طالبعلموں کی خودکشی اور تعلیمی اداروں کی بے حسی آخری حصہ
ان طلبا نے مزید یہ بھی لکھا کہ یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے در بند کردیے جائیں
QUETTA:
پچھلے دنوں ہمارے پاس کئی ای میلز آئیں، جس میں طلبا نے لکھا تھا کہ ہم اور ہماری طرح بے شمار طلبا سالہا سال سے سخت محنت اور دھکے کھانے کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر نکلتے ہیں لیکن ہمیں ہماری قابلیت کے اعتبار سے ملازمت نہیں دی جاتی اور ہم بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث چھوٹی موٹی ملازمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہمیں بھی زندگی گزارنے کے لیے ضروریات زندگی اور دو وقت کی روٹی چاہیے ہوتی ہے، ہمارے ذمے کفالت کی ذمے داری بھی اللہ رب العزت کی طرف سے عاید کی گئی ہے، بے شمار گھرانوں میں ہماری مائیں بہنیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، بلکہ گاؤں گوٹھ میں تو خواتین انگوٹھا چھاپ ہیں یا دو تین جماعتیں پاس، ان تلخ حالات میں مرد ہی معاشی ذمے داریوں کو پورا کرنے کا حقدار ہے۔
ان طلبا نے مزید یہ بھی لکھا کہ یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے در بند کردیے جائیں، تاکہ ہم سب میٹرک اور گریجویٹ کرکے ٹیچر، کلرک، چوکیدار، ڈرائیور، باورچی یا پرائمری اسکول کے استاد اور گارڈ کی ملازمت حاصل کرسکیں لیکن ادھر تو ملازمت تو سفارش اور رشوت کے بل پر دی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا حصول بھی ناممکن ہے۔ صوبہ سندھ کے شہریوں کے لیے یہ بھی دکھ کی بات ہے کہ شہر میں رہنے والوں کا کوٹہ آج بھی کم ہے، بہ نسبت دیہات اور اندرون سندھ کے نوجوانوں کے۔ جب کہ آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ طلبا تعلیمی میدان میں کارنامے انجام دیتے رہے ہیں اور طلبا و طالبات تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریاں لے کر فارغ ہوگئے ہیں۔ اور ان ڈگریوں کو لے کر دفاتر اور فیکٹریوں کے چکر کاٹ رہے ہیں کہ ان کی تعلیمی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں نوکریاں مل سکیں۔
ان طلبا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور حکومتوں نے پڑھے لکھے طبقے پر ظلم ڈھایا ہے۔ وہ شہر کا کوٹہ بڑھانے کو تیار نہیں ہیں۔ شہر کراچی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہیں جو بے روزگار ہیں۔ ان حالات میں ہم کہاں جائیں؟ کس سے فریاد کریں۔ کوئی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کوئی سننے والا نہیں۔ اسی ناانصافی کی وجہ سے طلبا دیار غیر جانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انھیں اچھی ملازمت اور زیادہ تنخواہ مل سکے اور جب وہ اپنے اس مشن میں بھی ناکام ہوجاتے ہیں تب ایک ہی اندھیری راہ نظر آتی ہے، وہ ہے خودکشی کا راستہ۔
وہ قرض کے بوجھ، معاشرتی مسائل، غربت و تنگدستی، بیماری، معذوری اور اچانک ہونے والے حادثات سے تنگ آکر اپنی جان گنوا دیتے ہیں اور خودکشی کو ہی تمام غموں سے نجات کا واحد سہارا سمجھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خودکشی حرام ہے، خودکشی کرنے والا بار بار اسی اذیت سے گزرتا ہے، جس سے وہ مرتے وقت گزر چکا ہے۔ لہٰذا اس اذیت سے بچنے کے لیے چھوٹا، موٹا کاروبار کرلینا زیادہ دانشمندی ہے، ویسے بھی تجارت نبیوں کا پیشہ ہے، پیشہ پیغمبری ہے۔ برکت دینے والا، کاروبار کو نفع بخشنے والا وہی پروردگار ہے، جو دن کو رات میں اور رات کو دن میں بدل دیتا ہے۔
اگر نیت صاف اور رزق حلال کمانے کی طلب ہو تو اللہ رب العزت نیتوں کا پھل اور محنت کا اجر ضرور دیتا ہے۔ اور پھر دہرا فائدہ یہ کہ نیک نیتی سے انجام دینے والے امور عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ حقوق اللہ سے لے کر حقوق العباد تک کے فرائض انجام دینے کا اللہ نے ثواب و خوشحالی اور عاقبت کی کامیابی کی نوید سنائی ہے۔
آج کے دور میں نہ ہی حکمران عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور نہ ہی رعایا اپنے اعمال کو بدلنے کا ارادہ رکھتی ہے، ہر ادارے نے بددیانتی اور غیر منصفانہ رویے کو اپنا لیا ہے۔
چھوٹے کام کرنے والوں نے بھی لوٹ مار مچائی ہوئی ہے، ہر چیز کے دام مقررہ نرخ سے زیادہ وصول کیے جاتے ہیں، اسی طرح مزدور اور ہنرمند طبقہ اپنی اجرت تین گنا زیادہ بتاتے ہیں۔ ضرورت مندوں کو مجبوراً ان سے کام کروانے پڑتے ہیں۔ یہ طریقہ کار حکومت کی طوطا چشمی اور ذاتی فائدے کی وجہ سے تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے، معاشرتی ماحول زہر آلود ہوچکا ہے۔
سانس لینا مشکل ہے، گرانی بڑھتی جا رہی ہے، محدود تنخواہوں یا ایمانداری سے کام کرنے والوں کے لیے یہ دنیا جہنم بن چکی ہے، ہر سال عید کے مواقعوں پر کئی کئی محنت کش خودکشی کرلیتے ہیں، اپنی جان گنوانے سے قبل اپنے بیوی بچوں کے لبوں سے زہر کا پیالہ لگاتے ہیں اور پھر خود اس دنیا سے ٹوٹے دل، خوابوں کی شکستہ کرچیاں لیے رخصت ہوجاتے ہیں، اخبارات میں خبریں شایع ہوتی ہیں، ٹی وی چینلز پر پورا واقعہ سنایا جاتا ہے، مرنے والوں اور ان کے لواحقین کی تصویر کشی کی جاتی ہے، یا سرد خانے لے جانے کے لیے فلاحی اداروں کی ایمبولینسیں حرکت میں آجاتی ہیں لیکن حکومت وقت کے کان پر جوں نہیں رینگتی کہ وہ ایسے سانحات کے بعد گرانی اور عید الاؤنس کا دیا جانا لازمی قرار دے دیں۔
سرکاری ملازمین تو پھر بھی بہتر حالات میں ہوتے ہیں جب کہ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے اذیت بھری زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، نہ انھیں پنشن دی جاتی ہے اور نہ دوسری مراعات۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ساہوکار اپنے خزانے سے تھوڑی سی رقم خاص مواقعوں کے لیے مختص کردیں تو ان مظلوم و مجبور لوگوں کے رمضان، عید، علاج و معالجہ بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے۔ لیکن فرصت کسے ہے؟
اتنے اچھے مسلمان ہیں کہ حج و عمرہ پابندی سے کرتے ہیں۔ مقامات مقدسہ پر جاکر بھی اپنے آپ کو نہیں بدلتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں کی بدولت دیار غیر کا سفر کبھی دل بہلانے تو کبھی علاج کی غرض سے کر لیتے ہیں لیکن ملک کے حالات کو بہتر بنانے کی انھیں ذرہ برابر فکر نہیں۔ جس ملک میں تعلیمی اداروں میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر نہ رکھا جائے اور جہاں امتحانی نتائج تبدیل کردیے جائیں اور تعلقات کی بنا پر نااہل طلبا کو کامیابی کا سرٹیفکیٹ بڑی عزت و احترام کے ساتھ پیش کیا جائے تو وہاں ایسے ہی حالات ہوں گے۔ خودکشی کرنے والے طالب علم عبدالباسط کی اس وقت کی ویڈیو تو بنالی جب وہ آگ کے شعلوں میں گھر چکا تھا، لیکن بچانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ افسوس صد افسوس۔ بے حسی، سفاکی اور غیر انسانی روش نے ایک ناہموار اور خاردار معاشرے کو جنم دیا ہے۔
پچھلے دنوں ہمارے پاس کئی ای میلز آئیں، جس میں طلبا نے لکھا تھا کہ ہم اور ہماری طرح بے شمار طلبا سالہا سال سے سخت محنت اور دھکے کھانے کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر نکلتے ہیں لیکن ہمیں ہماری قابلیت کے اعتبار سے ملازمت نہیں دی جاتی اور ہم بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث چھوٹی موٹی ملازمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہمیں بھی زندگی گزارنے کے لیے ضروریات زندگی اور دو وقت کی روٹی چاہیے ہوتی ہے، ہمارے ذمے کفالت کی ذمے داری بھی اللہ رب العزت کی طرف سے عاید کی گئی ہے، بے شمار گھرانوں میں ہماری مائیں بہنیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، بلکہ گاؤں گوٹھ میں تو خواتین انگوٹھا چھاپ ہیں یا دو تین جماعتیں پاس، ان تلخ حالات میں مرد ہی معاشی ذمے داریوں کو پورا کرنے کا حقدار ہے۔
ان طلبا نے مزید یہ بھی لکھا کہ یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے در بند کردیے جائیں، تاکہ ہم سب میٹرک اور گریجویٹ کرکے ٹیچر، کلرک، چوکیدار، ڈرائیور، باورچی یا پرائمری اسکول کے استاد اور گارڈ کی ملازمت حاصل کرسکیں لیکن ادھر تو ملازمت تو سفارش اور رشوت کے بل پر دی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا حصول بھی ناممکن ہے۔ صوبہ سندھ کے شہریوں کے لیے یہ بھی دکھ کی بات ہے کہ شہر میں رہنے والوں کا کوٹہ آج بھی کم ہے، بہ نسبت دیہات اور اندرون سندھ کے نوجوانوں کے۔ جب کہ آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ طلبا تعلیمی میدان میں کارنامے انجام دیتے رہے ہیں اور طلبا و طالبات تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریاں لے کر فارغ ہوگئے ہیں۔ اور ان ڈگریوں کو لے کر دفاتر اور فیکٹریوں کے چکر کاٹ رہے ہیں کہ ان کی تعلیمی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں نوکریاں مل سکیں۔
ان طلبا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور حکومتوں نے پڑھے لکھے طبقے پر ظلم ڈھایا ہے۔ وہ شہر کا کوٹہ بڑھانے کو تیار نہیں ہیں۔ شہر کراچی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ہیں جو بے روزگار ہیں۔ ان حالات میں ہم کہاں جائیں؟ کس سے فریاد کریں۔ کوئی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کوئی سننے والا نہیں۔ اسی ناانصافی کی وجہ سے طلبا دیار غیر جانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انھیں اچھی ملازمت اور زیادہ تنخواہ مل سکے اور جب وہ اپنے اس مشن میں بھی ناکام ہوجاتے ہیں تب ایک ہی اندھیری راہ نظر آتی ہے، وہ ہے خودکشی کا راستہ۔
وہ قرض کے بوجھ، معاشرتی مسائل، غربت و تنگدستی، بیماری، معذوری اور اچانک ہونے والے حادثات سے تنگ آکر اپنی جان گنوا دیتے ہیں اور خودکشی کو ہی تمام غموں سے نجات کا واحد سہارا سمجھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خودکشی حرام ہے، خودکشی کرنے والا بار بار اسی اذیت سے گزرتا ہے، جس سے وہ مرتے وقت گزر چکا ہے۔ لہٰذا اس اذیت سے بچنے کے لیے چھوٹا، موٹا کاروبار کرلینا زیادہ دانشمندی ہے، ویسے بھی تجارت نبیوں کا پیشہ ہے، پیشہ پیغمبری ہے۔ برکت دینے والا، کاروبار کو نفع بخشنے والا وہی پروردگار ہے، جو دن کو رات میں اور رات کو دن میں بدل دیتا ہے۔
اگر نیت صاف اور رزق حلال کمانے کی طلب ہو تو اللہ رب العزت نیتوں کا پھل اور محنت کا اجر ضرور دیتا ہے۔ اور پھر دہرا فائدہ یہ کہ نیک نیتی سے انجام دینے والے امور عبادت کا درجہ رکھتے ہیں۔ حقوق اللہ سے لے کر حقوق العباد تک کے فرائض انجام دینے کا اللہ نے ثواب و خوشحالی اور عاقبت کی کامیابی کی نوید سنائی ہے۔
آج کے دور میں نہ ہی حکمران عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور نہ ہی رعایا اپنے اعمال کو بدلنے کا ارادہ رکھتی ہے، ہر ادارے نے بددیانتی اور غیر منصفانہ رویے کو اپنا لیا ہے۔
چھوٹے کام کرنے والوں نے بھی لوٹ مار مچائی ہوئی ہے، ہر چیز کے دام مقررہ نرخ سے زیادہ وصول کیے جاتے ہیں، اسی طرح مزدور اور ہنرمند طبقہ اپنی اجرت تین گنا زیادہ بتاتے ہیں۔ ضرورت مندوں کو مجبوراً ان سے کام کروانے پڑتے ہیں۔ یہ طریقہ کار حکومت کی طوطا چشمی اور ذاتی فائدے کی وجہ سے تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے، معاشرتی ماحول زہر آلود ہوچکا ہے۔
سانس لینا مشکل ہے، گرانی بڑھتی جا رہی ہے، محدود تنخواہوں یا ایمانداری سے کام کرنے والوں کے لیے یہ دنیا جہنم بن چکی ہے، ہر سال عید کے مواقعوں پر کئی کئی محنت کش خودکشی کرلیتے ہیں، اپنی جان گنوانے سے قبل اپنے بیوی بچوں کے لبوں سے زہر کا پیالہ لگاتے ہیں اور پھر خود اس دنیا سے ٹوٹے دل، خوابوں کی شکستہ کرچیاں لیے رخصت ہوجاتے ہیں، اخبارات میں خبریں شایع ہوتی ہیں، ٹی وی چینلز پر پورا واقعہ سنایا جاتا ہے، مرنے والوں اور ان کے لواحقین کی تصویر کشی کی جاتی ہے، یا سرد خانے لے جانے کے لیے فلاحی اداروں کی ایمبولینسیں حرکت میں آجاتی ہیں لیکن حکومت وقت کے کان پر جوں نہیں رینگتی کہ وہ ایسے سانحات کے بعد گرانی اور عید الاؤنس کا دیا جانا لازمی قرار دے دیں۔
سرکاری ملازمین تو پھر بھی بہتر حالات میں ہوتے ہیں جب کہ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے اذیت بھری زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، نہ انھیں پنشن دی جاتی ہے اور نہ دوسری مراعات۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ساہوکار اپنے خزانے سے تھوڑی سی رقم خاص مواقعوں کے لیے مختص کردیں تو ان مظلوم و مجبور لوگوں کے رمضان، عید، علاج و معالجہ بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے۔ لیکن فرصت کسے ہے؟
اتنے اچھے مسلمان ہیں کہ حج و عمرہ پابندی سے کرتے ہیں۔ مقامات مقدسہ پر جاکر بھی اپنے آپ کو نہیں بدلتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں کی بدولت دیار غیر کا سفر کبھی دل بہلانے تو کبھی علاج کی غرض سے کر لیتے ہیں لیکن ملک کے حالات کو بہتر بنانے کی انھیں ذرہ برابر فکر نہیں۔ جس ملک میں تعلیمی اداروں میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر نہ رکھا جائے اور جہاں امتحانی نتائج تبدیل کردیے جائیں اور تعلقات کی بنا پر نااہل طلبا کو کامیابی کا سرٹیفکیٹ بڑی عزت و احترام کے ساتھ پیش کیا جائے تو وہاں ایسے ہی حالات ہوں گے۔ خودکشی کرنے والے طالب علم عبدالباسط کی اس وقت کی ویڈیو تو بنالی جب وہ آگ کے شعلوں میں گھر چکا تھا، لیکن بچانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ افسوس صد افسوس۔ بے حسی، سفاکی اور غیر انسانی روش نے ایک ناہموار اور خاردار معاشرے کو جنم دیا ہے۔