کوئی ادارہ تنہا اچھی حکمرانی یقینی نہیں بناسکتا سب کو آئینی حدود میں رکھنا عدلیہ کی ذمے داری ہے چیف جسٹ

عدلیہ دیگر اداروں کیلیے رول ماڈل ہے‘ کوئی ادارہ دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرے، عدالتی جائزے کا اختیار حاصل ہے


BBC/News Agencies/Numainda Express November 16, 2012
وفاق نے ججز کے تقرر کیلیے تجاویزکا 6 ماہ بعد بھی جواب نہیں دیا، عدالتوں پر عوام کا اعتماد بڑھا، فل کورٹ اجلاس سے خطاب۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ کوئی ادارہ تنہا اچھی طرز حکمرانی یقینی نہیں بنا سکتا۔

تمام اداروں کو آئینی حدود میں رکھنا عدلیہ کی ذمے داری ہے، سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں، عدالت عظمٰی کو عدالتی جائزے کا اختیار حاصل ہے، عدلیہ دیگر اداروں کیلیے رول ماڈل ہے اور اس پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، عوام کو تحفظ آئین نے فراہم کیا ہے اور آئین کی حفاظت عدلیہ کی ذمے داری ہے۔

بی بی سی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کو اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہ کرنے دے۔ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے امور میں مداخلت نہ کرے۔ سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے معاملے کا عدالتی نوٹس لینے کا اختیار ہے جہاں پر آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس معمول کی کارروائی ہے جس میں مقدمات نمٹانے کی رفتار کا جائزہ لیا گیا۔

اے پی پی کے مطابق انھوں نے کہا کہ اجلاس کا بنیادی نکتہ زیر التوا مقدمات نمٹانے کا جائزہ لینا ہے' یکم جنوری سے اب تک 13653 میں سے 12377مقدمات کو نمٹا دیا گیا ہے۔ مزید بہتری کیلیے قابل عمل اور موثر حکمت عملی بنائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ نظر ثانی کا اختیار عدلیہ کے پاس مقدس امانت ہے جس کو موثر انداز میں بروئے کار لانا چاہیے۔ کوئی ادارہ اکیلا مسائل حل نہیں کر سکتا، عدلیہ کو چاہیے کہ وہ عوامی مفادکو پیش نظر رکھے اور شفاف انداز میں اپنی ذمے داری ادا کرے۔

عدلیہ میں ججوں کی کمی دورکرنے کیلیے کوشاں ہیں اور پرنسپل سیکریٹری کے ذریعے وزیر اعظم کو درخواست کی گئی ہے کہ وہ ہر سطح پر ججوں کی کمی پوری کرنے کیلیے مناسب فنڈر جاری کرنے کے احکامات دیں۔ آن لائن کے مطابق انھوں نے کہا کہ وفاق کو عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے تجاویز بھجوائی گئی ہیں مگر 4سے 6 ماہ گزرنے کے باوجود جواب موصول نہیں ہوا، اجلاس میں اپریل کے تیسرے ہفتے بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس بلانے، یاسین آزاد، سید سمیع احمد، مشتاق علی طاہر اور اختر حسین کو سینئر ایڈووکیٹ کادرجہ دینے اور7نئے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ مقررکرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا اور یہ بھی طے کیا گیا کہ 2 ڈویژن بنچ لاہور اور ایک ڈویژن بنچ پشاور میں3 ماہ کیلیے کام کریں گے جبکہ اسلام آباد میں 2 اور 3 ممبران پر مشتمل بنچز قائم کئے جائیں گے۔

اجلاس میں 14ججوں نے شرکت کی، جسٹس جواد خواجہ بیرون ملک دورے اور جسٹس اطہر سعید خرابی صحت کے باعث شرکت نہیں کر سکے جبکہ ایک جج کی سیٹ تاحال خالی ہے، اس موقع پر عدالتی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جس میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے میں مزید تیزی لانے اور انتظامی امور شامل تھے۔ این این آئی نے نجی ٹی وی کے حوالے سے بتایا کہ فل کورٹ اجلاس ہنگامی طور پر طلب کیا گیا جس کے باعث ریکوڈک گولڈ مائنز کے بعد دیگر تمام کیسز کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں