اماں! آج موسم کتنا اچھا ہے ناں۔
ہاں، پر بہت ہوا کھالی تو نے، اب کھڑکی بند کردے۔ تیرے ابا اور بھائی آتے ہی ہوں گے۔ انہوں نے تجھے باہر جھانکتے دیکھ لیا
تو پھر شک کریں گے اور ہم دونوں کی شامت آجائے گی۔
اوہو چھوڑو، انہیں تو سارے شک ہم پر ہی رہتے ہیں، خود چاہے جو مرضی کرتے پھریں باہر جا کر۔ اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
لگتا ہے تو پچھلے ہفتے اپنے بھائی کے ہاتھوں کھانے والی مار بھول گئی ہے، تبھی ایسی باتیں کررہی ہے۔
نہیں اماں! اپنے زخم کون بھولتا ہے، پر اب عورتوں کو مارنے پیٹنے کیخلاف قانون بن گیا ہے ۔۔۔۔ اب اگر کوئی باپ، بھائی، شوہر یا کوئی بھی مرد عورت پر ہاتھ اٹھائے اور وہ مظلوم عورت تھانے میں اطلاع کردے تو پولیس ایسا کرنیوالے آدمی کو گرفتار کرلے گی۔
ارے یہاں بڑے قانون بنے ہیں بیٹا، لیکن عورت کیلئے قانون وہی صدیوں پرانا ہے۔ ہم مرد کے پاوُں کی جوتی تھے اور رہیں گے، ہماری حالت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے نہیں بدل سکتی۔
کہیں سے تو شروعات ہونی ہوتی ہے تو بس سمجھو یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اب ظلم کرنیوالا ایک لمحے کو ہی سہی لیکن ڈرے گا ضرور کہ جیل کا منہ دیکھنا پڑسکتا ہے اور پولیس کے جوتے بھی کھانے پڑسکتے ہیں، اور تو اور اگر قانون پر عمل ہوگیا تو لوگوں کے سامنے شرافت کے نقاب بھی اتر جائیں گے۔ مزید جو کسی ایسے کیس میں مرد کو سزا ہوگئی تو پھر دیکھنا۔ اس نے تصور میں آنکھیں میچ کر کہا۔ بس کوئی عورت ہمت کرے اور قانون کی مدد مانگے۔
https://twitter.com/sharmeenochinoy/status/725861386463502338
یہ تو ہے لیکن ہوگا پھر بھی کچھ نہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت کا نگہبان بنایا ہے۔ گھر کے مردوں کی عزت کا خیال کرنا اور انکی تابعداری ہم پر لازم ہے۔
جانے دے اماں! اتنا تو مجھے بھی پتہ ہے کہ اسلام نے ہم عورتوں کیلئے آسانیاں رکھی ہیں، ہم پر سختی کرنے سے منع کیا ہے، ہمارے چہرے بگاڑنے سے منع کیا ہے، کتنے حقوق دیئے ہیں اسلام کے مطابق؟ مجھے ایک بات بتا، جب کسی لڑکی پر تیزاب پھینکا جاتا ہے تب اسلام کی بات کیوں نہیں ہوتی؟ لیکن اب حالات بدل رہے ہیں، دیکھنا کیسے سب ٹھیک ہوجائے گا۔
چھوڑدے یہ خوابوں کی سی بڑی بڑی باتیں ۔۔۔۔ کچھ نہیں بدلنے والا، تو بس کھڑکی بند کردے اور آجا، ہم دونوں ٹی وی دیکھتے ہیں۔
خبروں میں کیا آرہا ہے؟ وہی سیاست اور وہی لوٹی ہوئی دولت کے قصے کہانیاں، مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان ڈرامے بازیوں میں۔
آ تو یہی رہا ہے، ٹھہر! یہ دیکھ کیسا ظلم ہوگیا ۔۔۔۔۔
کیا ہوگیا؟ یہ کیا ہے؟
ایک بھائی نے شک کی بنیاد پر
غیرت کے نام پر اپنی بہن کا قتل کردیا ہے۔ وہ بیچاری تڑپ تڑپ کر مرگئی، لیکن ظالم بھائی کو اسپتال لے جانے کا خیال تک نہ آیا، لوگ بھی کھڑے ہیں تماشا دیکھنے، کوئی تو آگے بڑھتا اور باپ کو تو دیکھو بیٹی کا خون معاف کررہا ہے اور باقی خاندان والے بھی اسکا ساتھ دے رہے ہیں۔ دیکھ لے یہ ہیں اس ملک کے قانون اور ان کا ڈر۔
آہ! اماں تو ٹھیک کہہ رہی تھی، عورت کیلئے قانون وہی صدیوں پرانا ہے، میں کھڑکی بند کردوں ابا اور بھائی آتے ہی ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔