ایکسٹرا
کسی بھی ملک میں معدودے چندلوگ ہوتے ہیں جواس ریاست کی شناخت بن جاتے ہیں
ISLAMABAD:
کسی بھی ملک میں معدودے چندلوگ ہوتے ہیں جواس ریاست کی شناخت بن جاتے ہیں۔کبھی کبھی توایسے ہوتاہے کہ قومیں ان نایاب انسانوں سے ہی پہچانی جاتی ہیں۔اس میں کھلاڑی،فنکار،شاعر،اہل قلم، گائک، موسیقاراوراس قبیل سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جواپنے اپنے معاشروں سے مختلف سوچتے ہیں۔ اپنی سوچ میں گم رہتے ہوئے سودوزیاں سے بالاترہوکراس مقام پر چلے جاتے ہیں،جہاں صرف اورصرف ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ذاتی دنیا۔دنیاکی تمام زندہ قومیں ان لوگوں کی بے انتہا قدرکرتی ہیں۔اپنے معاشرہ میں سرفراز کرتی ہیں اور انھیں اپنے اپنے نظام میں سب سے عزت والی جگہ پربٹھاتی ہیں۔
ہمارے ملک میں کیونکہ سنجیدہ سوچ کی کمی ہے بلکہ کسی طرح کی سوچ ہی نہیں ہے۔لہذاہم اپنے قیمتی لوگوں کی عزت واحترام کرنے کے بجائے انھیں زندہ درگورکرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔انھیں بربادکرکے رکھ دیتے ہیں اورجب وہ دنیاسے چلے جاتے ہیں،توپھرروایتی لفاظی استعمال کرتے ہوئے بھرپورطریقے سے یادکرنے کی اداکاری کرتے ہیں۔دنیاکے اَن گنت ملکوں میں جانے کے بعد ذاتی نتیجہ پرپہنچاہوں کہ ہم کرہِ ارض کے مشکل ترین اورکافی حدتک منافق ترین لوگ ہیں۔دوردورتک صرف لفظوں کے دریا بلکہ سمندر نظر آتے ہیں۔ہم اپنی عیاری کوذہانت گردانتے ہیں۔ دھوکا دینے کی صلاحیت کو عملی پن کانام دیتے ہیں۔
ذاتی تضادات کودین اوردنیاکے درمیان توازن کاراستہ سمجھتے ہیں۔خیرمیں ان لوگوں کی بات کررہاتھا،جواپنے معاشروں میں وہ مشکل کام سرانجام دیتے ہیں جنھیں ہم انتہائی سادگی سے "فنون لطیفہ"کہہ دیتے ہیں۔حالانکہ یہ تمام کام تویہ لوگ اپنے خون کو جلاکر سرانجام دیتے ہیں۔قیامت یہ بھی ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعدوہ بے توقیرہی رہتے ہیں۔اکثراوقات ،بے حد کمزورمالی حیثیت میں ہی سانس لیتے رہتے ہیں یا پھر معاشرے کے ان پوشیدہ کونوں میں چھپ جاتے ہیں جہاں انھیں کوئی ذہنی تکلیف نہ پہنچاسکے۔بحیثیت قوم،ہم نے اپنے سب سے بیش قیمت طبقے کی سب سے زیادہ توہین کی ہے اورجان بوجھ کرکی ہے۔
اس دم جب ہروقت سیاست درسیاست ہورہی ہے،شائدچندلوگوں کوعجیب لگے کہ میں کیاموضوع چھیڑ کر بیٹھ گیا۔مگرمیری دانست میں اس کثافت میں سانس لینے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کی طرف توجہ دی جائے جنکی طرف اکثرلوگ دیکھنے تک کوتیارنہیں۔ایک اور چیز عرض کرتاچلوں،کہ ہمارے ہمسایے ملک میں ان لوگوں کی قدرومنزلت دیدنی ہے۔کیاامیتابھ بچن کی موجودگی میں انھیں کسی بیرونی سفیرکی ضرورت ہے۔کیالتاکی آوازان کے ملک کے لیے بہترین سفارت کارکادرجہ نہیں رکھتی۔ کیا اے آر رحمن جیسے عظیم موسیقارکی بدولت اس ملک کی عزت بلند نہیں ہوئی۔
کیا آج ہالی وڈجیسی بیش قیمت جگہ سے فلم بنانے والے بمبئی منتقل نہیں ہورہے۔ اب فلموں میں دونوں ملک تقریباًبرابرآچکے ہیں۔آنکھیں کھول کردیکھیے، دنیاہم سے مختلف نہیں،آج ہم دنیاسے مکمل مختلف ہوچکے ہیں۔ بلکہ ان کے لیے توایک عجوبہ بن چکے ہیں۔میری نظر میں ہم ذہنی طور پر منتشرلوگ ہیں۔کوئی بھی شعبہ اس سے مستثناء نہیں۔ کیاسیاست،کیاتجارت،کیامذہبی دکانیں اور کیاعام لوگ۔ کون اس ملک میں رہیگا۔کون اپنی جائز دولت یہاں محفوظ سمجھے گااورکون یہاں کسی کو سانس لینے دیگا۔ ہرشخص اپنے لیے مظلوم ہے مگر دوسرے کے لیے عذاب بن چکا ہے۔ ہر شخص،اپنے علاوہ ہرایک کے احتساب میں مصروف ہے۔ مگر سوچنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے!
کیایہ المیہ نہیں کہ بڑے غلام علی خان جیساعظیم گلوکار جواپنے اورآنے والے وقت کے لیے تان سین کادرجہ رکھتا تھا۔ پاکستان آیااورپھرواپس ہندوستان جانے پر مجبور ہوگیا۔ کیا سعادت حسن منٹوجیساعظیم لکھاری اس ملک میں عدالتوں میں ذلیل وخوارنہیں ہوتارہا۔وہ واقعی اس ذہنی بوجھ کر برداشت نہ کرسکااورشراب میں ایساگم ہواکہ واپسی کاراستہ ہی بھول گیا۔کیااخترشیرانی جیسے رومانوی شاعر کو لاہورمیں حددرجہ ذلیل ورسوانھیں کیا گیا۔ کیا ساغرصدیقی جیسا فقیر شاعر، میکلوڈروڈپرخون تھوکتے تھوکتے نہیں مرگیا۔ کیا حبیب جالب جیساسچاشاعرہرقسم کے جبرسے لڑتے لڑتے زندگی کی جنگ نہیں ہار گیا۔ کیا منیرنیازی جیسا منفرد شاعر، یہاں ادبی گروہ بندی کا شکار ہوکرگوشہ نشین نہیں ہوگیا۔
اس طرح کے بہت سے نام ہیں مگرنام لکھتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے کیونکہ حقیقت میں ہم نے اپنے دورکے ہربڑے آدمی کو رسواکیاہے۔یہاں بونے ہی بونے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ دلیل،ذہانت اوربلندخیالی،ان کے لیے زہرقاتل ہے۔ لہذاوہ اپنے اردگردبڑے لوگ برداشت ہی نہیں کرپاتے۔ وہ ان کی ٹانگیں نہیں کھینچتے،ان کی ٹانگیں کاٹ دیتے ہیں۔
بہاولپورکے نزدیک چولستان میں چنن پیر کا مزار ہے۔یہاں ایک سالانہ میلہ ہوتاہے۔پچیس برس پہلے، وہاں جانے کااتفاق ہوا۔میلہ زوروں پرتھا۔رات کے آٹھ یانو بجے کاوقت تھا۔ایک خالی جگہ پر،ہم تمام لوگ زمین پر بیٹھ گئے ۔ہمارے سامنے سرائیکی کاعظیم ترین گلوکار "پٹھانے خان"نغمہ سراتھا۔اس سے پہلے اس ملکوتی آواز سے ناآشناتھا۔خواجہ فریدمٹھن کوٹی کی کافیاں جس خوبصورت آواز سے پٹھانے خان نے گائیں،ایک ایسا ذاتی تجربہ تھاجومیرے ذہن میں مقیدہوگیا۔
وہ دن اورآج کادن، میں پٹھانے خان کی گائی ہوئی کافیوں اورغزلوں کی سی ڈی اپنے ساتھ رکھتاہوں۔وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ اس خطہ میں پٹھانے خان سے بہترگانے والے بہت کم موجودہیں۔مگرہم نے اس شخص کی وہ قدومنزلت نہیں کی جو اسکاحق تھا۔کوٹ ادوکے نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والا انسان،کبھی بھی مالی کشادگی نہیں دیکھ سکا۔جادوئی آواز بھی اس کی وہ مددنہ کرسکی جودراصل اسکاحق تھا۔
ذراسوچئے اگریہی شخص فرانس، لندن، امریکا، انڈیا یا سویڈن سے تعلق رکھتا اوران ملکوں کی زبان میں مقامی شاعروں کاکلام گاتا، تو اس کا کیا مقام ہوتا۔میرے خیال میں اس کے مجسمے بناکر خوبصوت ترین مقامات پرآویزاں کیے جاتے۔ گھر کو میوزیم کا درجہ دیا جاتا،اوراس کے اہل خانہ کے پاس دولت کے انبار ہوتے۔ مگر ہم کیونکہ ایک"پایندہ قوم" ہیں۔ لہذا ہم ان "اہل جنون" کو کیوں اہمیت دیں۔ ہماری نظرمیں تویہ نقش برآب قسم کے لوگ تھے۔
بہاولپورمیں ہی میری ملاقات ایک ایسے مصورسے ہوئی جسے شائدکوئی نہیں جانتا۔جلوانہ نام کایہ عجیب شخص لاہوراین سی اے سے تعلیم مکمل کرنے کے بعدنیویارک سے آرٹس میں ایک ڈگری لے چکاتھا۔مکمل طورپراپنے لیے بھی اجنبی انسان۔میں اس کے اصل نام کوبھول رہاہوں کیونکہ جلوانہ اسکاخاندانی نام تھا۔ انتہائی منفردتصویریں بناتا تھا۔کیلے کے درختوں کی تصاویر۔ اپنے برش سے ہرے رنگ کے وہ معجزے برپا کردیتاتھاکہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے۔ایک دن میں نے،اس کی مصوری پرعبوردیکھ کر مشورہ دیاکہ آپ اپنے فن پاروں کی نمائش کیوں نہیں کرتے۔
وہ اس بات کاجواب اس طرح دیتاتھاکہ میری تصویریں بہاولپورمیں کون دیکھے گا۔کئی ہفتے لگاکرجلوانہ کو قائل کرپایاکہ سرکٹ ہاؤس میں اس کی تصویروں کی نمائش رکھی جائے۔شائدتیس یاپنتیس شہکارتھے۔شام کی تقریب میں سیکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔سرکٹ ہاؤس میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔صرف دو گھنٹے میں ساری تصاویر فروخت ہوگئیں۔نمائش کے بعد جلوانہ سکتہ میں تھا۔ سوچ بھی نہیں پا رہاتھاکہ بہاولپور میں اس کی اتنی پذیرائی ہوگی۔ ہمارے ہر شہر میں ایک جیساعالم ہے۔کوئی بھی ہمارے ان چھپے ہوئے جواہرات کوباہرنہیں لاتا جو اپنے فن میں یکتا ہونے کے باوجود خاموش اور اجنبی سی زندگی گزارکرچلے جاتے ہیں۔
اب ایک ایسے طبقے کی طرف آتاہوں،جسے حُرف عام میں"ایکسٹرا"کہاجاتاہے۔سیکڑوں ڈراموں، فلموں اورفنی تقریبات میں شامل ہونے کے باوجودبے نام ہی رہتے ہیں۔خیرفلم کااب کیا ذکر کرنا، پاکستان میں تواس شعبہ کوقتل کیاگیاہے۔درجنوں ڈراموں میں یہ مرد اور خواتین چھوٹے چھوٹے رول کرتے ہیں۔ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے ہرحکم کے غلام سے بن جاتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کے کھانے کابھی کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ آپ ان سے بات کیجیے۔ان میں سے ہر انسان اپنی جگہ ایک مکمل داستان ہے۔
بخدا، انکا سچ ہمارے معاشرے کاوہ سچ ہے جسکاکوئی بھی سامنا نہیں کر سکتا۔ ان کی پوری زندگی ایک بڑے اوراچھے رول کی تلاش میں گزرجاتی ہے۔ جو اکثراوقات ا نہیں کبھی بھی نصیب نہیں ہوتا۔یہ لوگ پوری عمرویگنوں،بسوں اور رکشوں میں دھکے کھانے کے باوجود خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی،کہیں نہ کہیں،کوئی نہ کوئی ایسابااثرشخص ہوگا جو انکوآگے بڑھنے کاموقعہ دیگا۔ ان کے خواب پورے کریگا اور ان کے ٹیلنٹ کی قدر کریگا۔ مگرایساکبھی بھی نہیں ہوتا۔ اس نامہربان معاشرے میں یہ "ایکسٹرا"لوگ ہمیشہ ایکسٹراہی رہتے ہیں۔
اس پورے ملک میں اہل فن مکمل ناقدری کاشکار ہیں۔سوچ پرپہرے لگے ہوئے ملک میں یہ لوگ گھٹ گھٹ کرروزمرتے ہیں،مگرہرصبح زندہ نظرآتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اکثراوقات سوچنے والاشخص عزت سے زندہ نہیں رہ سکتا۔وہ ہرلمحہ ذلت کا شکار رہتا ہے۔ ہاتھ پھیلاتا رہتاہے۔اپنے فن کوبیچنے کے لیے خریدارتلاش کرتا رہتا ہے۔ مگر اکثراوقات یہ سراب ہی رہتا ہے۔ مجھے تو ایسے لگتاہے کہ بیس کروڑ کی آبادی میں صر ف چند ہزارلوگ ہی پردہ سیمی پرہیرو،ہیروئن یاولن کارول ادا کررہے ہیں۔ باقی تو کروڑوں لوگ محض ایکسٹراہیں!
کسی بھی ملک میں معدودے چندلوگ ہوتے ہیں جواس ریاست کی شناخت بن جاتے ہیں۔کبھی کبھی توایسے ہوتاہے کہ قومیں ان نایاب انسانوں سے ہی پہچانی جاتی ہیں۔اس میں کھلاڑی،فنکار،شاعر،اہل قلم، گائک، موسیقاراوراس قبیل سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جواپنے اپنے معاشروں سے مختلف سوچتے ہیں۔ اپنی سوچ میں گم رہتے ہوئے سودوزیاں سے بالاترہوکراس مقام پر چلے جاتے ہیں،جہاں صرف اورصرف ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ذاتی دنیا۔دنیاکی تمام زندہ قومیں ان لوگوں کی بے انتہا قدرکرتی ہیں۔اپنے معاشرہ میں سرفراز کرتی ہیں اور انھیں اپنے اپنے نظام میں سب سے عزت والی جگہ پربٹھاتی ہیں۔
ہمارے ملک میں کیونکہ سنجیدہ سوچ کی کمی ہے بلکہ کسی طرح کی سوچ ہی نہیں ہے۔لہذاہم اپنے قیمتی لوگوں کی عزت واحترام کرنے کے بجائے انھیں زندہ درگورکرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔انھیں بربادکرکے رکھ دیتے ہیں اورجب وہ دنیاسے چلے جاتے ہیں،توپھرروایتی لفاظی استعمال کرتے ہوئے بھرپورطریقے سے یادکرنے کی اداکاری کرتے ہیں۔دنیاکے اَن گنت ملکوں میں جانے کے بعد ذاتی نتیجہ پرپہنچاہوں کہ ہم کرہِ ارض کے مشکل ترین اورکافی حدتک منافق ترین لوگ ہیں۔دوردورتک صرف لفظوں کے دریا بلکہ سمندر نظر آتے ہیں۔ہم اپنی عیاری کوذہانت گردانتے ہیں۔ دھوکا دینے کی صلاحیت کو عملی پن کانام دیتے ہیں۔
ذاتی تضادات کودین اوردنیاکے درمیان توازن کاراستہ سمجھتے ہیں۔خیرمیں ان لوگوں کی بات کررہاتھا،جواپنے معاشروں میں وہ مشکل کام سرانجام دیتے ہیں جنھیں ہم انتہائی سادگی سے "فنون لطیفہ"کہہ دیتے ہیں۔حالانکہ یہ تمام کام تویہ لوگ اپنے خون کو جلاکر سرانجام دیتے ہیں۔قیامت یہ بھی ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعدوہ بے توقیرہی رہتے ہیں۔اکثراوقات ،بے حد کمزورمالی حیثیت میں ہی سانس لیتے رہتے ہیں یا پھر معاشرے کے ان پوشیدہ کونوں میں چھپ جاتے ہیں جہاں انھیں کوئی ذہنی تکلیف نہ پہنچاسکے۔بحیثیت قوم،ہم نے اپنے سب سے بیش قیمت طبقے کی سب سے زیادہ توہین کی ہے اورجان بوجھ کرکی ہے۔
اس دم جب ہروقت سیاست درسیاست ہورہی ہے،شائدچندلوگوں کوعجیب لگے کہ میں کیاموضوع چھیڑ کر بیٹھ گیا۔مگرمیری دانست میں اس کثافت میں سانس لینے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کی طرف توجہ دی جائے جنکی طرف اکثرلوگ دیکھنے تک کوتیارنہیں۔ایک اور چیز عرض کرتاچلوں،کہ ہمارے ہمسایے ملک میں ان لوگوں کی قدرومنزلت دیدنی ہے۔کیاامیتابھ بچن کی موجودگی میں انھیں کسی بیرونی سفیرکی ضرورت ہے۔کیالتاکی آوازان کے ملک کے لیے بہترین سفارت کارکادرجہ نہیں رکھتی۔ کیا اے آر رحمن جیسے عظیم موسیقارکی بدولت اس ملک کی عزت بلند نہیں ہوئی۔
کیا آج ہالی وڈجیسی بیش قیمت جگہ سے فلم بنانے والے بمبئی منتقل نہیں ہورہے۔ اب فلموں میں دونوں ملک تقریباًبرابرآچکے ہیں۔آنکھیں کھول کردیکھیے، دنیاہم سے مختلف نہیں،آج ہم دنیاسے مکمل مختلف ہوچکے ہیں۔ بلکہ ان کے لیے توایک عجوبہ بن چکے ہیں۔میری نظر میں ہم ذہنی طور پر منتشرلوگ ہیں۔کوئی بھی شعبہ اس سے مستثناء نہیں۔ کیاسیاست،کیاتجارت،کیامذہبی دکانیں اور کیاعام لوگ۔ کون اس ملک میں رہیگا۔کون اپنی جائز دولت یہاں محفوظ سمجھے گااورکون یہاں کسی کو سانس لینے دیگا۔ ہرشخص اپنے لیے مظلوم ہے مگر دوسرے کے لیے عذاب بن چکا ہے۔ ہر شخص،اپنے علاوہ ہرایک کے احتساب میں مصروف ہے۔ مگر سوچنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے!
کیایہ المیہ نہیں کہ بڑے غلام علی خان جیساعظیم گلوکار جواپنے اورآنے والے وقت کے لیے تان سین کادرجہ رکھتا تھا۔ پاکستان آیااورپھرواپس ہندوستان جانے پر مجبور ہوگیا۔ کیا سعادت حسن منٹوجیساعظیم لکھاری اس ملک میں عدالتوں میں ذلیل وخوارنہیں ہوتارہا۔وہ واقعی اس ذہنی بوجھ کر برداشت نہ کرسکااورشراب میں ایساگم ہواکہ واپسی کاراستہ ہی بھول گیا۔کیااخترشیرانی جیسے رومانوی شاعر کو لاہورمیں حددرجہ ذلیل ورسوانھیں کیا گیا۔ کیا ساغرصدیقی جیسا فقیر شاعر، میکلوڈروڈپرخون تھوکتے تھوکتے نہیں مرگیا۔ کیا حبیب جالب جیساسچاشاعرہرقسم کے جبرسے لڑتے لڑتے زندگی کی جنگ نہیں ہار گیا۔ کیا منیرنیازی جیسا منفرد شاعر، یہاں ادبی گروہ بندی کا شکار ہوکرگوشہ نشین نہیں ہوگیا۔
اس طرح کے بہت سے نام ہیں مگرنام لکھتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے کیونکہ حقیقت میں ہم نے اپنے دورکے ہربڑے آدمی کو رسواکیاہے۔یہاں بونے ہی بونے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ دلیل،ذہانت اوربلندخیالی،ان کے لیے زہرقاتل ہے۔ لہذاوہ اپنے اردگردبڑے لوگ برداشت ہی نہیں کرپاتے۔ وہ ان کی ٹانگیں نہیں کھینچتے،ان کی ٹانگیں کاٹ دیتے ہیں۔
بہاولپورکے نزدیک چولستان میں چنن پیر کا مزار ہے۔یہاں ایک سالانہ میلہ ہوتاہے۔پچیس برس پہلے، وہاں جانے کااتفاق ہوا۔میلہ زوروں پرتھا۔رات کے آٹھ یانو بجے کاوقت تھا۔ایک خالی جگہ پر،ہم تمام لوگ زمین پر بیٹھ گئے ۔ہمارے سامنے سرائیکی کاعظیم ترین گلوکار "پٹھانے خان"نغمہ سراتھا۔اس سے پہلے اس ملکوتی آواز سے ناآشناتھا۔خواجہ فریدمٹھن کوٹی کی کافیاں جس خوبصورت آواز سے پٹھانے خان نے گائیں،ایک ایسا ذاتی تجربہ تھاجومیرے ذہن میں مقیدہوگیا۔
وہ دن اورآج کادن، میں پٹھانے خان کی گائی ہوئی کافیوں اورغزلوں کی سی ڈی اپنے ساتھ رکھتاہوں۔وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ اس خطہ میں پٹھانے خان سے بہترگانے والے بہت کم موجودہیں۔مگرہم نے اس شخص کی وہ قدومنزلت نہیں کی جو اسکاحق تھا۔کوٹ ادوکے نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والا انسان،کبھی بھی مالی کشادگی نہیں دیکھ سکا۔جادوئی آواز بھی اس کی وہ مددنہ کرسکی جودراصل اسکاحق تھا۔
ذراسوچئے اگریہی شخص فرانس، لندن، امریکا، انڈیا یا سویڈن سے تعلق رکھتا اوران ملکوں کی زبان میں مقامی شاعروں کاکلام گاتا، تو اس کا کیا مقام ہوتا۔میرے خیال میں اس کے مجسمے بناکر خوبصوت ترین مقامات پرآویزاں کیے جاتے۔ گھر کو میوزیم کا درجہ دیا جاتا،اوراس کے اہل خانہ کے پاس دولت کے انبار ہوتے۔ مگر ہم کیونکہ ایک"پایندہ قوم" ہیں۔ لہذا ہم ان "اہل جنون" کو کیوں اہمیت دیں۔ ہماری نظرمیں تویہ نقش برآب قسم کے لوگ تھے۔
بہاولپورمیں ہی میری ملاقات ایک ایسے مصورسے ہوئی جسے شائدکوئی نہیں جانتا۔جلوانہ نام کایہ عجیب شخص لاہوراین سی اے سے تعلیم مکمل کرنے کے بعدنیویارک سے آرٹس میں ایک ڈگری لے چکاتھا۔مکمل طورپراپنے لیے بھی اجنبی انسان۔میں اس کے اصل نام کوبھول رہاہوں کیونکہ جلوانہ اسکاخاندانی نام تھا۔ انتہائی منفردتصویریں بناتا تھا۔کیلے کے درختوں کی تصاویر۔ اپنے برش سے ہرے رنگ کے وہ معجزے برپا کردیتاتھاکہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے۔ایک دن میں نے،اس کی مصوری پرعبوردیکھ کر مشورہ دیاکہ آپ اپنے فن پاروں کی نمائش کیوں نہیں کرتے۔
وہ اس بات کاجواب اس طرح دیتاتھاکہ میری تصویریں بہاولپورمیں کون دیکھے گا۔کئی ہفتے لگاکرجلوانہ کو قائل کرپایاکہ سرکٹ ہاؤس میں اس کی تصویروں کی نمائش رکھی جائے۔شائدتیس یاپنتیس شہکارتھے۔شام کی تقریب میں سیکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔سرکٹ ہاؤس میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔صرف دو گھنٹے میں ساری تصاویر فروخت ہوگئیں۔نمائش کے بعد جلوانہ سکتہ میں تھا۔ سوچ بھی نہیں پا رہاتھاکہ بہاولپور میں اس کی اتنی پذیرائی ہوگی۔ ہمارے ہر شہر میں ایک جیساعالم ہے۔کوئی بھی ہمارے ان چھپے ہوئے جواہرات کوباہرنہیں لاتا جو اپنے فن میں یکتا ہونے کے باوجود خاموش اور اجنبی سی زندگی گزارکرچلے جاتے ہیں۔
اب ایک ایسے طبقے کی طرف آتاہوں،جسے حُرف عام میں"ایکسٹرا"کہاجاتاہے۔سیکڑوں ڈراموں، فلموں اورفنی تقریبات میں شامل ہونے کے باوجودبے نام ہی رہتے ہیں۔خیرفلم کااب کیا ذکر کرنا، پاکستان میں تواس شعبہ کوقتل کیاگیاہے۔درجنوں ڈراموں میں یہ مرد اور خواتین چھوٹے چھوٹے رول کرتے ہیں۔ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے ہرحکم کے غلام سے بن جاتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کے کھانے کابھی کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ آپ ان سے بات کیجیے۔ان میں سے ہر انسان اپنی جگہ ایک مکمل داستان ہے۔
بخدا، انکا سچ ہمارے معاشرے کاوہ سچ ہے جسکاکوئی بھی سامنا نہیں کر سکتا۔ ان کی پوری زندگی ایک بڑے اوراچھے رول کی تلاش میں گزرجاتی ہے۔ جو اکثراوقات ا نہیں کبھی بھی نصیب نہیں ہوتا۔یہ لوگ پوری عمرویگنوں،بسوں اور رکشوں میں دھکے کھانے کے باوجود خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی،کہیں نہ کہیں،کوئی نہ کوئی ایسابااثرشخص ہوگا جو انکوآگے بڑھنے کاموقعہ دیگا۔ ان کے خواب پورے کریگا اور ان کے ٹیلنٹ کی قدر کریگا۔ مگرایساکبھی بھی نہیں ہوتا۔ اس نامہربان معاشرے میں یہ "ایکسٹرا"لوگ ہمیشہ ایکسٹراہی رہتے ہیں۔
اس پورے ملک میں اہل فن مکمل ناقدری کاشکار ہیں۔سوچ پرپہرے لگے ہوئے ملک میں یہ لوگ گھٹ گھٹ کرروزمرتے ہیں،مگرہرصبح زندہ نظرآتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اکثراوقات سوچنے والاشخص عزت سے زندہ نہیں رہ سکتا۔وہ ہرلمحہ ذلت کا شکار رہتا ہے۔ ہاتھ پھیلاتا رہتاہے۔اپنے فن کوبیچنے کے لیے خریدارتلاش کرتا رہتا ہے۔ مگر اکثراوقات یہ سراب ہی رہتا ہے۔ مجھے تو ایسے لگتاہے کہ بیس کروڑ کی آبادی میں صر ف چند ہزارلوگ ہی پردہ سیمی پرہیرو،ہیروئن یاولن کارول ادا کررہے ہیں۔ باقی تو کروڑوں لوگ محض ایکسٹراہیں!