خوفِ خدا اور فکرِ آخرت
صحابہ کرام آخرت، دوزخ اور جنت سے متعلق حضورؐ کے ارشادات عالیہ سنتے تو ان کے سامنےجنت و دوزخ انکی نگاہوں کے سامنے ہیں
بہت سے ایسے گناہ اور جرائم ہوتے ہیں، جن میں لوگوں کو کوئی روکنے والا نہیں ہوتا، ایسے میں صرف اﷲ کا خوف ہی ہے، جو انسانوں کو گناہوں سے روکے رکھتا ہے اور وہ نہ صرف نیکو کار بنے رہتے ہیں، بلکہ اچھے شہری بھی۔ پھر ایمان کے بعد انسان کی زندگی سنورانے اور اسے فلاح کے مقام تک پہنچانے میں چوں کہ سب سے اہم اﷲ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کی فکر کو ہے، اس لیے رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں میں ان دو خواص کو پیدا کرنے کی خاص کوشش فرمائی۔
کبھی اس خوف و فکر کے فوائد اور فضائل بیان کیے اور کبھی اﷲ پاک کے قہر و جلال اور آخرت کے ان سخت احوال کو یاد دلایا جن کی یاد سے دلوں میں یہ دونوں کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کی محافل میں جب صحابہ کرام ؓ آخرت، دوزخ اور جنت سے متعلق حضورؐ کے ارشادات عالیہ سنتے تو ان کا یہ حال ہوجاتا کہ جیسے جنت و دوزخ ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں غیب کی وہ چیزیں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ آوازیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے، آسمان چرچرا رہا ہے اور حق ہے کہ وہ چرچرائے۔ قسم ہے اُس ربّ ِ ذوالجلال کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے، آسمان میں چار انگل جگہ بھی نہیں ہے، جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اﷲ کے حضور میں اپنا ماتھا رکھے سجدے میں نہ پڑا ہو، اگر تم وہ باتیں جانتے، جو میں جانتا ہوں، تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے، اور بستروں پر بیویوں سے کبھی لطف اندوز نہ ہوسکتے، اور اﷲ سے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔ (اس حدیث کو نقل کرکے ) ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ کاش! میں ایک درخت ہوتا، جو کاٹ دیا جاتا۔
(مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ایک دن نماز کے لیے گھر سے مسجد تشریف لائے، تو آپؐ نے لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ گویا (وہاں مسجد ہی میں) وہ کھل کھلا کر ہنس رہے ہیں (اور یہ حالت علامت تھی غفلت کی زیادتی کی) اس لیے رسول اﷲ ﷺ نے (ان کی اس حالت کی اصلاح کے لیے) ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر تم لوگ لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو زیادہ یاد کرو، تو وہ تمہیں اس غفلت میں مبتلا نہ ہونے دے۔
لہٰذا لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو زیادہ یاد کرو۔ (اس کے بعد فرمایا) حقیقت یہ ہے کہ قبر ہر روز پکارتی ہے کہ میں مسافرت اور تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں۔ جب وہ بندہ زمین کے سپرد کیا جاتا ہے جو حقیقی مومن و مسلم ہو، تو زمین کہتی ہے کہ مرحبا! خوب آئے اور اپنے ہی گھر میں آئے، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جتنے لوگ میرے اوپر چلتے تھے ان میں سب سے زیادہ محبوب اور چہیتے مجھے تم ہی تھے اور آج جب تم میرے سپرد کیے گئے ہو، اور میرے پاس آگئے ہو، تو تم دیکھو گے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہوں، پھر وہ زمین اُس بندۂ مومن کے لیے حدِ نگاہ وسیع ہوجاتی ہے، اور اُس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی سخت بدکار قسم کا آدمی یا ایمان نہ لانے والا آدمی زمین کے سپرد کیا جاتا ہے تو زمین اس سے کہتی ہے کہ جتنے آدمی میرے اوپر چلتے پھرتے تھے تُو مجھے ان سب سے زیادہ مبغوض تھا، آج جب تُو میرے حوالے کردیا گیا ہے، اور میرے قبضے میں آگیا ہے، تو ابھی تُو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا کرتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ پھر وہ زمین ہر طرف سے اُس کو بھینچتی اور دباتی ہے، یہاں تک کہ اس دباؤ سے اس کی پسلیاں ادھر اُدھر ہوجاتی ہیں۔
ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں میں دوسرے ہاتھ کی انگلیاں ڈال کر ہم کو اس کا نقشہ دکھایا۔ اس کے بعد فرمایا کہ پھر اس پر ستر اژدھے مسلط کردیے جاتے ہیں، جن میں سے ایک اگر زمین میں پھنکار مارے تو رہتی دنیا تک وہ زمین کو ئی سبزہ نہ اگا سکے۔ پھر وہ اژدھے اسے برابر کاٹتے نوچتے رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اور حشر کے بعد وہ حساب کے مقام تک پہنچادیا جائے۔ ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ اور حضورؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ یا دوزخ کی خندقوں میں سے ایک خندق۔ (جامع ترمذی)
حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا معمول تھا کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو آپؐ اٹھتے اور فرماتے کہ اے لوگو! اﷲ کو یاد کرو، اﷲ کو یا د کرو، قریب آگیا ہے ہلا ڈالنے والا قیامت کا زلزلہ اور اس کے پیچھے آرہا ہے دوسرا۔ موت اُن سب احوال کو ساتھ لے کر سر پر آچکی ہے، جو اس کے ساتھ آتے ہیں، موت اپنے مضمرات کے ساتھ سر پر آچکی ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ڈرتا ہے، وہ شروع رات میں چل دیتا ہے، اور جو شروع رات میں چل دیتا ہے، وہ عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ یاد رکھو ، اﷲ کا سودا سستا نہیں، بہت منہگا اور بہت قیمتی ہے، یاد رکھو اﷲ کا سودا جنت ہے۔ (ترمذی)
کبھی اس خوف و فکر کے فوائد اور فضائل بیان کیے اور کبھی اﷲ پاک کے قہر و جلال اور آخرت کے ان سخت احوال کو یاد دلایا جن کی یاد سے دلوں میں یہ دونوں کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ کی محافل میں جب صحابہ کرام ؓ آخرت، دوزخ اور جنت سے متعلق حضورؐ کے ارشادات عالیہ سنتے تو ان کا یہ حال ہوجاتا کہ جیسے جنت و دوزخ ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں غیب کی وہ چیزیں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ آوازیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے، آسمان چرچرا رہا ہے اور حق ہے کہ وہ چرچرائے۔ قسم ہے اُس ربّ ِ ذوالجلال کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے، آسمان میں چار انگل جگہ بھی نہیں ہے، جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اﷲ کے حضور میں اپنا ماتھا رکھے سجدے میں نہ پڑا ہو، اگر تم وہ باتیں جانتے، جو میں جانتا ہوں، تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے، اور بستروں پر بیویوں سے کبھی لطف اندوز نہ ہوسکتے، اور اﷲ سے نالہ و فریاد اور گریہ و زاری کرتے ہوئے بیابانوں اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔ (اس حدیث کو نقل کرکے ) ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ کاش! میں ایک درخت ہوتا، جو کاٹ دیا جاتا۔
(مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ایک دن نماز کے لیے گھر سے مسجد تشریف لائے، تو آپؐ نے لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ گویا (وہاں مسجد ہی میں) وہ کھل کھلا کر ہنس رہے ہیں (اور یہ حالت علامت تھی غفلت کی زیادتی کی) اس لیے رسول اﷲ ﷺ نے (ان کی اس حالت کی اصلاح کے لیے) ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر تم لوگ لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو زیادہ یاد کرو، تو وہ تمہیں اس غفلت میں مبتلا نہ ہونے دے۔
لہٰذا لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو زیادہ یاد کرو۔ (اس کے بعد فرمایا) حقیقت یہ ہے کہ قبر ہر روز پکارتی ہے کہ میں مسافرت اور تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں۔ جب وہ بندہ زمین کے سپرد کیا جاتا ہے جو حقیقی مومن و مسلم ہو، تو زمین کہتی ہے کہ مرحبا! خوب آئے اور اپنے ہی گھر میں آئے، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جتنے لوگ میرے اوپر چلتے تھے ان میں سب سے زیادہ محبوب اور چہیتے مجھے تم ہی تھے اور آج جب تم میرے سپرد کیے گئے ہو، اور میرے پاس آگئے ہو، تو تم دیکھو گے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہوں، پھر وہ زمین اُس بندۂ مومن کے لیے حدِ نگاہ وسیع ہوجاتی ہے، اور اُس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی سخت بدکار قسم کا آدمی یا ایمان نہ لانے والا آدمی زمین کے سپرد کیا جاتا ہے تو زمین اس سے کہتی ہے کہ جتنے آدمی میرے اوپر چلتے پھرتے تھے تُو مجھے ان سب سے زیادہ مبغوض تھا، آج جب تُو میرے حوالے کردیا گیا ہے، اور میرے قبضے میں آگیا ہے، تو ابھی تُو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا کرتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ پھر وہ زمین ہر طرف سے اُس کو بھینچتی اور دباتی ہے، یہاں تک کہ اس دباؤ سے اس کی پسلیاں ادھر اُدھر ہوجاتی ہیں۔
ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں میں دوسرے ہاتھ کی انگلیاں ڈال کر ہم کو اس کا نقشہ دکھایا۔ اس کے بعد فرمایا کہ پھر اس پر ستر اژدھے مسلط کردیے جاتے ہیں، جن میں سے ایک اگر زمین میں پھنکار مارے تو رہتی دنیا تک وہ زمین کو ئی سبزہ نہ اگا سکے۔ پھر وہ اژدھے اسے برابر کاٹتے نوچتے رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اور حشر کے بعد وہ حساب کے مقام تک پہنچادیا جائے۔ ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ اور حضورؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ یا دوزخ کی خندقوں میں سے ایک خندق۔ (جامع ترمذی)
حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا معمول تھا کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو آپؐ اٹھتے اور فرماتے کہ اے لوگو! اﷲ کو یاد کرو، اﷲ کو یا د کرو، قریب آگیا ہے ہلا ڈالنے والا قیامت کا زلزلہ اور اس کے پیچھے آرہا ہے دوسرا۔ موت اُن سب احوال کو ساتھ لے کر سر پر آچکی ہے، جو اس کے ساتھ آتے ہیں، موت اپنے مضمرات کے ساتھ سر پر آچکی ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ڈرتا ہے، وہ شروع رات میں چل دیتا ہے، اور جو شروع رات میں چل دیتا ہے، وہ عافیت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ یاد رکھو ، اﷲ کا سودا سستا نہیں، بہت منہگا اور بہت قیمتی ہے، یاد رکھو اﷲ کا سودا جنت ہے۔ (ترمذی)