خواب کا اگلا قدم حقیقت
وہ جگہ اتنی پُرسکون، سر سبز، خوشبوئوں سے آراستہ تھی کہ میرے دل میں وہیں بس جانے کی خواہش پیدا ہونے لگی
KARACHI:
میں شکاگو سے بالکل ساتھ جڑے سبرب Evanston میں سنسان رات کے خاموش اندھیرے میں درختوں اور ہریالی سے ڈھکی سانپ کی طرح بل کھاتی ویران سڑک پر تنہا اپنی گاڑی میں جا رہا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف دور تک درختوں اورسبزے کا فطرتی حسن پھیلا ہواتھا،کوئی گھر نہ تھا۔چارپانچ سو میٹرکے فاصلے پر کہیں اکا دکا، جھونپڑی نما خوبصورت گھر درختوں میں گھر ے دکھائی دیتے، جن کی کھڑکیوں سے جھانکتی لیمپ کی دھیمی روشنی بہت پُرسکون، لطیف منظر پیش کرتیں۔روح میں اتر جانے والااطمینان، دل خوش کردینے والا ٹھنڈا موسم، تروتازہ سبزے کی مہک، خالی چمکتی سڑکوں پر کہیں کہیں درختوں کے درمیان چٹختی اسٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنی... گویا خوابوں کا سا منظر تھا۔
وہ جگہ اتنی پُرسکون، سر سبز، خوشبوئوں سے آراستہ تھی کہ میرے دل میں وہیں بس جانے کی خواہش پیدا ہونے لگی، یہ آرزو سر اٹھانے لگی کے باقی زندگی وہیں بسرکردوں۔بظاہر وہاں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھے ہمیشہ سے تمنا رہی تھی۔ ہر سُو پھیلا سکون، روحانیت کا راج ، غوروفکر اور اللہ سے لو لگانے کے لیے سازگار ماحول، ہر طرف بکھری خاموشی، وہ جگہ جیسے دنیا میں جنت کی تصویر تھی۔امریکا میں suburbs شہر سے ذرا ہٹ کر، ٹریفک وشور سے پاک ، ہرے بھرے، فطرت سے بھرپور ہوتے، جہاں ہریالی سے ڈھکی سڑکوں پرکبھی کبھی ہی کوئی گاڑی گزرتی دکھائی دیتی ۔ یہ 2000 ء کی بات ہے جب امریکا ترقی ومعاشی اعتبار سے اپنے عروج پر تھا، 9/11 کا واقعہ ابھی پیش نہیں آیا تھا۔
وہاں بس جانے کے خیال کے ساتھ ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ نہیں یہ جگہ ، یہ لوگ، روح سے عاری یہ معاشرہ، میرا نہیں۔ میں ان کی بسائی جنت میں زیادہ دیر خوش نہیں رہ سکتا، بہت جلد مرجھاجائوں گا۔ مجھے وہی جنت اپنے ملک میں چاہیے تھی، اپنی مٹی،اپنی ہوائوں میں،اپنے لوگوں کے درمیان۔میں ہرگز اپنی دھرتی چھوڑکردوسروں کی بنائی جنت میں آباد نہیں ہوسکتا تھا۔یہ خودغرضی، اپنی مٹی اورروح سے زیادتی تھی ۔ میرے دل کی آواز میرے آڑے آگئی۔ لہٰذا میرے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وطن واپس لوٹوں اورایسی ہی جنت وہاں بسانے کی کوشش کروں ، میں نے واپسی کا فیصلہ کرلیا، مجھے اللہ پر یقین تھا کہ اگر وہ ایسی جنت انھیں عطا کرسکتا تھا توہمیں کیوں نہیں ؟
میں اپنا خواب آنکھوں میں بسائے پاکستان لوٹ آیا۔قدرت کو شاید مجھ گنہگار پر رحم آگیا، صرف پندرہ سال بعد ہی 2015 میںاس نے مجھے اسی جنت کی جھلک اپنے وطن میں دکھادی ۔ ویسی ہی ہریالی، ویسی ہی صاف ستھری پھول پودوں سے سجی سڑکیں، دھیمی، قانون کے مطابق چلتی ٹریفک، پُرسکون ماحول، لوگ، جدید پبلک ٹرانسپورٹ ۔ جی ہاں ،کل کا پسماندہ لاہور ایک ترقی یافتہ ، جاذبِ نظر شہر بن چکا تھا۔ شکاگوکے سبرب Evanston میں دیکھا اپنا وہ خواب اتنی جلدی حقیقت کے روپ میں میرے سامنے آجائے گا مجھے یقین نہ تھا۔ میری روح خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریزاورخوشی سے سرشار ہوگئی۔ 'خوابوں' میں کتنی طاقت اورکرنٹ ہوتا ہے۔ شدت ِخواب اگر زیادہ ہو،اس کی جڑیں روح تک اتری اوراللہ سے مسلسل رابطہ ہو، تو جلد یا بدیر وہ خواب مجسم حقیقت بن کر ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔
میرے ساتھ ایسا پہلے بھی ہو چکا تھا جب میں تنہا ایک طرف اور دنیا دوسری طرف ہوتی، میں کسی ناممکن کے ممکن ہونے کی امید لوگوں میں بانٹتا اوراکثریت میرے اس خواب ا ور معصومیت پر ہنس دیتی۔ مجھے یاد ہے کہ 2008 ء میں پرویز مشرف نے بحالت ِ مجبوری جب اقتدار زرداری کے حوالے کیا توکامل یقین سے کہا کہ'' زرداری اورنواز شریف ہمیشہ آپس میں لڑتے رہیں گے، جج کبھی بحال نہیں ہونگے۔'' عمومی تاثر اور زمینی حقائق بھی یہی تھے کہ ایساکبھی نہیں ہوپائے گا، مگر میرا یقین اس کے برخلاف تھا، ایک سال بعد ہی نواز شریف کی قیادت میں ججوں کی بحالی کے لیے کیا جانے والے لانگ مارچ میں عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے لگا، ابھی یہ قافلہ گجرانوالہ تک ہی پہنچا تھا کہ اللہ نے میرا وہ خواب سچ کر دکھایا۔ 15 مارچ ، 2009ء رات ڈیڑھ بجے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام جج بحال کردیے گئے۔
خوابوں کا واقعات کے الٹ پھیرکے ذریعے حقیقت کا روپ دھار لینا عجیب قانونِ قدرت ہے ۔ نجانے شدت سے دیکھے جانے والے خوابوں سے وہ کونسی طاقتور لہریں اٹھتی ہیں جو حالات کو اپنے گھیرے میں لے کر،اپنے حق میں ڈھال کر ان خوابوں کو حقیقت بنا دیتی ہیں۔ تخیل انسان مجسم صورت میں دنیا میں ظہور پا جاتا ہے۔ہر بڑی حقیقت کی بنیاد ایک عظیم خواب ہی ہوتا ہے۔ہر ایجاد ، حاصل ہونے والی کامیابی، پائی جانے والی منزل حقیقت بننے سے پہلے خواب ہی کی صورت کسی کی آنکھوں میں سماتی ہے۔ یہ خواب دیکھنے والوں کی ہی قربانیوںکے ثمرات ہیںکہ انسان غاروں سے سیاروں تک جا پہنچا۔ جنگل کے قانون سے مہذب معاشروں تک کا، اور آگ ، پتھروں اور حیوانات کی پرستش سے کائنات کے حقیقی رب' اللہ' تک کا سفر طے کر سکا۔
سب سے عظیم ،وسیع اور رہتی دنیا تک پھیلا ہوا خواب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا۔ بھٹکی ہوئی انسانیت کا ایک اللہ کو پہچاننے،اسی کی عبادت کر نے کا خواب۔ اسلام کے دنیا کے کونے کونے میں پھیل جانے،انسانیت کا اس پرعمل کرکے جہنم سے نجات پانے کا خواب۔یہ اسی عظیم خواب کا صدقہ ہے جو آج تک جاری وساری ہیں ۔ اسی خواب کی حقیقت کہ چودہ سو سال سے آج تک دنیا کسی اوردین کے بجائے تیزی سے دائرہِ اسلا م میں داخل ہورہی ہے جس کی تاریخ ِ انسانیت میں مثال نہیں ملتی۔ پھر ایک خواب علامہ اقبال نے دیکھا ، پسے ، تتر بتر، نابود ہوتے مسلمانوں کے لیے الگ مسلم ریاست کا خواب ۔ جس کا دنیا، خود مسلمانوں تک کو یقین نہ تھا کہ اسلام کے نام پر بھی کبھی کوئی ملک وجودمیں آسکتا ہے، مگر علامہ اقبال کو یقین تھا۔ان کی نگاہیں فلک کے اس پار پاکستان کے وجود کو دیکھ رہی تھیں،جب ہی ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ ؛
حادثہ وہ جو ابھی پردہ ِ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ِ ادراک میں ہے
پاکستان علامہ اقبال کے' خواب' کی ہی حقیقت ہے ۔اگر وہ خواب نہ دیکھتے تو شاید آج پاکستان نہ ہوتا۔ دنیا خواب دیکھنے والوں کی ہی دیوانگی کی وجہ سے ترقی کر پائی اورکرشمے انجام دے پائی۔کبھی ناممکن تصورکیے جانے والے خواب، حقیقت بن جانے پر ان پر ہنسنے والوں کی ہی زندگی کا لازمی جز بن جاتے ۔ آج جن سہولیات کے بغیر ہمیں زندگی کا تصور بھی محال محسوس ہوتا ہے، وہ سب کبھی کسی دیوانے کا خواب سمجھے جاتے تھے۔ راتوں کو دن بناتی 'بجلی' ، ہوائوں میںاڑتے 'طیارے' ، مشرق و مغرب کی دوری پر بیٹھے لوگوں کی 'فون' پر گفتگو ،یہ سب پہلے خواب کی ہی صورت کسی کی آنکھوں میں نمودار ہوئے۔
نئی دنیائیں دریافت ، پیدا کرنے کے لیے ٹوٹ کر 'خواب' دیکھنا پڑتا ہے ، شدت سے ان کی آرزو کرنا پڑتی ہے۔ انھیں حقیقت کا روپ دینے کے لیے جسم کے ساتھ روحانی دھکے وپشت پناہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔زندگی بامقصد بنانے کے لیے کسی 'خواب' کا تعاقب ضروری ہے۔اگر انسان خود خواب نہیں دیکھ سکتا تو کم ازکم کسی دوسرے کے خواب میں شریک ہوجانا چاہیے،اسے اپنا لینا چاہیے ۔
کسی ایسے عظیم ''خواب'' کو،کہ جس کے حقیقت بننے پر اس کا جسم و روح بھی اطمینان پا جائیں۔ مگر احتیاط سے، صرف' سہانے'خواب دکھانے والوںکے شر سے بچتے ہوئے ،جن کی کارکردگی صفر اور شیوا فقط الزام تراشی رہا ہو۔ اپنے اردگرد نظر دوڑایے، تلاش کیجیے، اگرخوش قسمتی آپ کوکوئی ایسا نظر آجائے جو خلوص سے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا خواب دیکھ رہا ہے، اسے حقیقت بنانے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اورکوششیں کر رہا ہے، تو ضرور اس کے اس خواب میں حصے دار بن جائیں،اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے اس کا ساتھ دیجیے۔کیونکہ اس مشترکہ خواب کے حقیقت بننے پر ہم بھی اپنے حصے کے خواب کو پا لیں گے۔