25 کا پہاڑہ
بشارت کے لیے بابوں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، اس لیے یہ پیش گوئی لکھ لیجیے کہ امریکا کبھی نہ کبھی تباہ ہو کر رہے گا۔
پچھلے ہفتے ایک لطیفے پر خوب''ہاسا'' رہا۔ یہ لطیفہ بہت بڑی خبر کے طور پر منظر عام پر آیا تھا کہ امریکا کی 20 ریاستوں نے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
ان ریاستوں میں نیو یارک' فلوریڈا' ٹیکساس جیسی اہم ریاستیں بھی شامل ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس لطیفے کی پذیرائی پاکستان میں ہوئی۔ دنیا کے زیادہ تر ملکوں نے اس خبر کو ان اطلاعات میں شامل کر دیا جو صبح آتی ہیں اور شام کو مرجھا کر اطلاعاتی کوڑے دان کا حصہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں بعض اخبارات نے سرخی جمائی کہ سوویت یونین کی طرح امریکا بھی ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا ہے۔ ایک بڑے اخبار نے تو سنجیدگی سے اداریہ بھی لکھ مارا۔
آجکل دل کے بہلانے کے لیے امریکا کی تباہی کے امکان سے بڑھ کر اچھا خیال اور کیا ہو سکتا ہے اور پاکستان تو دنیا کے ان چند ایک ملکوں میں شامل ہے جن کو امریکا نے اپنی ''چھترپریڈ'' کا مستقل نشانہ بنا رکھا ہے، اس لیے یہاں تو ماجرا یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر سلیٹ پینسل رکھ کر درخت کے نیچے بیٹھا ہوا نجومی یہ کہہ دے کہ امریکا ٹوٹنے والا ہے تو وہ بھی ہمیں پہنچا ہوا ولی اﷲ لگے گا اور یہ رویہ محض عام آدمی تک محدود نہیں، غیب دانوں کی ایسی تحریریںتھوک کے حساب سے موجود ہیں جن میں پر اسرار اور پہنچے ہوئے بابوں نے امریکا کی تباہی کی بشارتوں کا ذکر کیا تھا۔ بشارتوں کے مطابق یہ تباہی عشروں کی بات نہیں رہ گئی، بس چند برسوں کا قصہ ہے۔
زیر بحث خبر کی حقیقت بڑی پرلطف ہے، اگرچہ وہ ایک سنجیدہ معاملے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ رائٹر کی خبر کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہ پرانا محاورہ غلط ثابت ہو گیا کہ اگر تم اکثریت کو بدل نہیں سکتے تو اس کے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ رائٹر نے اس کے بعد لکھا ہے کہ امریکیوں کی ایک تعداد (جن کا تعلق اقلیت سے ہے) اوباما کے صدر بننے سے اتنی ناراض ہو گئی ہے کہ انھوں نے وائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر ملک سے الگ ہونے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے۔ یعنی یہ اقلیت اکثریت کو اوباما کے حق میں ووٹ دینے سے نہیں روک سکی لیکن ناکامی کے ردعمل میں اوباما مخالفت میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ ملک پر ہی تین حرف بھیجنے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔
آزادی یا علیحدگی کے اس محضر نامے کی حقیقت یہ ہے کہ سفید فام نسل پرستوں میں سے جو زیادہ انتہا پسند تھے، انھوں نے اپنے دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکالی ہے کہ وہ اوباما کی صدارت میں جینے مرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنا قبرستان بھی امریکا سے علیحدہ کر لیں گے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ جیسے آپ کسی سے کہیں کہ میرے سیاسی نظریے کی حمایت کرو، صاف ظاہر ہے کہ آپ کا مخاطب کیا جواب دے گا۔ یہی کہ بھئی' میں غدار ہی بھلا۔ ظاہر ہے' وہ غدار ہوتا ہے نہ غدار ہونے کا ارادہ رکھتاہے وہ تو محض آپ کے سیاسی نظریات سے بیزاری ظاہر کر رہا ہے۔
ع بس اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
بشارت کے لیے بابوں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، اس لیے یہ پیش گوئی لکھ لیجیے کہ امریکا کبھی نہ کبھی تباہ ہو کر رہے گا۔ یہ بددعا ہے نہ خواہش۔ تاریخ کی سچائی ہے کہ ہر سلطنت تباہ ہو کر رہتی ہے اور ہر سلطنت کی تباہی کی کچھ وجوہات ایک جیسی اور کچھ مختلف ہوتی ہیں اور امریکا ان وجوہات کے دائرے میں گر چکا ہے۔ تاریخ کا یہ اصول ہے کہ کوئی سلطنت جب اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ حد سے زیادہ بڑھا دے تو وہ زوال میں گھر جاتی ہے اور امریکا نے اپنا دائرہ حد سے آگے بڑھا دیا ہے۔
دوسری بات معیشت کی کمزوری ہے۔ امریکی معیشت اب بھی چین' جاپان اور یورپ کی معیشت سے اچھی ہے لیکن مسلسل جنگ کے دبائو سے یہ معیشت پہلے جتنی طاقتور نہیں رہی۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکا برباد ہو سکتا ہے لیکن اس بربادی کا اس محضر نامہ سے کوئی تعلق نہیں جن پر چند ہزار سفید فام نسل پرستوں نے دستخط کیے ہیں اور اخبارات نے اسے مذاق کے بجائے سنجیدہ بنا دیا ہے۔
امریکا کبھی نہ کبھی ضرور تباہ ہو گا، اس کی ریاستیں الگ الگ نہیں ہوں گی۔ کیونکہ ٹکڑے ٹکڑے صرف وہی ہوتے ہیں جو لسانی گروہوں یا قومیتوں پر مشتمل ہوں، جیسے سوویت یونین تھا' یوگو سلاویہ تھا یا جیسے کہ بھارت ہے' پاکستان ہے، ایران ہے' افغانستان ہے یا کینیڈا ہے۔ سعودی عرب ایک یونٹ ملک ہے، اسی طرح جاپان' کوریا' مصر اور امریکا بھی ایک یونٹ ہیں۔ امریکا کی 50 میں سے 49 ریاستوں میں اکثریت ایک ہی قوم یعنی سفید فام انگریزوں کی ہے' صرف ہوائی ایسی ریاست ہے جہاں قدیمی باشندوں کی اکثریت ہے۔ امریکا میں آئے روز سیاہ فام آبادی کی گنتی بڑھ رہی ہے لیکن وہ ابھی کسی ایک ریاست میں اکثریت میں نہیں ہیں لیکن گنتی بڑھنے کی رفتار تیز ہے۔
ہسپانوی نسل کی آبادی سات کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ عرب اور ایشیائی نژاد آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ سفید فاموں کے درمیان مذہبی امتیاز بھی بڑھ رہا ہے، غریبوں اور بے روزگاروں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر امریکا کیلیے کئی چیلنج ابھر رہے ہیں۔
مثلاً چین کی ابھرتی معیشت، 2 یورپ کا اتحاد،3 ترکی اور مصر جیسے ممالک کا اس کے اثر سے آزاد ہونا، 4عراق میں تیل کے ذخائر پر کنٹرول پر ناکامی، 5 افغان جنگ کی ناکامی وغیرہ۔ یہ سارے عوامل آہستہ آہستہ اپنی فطری رفتار سے امریکا کو کمزور کریں گے جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ اچانک رونما ہونے والا کوئی واقعہ زوال میں ڈرامائی تیزی پیدا کر دے گا اور امریکا ڈھے جائے گا لیکن یہ سب پہلے بھی ہوتا آیا ہے' آئندہ بھی ہوتا رہے گا، آپ کو بس انتظار کرنا پڑے گا اورفی الحال کوشش کریں کہ امریکی زوال کے اسباب کے محضر نامے پر دستخط کرنے والے ہزاروں افراد کو ضرور شامل کر لیں تاکہ ان کی یہ کوشش تاریخ کا حصہ بن جائے۔
''سنجیدہ مذاق'' کی پہلی قسط پر'' ہاسا'' ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ اس کی دوسری زیادہ سنجیدہ اور زیادہ سنگین قسط منظر عام پر آ گئی ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ امریکا کی پچاس ریاستوں نے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا ہے۔سات ریاستوں نے مطلوبہ دستخطوں کی حد عبور کرلی ہے۔ یہ حد25 ہزار ہے جبکہ ریاستیں 50 ہیں اور آبادی 31 کروڑ ہے۔ فی الحال 25 کا پہاڑہ یاد کر لیں، باقی کا کام خود بخود ہو جائیگا۔
ان ریاستوں میں نیو یارک' فلوریڈا' ٹیکساس جیسی اہم ریاستیں بھی شامل ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس لطیفے کی پذیرائی پاکستان میں ہوئی۔ دنیا کے زیادہ تر ملکوں نے اس خبر کو ان اطلاعات میں شامل کر دیا جو صبح آتی ہیں اور شام کو مرجھا کر اطلاعاتی کوڑے دان کا حصہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں بعض اخبارات نے سرخی جمائی کہ سوویت یونین کی طرح امریکا بھی ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا ہے۔ ایک بڑے اخبار نے تو سنجیدگی سے اداریہ بھی لکھ مارا۔
آجکل دل کے بہلانے کے لیے امریکا کی تباہی کے امکان سے بڑھ کر اچھا خیال اور کیا ہو سکتا ہے اور پاکستان تو دنیا کے ان چند ایک ملکوں میں شامل ہے جن کو امریکا نے اپنی ''چھترپریڈ'' کا مستقل نشانہ بنا رکھا ہے، اس لیے یہاں تو ماجرا یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر سلیٹ پینسل رکھ کر درخت کے نیچے بیٹھا ہوا نجومی یہ کہہ دے کہ امریکا ٹوٹنے والا ہے تو وہ بھی ہمیں پہنچا ہوا ولی اﷲ لگے گا اور یہ رویہ محض عام آدمی تک محدود نہیں، غیب دانوں کی ایسی تحریریںتھوک کے حساب سے موجود ہیں جن میں پر اسرار اور پہنچے ہوئے بابوں نے امریکا کی تباہی کی بشارتوں کا ذکر کیا تھا۔ بشارتوں کے مطابق یہ تباہی عشروں کی بات نہیں رہ گئی، بس چند برسوں کا قصہ ہے۔
زیر بحث خبر کی حقیقت بڑی پرلطف ہے، اگرچہ وہ ایک سنجیدہ معاملے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ رائٹر کی خبر کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہ پرانا محاورہ غلط ثابت ہو گیا کہ اگر تم اکثریت کو بدل نہیں سکتے تو اس کے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ رائٹر نے اس کے بعد لکھا ہے کہ امریکیوں کی ایک تعداد (جن کا تعلق اقلیت سے ہے) اوباما کے صدر بننے سے اتنی ناراض ہو گئی ہے کہ انھوں نے وائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر ملک سے الگ ہونے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے۔ یعنی یہ اقلیت اکثریت کو اوباما کے حق میں ووٹ دینے سے نہیں روک سکی لیکن ناکامی کے ردعمل میں اوباما مخالفت میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ ملک پر ہی تین حرف بھیجنے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔
آزادی یا علیحدگی کے اس محضر نامے کی حقیقت یہ ہے کہ سفید فام نسل پرستوں میں سے جو زیادہ انتہا پسند تھے، انھوں نے اپنے دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکالی ہے کہ وہ اوباما کی صدارت میں جینے مرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنا قبرستان بھی امریکا سے علیحدہ کر لیں گے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ جیسے آپ کسی سے کہیں کہ میرے سیاسی نظریے کی حمایت کرو، صاف ظاہر ہے کہ آپ کا مخاطب کیا جواب دے گا۔ یہی کہ بھئی' میں غدار ہی بھلا۔ ظاہر ہے' وہ غدار ہوتا ہے نہ غدار ہونے کا ارادہ رکھتاہے وہ تو محض آپ کے سیاسی نظریات سے بیزاری ظاہر کر رہا ہے۔
ع بس اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
بشارت کے لیے بابوں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، اس لیے یہ پیش گوئی لکھ لیجیے کہ امریکا کبھی نہ کبھی تباہ ہو کر رہے گا۔ یہ بددعا ہے نہ خواہش۔ تاریخ کی سچائی ہے کہ ہر سلطنت تباہ ہو کر رہتی ہے اور ہر سلطنت کی تباہی کی کچھ وجوہات ایک جیسی اور کچھ مختلف ہوتی ہیں اور امریکا ان وجوہات کے دائرے میں گر چکا ہے۔ تاریخ کا یہ اصول ہے کہ کوئی سلطنت جب اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ حد سے زیادہ بڑھا دے تو وہ زوال میں گھر جاتی ہے اور امریکا نے اپنا دائرہ حد سے آگے بڑھا دیا ہے۔
دوسری بات معیشت کی کمزوری ہے۔ امریکی معیشت اب بھی چین' جاپان اور یورپ کی معیشت سے اچھی ہے لیکن مسلسل جنگ کے دبائو سے یہ معیشت پہلے جتنی طاقتور نہیں رہی۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکا برباد ہو سکتا ہے لیکن اس بربادی کا اس محضر نامہ سے کوئی تعلق نہیں جن پر چند ہزار سفید فام نسل پرستوں نے دستخط کیے ہیں اور اخبارات نے اسے مذاق کے بجائے سنجیدہ بنا دیا ہے۔
امریکا کبھی نہ کبھی ضرور تباہ ہو گا، اس کی ریاستیں الگ الگ نہیں ہوں گی۔ کیونکہ ٹکڑے ٹکڑے صرف وہی ہوتے ہیں جو لسانی گروہوں یا قومیتوں پر مشتمل ہوں، جیسے سوویت یونین تھا' یوگو سلاویہ تھا یا جیسے کہ بھارت ہے' پاکستان ہے، ایران ہے' افغانستان ہے یا کینیڈا ہے۔ سعودی عرب ایک یونٹ ملک ہے، اسی طرح جاپان' کوریا' مصر اور امریکا بھی ایک یونٹ ہیں۔ امریکا کی 50 میں سے 49 ریاستوں میں اکثریت ایک ہی قوم یعنی سفید فام انگریزوں کی ہے' صرف ہوائی ایسی ریاست ہے جہاں قدیمی باشندوں کی اکثریت ہے۔ امریکا میں آئے روز سیاہ فام آبادی کی گنتی بڑھ رہی ہے لیکن وہ ابھی کسی ایک ریاست میں اکثریت میں نہیں ہیں لیکن گنتی بڑھنے کی رفتار تیز ہے۔
ہسپانوی نسل کی آبادی سات کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ عرب اور ایشیائی نژاد آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ سفید فاموں کے درمیان مذہبی امتیاز بھی بڑھ رہا ہے، غریبوں اور بے روزگاروں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر امریکا کیلیے کئی چیلنج ابھر رہے ہیں۔
مثلاً چین کی ابھرتی معیشت، 2 یورپ کا اتحاد،3 ترکی اور مصر جیسے ممالک کا اس کے اثر سے آزاد ہونا، 4عراق میں تیل کے ذخائر پر کنٹرول پر ناکامی، 5 افغان جنگ کی ناکامی وغیرہ۔ یہ سارے عوامل آہستہ آہستہ اپنی فطری رفتار سے امریکا کو کمزور کریں گے جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ اچانک رونما ہونے والا کوئی واقعہ زوال میں ڈرامائی تیزی پیدا کر دے گا اور امریکا ڈھے جائے گا لیکن یہ سب پہلے بھی ہوتا آیا ہے' آئندہ بھی ہوتا رہے گا، آپ کو بس انتظار کرنا پڑے گا اورفی الحال کوشش کریں کہ امریکی زوال کے اسباب کے محضر نامے پر دستخط کرنے والے ہزاروں افراد کو ضرور شامل کر لیں تاکہ ان کی یہ کوشش تاریخ کا حصہ بن جائے۔
''سنجیدہ مذاق'' کی پہلی قسط پر'' ہاسا'' ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ اس کی دوسری زیادہ سنجیدہ اور زیادہ سنگین قسط منظر عام پر آ گئی ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ امریکا کی پچاس ریاستوں نے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا ہے۔سات ریاستوں نے مطلوبہ دستخطوں کی حد عبور کرلی ہے۔ یہ حد25 ہزار ہے جبکہ ریاستیں 50 ہیں اور آبادی 31 کروڑ ہے۔ فی الحال 25 کا پہاڑہ یاد کر لیں، باقی کا کام خود بخود ہو جائیگا۔