وزیراعظم کے خطبات اور اپو زیشن کے تحفظات

وزیراعظم نے بغیر سوچے سمجھے الزامات لگانے والوں کو چیلنج کیا کہ ان کے پاس اس ضمن میں کوئی ثبوت ہیں


[email protected]

WASHINGTON: پانامہ لیکس کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ اس کے بعد وزیراعظم نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں مسلسل دوسری بار قوم سے خطاب کیا ہے اور خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کردیا ہے۔

لندن سے واپسی کے بعد وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر خود کو اور اپنے پورے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اپنے زیر نگرانی پانامہ پیپرز کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیں اور وہ اس کمیشن کی سفارشات قبول کریں گے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ اﷲ کے بعد صرف اور صرف پاکستان کے عوام کو جواب دہ ہیں اور کمیشن کی تشکیل سے جو لوگ بہتان تراشیوں کی انتہا پر اترے ہوئے ہیں وہ شفافیت کی انتہا کو دیکھ لیں تاہم اگر ان پر الزامات ثابت نہ ہوئے تو وہ لوگ جو روزانہ جھوٹے الزامات کا بازار گرم کرتے ہیں قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں گے؟ اورکیا عوام انھیں معاف کردیں گے؟ ادھر وفاقی کابینہ نے کہا ہے کہ آئی سی آئی جے غلطی کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرے ۔ وفاقی وزرا نے وزیراعظم پر پانامہ الزامات کی مذمت کی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سیاست کی اس خاردار وادی میں قدم رکھے ہوئے30 برس سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے اور ان تین دہائیوں میں انھوں نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ جلاوطنی کا دور تھا۔ یہ عوام کا اعتماد تھا کہ تیسری مرتبہ اس ملک کی خدمت کے لیے ذمے داری سونپی لیکن پانامہ پیپرز کو بنیاد بناکر محض حصول اقتدار کی خاطر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پانامہ لیکس کو بنیاد بناکر جو الزامات لگائے جارہے ہیں۔

وہ 22 برس پرانے ہیں اور یہ وہی کیس ہیں جن کی پہلے 90ء کی دہائی میں چھان بین کی گئی اور اس کے بعد پرویز مشرف کی حکومت نے باریک بینی سے چھان بین کی مگر بدعنوانی تو دور کی بات ایک پائی کی غیر قانونی ٹرانزیکشن بھی ثابت نہیں کرسکے کسی قسم کی کرپشن، کمیشن، کک بیکس کا مقدمہ نہیں بناسکے، ہمارے تمام اثاثوں کی تفصیلات انکم ٹیکس کے گوشواروں کی صورت میں ڈکلیئرڈ ہیں، اس وقت سے ٹیکس دے رہے ہیں جب لوگ اس لفظ کے لہجے سے بھی واقف نہ تھے، حکومت نے پہلی بار ٹیکس پیپرز ڈائریکٹری شایع کی اور اسے ایف بی آر کی ویب سائٹ پر رکھا تاکہ لوگ خود جان سکیں کہ کون کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے۔

وزیراعظم نے بغیر سوچے سمجھے الزامات لگانے والوں کو چیلنج کیا کہ ان کے پاس اس ضمن میں کوئی ثبوت ہیں تو وہ کمیشن کے سامنے پیش کریں اگر تحقیقات کے نتیجے میں کوئی الزام ثابت ہوا تو وہ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر گھر چلے جائیں گے ابھی کمیشن قائم نہیں ہوا اور کچھ لوگوں نے اپنی عدالت لگاکر فیصلہ بھی صادر کردیا ہے، پارلیمانی جمہوریت میں منتخب نمایندوں سے سوال کرنا عوام کا حق اور جواب دینا حکمرانوں کا فرض ہے لیکن کچھ سوالات کے جوابات حکومت کو بھی ملنے چاہئیں، وزیراعظم نے کہاکہ ہم سے سعودی عرب میں فیکٹری لگانے کا سوال کرنے والے یہ تو بتائیں کہ آخر ہمیں سعودی عرب کس نے بھیجا؟ قانون کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ تو بتائیں کہ ایک منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑیاں لگاکر کال کوٹھری کس نے بھیجا؟ کارکنوں پر بد ترین تشدد کیا گیا تو ماسوائے اکا دکا لوگوں کے ان کی زبانوں پر تالے کیوں پڑ گئے جو آج نیکی کے پتلے بنے بیٹھے ہیں۔

ملک کو دہشت گردی کی بھٹی میں کس نے جھونکا؟ وزارت عظمیٰ کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے کون فوجی آمر کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا تھا؟ قانون اور اخلاقیات کے حوالے دینے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ آئین کی کون سی شق اور جمہوریت کا کون سا قاعدہ پڑھ کر انھوں نے بیعت کی؟ ہم نے تو قید، جلاوطنی اور صعوبتیں کاٹ کر اپنے نا کردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی، ہم سے پائی پائی کا حساب بھی لیا گیا۔ اب ذرا ان کا بھی حساب ہوجائے جو حساب مانگنے نکلے ہیں، آئین توڑنے سے لے کر 17 ویں ترمیم کا کلنک قوم کے ماتھے پر لگانے کا حساب، سپریم کورٹ میں بندوق کی نوک پر ججوں سے حلف لینے کا حساب، 72 ججوں کو گھروں میں نظر بند کرنے کا حساب، ہائی جیکنگ کا جھوٹا مقدمہ بنانے کاحساب، ان باتوں کا باہم گہرا تعلق ہے، حکومت پانچ سال مکمل کرے گی تو اپنے وعدے کے مطابق ہم معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوچکے ہوںگے۔

وزیراعظم کے یکے بعد دیگرے مسلسل خطبات پانامہ لیکس میں لگنے والے الزامات کی صفائی اور وضاحت کے ضمن میں اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں ، یہ کوئی معمولی نوعیت کا مسئلہ نہیں اس کا حتمی فیصلہ یقینا جسٹس آف سپریم کورٹ کے زیر نگرانی تحقیقاتی کمیشن ہی کرسکے گا اور اس ضمن میں بین الاقوامی فرانزک آڈٹ یقینا معاون ثابت ہوگا۔ جس کی بدولت دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانے کے بعد سچائی اور حقیقت قوم پر منکشف ہوجائے گی۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا بیان بھی اہمیت کا حامل ہے ان کا کہناہے کہ پانامہ لیکس پر جمہوریت بچانا چاہتے ہیں اگر وزیراعظم پر الزامات غلط ثابت ہوئے تو وہ خود اسمبلی میں ان کی تعریف کریںگے اور معذرت بھی کریںگے، انھوں نے حکومت کی جانب سے پانامہ لیکس الزامات کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے کے اقدام کو سراہتے ہوئے معاملہ انٹرنیشنل ہونے کے باعث فرانزک انکوائری کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے ایک بار پھر وزیراعظم کے خطاب کو مایوس کن قرار دے دیا۔ عمران خان نے کہاکہ پی ٹی آئی پاکستان کو بدلنے جا رہی ہے، قوم کو بتاؤںگا کہ پانامہ لیکس پر آگے کیسے بڑھنا ہے، کرپٹ مافیا کے خلاف لائحہ عمل طے کرنے کا اعلان کیا ۔

بہرحال پانامہ لیکس تحقیقات کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر 3 رکنی ججوں کا کمیشن بنانے کی استدعا کی ہے، کمیشن پانامہ یا دیگر ممالک میں پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیوں، ملوث افراد، قرضے معاف کرانے والوں، کرپشن یا کک بیکس سے پاکستان سے فنڈز کی منتقلی کی تحقیقاتی کرے گا، معاملے سے متعلق اکاؤنٹس یا ریکارڈ کو ضبط کیا جاسکے گا ماہر اکاؤنٹنٹ یا کسی بھی فرد کو بلانے کا اختیار تمام کارروائی عدالتی ہوگی، چھ نکاتی ضوابط کار کے مطابق کابینہ ڈویژن کمیشن کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرے گا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ حکام کمیشن کی مدد کریںگے۔

عدالتی کمیشن انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت قائم کیا جائے گا اور کمیشن کو ضابطہ دیوانی 1908 کے تحت اختیارات حاصل ہوںگے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر تضادات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں اب بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے پارساؤں کے خلاف بلا تفریق اور شفاف احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے خود آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس ضمن میں پہل قدمی کرتے ہوئے 11 فوجی افسران کو برطرف کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے اب چھوٹا ہو یا بڑا سب کی باری آئے گی، قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں