بلوچستان کازیز زمین نہری نظام ’’کاریز‘‘ 

صدیوں تک کار آمد رہنے والا پانی کی ترسیل کا یہ کم خرچ، سہل اورماحول دوست نظام شکست وریخت کا شکارہو رہا ہے

صدیوں تک کار آمد رہنے والا پانی کی ترسیل کا یہ کم خرچ، سہل اورماحول دوست نظام شکست وریخت کا شکارہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

پانی آسمان سے برسے یا زمین سے پھوٹے بہنے کے لیے اپنا راستہ خود ہی تلاش کر لیتا ہے اور ایسا قدرت کے اْس نظام کی بدولت ہے جسے ہم آج کی جدید سائنس میں کشش ثقل کے اصول کے طور پر جانتے ہیں لیکن انسان کی یہ دریافت اتنی پرانی نہیں جتنی پانی کے ڈھلوان کی طرف بہنے کے عمل سے اْس کی شناسائی ہے۔

قدرت نے ایک استاد کی طرح انسان کو ہر اْس عمل سے روشناس کروایا ہے جو اْس کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہو سکتاتھا اور اشرف المخلوقات نے بھی ایک ذہین شاگرد کی طرح اْس سے استفادہ اْٹھانے کے لیے وہ تمام طریقے اور اصول دریافت کیے اور اْن کا استعمال کیا جو قدرت کے نظام سے مطابقت رکھتے ہوں یوں قدرت اْس پر مہربان رہی اور وہ اس کی فیاضیوں سے استفادہ کرتا رہا لیکن جیسے جیسے بشری ضروریات میں اضافہ ہو تا گیا ویسے ویسے ہم آھنگی اور مطابقت کایہ نظام کمزور پڑتا چلا گیا اور لوک دانش پرمبنی ماحول دوست طریقہ کار ماضی کی کہانی بنتے گئے اور اْن کی جگہ ایسے طریقوں نے لے لی جو قدرتی وسائل کو ان کی گنجائش سے زیادہ استعمال کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئے اور ایسا ہی کچھ بلوچستان میں پانی کی ترسیل کے قدیم طریقہ کار ًکاریز ً کے ساتھ بھی ہوا۔

لفظ ''کاریز'' فارسی زبان سے لیا گیا ہے( اس کے علاوہ فارسی میں اسے قنات بھی کہا جاتا ہے) جو پانی کی ترسیل اور استعمال کا تین ہزار سال پرانا وہ طریقہ کار ہے جس میں انسان کی اْس اعلیٰ فہم وفراست کا ثبوت موجزن ہے جس کے تحت اْس نے مقامی ماحول اور قدرت کے نظام سے مطابقت رکھتے ہوئے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے پانی کی دستیابی کا ایک ایسا نظام وضع کیا جس کی تعمیر، نگہداشت اور استعمال میں وہ اکیلا نا ہو بلکہ اْس کے اردگرد رہنے والے تمام افراد کی یہ مشترکہ ملکیت اور ذمہ داری ہو کہ وہ اس نظام کو کار آمد اور موثر رکھیں۔

اس نظام کا آغاز شمال مغربی ایران سے ہوا جہاں اسے سلک روٹ کے ساتھ ساتھ چین کی طرف تو سیع ملی اور مغرب کی طرف شمالی افریقہ، قبرص، کینری آئی لینڈ اور سپین تک یہ نظام اپنا یا گیا اور اب بھی سوسائٹی فارکنزرویشن اینڈ پروٹیکشن انوائرمنٹ کراچی کے ڈاکٹر تنویر عارف کے مطابق 22 ممالک میں کاریز کے ذریعے آبپاشی کا نظام رائج ہے اور اسے 20 مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ان ممالک میںچین، چلی، پاکستان ، ایران، افغانستان، فلسطین، شمالی افریقہ اور عرب خطے کے ممالک نمایا ں ہیں۔

کاریز کا نظام پورے پاکستان میں صرف بلوچستان کے علاقے میں ہی موجود ہے اور یہاں پر ایک پورے علاقے کا نام کاریزات ہے۔ یہ نظام اپنی نوعیت کے حوالے سے انجیئنرنگ کاشاہکار ہے۔ اس کی تاریخ صوبے میں لگ بھگ ایک ہزار سال پرانی ہے جس کی تصدیق مکران کے علاقے میں کھدائی کے دوران ملنے والی کاریزات سے ہوتی ہے۔ کاریزات کو ذرائع آبپاشی میں بلوچستان کا زیر زمین نہری نظام بھی کہا جاسکتا ہے اور یہ طریقہ کا ر عموماً پہاڑی علاقوں میں رائج ہے جہاں پہاڑ کے دامن سے پھوٹنے والے چشموں اور جھرنوں کے پانی کو میلوں دور تک لوگوں کی ضرورت کے لیے پہنچایا جاتا ہے جس کے لیے پہاڑکے دامن میں ڈھلوان پر پہلا کنواں کھوداجاتا ہے جسے ماخذکنواں(Mother Well)کہا جاتا ہے جس میں چشمے پھوٹتے ہیں جس کے بعد کنویں میں ڈھلوان کی جانب پانی کی سطح کے برابر زیر زمین ایک سرنگ بنائی جاتی ہے اور 50 سے 100میٹر کے فاصلے پر دوسرا کنواں کھودا جاتاہے جس کی ایک طرف سے یہ سرنگ داخل اور دوسری طرف سے خارج ہوتی ہے اسی طرح مختلف تعداد میں کنویں کھود کر انھیں آپس میں زمین دوز سرنگ کے ذریعے ملا دیا جاتا ہے۔ اْن میں سے شروع کے کنوؤں کی تہہ سے پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں جس کے باعث پانی کا بہاؤڈھلوان کی طر ف جاری رہتا ہے اور کاریز کی سرنگ جو ں جوں آگے بڑھتی ہے اس کی سطح زمین سے قریب تر ہوتی جاتی ہے اور ایک خاص مقام پر یہ سرنگ سطح زمین سے مل جا تی ہے۔

کاریز کے لیے بنائے گئے کنوؤں کے ذریعے وقتاً فو قتاً کاریز کی صفائی بھی کی جاتی ہے اس کے علاوہ ان کنوؤ ں سے تازہ ہوا اور سورج کی روشنی بھی ان زمین دوز نالیوں تک پہنچتی ہے جو پانی کو صاف رکھنے کے لیے ضروری ہے، علاوہ ازیں یہ کنوئیں بارش کے پانی کو بھی بہتر طور پر TAB کرتے ہیں اور اسے بے مصرف بہنے کی بجائے اپنے ڈسچارج کا حصہ بناتے ہیں۔کاریزوںکا نظام دراصل ایسے علاقوں کیلئے انتہائی مفید ہے جہاں سطح زمین پر پانی کے ذخیرہ اور ترسیل کی گنجائش بہت محدود ہو اور آب و ہوا گرم و خشک ہو جس کے باعث سطح زمین پر پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے کا عمل تیز ہو ۔کاریزکی زمین دوز نالیاں پانی کی ترسیل اور کنویں پانی کو ذخیرہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور یہ زمین دوز انفراسٹریکچر پانی کو دھوپ کی براہ راست تمازت سے بچاتا ہے جس کے باعث پانی بخارات کی شکل اختیار نہیں کرتا اور بغیر کسی زیاں کے صارف تک پہنچ جاتا ہے۔

بلوچستان کی پائیداری ترقی کی حکمت عملی (بی سی ایس)کے مطابق '' کاریز عام طور پر آبادیوں کے باہمی تعاون سے تعمیر کی جاتی ہے ان سے 200 لیٹر پانی فی سیکنڈ منتقل کیا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ایک علاقے کے 200 خاندان کیلئے کافی ہوتا ہے اور اس سے اندازاً 10تا 20 سیکنڈ زرعی رقبہ باآسانی زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔ کاریز کے پانی کی تقسیم اور اختیار کی بنیاد باہمی شراکت داری پر استوارہوتی ہے اور ہر شراکت دار اپنے حصے کے پانی کا مختار کل تصور کیا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے 1970کی دھائی میں بین الاقوامی تعاون سے ہونے والے اریگشن سروے میں کاریز کو روایتی،دقیانو سی اور ناقابل ترمیم نظام قرار دیا گیا چونکہ یہ وہ وقت تھا جب صوبے میں ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویل متعارف ہو چکے تھے جس کی وجہ سے پانی کی زیادہ مقدار میں دستیابی کے حصول کا رجحا ن شروع ہوا اور 1970کے بعد جوں جوں ترقی کے ثمرات بجلی اور اس سے چلنے والی مشینوں کی شکل میں یہاں پہنچتے گئے ویسے ویسے ہی کاریز کے نظام کے مردہ ہونے کا عمل شروع ہو گیا۔


بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کی بغیرکسی منصوبہ بندی کی بھرمار نے زیر زمین پانی کے ذخائر پر بْرا اثر ڈالا اور پانی کھینچنے کے جدید طریقوں سے متعارف ہو کر مقامی لوگوں نے بھی کاریزوں کی جانب سے رخ موڑنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے کاریزوں کی بڑی تعداد خشک ہو گئی۔ اور1998تا 2006 کے دوران شدید خشک سالی نے صورتحال کو اور زیادہ متاثر کردیا۔ خشک سالی کے اس عرصہ کے دوران محکمہ اری گیشن اینڈ پاور بلوچستان کے صوبے میں کاریزوں کی تعداد کے بارے میں کئے جانے والے سروے میں بلوچستان میں 1146 کاریزوں کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی۔ لیکن ان میں اُس وقت کتنی کاریزیں زندہ یعنی فعال تھیں اور موجودہ کیا صورتحال ہے ؟

اس حوالے سے مستند اعدادوشمارکا فقدان ہے۔ کیونکہ لوگوں کی عدم توجہ اور زمینداروں کے کاریزوں کے ماخذکنووں پر ٹیو ب ویل نصب کرنے سے کاریزوں کی بقاء کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ حالانکہ قانون کے تحت کاریزات کے گرد و نواح میں 500 میٹر تک ٹیوب ویل لگانا منع ہے مگر اس قانون کی پا سداری بھی دیگر قوانین کی طرح سرد خانے کی نذر ہو گئی۔ اور اس پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ زیادہ پانی کے حصول کے لئے ٹیوب ویل بغیر کسی پلاننگ کے خوب چلتے رہے جس سے رفتہ رفتہ زیر زمین پانی کے ذخائر تنزلی کا شکار ہوتے گئے۔ لیکن اس کے برعکس ٹیوب ویل کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا جس کا اندازہ ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1973-74میں صوبے میں صرف 2 ہزار 377 ٹیوب ویل تھے جو 2002-03 میں بڑھ کر 31 ہزار 794تک جا پہنچے اور سال 2013-14 تک ان کی تعداد 42 ہزار 5 سو 42 تک آ چکی ہے۔

یوں صوبے میں ٹیوب ویلوں کی تعداد میں 1973-2014 کے دوران 1690 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ صوبے میں ٹیوب ویلوں کی تعداد میںاضافے کا ایک اوررخ یہ بھی ہے کہ صوبے میں 1991-92تا 2013-14 تک زرعی کنکشنوں (صارفین) کی تعداد میں 208 فیصد اضافہ ہوا جو 9 ہزار 300 سے بڑھ کر 28 ہزار 630 ہو چکے ہیں اور اس وقت صوبے کا کل زیر آبپاش رقبہ کا 39 فیصد ٹیوب ویلوں کے ذریعے سیراب کیاجارہا ہے جو 2002-03 تک 32 فیصد ہوتا تھا جبکہ کاریزات اور چشموں کے ذریعے سیراب ہونے والارقبہ اس وقت کل زیرآبپاش رقبہ کا صرف 4.55 فیصد ہے جو 2002-03 تک 10.27 فیصد ہوتا تھا۔

بلوچستان کی جغرافیائی صورت حال کے باعث عموماً ہر دس میں سے دو یاتین سال کم بارش و برف باری کے باعث خشک سالی کے ہوتے ہیں اور تواتر سے ہونے والی خشک سالی اور برف باری میں کمی نے سطح اور زیر زمین پانی کی دستیابی کی صورت حال کو سنگین بنادیا ہے۔ صوبے میں بارشوں کے کم ہونے اور سطح زمین پر پانی ذخیرہ کرنے کے محدود ذرائع کی وجہ سے آبی ذخائر کے تجدیدی عمل میں رکاوٹ آرہی ہے۔ اور زمین سے پانی کھینچ کر ضروریات پوری کرنے کا عمل جاری وساری ہے۔ جس سے زیر زمین پانی کی سطح مزید نیچے گرتی چلی جارہی ہے۔

واٹر فار بلوچستان، پالیسی بریفنگ نامی رپورٹ ( جو کہ حکومت بلوچستان، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک اور نیدر لینڈ حکومت کے باہمی اشتراک پر مبنی ایک پراجیکٹ کی دستاویز ہے ) کے مطابق بلوچستان میں اوسطً سالانہ زیر زمین پانی کا ری چارج2.21 ارب مکعب میٹر ہے۔ جبکہ2006-07 کے دوران صوبے میں 2.659 ارب مکعب میٹر پانی زمین سے نکالا گیا۔ یوں مذکورہ سال0.459 مکعب میٹر اضافی پانی زمین سے کھینچا گیا۔ یہ حقائق اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ صوبے میں زیر زمین سے پانی کا حصول اُس کی گنجائش سے زیادہ کیا جا رہا ہے جس کے باعث زیر زمین پانی کی سطح ایک سے تین میٹر سالانہ تک گر رہی ہے۔ اور اس کا براہ راست اثرصوبے میں موجود کاریز ات پر بھی پڑ رہا ہے۔

یوں زراعت، مویشی پروری، باغبانی اور سب سے بڑھ کر انسانی استعمال کے لئے کاریزوں کے پانی کی مقدار میں کمی آتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں کاریزات کی اہمیت کو اور زیادہ شدت سے محسوس کیا جانے لگا ہے۔ اس کی تائید عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں بھی کی او ر اسے بلوچستان کے مخصوص جغرافیائی ماحول اور حالات کے پیش نظر موثرقرار دیا ہے اس تناظر میں صوبے کی مردہ کاریزات کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جس میں ایک غیر سرکاری تنظیم SPO اور بقائے ماحول کی عالمی انجمن (IUCN )کا کا م کافی نمایاں ہے اس کے علاوہ کئی اور غیر سرکاری تنظیمیں اور صوبائی حکومت بھی صوبے میں کاریزوں کی بحالی کے لیے سرگرم ہیںاور مقامی آبادی نے گرم جوشی سے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

کاریزات کا نظام بلوچستان کے سماجی اور معاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ پانی کی ترسیل کا کم خرچ اورسہل ترین یہ نظام جو صدیوں تک فعال رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے ہماری غفلت سے تباہی و بربادی کے دہانے تک جا پہنچا ہے۔ اس کی بحالی کے لیے ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے بہت جلد کرنا ہے ایسا نہ ہو کہ پھرہما رے پاس تلافی کا کوئی راستہ نہ رہے۔
Load Next Story