غم روزگار کا موسم
میں کراچی ہی میں ہوں اور آج پورے ایک ماہ کی غیر حاضری کے بعد دوبارہ اپنے قارئین سے مخاطب ہوں
میں کراچی ہی میں ہوں اور آج پورے ایک ماہ کی غیر حاضری کے بعد دوبارہ اپنے قارئین سے مخاطب ہوں۔ دوبارہ قلم پکڑنے کا حوصلہ مجھے میرے قارئین نے دیا۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان، پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی اور کراچی کے علاوہ بیرون ملک ایکسپریس پڑھنے والوں نے جہاں میرے اندرونی کرب کو محسوس کیا، وہیں حوصلہ بھی بڑھایا اور بڑی محبتوں سے زور دیا کہ میں خود کو تنہا نہ سمجھوں اور قلم سے رشتہ نہ توڑوں۔ بے شمار ایس ایم ایس اور قریبی دوستوں کی فون کالز نے جیسے مجھے دوبارہ زندہ کر دیا۔ میں ان تمام قارئین، دوستوں اور ذاتی طور پر قریب سے جاننے والوں کی بے حد ممنون ہوں۔ آج کا کالم میں انھی چاہنے والوں کی بدولت لکھ پائی ہوں۔ خاص طور پر پروفیسر زبیدہ شیخ، پروفیسر اختر فاطمہ، پروفیسر حمیدہ جیلانی اور کنیز جیلانی کی وجہ سے۔
بعض اشعار، بعض کہاوتیں اور دانشوروں کے اقوال زندگی میں کبھی کبھی یوں مجسم ہو کر سامنے آتے ہیں جو روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ دسمبر 2015ء سے لے کر آج تک جن تجربات، مشاہدات اور داخلی احساسات سے گزری ہوں، ان میں سب سے زیادہ جس بات کا مجھے یقین آیا وہ یہ کہ اکثر دانا و بینا لوگ کہتے پائے گئے ہیں کہ ''خدا اپنے بندوں کی مدد کے لیے خود زمین پر نہیں آتا بلکہ انسانوں کی صورت میں اپنے فرشتے زمین پر بھیج دیتا ہے۔'' جیسا کہ پروفیسر فرحین محمود، شبنم امان، افشاں جنید، سید راشد علی کا پورا گھرانا میرے ساتھ تھا اور ہے۔
یہ اتنی بڑی سچائی ہے کہ جس کا اندازہ مجھے گزشتہ چار ماہ کے دوران بار بار ہوا۔ اک آگ کا دریا سامنے تھا، ایک عبور کرتی تھی تو دوسرا سامنے آ جاتا تھا، ہمت جواب دے جاتی تھی۔ پھر میں اپنے خدا کے حضور صمیم قلب سے مدد مانگتی تھی اور حیرت انگیز طور پر لوگ نجانے کس طرح اور کہاں سے مدد کے لیے آ جاتے تھے اور آ رہے ہیں۔ میں سوچتی تھی کہ یا الٰہی ان سے تو میرا یا قاضی اختر کا کوئی بھی خونی رشتہ نہیں ہے۔ پھر یہ بغیر کسی مطلب کے خودبخود مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ ان میں میرے اور قاضی اختر کے قریبی دوستوں کے علاوہ ہمارے پرانے پڑوسی بھی شامل تھے۔
میں نے جن، جن کالجوں میں پڑھایا اس کا اسٹاف گھر بیٹھے اختر کے ضروری کاغذات تیار کر کے اپنی سرکاری مہر سے تصدیق کر کے مع اپنے شناختی کارڈز کی کاپیوں کے مجھے دے گئے کہ جہاں ضرورت ہو وہاں دے دینا۔ ان کی پنشن کا تمام کام دو فرشتوں نے کیا۔ گھر بیٹھے تمام کاغذات مجھے لا کر دیے۔ بس میں نے تو صرف دستخط کیے اور فائل تھما دی۔ مجھ میں تو حوصلہ ہی نہیں تھا۔ وہی ڈی سی آفس لے کر گئے۔ وہی ہیڈ آفس لے کر گئے۔ کہاں تک اور کیونکر ان کا شکریہ ادا کروں۔ یہ دو فرشتے ہیں۔ محمد اسلم خان اور حنیف ہاشمی۔ ورنہ مرنے کے بعد کون کسی کو یاد رکھتا ہے لیکن یہ دونوں مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور آیندہ بھی قاضی صاحب کی دوستی نبھانے کا وعدہ کیا ہے۔ خدا ان کو خوش رکھے۔
ایک ادبی معاملے میں عقیل عباس جعفری اور اکادمی ادبیات اسلام آباد کے میر نواز سولنگی نے جس طرح مدد کی ہے۔ اس پر میں خود بھی حیران ہوں۔ پوسٹل لائف کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر فرح حسین نے بھی اپنے کام اور رویے سے مجھے حیران کر دیا۔ وہ خود مجھ سے ملنے آئیں اور کسی بھی مشکل وقت میں ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا۔ سرکاری اداروں میں فرح حسین، سولنگی صاحب اور طارق شاہد جیسے بااخلاق اور بے غرض لوگوں کا دم غنیمت ہے۔ ان کا وجود غم زدہ لوگوں کو حوصلہ دیتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ خدا اپنے بندوں کے لیے فرشتے انسانی روپ میں بھیجتا ہے۔ انھی فرشتوں میں منہاج الدین غوثی اور جنید اشرف سرفہرست ہیں۔
ان کے علاوہ میری دوستوں میں سے پروفیسر زبیدہ شیخ، پروفیسر اختر فاطمہ، پروفیسر عائشہ حنفی نے جس طرح مجھے ذہنی اور جسمانی تکالیف سے نجات دلائی ہے اس کے لیے ''شکریے'' کا لفظ ناکافی ہے۔ ان احباب کے علاوہ ایکسپریس سے وابستہ لوگوں کی اکثریت نے میرا حوصلہ بڑھایا اور ہمت بندھائی، خاص طور سے نسیم انجم جس طرح ڈھارس بندھاتی ہیں اور اکثر و بیشتر فون کر کے خیریت معلوم کرتی ہیں اس رویے ہی سے انسان اور آدمی کے فرق کی پہچان ہوتی ہے۔ہم دونوں یعنی میں اور قاضی اختر اس لحاظ سے تو خوش قسمت تھے ہی کہ اللہ نے نیک، فرمانبردار اور ہونہار بیٹا دیا ہے لیکن دوستوں اور پڑوسیوں کے معاملے میں بھی ہم دونوں بہت خوش قسمت رہے ہیں لیکن 4 دسمبر 2015ء کے بعد بعض اشعار مجسم زدہ تعبیر کے ساتھ میرے سامنے آئے وہ بھی ایک حیران کن بات ہے جیسا کہ غالبؔ کا یہ شعر:
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
یا ناصر کاظمی کے یہ اشعار:
دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
......
یا فیضؔ کے یہ اشعار جن کا ایک نیا ہی مفہوم کھلا ہے ان دنوں:
پھر کوئی آیا دلِ زار، نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
......
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم
یہ دل کے داغ تو دُکھتے تھے یوں بھی پر کم کم
کچھ اب کے اور ہے ہجرانِ یار کا موسم
اسی طرح اس مقولے کا بھی بخوبی ادراک ہوا کہ ''مایوسی کفر ہے'' یہ جملہ کبھی والد صاحب بہت دہرایا کرتے تھے، لیکن پچھلے دنوں جس طرح سید معراج جامی، امین ہاشم، راشد اشرف، پروفیسر کنیز جیلانی اور حمیدہ جیلانی نے بار بار اس جملے کی تشریح کی کہ مایوسی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا خدا پر سے بھروسہ اٹھ گیا۔ اس بے مثال جملے نے مجھے ہمت عطا کی اور میری قوت ارادی دوبارہ لوٹ آئی۔ جس کا ثبوت یہ کالم ہے۔ لیکن آج مجھے کالم لکھنے کے دوران یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے اور اس کی معنویت کی گہرائی کچھ اور طریقے سے محسوس کر رہی ہوں۔ شاید اس لیے کہ یہ شعر میرے جذبات سے ہم آہنگ ہو کر میری زندگی کی تفسیر بن گیا ہے۔
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے