا نہ جاسکا۔ گھر والوں کے لیے اُس موبائل کی افادیت کو ایک طرف رکھیے، سوال تو یہ ہے کہ کیا ایک سال گزرنے کے بعد بھی موبائل کا ڈیٹا حاصل نہیں کیا جاسکا؟ اگر ایسا ہی ہے تو جناب تحقیقات کیا ہونگی ہم سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ڈیٹا نکال لیا گیا ہے تو موبائل واپس کیوں نہیں کیا گیا ہے؟
پھر بات یہیں تک نہیں رکتی، بلکہ اس کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ میں سر یاسر رضوی کا سیل کیا جانے والا کمرہ اب تک اسی حالت میں ہے، اس میں موجود ان کا سامان، ان کی اشیاء کیا اسی طرح دھول مٹی کی نذر ہوتی رہیں گی؟ شہید پروفیسر کی بیٹی کا کہنا ہے کہ،
یقینی طور پر وہ غلط نہیں سمجھتی ہوگی، لیکن شاید ''بابا'' کی بیٹی کو قانون نافذ کرنے والوں کی مصروفیات کا صحیح اندازہ نہیں، کہ ابھی وہ پہلے قتل کی گتھی ہی سلجھا رہے ہوتے ہیں کہ ان کو منہ چڑاتے ہوئے قاتل ایک اور لاش دن دیہاڑے گرا دیتے ہیں، بس پھر پہلی کو چھوڑ کر وہ دوسرے قتل کا معمہ حل کرنے نکل پڑتے ہیں، اور یہ سلسلہ صبح اور شام مسلسل جاری ہے۔
قاتلوں کی گرفتاری کے لیے احتجاج بھی ہوگئے، الٹی میٹم بھی دے دیے، ایوانوں میں بیٹھے افراد سے ملاقاتیں بھی کرلیں مگر بدقسمتی دیکھیے کہ جو صورتحال ایک سال پہلے تھی آج بھی معاملہ جوں کا توں ہی ہے۔ پھر اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ صوبے کے وڈے وزیر نے قتل کے بعد مالی معاونت کے حوالے سے جو وعدہ کیا تھا وہ بھی آج تک پورا نہیں ہوسکا۔
سمجھ نہیں آتا کہ مزید کتنی بار حکومت سندھ سے مطالبہ کیا جائے کہ اُن لوگوں کو سامنے لایا جائے جنہوں نے شہر میں ناحق ایک استاد کو قتل کیا۔ لیکن جب تک حکومت ڈھیٹ بن کر قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتی ہم بھی ڈھیٹ بن کر یہ مطالبہ بار بار کرتے رہیں گے کہ خدارا، خدارا قاتلوں کو گرفتار کیا جائے، خدارا ایک استاد کے بچوں کی کفالت کا بندوبست کیا جائے، خدارا لوگوں کو یہ تاثر نہ دیا جائے کہ ان کے حکمراں نکمے ہیں، خدارا لوگوں کو یہ تاثر نہیں دیا جائے کہ فلم 'مالک' میں حکمرانوں کے حوالے سے درست کردار کشی کی گئی ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ قاتلوں کو گرفتار کرکے رعایا کو تو یہ اُمید دلائیے کہ آپ کے دست شفقت تلے سندھ کے عوام خود کو محفوظ اور پُرسکون تصور کرسکتے ہیں۔
[poll id="1089"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
استاد کی طرف سے مزید لکھنے کی ترغیب نے مجھے کس قدر اعتماد دیا، یہ قابل بیان نہیں۔ یقینی طور پر انسان کی صلاحیتیں اس وقت زیادہ نکھرتی ہیں جب اس کی خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مناسب حوصلہ افزائی کی جائے اور ڈاکٹر یاسر رضوی اس خوبی کا پیکر تھے۔ ہر وقت سر کے کمرہ کے آگے طلباء کا تانتا ہی بندھا رہتا۔ جو کورس سر نہیں پڑھاتے تھے اس کے موضوعات بھی ڈاکٹر یاسر رضوی سے ہی ڈسکس کئے جاتے تھے۔ وجہ ان کا پر شفقت لہجہ اور دوستانہ انداز تھا۔ اسی دوران ڈاکٹر یاسر رضوی ترقی کی اگلی منزل طے کرتے جامعہ اردو سے جامعہ کراچی جا پہنچے۔ اس کے بعد تھیسسز کی تیاری کیلئے جب بھی جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ جانا ہوا، وہاں بھی ڈاکٹر یاسر کو طلباء کے ہجوم میں ہی پایا۔ ہمارے متحرک اور فعال استاد کے پاس وقت کی بہت کمی تھی، لیکن اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود انہوں نے پورے اخلاص سے تھیسز کی تکمیل میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا، یہ ان کا بے پناہ اخلاص ہی تھا کہ شکریہ کے چند الفاظ انتہائی بے معنی اور بے وقعت لگتے ہیں۔
ستمبر 2014ء میں جامعہ کراچی کے استاد پروفیسر شکیل اوج کو جب فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تو ڈاکٹر یاسر رضوی اس معاشرے کے متشدد رویے اور لاقانونیت پر بہت ملول نظر آئے۔ وہ اپنے استاد کے قتل اور قاتلوں کی عدم گرفتاری پر مایوس تھے۔ لیکن ان کو شاید یہ خبر نہ تھی کہ ایک دن وہ بھی اس شہر قائد میں دن دیہاڑے اسی لاقانونیت اور دہشت گردی کا نشانہ بن جائیں گے۔ 29 اپریل 2015ء کو صبح 11:30 کے قریب ملنے والی ڈاکٹر یاسر رضوی کی شہادت کی خبر نے ان کے احباب، ساتھیوں اور طلبا کو سوگوار کردیا۔
آج اس سانحہ کو گزرے ایک برس ہوگیا، لیکن اب تک قانون کے رکھوالے ایک بے ضرر شہری کے قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام ہیں۔ کبھی قاتل پکڑنے کا دعویٰ کرکے میڈیا پر ایک شخص کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں تو بعد میں اسی قاتل کو کیس 'سی کلاس' کرکے بری کردیا جاتا ہے، اور اس کے بعد سے اب تک کوئی خبر سامنے نہ آسکی کہ قاتل کون ہے؟ قاتلوں کو پکڑنا تو درکنار ایک برس بیتنے کے بعد بھی ڈاکٹر یاسر رضوی کا جائے وقوعہ سے ملنے والا زیرِ استعمال موبائل فون بھی اب تک ان کے اہل خانہ کو لوٹایا نہ جاسکا۔ گھر والوں کے لیے اُس موبائل کی افادیت کو ایک طرف رکھیے، سوال تو یہ ہے کہ کیا ایک سال گزرنے کے بعد بھی موبائل کا ڈیٹا حاصل نہیں کیا جاسکا؟ اگر ایسا ہی ہے تو جناب تحقیقات کیا ہونگی ہم سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ڈیٹا نکال لیا گیا ہے تو موبائل واپس کیوں نہیں کیا گیا ہے؟
پھر بات یہیں تک نہیں رکتی، بلکہ اس کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ میں سر یاسر رضوی کا سیل کیا جانے والا کمرہ اب تک اسی حالت میں ہے، اس میں موجود ان کا سامان، ان کی اشیاء کیا اسی طرح دھول مٹی کی نذر ہوتی رہیں گی؟ شہید پروفیسر کی بیٹی کا کہنا ہے کہ،
وہ چاہتی ہیں کہ ''بابا'' کے کمرے میں موجود سامان، ان کی کتابیں اور ان کا زیرِ استعمال سامان گھر والوں کو واپس کیا جائے تاکہ وہ انہیں اپنے پاس حفاظت سے سنبھال کر رکھ سکیں، کیونکہ اس میں ان کے ''بابا'' کا لمس کہیں نہ کہیں موجود ہے''۔
یقینی طور پر وہ غلط نہیں سمجھتی ہوگی، لیکن شاید ''بابا'' کی بیٹی کو قانون نافذ کرنے والوں کی مصروفیات کا صحیح اندازہ نہیں، کہ ابھی وہ پہلے قتل کی گتھی ہی سلجھا رہے ہوتے ہیں کہ ان کو منہ چڑاتے ہوئے قاتل ایک اور لاش دن دیہاڑے گرا دیتے ہیں، بس پھر پہلی کو چھوڑ کر وہ دوسرے قتل کا معمہ حل کرنے نکل پڑتے ہیں، اور یہ سلسلہ صبح اور شام مسلسل جاری ہے۔
قاتلوں کی گرفتاری کے لیے احتجاج بھی ہوگئے، الٹی میٹم بھی دے دیے، ایوانوں میں بیٹھے افراد سے ملاقاتیں بھی کرلیں مگر بدقسمتی دیکھیے کہ جو صورتحال ایک سال پہلے تھی آج بھی معاملہ جوں کا توں ہی ہے۔ پھر اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ صوبے کے وڈے وزیر نے قتل کے بعد مالی معاونت کے حوالے سے جو وعدہ کیا تھا وہ بھی آج تک پورا نہیں ہوسکا۔
سمجھ نہیں آتا کہ مزید کتنی بار حکومت سندھ سے مطالبہ کیا جائے کہ اُن لوگوں کو سامنے لایا جائے جنہوں نے شہر میں ناحق ایک استاد کو قتل کیا۔ لیکن جب تک حکومت ڈھیٹ بن کر قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتی ہم بھی ڈھیٹ بن کر یہ مطالبہ بار بار کرتے رہیں گے کہ خدارا، خدارا قاتلوں کو گرفتار کیا جائے، خدارا ایک استاد کے بچوں کی کفالت کا بندوبست کیا جائے، خدارا لوگوں کو یہ تاثر نہ دیا جائے کہ ان کے حکمراں نکمے ہیں، خدارا لوگوں کو یہ تاثر نہیں دیا جائے کہ فلم 'مالک' میں حکمرانوں کے حوالے سے درست کردار کشی کی گئی ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ قاتلوں کو گرفتار کرکے رعایا کو تو یہ اُمید دلائیے کہ آپ کے دست شفقت تلے سندھ کے عوام خود کو محفوظ اور پُرسکون تصور کرسکتے ہیں۔
[poll id="1089"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔