نابینا نوجوان کروڑوں بینائوں سے زندگی کی دوڑ میں آگے…
اندرون و بیرون ملک غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے میاں محمد عادل کی زندگی کے نشیب و فرازکا احوال
انسانی جسم کی ساخت قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔
آج کے دور جدید میں جب میڈیکل سائنس روبوٹ کی صورت میں ایک مکمل اور زندہ جاگتا انسان بنانے کی کوشش میں سرگرداں ہے اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے، مگر پھر بھی میڈیکل اور سائنس کے ماہرین کیمطابق انسانی جسم کے اعضاء کا حقیقی نعم البدل ممکن نہیں۔ اس میں جو کمی قدرتی طور پر رہ جائے وہ کبھی بھی مکمل اور عملی طور پر پوری نہیں کی جا سکتی۔
خالق کائنات نے انسانی جسم کی بناوٹ کو بے مثال بنایا ہے، بلاشبہ وہ سب سے بڑا منصف ہے، انسانی جسم میں قدرتی طور پر رہ جانے والی کمی کو وہ کسی دوسری جگہ پورا کر دیتا ہے، مثلاً بعض اوقات آنکھوں سے نابینا شخص کا ذہن عام انسان سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور وہ اس خاصیت کو استعمال کرکے بینائی کی خامی پر قابو پا لیتا ہے۔ ایسے ہی لوگ اپنے عزم اور پختہ ارادہ سے دنیا کے لئے عظیم مثالیں چھوڑ جاتے ہیں۔
پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو کیلئے جب 26 سالہ نوجوان کمرے میں داخل ہوا تو انٹرویو لینے والے اعلیٰ افسران پر مشتمل بورڈ کے ارکان نے اس کا بغور جائزہ لیا۔ صاف ستھری پینٹ شرٹ میں ملبوس خوش شکل نوجوان پُر اعتماد انداز میں چلتا ہوا آیا اور اجازت لے کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ نوجوان نے ہاتھ میں سفید چھڑی پکڑی ہوئی تھی۔ بورڈ کے ارکان کو اس کے پاس چھڑی کی موجودگی کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ نوجوان جس اعتماد سے کمرے میں آکر کرسی پر بیٹھا تھا اس سے قطعی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ نابینا ہے۔
بورڈ کے افسران انٹرویو کے دوران اس نوجوان سے پون گھنٹے تک سوال و جواب کرتے رہے۔ جب انٹرویو ختم ہوگیا تو ایک سینئر ممبر نے بالآخر اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر نوجوان سے سفید چھڑی رکھنے کا سبب پوچھ ہی لیا۔ نوجوان کے جواب پر بورڈ کے ارکان ششدہ رہ گئے۔ جس نوجوان کی تعلیمی اسناد کی موٹی فائل ان کے سامنے پڑی تھی، اس کا جواب تھا ''سر میں بلائنڈ ہوں'' مجھے کچھ نظر نہیں آتا اس لیے چھڑی کی ضرورت پڑتی ہے۔
بعدازاں اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ کے حامل اس نوجوان کو ایک بڑے سرکاری عہدے کیلئے منتخب کرلیا گیا۔ اس نوجوان کا نام میاں محمد عادل ہے اور اس کا تعلق پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ سے ہے۔ نابینا ہونے کے باوجود میاں محمد عادل نے ہمت، لگن اور غیر معمولی صلاحیتوں کی مدد سے وہ منازل طے کی ہیں۔ جن پر نہ صرف اس کے والدین، دوست و احباب بلکہ اس معاشرہ کو بھی ناز ہے۔ بچپن سے جوانی تک میاں محمد عادل کی زندگی کا کٹھن سفر کس طرح گزرا اور کس طرح وہ آج اس مقام تک پہنچا؟ کہ ان کی ترقی کو دیکھ کر کروڑوں بینائوں کے پَر جل جاتے ہیں۔ آئیے میاں عادل کی روداد ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔
میری پیدائش 1980ء میں کمالیہ میں ہوئی۔ والد صاحب کا نام میاں محمد ارشد ہے۔ لیکن وہ پورے علاقے میں میاں ارشد صابن والے کے نام سے مشہور ہیں۔ کیونکہ اس زمانے میں ان کی صابن بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری ہوا کرتی تھی۔ ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ میں اور میرے بڑے بھائی پیدائشی نابینا ہیں اور بہنیں اللہ کے فضل سے نارمل ہیں۔ میرے بڑے بھائی جو مجھ سے دو برس بڑے ہیں۔ انھوں نے اسپیشل ایجوکیشن میں ایم۔اے کیا ہوا ہے اور اس وقت وہ ایک سرکاری ملازم ہیں۔
1984ء میں مجھے پرائمری تعلیم کیلئے فیصل آباد میں اقبال اسٹیڈیم کے ساتھ متصل ایک مرکز نابینا اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یہ اسکول ایک فلاحی تنظیم کے تحت پاک آرمی کے ایک سابق کیپٹن شفیق الرحمن چلا رہے تھے۔ یہاں بچوں کو بریل (BRAILLE) کے تحت پڑھایا جاتا تھا۔ جس میں کاغذوں پر سوارخ کرکے ہاتھ کی انگلیوں سے ان کو محسوس کرواکر مختلف الفاظ سکھائے جاتے ہیں۔ اسکول کا زمانہ بہت اچھا تھا یہاں داخلہ لینے کے بعد میں فیصل آباد میں ایک چچا کے پاس رہنے لگا تھا۔ صرف چھٹی والے دن اپنے گھر جاتا تھا اور ہر ہفتے والد صاحب مجھے کمالیہ سے فیصل آباد چھوڑنے آتے تھے۔ اس اسکول سے پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے عام سرکاری اسکولوں میں نارمل بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔
سرکاری اسکول میں تعلیم کا بھی ایک باقاعدہ طریقہ کار تھا۔ میں کلاس میں جاتا اور وہاں دیئے جانے والے سبق کو بغور سنتا رہتا تھا۔ پھر بچوں کی نارمل کتابوں کے سبق کو اپنے بریل سسٹم کے تحت ٹرانسلیٹ کرلیا کرتا تھا۔ امتحانات کے دوران بھی رائٹرز کی مدد سے پرچے حل کیا کرتا تھا یعنی اس رائٹر کو معلوم ہوتا تھا کہ میں بریل سسٹم کے ذریعے کیا لکھ رہا ہوں اور وہ اس کو نارمل الفاظ میں منتقل کردیا کرتا تھا۔ اسی طرح میں نے محنت کرتے کرتے مڈل سے میٹرک اور پھر بی۔اے تک تعلیم مکمل کرلی۔ بعدازاں پنجاب یونیورسٹی سے 3 مضامین میں ماسٹرز اور معروف نجی ادارہ سے ایل ایل بی کیا۔
آج میں تعلیمی دور کو یاد کرتا ہوں تو بہت لگی بندھی زندگی تھی، مگر ایک مقصد سامنے تھا، جسے حاصل کرنے کی تمنا بیزار نہیں ہونے دیتی تھی۔ ویسے تو زندگی میں اللہ کے فضل سے کوئی بڑی مشکل پیش نہیں آئی یا یوں کہیے کہ میں نے کبھی کسی مشکل کو اپنے راستے میں زیادہ دیر تک حائل ہی نہیں ہونے دیا۔ تاہم چھوٹی چھوٹی کئی چیزیں ایسی تھیں کہ جنہوں نے وقتی طور پر مجھے ڈسٹرب کیا۔ ان میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ بلائنڈ ایجوکیشن کے لیے کتابوں کا حصول بہت دشوار تھا اس لیے خود ہی بریل سسٹم کے تحت کتابیں تیار کرنے کی کوشش کرنی پڑتی تھی۔ جبکہ امتحانات کے دوران رائٹرز (مددگار) بہت مشکل سے ملا کرتے تھے۔
یونیورسٹی میں آنے کے بعد مجھے بہت سی مالی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ پاکستان میں بلائنڈ افراد کے لیے ایجوکیشن بہت مہنگی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے میں نے وزارت امور نوجوانان کو تین تجاویز بھی دی تھیں۔ یہ تجاویز میں نے اس وقت دی تھیں، جب مجھے نیشنل یوتھ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اس تقریب میں، میں نے مہمان خصوصی کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ پاکستان میں پیدائشی طور پر ہر معذور بچے کے تین برس کی عمر میں مکمل چیک اپ کی ذمے داری حکومت اٹھائے۔ ان کی تعلیم علیحدہ مراکز کی بجائے عام اسکولوں میں ہی ہونی چاہیے۔ جہاں انھیں تمام سہولتیں مہیا کی جائیں۔ چونکہ بریل سسٹم بہت مہنگے ہیں، اس لیے حکومت کو ایسے طلبہ کی مدد کرنی چاہیے۔
پاکستان میں معذوری کا تناسب زیادہ ہے اور کل آبادی کا 10 فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے۔ اس لیے کوٹہ سسٹم ختم کرکے انھیں اوپن میرٹ پر تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ میں کبھی معاشرے کے رویوں سے دل برداشتہ یا احساس کمتری کا شکار نہیں ہوا۔ جب کبھی ایسا کوئی موقع آتا تو میں خود کو یہی سمجھایا کرتا تھا کہ میں تعلیم کے اعتبار سے اپنے اردگرد موجود آنکھوں والوں سے بدرجہا بہترہوں۔ یہی سوچ میرے لیے احساس تفاخرکا احساس بنتی تھی۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے میاں عادل نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس کی سربراہی میں چلنے والی موزیگ انٹرنیشنل برطانیہ نے ہزاروں نوجوانوں کو ایک سخت پراسیس سے گزارنے کے بعد دنیا بھر سے اعلی تعلیم یافتہ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل 80 نوجوانوں کا انتخاب کیا جس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ اس موقع پر میری بھرپور پذیرائی کی گئی۔ اب میرا ارادہ ہے کہ میں برطانیہ جاکر پولیٹیکل سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی کروں اور اس کے علاوہ پاکستان میں اسپیشل افراد کے لیے کوئی ایسا کام کرسکوں جس سے ان کی مدد ہوسکے۔ اس کے لیے میرے ذہن میں کئی منصوبے ہیں۔ وقت آنے پر ان کیلئے بھی پلاننگ کروں گا۔ فی الحال گھریلو مسائل ایسے ہیں کہ پی۔ایچ۔ڈی کے لیے نہیں جاسکتا۔ کیونکہ گھر کے اخراجات میری تنخواہ سے چل رہے ہیں۔ پھر بھی برطانیہ جانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
اپنے علاج کے حوالہ سے ان کا کہنا تھا کہ میری عمر جب 3برس ہوئی تو والد صاحب نے میرا علاج کرانے کی کوششیں تیز کردیں۔ 1983ء میں لاہور میں ایک بین الاقوامی ڈاکٹرز کانفرنس ہوئی، جس میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا کے ڈاکٹرز نے خصوصی شرکت کی۔ میرے والد نے ان ڈاکٹرز سے میرے طبی معائنہ کی درخواست کی، تو انھوں نے حامی بھر لی۔ لیکن میرا چیک اپ ہوا تورپورٹس میں بتایا گیا کہ آنکھوں کی بینائی واپس نہیں آسکتی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ والدین آپس میں خونی رشتے دار ہیں، اس لیے یہ سب کچھ ان کے جین ری ایکشن کا نتیجہ ہے۔
اسکول کے زمانہ میں میچ کی کمنٹری اور کچھ ٹی وی پروگرام جن میں مختلف ڈرامے شامل ہوا کرتے تھے، شوق سے سنتا تھا۔ تاہم اب وقت کی کمی کی وجہ سے صرف نیوز ہی سنتا ہوں۔کھیلوں میں کرکٹ سے بڑا شغف رہا ہے۔2001ء میں کرکٹ کی قومی اسپیشل ٹیم کا حصہ بھی رہا ہوں۔اس دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ میچ کے سلسلہ میں ہم کراچی گئے ہوئے تھے۔ تفریح کیلئے ساحل پر گئے تو سمندر میں نہاتے ہوئے میرے ساتھ کئی کھلاڑی ڈوبنے لگے، مدد کیلئے چیخ و پکار کی تو ایک مچھیرے نے ہمیں پانی سے نکال کر ساحل پر لٹا دیا۔ یوں زندگی بچ گئی۔
گھریلو زندگی کے بارے میں میاں عادل نے بتایا کہ والدین کی مرضی سے شادی کی۔ میری مسز ایک تعلیم یافتہ اور مکمل نارمل خاتون ہیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے بھی نواز دیا ہے جو مکمل طور پر نارمل ہے۔ یونیورسٹی میں تین لڑکیوں نے تو مجھے براہ راست کہا تھا کہ میں ان کے گھر رشتے کیلئے اپنے والدین کو بھیجوں تاہم جب میں نے محسوس کیا کہ یہ کلاس فیلوز ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں تو میں نے جان بوجھ کر فاصلے بڑھانے شروع کردیئے تھے۔
جبکہ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک کلاس فیلو کے لیے میں نے اپنے دل میں کچھ جذبات محسوس کیے لیکن پھر خود کو اس سے دور رکھنا شروع کردیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اگر ابھی سے ان جھنجھٹوں میں پڑ گیا تو میں اپنے مقصد سے دور ہوجائوں گا اور وہ منزل جس کی میرے علاوہ میرے والدین بھی آس لگائے بیٹھے ہیں مجھ سے دور ہوجائے گی۔ بس یہی سوچ کر ان جذبوں کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔
اس کے علاوہ میری زندگی کے کچھ یادگار واقعات ایسے بھی ہیں، جنہیں یاد کرکے اب ہنسی آتی ہے۔ جب شہزادہ چارلس کی دعوت پر برطانیہ کے دورے پر گیا تو وہاں ایئرپورٹ پر نارمل افراد اور اسپیشل افراد کے لیے علیحدہ علیحدہ واش روم بنے ہوئے تھے۔ میں بھی اپنے ساتھیوں کو اپنی سفید چھڑی پکڑا کر اسپیشل افراد کے واش روم میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد میں باہر نکل رہا تھا کہ وہیل چیئر پر ایک انگریز بھی واش روم میں داخل ہوگیا اور غصے میں مجھے بازو سے پکڑ کر باہر دھکیلنے لگا کہ تم میرے واش روم میں کیوں آئے ہو۔ میں نے اسے بہت یقین دلایا کہ میں بھی نابینا ہوں مجھے نظر نہیں آتا۔ لیکن اس کو یقین نہیں آیا۔
جب میرے ساتھیوں نے بھی اسے حقیقت بتائی تو وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ تمہارے چہرے اور حلیے سے تو ایسا بالکل بھی نہیں لگتا۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ میرے ساتھ اس وقت پیش آیا جب میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ کالج میں جاتے ہوئے ایک خاتون میرے سامنے آگئیں اور میں ان سے ٹکرا گیا، وہ سمجھیں کہ میں جان بوجھ کر ان سے ٹکرایا ہوں۔ خاتون نے فوری جوتا اتارا اور میرے سر پر مارنا شروع کردیا۔ میں اس افتاد پر پہلے ہی گھبرایا ہوا تھا۔ جوتے پڑنے سے میرے اوسان خطا ہوگئے۔ میں نے انھیں لاکھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن خاتون نے میری ایک نہیں سنی اور ا چھی طرح سے میری مرمت کرکے برا بھلا کہتی ہوئی چلی گئیں۔ آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو ہنسی آجاتی ہے۔
اسکول میں دیئے جانے والے سبق کو بغور سننا، پھر بچوں کی نارمل کتابوں کے سبق کو اپنے بریل سسٹم (کاغذوں پر سوارخ کرکے ہاتھ کی انگلیوں سے نابینا بچوں کو محسوس کرواکر مختلف الفاظ سکھائے جاتے ہیں)کے تحت ٹرانسلیٹ کرلیا کرتا تھا، امتحانات کے دوران بھی رائٹرز کی مدد سے پرچے حل کیا کرتا تھا، یعنی اس رائٹر کو معلوم ہوتا کہ میں بریل سسٹم کے ذریعے کیا لکھ رہا ہوں اور وہ اس کو نارمل الفاظ میں منتقل کردیا کرتا تھا۔
زمانہ طالب علمی میں ایک بار کالج جاتے ہوئے ایک خاتون میرے سامنے آگئیں اور میں ان سے ٹکرا گیا، وہ سمجھیں کہ میں جان بوجھ کر ان سے ٹکرایا ہوں، خاتون نے فوری جوتا اتارا اور میرے سر پر مارنا شروع کردیا، میں اس افتاد پر پہلے ہی گھبرایا ہوا تھا، جوتے پڑنے سے میرے اوسان خطا ہوگئے، میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن خاتون نے میری ایک نہیں سنی اور اچھی طرح سے میری مرمت کرکے برا بھلا کہتی ہوئی چلی گئیں۔
پاکستان میں پیدائشی طور پر ہر معذور بچے کے تین برس کی عمر میں مکمل چیک اپ کی ذمے داری حکومت اٹھائے، معذوروںکی تعلیم علیحدہ مراکز کی بجائے عام اسکولوں میں ہی ہونی چاہیے جہاں انھیں تمام سہولتیں مہیا کی جائیں،چونکہ بریل سسٹم بہت مہنگے ہیں اس لیے حکومت کو ایسے طلبہ کی مدد کرنی چاہیے، معذور افراد کے لئے کوٹہ سسٹم ختم کرکے انھیں اوپن میرٹ پر تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
تعلیمی اور عملی زندگی کے کیریئر پر اک نظر
میاں محمد عادل آج17 ویں گریڈ کے ایک سرکاری افسر ہیں، جو وزارت تعلیم میں ایجوکیشن کنسلٹنٹ کی ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ یو ایس ایڈ پری اسٹیپ پراجیکٹ میں بطور ٹی او ٹی(ٹرینر آف ٹرینر) فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ دولت مشترکہ برطانیہ کے تحت چلنے والی یوتھ پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ اس یوتھ پارلیمنٹ میں وزارت امور نوجوانان اور ثقافت کے قلمدان بھی ان کے پاس ہیں۔ وفاقی وزارت نوجوانان کی جانب سے انھیں نیشنل یوتھ ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
میاں محمد عادل ان عہدوں کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ریسورس پرسن کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔ موجودہ سرکاری عہدے سے قبل بھی ان کے پاس سرکاری عہدے رہے ہیں۔ یہ تحصیل کونسل آفیسر ٹوبہ ٹیک سنگھ اور اسپیشل ایجوکیشنسٹ بھی رہ چکے ہیں۔ میاں محمد عادل پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے سیاسیات، ایم اے اسپیشل ایجوکیشن، ایم اے تاریخ اور ایک معروف نجی ادارہ سے ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں۔
آج کے دور جدید میں جب میڈیکل سائنس روبوٹ کی صورت میں ایک مکمل اور زندہ جاگتا انسان بنانے کی کوشش میں سرگرداں ہے اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے، مگر پھر بھی میڈیکل اور سائنس کے ماہرین کیمطابق انسانی جسم کے اعضاء کا حقیقی نعم البدل ممکن نہیں۔ اس میں جو کمی قدرتی طور پر رہ جائے وہ کبھی بھی مکمل اور عملی طور پر پوری نہیں کی جا سکتی۔
خالق کائنات نے انسانی جسم کی بناوٹ کو بے مثال بنایا ہے، بلاشبہ وہ سب سے بڑا منصف ہے، انسانی جسم میں قدرتی طور پر رہ جانے والی کمی کو وہ کسی دوسری جگہ پورا کر دیتا ہے، مثلاً بعض اوقات آنکھوں سے نابینا شخص کا ذہن عام انسان سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور وہ اس خاصیت کو استعمال کرکے بینائی کی خامی پر قابو پا لیتا ہے۔ ایسے ہی لوگ اپنے عزم اور پختہ ارادہ سے دنیا کے لئے عظیم مثالیں چھوڑ جاتے ہیں۔
پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو کیلئے جب 26 سالہ نوجوان کمرے میں داخل ہوا تو انٹرویو لینے والے اعلیٰ افسران پر مشتمل بورڈ کے ارکان نے اس کا بغور جائزہ لیا۔ صاف ستھری پینٹ شرٹ میں ملبوس خوش شکل نوجوان پُر اعتماد انداز میں چلتا ہوا آیا اور اجازت لے کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ نوجوان نے ہاتھ میں سفید چھڑی پکڑی ہوئی تھی۔ بورڈ کے ارکان کو اس کے پاس چھڑی کی موجودگی کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ نوجوان جس اعتماد سے کمرے میں آکر کرسی پر بیٹھا تھا اس سے قطعی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ نابینا ہے۔
بورڈ کے افسران انٹرویو کے دوران اس نوجوان سے پون گھنٹے تک سوال و جواب کرتے رہے۔ جب انٹرویو ختم ہوگیا تو ایک سینئر ممبر نے بالآخر اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر نوجوان سے سفید چھڑی رکھنے کا سبب پوچھ ہی لیا۔ نوجوان کے جواب پر بورڈ کے ارکان ششدہ رہ گئے۔ جس نوجوان کی تعلیمی اسناد کی موٹی فائل ان کے سامنے پڑی تھی، اس کا جواب تھا ''سر میں بلائنڈ ہوں'' مجھے کچھ نظر نہیں آتا اس لیے چھڑی کی ضرورت پڑتی ہے۔
بعدازاں اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ کے حامل اس نوجوان کو ایک بڑے سرکاری عہدے کیلئے منتخب کرلیا گیا۔ اس نوجوان کا نام میاں محمد عادل ہے اور اس کا تعلق پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ سے ہے۔ نابینا ہونے کے باوجود میاں محمد عادل نے ہمت، لگن اور غیر معمولی صلاحیتوں کی مدد سے وہ منازل طے کی ہیں۔ جن پر نہ صرف اس کے والدین، دوست و احباب بلکہ اس معاشرہ کو بھی ناز ہے۔ بچپن سے جوانی تک میاں محمد عادل کی زندگی کا کٹھن سفر کس طرح گزرا اور کس طرح وہ آج اس مقام تک پہنچا؟ کہ ان کی ترقی کو دیکھ کر کروڑوں بینائوں کے پَر جل جاتے ہیں۔ آئیے میاں عادل کی روداد ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔
میری پیدائش 1980ء میں کمالیہ میں ہوئی۔ والد صاحب کا نام میاں محمد ارشد ہے۔ لیکن وہ پورے علاقے میں میاں ارشد صابن والے کے نام سے مشہور ہیں۔ کیونکہ اس زمانے میں ان کی صابن بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری ہوا کرتی تھی۔ ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ میں اور میرے بڑے بھائی پیدائشی نابینا ہیں اور بہنیں اللہ کے فضل سے نارمل ہیں۔ میرے بڑے بھائی جو مجھ سے دو برس بڑے ہیں۔ انھوں نے اسپیشل ایجوکیشن میں ایم۔اے کیا ہوا ہے اور اس وقت وہ ایک سرکاری ملازم ہیں۔
1984ء میں مجھے پرائمری تعلیم کیلئے فیصل آباد میں اقبال اسٹیڈیم کے ساتھ متصل ایک مرکز نابینا اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یہ اسکول ایک فلاحی تنظیم کے تحت پاک آرمی کے ایک سابق کیپٹن شفیق الرحمن چلا رہے تھے۔ یہاں بچوں کو بریل (BRAILLE) کے تحت پڑھایا جاتا تھا۔ جس میں کاغذوں پر سوارخ کرکے ہاتھ کی انگلیوں سے ان کو محسوس کرواکر مختلف الفاظ سکھائے جاتے ہیں۔ اسکول کا زمانہ بہت اچھا تھا یہاں داخلہ لینے کے بعد میں فیصل آباد میں ایک چچا کے پاس رہنے لگا تھا۔ صرف چھٹی والے دن اپنے گھر جاتا تھا اور ہر ہفتے والد صاحب مجھے کمالیہ سے فیصل آباد چھوڑنے آتے تھے۔ اس اسکول سے پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے عام سرکاری اسکولوں میں نارمل بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔
سرکاری اسکول میں تعلیم کا بھی ایک باقاعدہ طریقہ کار تھا۔ میں کلاس میں جاتا اور وہاں دیئے جانے والے سبق کو بغور سنتا رہتا تھا۔ پھر بچوں کی نارمل کتابوں کے سبق کو اپنے بریل سسٹم کے تحت ٹرانسلیٹ کرلیا کرتا تھا۔ امتحانات کے دوران بھی رائٹرز کی مدد سے پرچے حل کیا کرتا تھا یعنی اس رائٹر کو معلوم ہوتا تھا کہ میں بریل سسٹم کے ذریعے کیا لکھ رہا ہوں اور وہ اس کو نارمل الفاظ میں منتقل کردیا کرتا تھا۔ اسی طرح میں نے محنت کرتے کرتے مڈل سے میٹرک اور پھر بی۔اے تک تعلیم مکمل کرلی۔ بعدازاں پنجاب یونیورسٹی سے 3 مضامین میں ماسٹرز اور معروف نجی ادارہ سے ایل ایل بی کیا۔
آج میں تعلیمی دور کو یاد کرتا ہوں تو بہت لگی بندھی زندگی تھی، مگر ایک مقصد سامنے تھا، جسے حاصل کرنے کی تمنا بیزار نہیں ہونے دیتی تھی۔ ویسے تو زندگی میں اللہ کے فضل سے کوئی بڑی مشکل پیش نہیں آئی یا یوں کہیے کہ میں نے کبھی کسی مشکل کو اپنے راستے میں زیادہ دیر تک حائل ہی نہیں ہونے دیا۔ تاہم چھوٹی چھوٹی کئی چیزیں ایسی تھیں کہ جنہوں نے وقتی طور پر مجھے ڈسٹرب کیا۔ ان میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ بلائنڈ ایجوکیشن کے لیے کتابوں کا حصول بہت دشوار تھا اس لیے خود ہی بریل سسٹم کے تحت کتابیں تیار کرنے کی کوشش کرنی پڑتی تھی۔ جبکہ امتحانات کے دوران رائٹرز (مددگار) بہت مشکل سے ملا کرتے تھے۔
یونیورسٹی میں آنے کے بعد مجھے بہت سی مالی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ پاکستان میں بلائنڈ افراد کے لیے ایجوکیشن بہت مہنگی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے میں نے وزارت امور نوجوانان کو تین تجاویز بھی دی تھیں۔ یہ تجاویز میں نے اس وقت دی تھیں، جب مجھے نیشنل یوتھ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اس تقریب میں، میں نے مہمان خصوصی کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ پاکستان میں پیدائشی طور پر ہر معذور بچے کے تین برس کی عمر میں مکمل چیک اپ کی ذمے داری حکومت اٹھائے۔ ان کی تعلیم علیحدہ مراکز کی بجائے عام اسکولوں میں ہی ہونی چاہیے۔ جہاں انھیں تمام سہولتیں مہیا کی جائیں۔ چونکہ بریل سسٹم بہت مہنگے ہیں، اس لیے حکومت کو ایسے طلبہ کی مدد کرنی چاہیے۔
پاکستان میں معذوری کا تناسب زیادہ ہے اور کل آبادی کا 10 فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے۔ اس لیے کوٹہ سسٹم ختم کرکے انھیں اوپن میرٹ پر تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ میں کبھی معاشرے کے رویوں سے دل برداشتہ یا احساس کمتری کا شکار نہیں ہوا۔ جب کبھی ایسا کوئی موقع آتا تو میں خود کو یہی سمجھایا کرتا تھا کہ میں تعلیم کے اعتبار سے اپنے اردگرد موجود آنکھوں والوں سے بدرجہا بہترہوں۔ یہی سوچ میرے لیے احساس تفاخرکا احساس بنتی تھی۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے میاں عادل نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس کی سربراہی میں چلنے والی موزیگ انٹرنیشنل برطانیہ نے ہزاروں نوجوانوں کو ایک سخت پراسیس سے گزارنے کے بعد دنیا بھر سے اعلی تعلیم یافتہ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل 80 نوجوانوں کا انتخاب کیا جس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ اس موقع پر میری بھرپور پذیرائی کی گئی۔ اب میرا ارادہ ہے کہ میں برطانیہ جاکر پولیٹیکل سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی کروں اور اس کے علاوہ پاکستان میں اسپیشل افراد کے لیے کوئی ایسا کام کرسکوں جس سے ان کی مدد ہوسکے۔ اس کے لیے میرے ذہن میں کئی منصوبے ہیں۔ وقت آنے پر ان کیلئے بھی پلاننگ کروں گا۔ فی الحال گھریلو مسائل ایسے ہیں کہ پی۔ایچ۔ڈی کے لیے نہیں جاسکتا۔ کیونکہ گھر کے اخراجات میری تنخواہ سے چل رہے ہیں۔ پھر بھی برطانیہ جانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
اپنے علاج کے حوالہ سے ان کا کہنا تھا کہ میری عمر جب 3برس ہوئی تو والد صاحب نے میرا علاج کرانے کی کوششیں تیز کردیں۔ 1983ء میں لاہور میں ایک بین الاقوامی ڈاکٹرز کانفرنس ہوئی، جس میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا کے ڈاکٹرز نے خصوصی شرکت کی۔ میرے والد نے ان ڈاکٹرز سے میرے طبی معائنہ کی درخواست کی، تو انھوں نے حامی بھر لی۔ لیکن میرا چیک اپ ہوا تورپورٹس میں بتایا گیا کہ آنکھوں کی بینائی واپس نہیں آسکتی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ والدین آپس میں خونی رشتے دار ہیں، اس لیے یہ سب کچھ ان کے جین ری ایکشن کا نتیجہ ہے۔
اسکول کے زمانہ میں میچ کی کمنٹری اور کچھ ٹی وی پروگرام جن میں مختلف ڈرامے شامل ہوا کرتے تھے، شوق سے سنتا تھا۔ تاہم اب وقت کی کمی کی وجہ سے صرف نیوز ہی سنتا ہوں۔کھیلوں میں کرکٹ سے بڑا شغف رہا ہے۔2001ء میں کرکٹ کی قومی اسپیشل ٹیم کا حصہ بھی رہا ہوں۔اس دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ میچ کے سلسلہ میں ہم کراچی گئے ہوئے تھے۔ تفریح کیلئے ساحل پر گئے تو سمندر میں نہاتے ہوئے میرے ساتھ کئی کھلاڑی ڈوبنے لگے، مدد کیلئے چیخ و پکار کی تو ایک مچھیرے نے ہمیں پانی سے نکال کر ساحل پر لٹا دیا۔ یوں زندگی بچ گئی۔
گھریلو زندگی کے بارے میں میاں عادل نے بتایا کہ والدین کی مرضی سے شادی کی۔ میری مسز ایک تعلیم یافتہ اور مکمل نارمل خاتون ہیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے بھی نواز دیا ہے جو مکمل طور پر نارمل ہے۔ یونیورسٹی میں تین لڑکیوں نے تو مجھے براہ راست کہا تھا کہ میں ان کے گھر رشتے کیلئے اپنے والدین کو بھیجوں تاہم جب میں نے محسوس کیا کہ یہ کلاس فیلوز ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں تو میں نے جان بوجھ کر فاصلے بڑھانے شروع کردیئے تھے۔
جبکہ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک کلاس فیلو کے لیے میں نے اپنے دل میں کچھ جذبات محسوس کیے لیکن پھر خود کو اس سے دور رکھنا شروع کردیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اگر ابھی سے ان جھنجھٹوں میں پڑ گیا تو میں اپنے مقصد سے دور ہوجائوں گا اور وہ منزل جس کی میرے علاوہ میرے والدین بھی آس لگائے بیٹھے ہیں مجھ سے دور ہوجائے گی۔ بس یہی سوچ کر ان جذبوں کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔
اس کے علاوہ میری زندگی کے کچھ یادگار واقعات ایسے بھی ہیں، جنہیں یاد کرکے اب ہنسی آتی ہے۔ جب شہزادہ چارلس کی دعوت پر برطانیہ کے دورے پر گیا تو وہاں ایئرپورٹ پر نارمل افراد اور اسپیشل افراد کے لیے علیحدہ علیحدہ واش روم بنے ہوئے تھے۔ میں بھی اپنے ساتھیوں کو اپنی سفید چھڑی پکڑا کر اسپیشل افراد کے واش روم میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد میں باہر نکل رہا تھا کہ وہیل چیئر پر ایک انگریز بھی واش روم میں داخل ہوگیا اور غصے میں مجھے بازو سے پکڑ کر باہر دھکیلنے لگا کہ تم میرے واش روم میں کیوں آئے ہو۔ میں نے اسے بہت یقین دلایا کہ میں بھی نابینا ہوں مجھے نظر نہیں آتا۔ لیکن اس کو یقین نہیں آیا۔
جب میرے ساتھیوں نے بھی اسے حقیقت بتائی تو وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ تمہارے چہرے اور حلیے سے تو ایسا بالکل بھی نہیں لگتا۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ میرے ساتھ اس وقت پیش آیا جب میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ کالج میں جاتے ہوئے ایک خاتون میرے سامنے آگئیں اور میں ان سے ٹکرا گیا، وہ سمجھیں کہ میں جان بوجھ کر ان سے ٹکرایا ہوں۔ خاتون نے فوری جوتا اتارا اور میرے سر پر مارنا شروع کردیا۔ میں اس افتاد پر پہلے ہی گھبرایا ہوا تھا۔ جوتے پڑنے سے میرے اوسان خطا ہوگئے۔ میں نے انھیں لاکھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن خاتون نے میری ایک نہیں سنی اور ا چھی طرح سے میری مرمت کرکے برا بھلا کہتی ہوئی چلی گئیں۔ آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو ہنسی آجاتی ہے۔
اسکول میں دیئے جانے والے سبق کو بغور سننا، پھر بچوں کی نارمل کتابوں کے سبق کو اپنے بریل سسٹم (کاغذوں پر سوارخ کرکے ہاتھ کی انگلیوں سے نابینا بچوں کو محسوس کرواکر مختلف الفاظ سکھائے جاتے ہیں)کے تحت ٹرانسلیٹ کرلیا کرتا تھا، امتحانات کے دوران بھی رائٹرز کی مدد سے پرچے حل کیا کرتا تھا، یعنی اس رائٹر کو معلوم ہوتا کہ میں بریل سسٹم کے ذریعے کیا لکھ رہا ہوں اور وہ اس کو نارمل الفاظ میں منتقل کردیا کرتا تھا۔
زمانہ طالب علمی میں ایک بار کالج جاتے ہوئے ایک خاتون میرے سامنے آگئیں اور میں ان سے ٹکرا گیا، وہ سمجھیں کہ میں جان بوجھ کر ان سے ٹکرایا ہوں، خاتون نے فوری جوتا اتارا اور میرے سر پر مارنا شروع کردیا، میں اس افتاد پر پہلے ہی گھبرایا ہوا تھا، جوتے پڑنے سے میرے اوسان خطا ہوگئے، میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن خاتون نے میری ایک نہیں سنی اور اچھی طرح سے میری مرمت کرکے برا بھلا کہتی ہوئی چلی گئیں۔
پاکستان میں پیدائشی طور پر ہر معذور بچے کے تین برس کی عمر میں مکمل چیک اپ کی ذمے داری حکومت اٹھائے، معذوروںکی تعلیم علیحدہ مراکز کی بجائے عام اسکولوں میں ہی ہونی چاہیے جہاں انھیں تمام سہولتیں مہیا کی جائیں،چونکہ بریل سسٹم بہت مہنگے ہیں اس لیے حکومت کو ایسے طلبہ کی مدد کرنی چاہیے، معذور افراد کے لئے کوٹہ سسٹم ختم کرکے انھیں اوپن میرٹ پر تعلیم اور ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
تعلیمی اور عملی زندگی کے کیریئر پر اک نظر
میاں محمد عادل آج17 ویں گریڈ کے ایک سرکاری افسر ہیں، جو وزارت تعلیم میں ایجوکیشن کنسلٹنٹ کی ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ یو ایس ایڈ پری اسٹیپ پراجیکٹ میں بطور ٹی او ٹی(ٹرینر آف ٹرینر) فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ دولت مشترکہ برطانیہ کے تحت چلنے والی یوتھ پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ اس یوتھ پارلیمنٹ میں وزارت امور نوجوانان اور ثقافت کے قلمدان بھی ان کے پاس ہیں۔ وفاقی وزارت نوجوانان کی جانب سے انھیں نیشنل یوتھ ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
میاں محمد عادل ان عہدوں کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ریسورس پرسن کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔ موجودہ سرکاری عہدے سے قبل بھی ان کے پاس سرکاری عہدے رہے ہیں۔ یہ تحصیل کونسل آفیسر ٹوبہ ٹیک سنگھ اور اسپیشل ایجوکیشنسٹ بھی رہ چکے ہیں۔ میاں محمد عادل پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے سیاسیات، ایم اے اسپیشل ایجوکیشن، ایم اے تاریخ اور ایک معروف نجی ادارہ سے ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرچکے ہیں۔