عالمی یوم مزدور اور اُس کی حقیقت
کمال دیکھیے کہ مزدور کے نام پر منعقد کی گئی کانفرنس میں پانی پلانے کی خدمت بھی بے چارہ مزدور ہی سر انجام دیتا ہے۔
انسان کبھی غلام کی شکل میں قابل فروخت تھا۔ ساری دنیا میں بڑے بڑے جاگیردار انسانوں کی منڈیوں سے اپنے جیسے انسان خرید کر لایا کرتے تھے اور آج جدید ترقی یافتہ دور میں جہاں گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی اہم ہیں، انسان ایک بار پھر قابل فروخت ہوگیا ہے۔ یہ خرید و فروخت کا عمل آخر کیا نتائج دینا چاہتا ہے؟ اگر سب کچھ انسان ہی کی خدمت اور خوشحالی کے لئے بنایا جا رہا ہے تو دنیا میں اتنی غربت کیوں ہے؟ اور یہ تیسری دنیا اور ترقی یافتہ دنیا کی تقسیم کس لئے کی گئی ہے۔ کیا یہ تقسیم کھلا تضاد نہیں؟
ایسی زندگی جس میں قابل ستائش حد تک عزت و سکون حاصل ہو۔ دو وقت کا کھانا، تن ڈھانپنے کو کپڑا اور رہنے کو مکان، علاج معالجہ کے لئے اسپتال اور تعلیم کے لئے اسکول، کھیل کے لئے میدان، محبت، پیار اور دکھ سکھ کے لئے ماں باپ، بہن بھائی اور دوست احباب کے رشتے۔ ان سب کے لئے کتنا پیسہ درکار ہوگا؟ چند سو روپے؟
کارل مارکس نے لکھا کہ معاشرے میں افراد کی تقسیم دو طبقات میں ہوتی ہے۔ پہلا طبقہ دولت مند اور دوسرا طبقہ مزدور/محنت کش کہلاتا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ کام کی یکساں کیفیتیں مزدور طبقہ کے افراد کو ایک لڑی میں پرو دیں گی۔ پہلے مرحلے میں ورکنگ کلاس اپنی فیکٹری میں ایک اکائی بنے گی، دوسرے مرحلہ میں ملکی سطح پر اشتراک کرے گی اور تیسرے درجہ میں بین الاقوامی سطح پر قوت بن کر سامنے آئے گی۔ کارل مارکس کے مطابق ایک ایسا دور صنعتی انقلاب کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ خود بخود رونما ہوگا، جس سے محنت کش اور سرمایہ دار کے مابین ٹکراؤ ہوگا۔ یوں محنت کش کو اس کی محنت کا جائز حق مل جائے گا۔ لیکن عملاً ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ یوں دنیا دو طبقات سے تین طبقات میں تقسیم ہوتی نظر آئی۔ تیسرا طبقہ مڈل کلاس کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ لوگ غربت کی سطح سے نکل کر نسبتاً خوشحال دائرے میں آگئے۔ البتہ ان کی حیثیت اعلیٰ طبقہ یعنی ایلیٹ کلاس سے کم رہی۔
کینز جو سرمایہ داری نظام کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے، اس کا تجزیہ یہ تھا کہ نظام معیشت میں جہاں ایک طرف مارکیٹ اپنا کام کررہی ہو، وہیں دوسری طرف حکومت غریب عوام کے لئے سبسڈی اور فلاحی کاموں پر پیسہ خرچ کرے۔ اس نئے انداز فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ورکنگ کلاس اپنے کامن تشخص کی طرف نہ بڑھ سکی اور مال دار طبقہ غریبوں کے منہ میں لولی پاپ دے کر ان کے حقوق کا استحصال کرتا رہا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
یکم مئی یوم مزدور ۔۔۔۔۔ ہم سبھی ایک دن کی پوری چھٹی، اپنے بچوں کے ساتھ، اپنے گھر میں گزاریں گے۔ لیکن محنت کش اپنےعلاقے، خاندان اور بچوں سے کہیں دور اس دن کو کوس رہا ہوگا کہ اس کے نام پر اس کی دیہاڑی ماری جارہی ہے۔ محنت کش کے نام پر کئی ادارے، صنعت کار اور مفکرین اپنے قلم کی سیاہی سے پیسے کمائیں گے۔ واہ وا ہ اور بہت خوب کی دلربا صدائیں بھی سمیٹ لیں گے۔ کسی کانفرنس یا سیمینار میں اپنی عالمانہ گفتگو کے بعد ہارڈ شپ الاؤنس بھی وصول کرلیں گے اور محنت کش پورے دن کی مشقت کے بعد کیا لے کر جائے گا؟
پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ انہی محنت کش دیہاڑی دار مزدوروں پر مشتمل ہے۔ ایک بڑی فیکڑی، عالیشان کیفے یا کارخانے میں بیسیوں مزدور ہوں گے لیکن سب دیہاڑی پر کام کرنے والے، آخر کیوں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یوں مالک کو ٹیکس کم دنیا پڑتا ہے، اور پھر سوشل سیکیورٹی کی مد میں ادائیگیاں بھی نہیں کرنی پڑیں گی۔ ایک طرف انسان کی آزادی کے لئے تحریکیں اپنے عروج پر ہیں تو دوسری جانب غلاموں کی منڈیاں پہلے سے زیادہ پر رونق دکھائی دینے لگی ہیں۔
کیا اس عالمی یوم مزدور پر کوئی ایسا دسترخوان، مجلس، محفل، مذاکرہ یا سیمینار منعقد کیا جائے گا جس میں محنت کش کو عزت و تکریم کے ساتھ نشستوں پر بٹھایا جائے گا اور سرمایہ دار اسکی میزبانی کرے گا؟ آہ کون ہوگا جو ایسا کرے؟ یہاں تو مزدور کے نام پر منعقد کی گئی کانفرنس میں بے چارہ مزدور ہی پانی پلانے کی خدمت سے لیکر کھانا پیش کرنے تک سارے امور سر انجام دیتا ہے۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا،
دوسری جگہ فرمایا،
محنت کشوں کے نام پر ملک میں پہلے بھی بہت نعرے لگائے گئے، لیکن بہرحال ان حالات میں وقت کا تقاضہ ہے کہ کوئی سچائی کے ساتھ مزدور کی آواز بنے، ان کے مسائل کو سنجیدہ لے اور بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یوم مزدور کے اس عالمی ڈرامے کے دن سچائی، لگن اور دیانتداری کے ساتھ کون آگے بڑھتا ہے اور میرے محنت کش کی آواز بنتا ہے؟
ایسی زندگی جس میں قابل ستائش حد تک عزت و سکون حاصل ہو۔ دو وقت کا کھانا، تن ڈھانپنے کو کپڑا اور رہنے کو مکان، علاج معالجہ کے لئے اسپتال اور تعلیم کے لئے اسکول، کھیل کے لئے میدان، محبت، پیار اور دکھ سکھ کے لئے ماں باپ، بہن بھائی اور دوست احباب کے رشتے۔ ان سب کے لئے کتنا پیسہ درکار ہوگا؟ چند سو روپے؟
کارل مارکس نے لکھا کہ معاشرے میں افراد کی تقسیم دو طبقات میں ہوتی ہے۔ پہلا طبقہ دولت مند اور دوسرا طبقہ مزدور/محنت کش کہلاتا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ کام کی یکساں کیفیتیں مزدور طبقہ کے افراد کو ایک لڑی میں پرو دیں گی۔ پہلے مرحلے میں ورکنگ کلاس اپنی فیکٹری میں ایک اکائی بنے گی، دوسرے مرحلہ میں ملکی سطح پر اشتراک کرے گی اور تیسرے درجہ میں بین الاقوامی سطح پر قوت بن کر سامنے آئے گی۔ کارل مارکس کے مطابق ایک ایسا دور صنعتی انقلاب کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ خود بخود رونما ہوگا، جس سے محنت کش اور سرمایہ دار کے مابین ٹکراؤ ہوگا۔ یوں محنت کش کو اس کی محنت کا جائز حق مل جائے گا۔ لیکن عملاً ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ یوں دنیا دو طبقات سے تین طبقات میں تقسیم ہوتی نظر آئی۔ تیسرا طبقہ مڈل کلاس کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ لوگ غربت کی سطح سے نکل کر نسبتاً خوشحال دائرے میں آگئے۔ البتہ ان کی حیثیت اعلیٰ طبقہ یعنی ایلیٹ کلاس سے کم رہی۔
کینز جو سرمایہ داری نظام کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے، اس کا تجزیہ یہ تھا کہ نظام معیشت میں جہاں ایک طرف مارکیٹ اپنا کام کررہی ہو، وہیں دوسری طرف حکومت غریب عوام کے لئے سبسڈی اور فلاحی کاموں پر پیسہ خرچ کرے۔ اس نئے انداز فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ورکنگ کلاس اپنے کامن تشخص کی طرف نہ بڑھ سکی اور مال دار طبقہ غریبوں کے منہ میں لولی پاپ دے کر ان کے حقوق کا استحصال کرتا رہا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
یکم مئی یوم مزدور ۔۔۔۔۔ ہم سبھی ایک دن کی پوری چھٹی، اپنے بچوں کے ساتھ، اپنے گھر میں گزاریں گے۔ لیکن محنت کش اپنےعلاقے، خاندان اور بچوں سے کہیں دور اس دن کو کوس رہا ہوگا کہ اس کے نام پر اس کی دیہاڑی ماری جارہی ہے۔ محنت کش کے نام پر کئی ادارے، صنعت کار اور مفکرین اپنے قلم کی سیاہی سے پیسے کمائیں گے۔ واہ وا ہ اور بہت خوب کی دلربا صدائیں بھی سمیٹ لیں گے۔ کسی کانفرنس یا سیمینار میں اپنی عالمانہ گفتگو کے بعد ہارڈ شپ الاؤنس بھی وصول کرلیں گے اور محنت کش پورے دن کی مشقت کے بعد کیا لے کر جائے گا؟
پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ انہی محنت کش دیہاڑی دار مزدوروں پر مشتمل ہے۔ ایک بڑی فیکڑی، عالیشان کیفے یا کارخانے میں بیسیوں مزدور ہوں گے لیکن سب دیہاڑی پر کام کرنے والے، آخر کیوں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یوں مالک کو ٹیکس کم دنیا پڑتا ہے، اور پھر سوشل سیکیورٹی کی مد میں ادائیگیاں بھی نہیں کرنی پڑیں گی۔ ایک طرف انسان کی آزادی کے لئے تحریکیں اپنے عروج پر ہیں تو دوسری جانب غلاموں کی منڈیاں پہلے سے زیادہ پر رونق دکھائی دینے لگی ہیں۔
کیا اس عالمی یوم مزدور پر کوئی ایسا دسترخوان، مجلس، محفل، مذاکرہ یا سیمینار منعقد کیا جائے گا جس میں محنت کش کو عزت و تکریم کے ساتھ نشستوں پر بٹھایا جائے گا اور سرمایہ دار اسکی میزبانی کرے گا؟ آہ کون ہوگا جو ایسا کرے؟ یہاں تو مزدور کے نام پر منعقد کی گئی کانفرنس میں بے چارہ مزدور ہی پانی پلانے کی خدمت سے لیکر کھانا پیش کرنے تک سارے امور سر انجام دیتا ہے۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا،
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
دوسری جگہ فرمایا،
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات
محنت کشوں کے نام پر ملک میں پہلے بھی بہت نعرے لگائے گئے، لیکن بہرحال ان حالات میں وقت کا تقاضہ ہے کہ کوئی سچائی کے ساتھ مزدور کی آواز بنے، ان کے مسائل کو سنجیدہ لے اور بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یوم مزدور کے اس عالمی ڈرامے کے دن سچائی، لگن اور دیانتداری کے ساتھ کون آگے بڑھتا ہے اور میرے محنت کش کی آواز بنتا ہے؟
[poll id="1092"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔