کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالک چوتھا حصہ
1928 میں ٹوٹل 24 ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو 2520.0 ملین ڈالر تھا
1928 میں ٹوٹل 24 ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو 2520.0 ملین ڈالر تھا۔ 1932 میں ان ملکوں کے پاس 505.0 ملین ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو رہ گیا تھا۔ تمام ملکوں کے پاس ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو 399 فیصد کم ہوگیا تھا اور گولڈ ڈالر ریزرو 3490.0 ملین 1928 میں تھا اور 1932 میں 24 ملکوں کے پاس 5879.0 ملین ڈالر گولڈ ریزرو زیادہ ہوگیا تھا۔ امریکا کی مالیاتی نوسر بازی 24 ملکوں نے اس وقت پکڑی جب کاغذی ڈالرکے غیر پیداواری اخراجات کا بوجھ ان ملکوں کی معیشت کو نفی کی طرف دھکیلتا جا رہا تھا۔ان ملکوں کی کرنسیوں نے 1925 کے بعد بحال ہونا شروع کردیا تھا۔
امریکا نے ان ملکوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔ امریکا ان ملکوں سے سرمایہ کاری کے ذریعے نفع صنعت کما رہا تھا۔ ان ملکوں کو کاغذی ڈالروں کے قرضوں پر سود لے رہا تھا۔ 1914 کے بعد 1925 تک ان ملکوں کا صنعتی کلچر دوبارہ کھڑا نہیں ہوسکا تھا۔ امریکا ان سے نفع تاجری بھی لے رہا تھا۔ امریکا نے کاغذی ڈالر بارش کی طرح ان ملکوں میں برسا دیے تھے اور جب یورپی ملکوں کی معیشتیں بحال ہونا شروع ہوئیں تو ان ملکوں نے اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارتی تعلقات بحال کرنے شروع کیے توکاغذی ڈالر ان کے راستے میں رکاوٹ بن گیا اس کے نتیجے میں ان ملکوں نے کاغذی ڈالر واپس امریکا کو دینے شروع کردیے۔
امریکا کے پاس اتنا سونا نہیں تھا کہ وہ تمام پھیلائے گئے کاغذی ڈالروں کے بدلے ادا کرسکتا۔ جس کے نتیجے میں کاغذی ڈالر کی قیمت گرنے لگی۔ کتاب Year Book of International Trade Statistics 1955 by United Nations. New York کے صفحہ 157 پر برطانوی تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق 1930 میں برطانیہ 1052.0 ملین پونڈ کی امپورٹ اور 666.0 ملین پونڈ کی ایکسپورٹ کی تھی اور سونے کی امپورٹ 86.7 ملین پونڈ اور ایکسپورٹ 81.8 ملین پونڈ کی تھی۔ برطانیہ نے امریکی 8.240 ڈالر ایک پونڈ کی قیمت پر تجارت کی تھی۔
امریکی ڈالر سابقہ اونچی قیمت کھو چکا تھا۔ کتاب International Currency Experience by League of Nations 1944 کے صفحہ 55 پر 1929 میں 4.882 ڈالر کا ایک برطانوی پونڈ تھا۔ کتاب Year Book of International Trade Statistics 1950 by United Nations کے صفحہ 157 پر برطانوی تجارت کے اعداد وشمار کے مطابق برطانیہ نے 8.240 ڈالر ایک پونڈ کے عوض ایکسپورٹ اور امپورٹ کی تھی۔ 1931 میں فی پونڈ کے عوض 7.6134 ڈالر تھے، 1932 میں فی پونڈ کے عوض 5.9221 ڈالر تھے۔ 1923 میں 5.6002 ڈالر، 1934 میں 5.0887 ڈالر کا پونڈ، 1935 میں 4.9275 ڈالر فی پونڈ ہوگیا تھا۔
ایک یورپی ممالک کے کاغذی ڈالر کے بدلے اپنے اپنے بینکوں سے مقامی کرنسی لے رہے تھے دوسری طرف یورپی حکومتیں امریکا کو کاغذی ڈالر واپس کرکے سونا مانگ رہی تھیں۔ امریکا کی نوسربازی منظر عام پر آنے کے بعد امریکا کو اپنے ڈیفالٹر ہونے کا شدید خطرہ لاحق تھا امریکا نے اس عالمی معاشی بحران سے خود کو بچانے کے لیے ''مالیاتی نوسر بازی'' کا پلان بنا کر پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوگیا ۔کتاب International Economy 1963 by John Parke Young کے صفحہ 741 پر درج ہے۔
امریکی صدر روزویلٹ نے 20 اکتوبر 1933 کو دو روز تک بینکوں کی چھٹی کردی اور 22 اکتوبر 1933 کو سونا خریدنے کا اعلان کیا 25 اکتوبر 1933 کو 31.36 ڈالر فی اونس سونا خریدنا شروع کیا۔ 26 اکتوبر 31.54 ڈالر فی اونس سونا خریدنا شروع کیا۔ 27 اکتوبر 1933 کو 31.76 ڈالر فی اونس سونا، 28 اکتوبر 1933 کو 31.82 ڈالر، 16 جنوری 1934 کو 34.45 ڈالر فی اونس سونا خریدا گیا۔ 31 جنوری 1934 کو 35.00 ڈالر فی اونس سونے کی قیمت مقرر کردی گئی ۔
ادائیگی کے بدلے سونا نکل گیا تھا اور 1934 امریکی ''مالیاتی نوسربازی'' کے نتیجے میں امریکا نے 1134.0 ملین ڈالر کا گولڈ حاصل کرلیا تھا اور اس طرح امریکا نے لگاتار 1934 سے 1943 تک کاغذی ڈالروں کے بدلے 17323.0 ملین ڈالر گولڈ حاصل کرلیا تھا۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ 157 کے مطابق برطانیہ سے 1932 سے 1937 تک 720.8 ملین پونڈ گولڈ باہر نکل گیا تھا اور اس کے بدلے امریکی کاغذی ڈالر برطانیہ میں آگئے تھے۔ اسی کتاب کے صفحہ 548 پر وینیزویلا سے 1932 سے 1943 تک سونا باہر ایکسپورٹ ہوا تھا۔
اسی کتاب کے صفحہ 514 پر یونین آف ساؤتھ افریقہ سے 1933 سے 1943 تک سونا باہر زیادہ ایکسپورٹ ہوگیا تھا۔ اس طرح تھائی لینڈ اور سوئٹزرلینڈ سے 1933 سے 1935 تک سونا ایکسپورٹ ہوا۔ فلپائن، پیرو، نیوزی لینڈ، جاپان، انڈونیشیا، انڈیا، جرمنی، فرانس سے 1934سے 1938 تک سونا ایکسپورٹ ہوا تھا۔ کینیڈا سے پورے عرصے کے دوران سونا ایکسپورٹ ہوا تھا۔ بیلجیم نے زیادہ سونا امپورٹ کیا تھا۔ برازیل سے سونا ایکسپورٹ ہوا تھا۔ آسٹریلیا سے سونا ایکسپورٹ ہوا تھا۔ ارجنٹینا نے بھی سونا ایکسپورٹ کیا تھا۔ امریکی ڈالر جو برطانوی پونڈ کے مقابلے میں گر رہا تھا۔ کیونکہ مارکیٹوں میں کاغذی ڈالر وافر مقدار میں گردش کر رہا تھا۔
اس کے نتیجے میں 1930 میں 8.240 ڈالر کا ایک پونڈ ہوگیا۔ یاد رہے کہ امریکا نے بے تحاشا کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر پورے یورپ میں پھیلائے ہوئے تھے۔ اس کے نتیجے میں ڈالر کی مانگ کم ہوتی گئی اور ڈالر کے مقابلے میں پونڈ کی ڈیمانڈ بڑھتی گئی تھی۔ امریکا نے ''مالیاتی نوسر بازی'' کرکے سونے کے مقابلے میں 20.67 ڈالر سے 35.00 ڈالر فی اونس سونا کرکے ڈالر کی قیمت میں 69.33 فیصد کمی کردی تھی۔ سابقہ سامراجی یورپی ملکوں نے اپنی اپنی نوآبادیوں کے وسائل کو براہ راست لوٹا تھا۔
امریکا نے ''مالیاتی نوسر بازی میکنزم'' کو استعمال کرنے کے لیے مالیاتی تاریخ میں پہلی بار Currency Devaluation Minus Economic Development کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس CDMED کے طریقے و نتیجے میں جن ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں جس کی نسبت فیصد سے کم ہوتی ہیں اسی نسبت فیصد سے ان کی پیداواری لاگتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اور اسی نسبت سے امریکی اشیا ان ملکوں میں سستی ہوجاتی ہیں۔ پیداواری لاگتیں بڑھنے سے معاشی غلام ملک کی اشیا تیار ہوکر بیرونی منڈی مقابلے میں مہنگی ہوجاتی ہیں۔ (جاری ہے)
امریکا نے ان ملکوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔ امریکا ان ملکوں سے سرمایہ کاری کے ذریعے نفع صنعت کما رہا تھا۔ ان ملکوں کو کاغذی ڈالروں کے قرضوں پر سود لے رہا تھا۔ 1914 کے بعد 1925 تک ان ملکوں کا صنعتی کلچر دوبارہ کھڑا نہیں ہوسکا تھا۔ امریکا ان سے نفع تاجری بھی لے رہا تھا۔ امریکا نے کاغذی ڈالر بارش کی طرح ان ملکوں میں برسا دیے تھے اور جب یورپی ملکوں کی معیشتیں بحال ہونا شروع ہوئیں تو ان ملکوں نے اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارتی تعلقات بحال کرنے شروع کیے توکاغذی ڈالر ان کے راستے میں رکاوٹ بن گیا اس کے نتیجے میں ان ملکوں نے کاغذی ڈالر واپس امریکا کو دینے شروع کردیے۔
امریکا کے پاس اتنا سونا نہیں تھا کہ وہ تمام پھیلائے گئے کاغذی ڈالروں کے بدلے ادا کرسکتا۔ جس کے نتیجے میں کاغذی ڈالر کی قیمت گرنے لگی۔ کتاب Year Book of International Trade Statistics 1955 by United Nations. New York کے صفحہ 157 پر برطانوی تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق 1930 میں برطانیہ 1052.0 ملین پونڈ کی امپورٹ اور 666.0 ملین پونڈ کی ایکسپورٹ کی تھی اور سونے کی امپورٹ 86.7 ملین پونڈ اور ایکسپورٹ 81.8 ملین پونڈ کی تھی۔ برطانیہ نے امریکی 8.240 ڈالر ایک پونڈ کی قیمت پر تجارت کی تھی۔
امریکی ڈالر سابقہ اونچی قیمت کھو چکا تھا۔ کتاب International Currency Experience by League of Nations 1944 کے صفحہ 55 پر 1929 میں 4.882 ڈالر کا ایک برطانوی پونڈ تھا۔ کتاب Year Book of International Trade Statistics 1950 by United Nations کے صفحہ 157 پر برطانوی تجارت کے اعداد وشمار کے مطابق برطانیہ نے 8.240 ڈالر ایک پونڈ کے عوض ایکسپورٹ اور امپورٹ کی تھی۔ 1931 میں فی پونڈ کے عوض 7.6134 ڈالر تھے، 1932 میں فی پونڈ کے عوض 5.9221 ڈالر تھے۔ 1923 میں 5.6002 ڈالر، 1934 میں 5.0887 ڈالر کا پونڈ، 1935 میں 4.9275 ڈالر فی پونڈ ہوگیا تھا۔
ایک یورپی ممالک کے کاغذی ڈالر کے بدلے اپنے اپنے بینکوں سے مقامی کرنسی لے رہے تھے دوسری طرف یورپی حکومتیں امریکا کو کاغذی ڈالر واپس کرکے سونا مانگ رہی تھیں۔ امریکا کی نوسربازی منظر عام پر آنے کے بعد امریکا کو اپنے ڈیفالٹر ہونے کا شدید خطرہ لاحق تھا امریکا نے اس عالمی معاشی بحران سے خود کو بچانے کے لیے ''مالیاتی نوسر بازی'' کا پلان بنا کر پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوگیا ۔کتاب International Economy 1963 by John Parke Young کے صفحہ 741 پر درج ہے۔
امریکی صدر روزویلٹ نے 20 اکتوبر 1933 کو دو روز تک بینکوں کی چھٹی کردی اور 22 اکتوبر 1933 کو سونا خریدنے کا اعلان کیا 25 اکتوبر 1933 کو 31.36 ڈالر فی اونس سونا خریدنا شروع کیا۔ 26 اکتوبر 31.54 ڈالر فی اونس سونا خریدنا شروع کیا۔ 27 اکتوبر 1933 کو 31.76 ڈالر فی اونس سونا، 28 اکتوبر 1933 کو 31.82 ڈالر، 16 جنوری 1934 کو 34.45 ڈالر فی اونس سونا خریدا گیا۔ 31 جنوری 1934 کو 35.00 ڈالر فی اونس سونے کی قیمت مقرر کردی گئی ۔
ادائیگی کے بدلے سونا نکل گیا تھا اور 1934 امریکی ''مالیاتی نوسربازی'' کے نتیجے میں امریکا نے 1134.0 ملین ڈالر کا گولڈ حاصل کرلیا تھا اور اس طرح امریکا نے لگاتار 1934 سے 1943 تک کاغذی ڈالروں کے بدلے 17323.0 ملین ڈالر گولڈ حاصل کرلیا تھا۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ 157 کے مطابق برطانیہ سے 1932 سے 1937 تک 720.8 ملین پونڈ گولڈ باہر نکل گیا تھا اور اس کے بدلے امریکی کاغذی ڈالر برطانیہ میں آگئے تھے۔ اسی کتاب کے صفحہ 548 پر وینیزویلا سے 1932 سے 1943 تک سونا باہر ایکسپورٹ ہوا تھا۔
اسی کتاب کے صفحہ 514 پر یونین آف ساؤتھ افریقہ سے 1933 سے 1943 تک سونا باہر زیادہ ایکسپورٹ ہوگیا تھا۔ اس طرح تھائی لینڈ اور سوئٹزرلینڈ سے 1933 سے 1935 تک سونا ایکسپورٹ ہوا۔ فلپائن، پیرو، نیوزی لینڈ، جاپان، انڈونیشیا، انڈیا، جرمنی، فرانس سے 1934سے 1938 تک سونا ایکسپورٹ ہوا تھا۔ کینیڈا سے پورے عرصے کے دوران سونا ایکسپورٹ ہوا تھا۔ بیلجیم نے زیادہ سونا امپورٹ کیا تھا۔ برازیل سے سونا ایکسپورٹ ہوا تھا۔ آسٹریلیا سے سونا ایکسپورٹ ہوا تھا۔ ارجنٹینا نے بھی سونا ایکسپورٹ کیا تھا۔ امریکی ڈالر جو برطانوی پونڈ کے مقابلے میں گر رہا تھا۔ کیونکہ مارکیٹوں میں کاغذی ڈالر وافر مقدار میں گردش کر رہا تھا۔
اس کے نتیجے میں 1930 میں 8.240 ڈالر کا ایک پونڈ ہوگیا۔ یاد رہے کہ امریکا نے بے تحاشا کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر پورے یورپ میں پھیلائے ہوئے تھے۔ اس کے نتیجے میں ڈالر کی مانگ کم ہوتی گئی اور ڈالر کے مقابلے میں پونڈ کی ڈیمانڈ بڑھتی گئی تھی۔ امریکا نے ''مالیاتی نوسر بازی'' کرکے سونے کے مقابلے میں 20.67 ڈالر سے 35.00 ڈالر فی اونس سونا کرکے ڈالر کی قیمت میں 69.33 فیصد کمی کردی تھی۔ سابقہ سامراجی یورپی ملکوں نے اپنی اپنی نوآبادیوں کے وسائل کو براہ راست لوٹا تھا۔
امریکا نے ''مالیاتی نوسر بازی میکنزم'' کو استعمال کرنے کے لیے مالیاتی تاریخ میں پہلی بار Currency Devaluation Minus Economic Development کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس CDMED کے طریقے و نتیجے میں جن ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں جس کی نسبت فیصد سے کم ہوتی ہیں اسی نسبت فیصد سے ان کی پیداواری لاگتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اور اسی نسبت سے امریکی اشیا ان ملکوں میں سستی ہوجاتی ہیں۔ پیداواری لاگتیں بڑھنے سے معاشی غلام ملک کی اشیا تیار ہوکر بیرونی منڈی مقابلے میں مہنگی ہوجاتی ہیں۔ (جاری ہے)