سی آئی اور پینٹاگون آمنے سامنے
سرزمین شام پر امریکی حمایت یافتہ گروپ باہم دست بہ گریباں
سرزمین شام پچھلے پانچ سال سے پراکسی وار کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ صدر بشارالاسد کی حکومت کو روس و ایران کی عملی حمایت حاصل ہے تو سرکاری فوجوں سے برسرپیکار گروپوں کی پُشت پناہی امریکی سی آئی اے اور پینٹاگون کررہے ہیں۔
پانچ برس قبل بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والا عوامی احتجاج، سرکاری فوجوں کی جوابی مسلح کارروائی اور داعش اور حزب اﷲ جیسے گروپوں اور روس، ایران، امریکا اور سعودی عرب جیسے ممالک کی مداخلت کے نتیجے میں خانہ جنگی میں ڈھل گیا۔ عسکری ماہرین کے مطابق شام کی سرزمین پر پراکسی وار لڑی جارہی ہے۔ روس و ایران، اور امریکا و سعودی عرب اس جنگ کے اہم فریق ہیں۔ داعش، القاعدہ اور دوسرے گروپوں کے خلاف بشارالاسد کی افواج کو روس کی فضائی اور ایران کی زمینی مدد حاصل ہے۔ اگرچہ فروری کے اواخر میں دونوں بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان شام میں جنگ بندی پر اتفاق کے بعد بیشتر روسی افواج واپس جاچکی ہیں، مگر سرکاری فوجوں اور بالخصوص دولت اسلامیہ کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے معتبر ادارے ' سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' (ایس او ایچ آر) کے مطابق خانہ جنگی کے دوران اب تک مجموعی طور پر پونے پانچ لاکھ ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ عوام بے گھر اور چالیس لاکھ سے زاید مختلف ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
شامی سرزمین پر سرکاری افواج سے برسرپیکار کئی گروپ امریکی جنگی مشینری کے تربیت یافتہ ہیں۔ انھیں سی آئی اے اور پینٹاگون کی جانب سے مالی امداد اور ہتھیار ملتے رہے ہیں۔ اصولی طور پر انھیں اپنے مشترکہ دشمن سے لڑنا چاہیے، مگر یہ گروپ آپس میں ہی لڑنے لگے ہیں۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ امریکی انٹیلی جینس کے افسران اور منصوبہ سازوں کی ان گروپوں پر گرفت کم زور پڑگئی ہے، جنھیں پانچ سالہ خانہ جنگی کے دوران تربیت اور مالی امداد فراہم کی جاتی رہی ہے۔
سی آئی اے اور پینٹاگون کے درمیان یہ 'جنگ' حلب کے تاریخی شہر اور ترک سرحد کے درمیانی میدانوں میں لڑی جارہی ہے۔ پچھلے دو ماہ کے دوران ان گروپوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں شدت آگئی ہے۔ حلب کے شمالی مضافاتی علاقے میں ان گروپوں کے اراکین اکثر و بیشتر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں کی امریکی حکام اور ان گروپوں کے لیڈر بھی تصدیق کرچکے ہیں۔
فروری کے وسط میں سی آئی اے کے حمایت یافتہ مزاحمتی گروپ فرسان الحق کو حلب کے شمال میں بیس میل کے فاصلے پر واقع مارع کے قصبے سے قوات سوریا الدیمقراطیۃ (سیرین ڈیموکریٹک فورسز ) نے مار بھگایا۔ کُردوں کے زیرتسلط علاقے سے مشرق کی جانب بڑھتی ہوئی اس ملیشیا کو پینٹاگون کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ فرسان الحق کے لیڈر فیئرس بایوش کہتے ہیں،''جو بھی ہم پر حملہ آور ہوگا ہم اس کا مقابلہ کریں گے، قطع نظر اس کے کہ اس کی پُشت پر کون ہے۔'' جنگ جُو گروپوں کے درمیان اس نوع کی جھڑپیں عزاز نامی قصبے میں ہوئیں۔ حلب اور ترک سرحد کے درمیان واقع یہ قصبہ جنگ جُووں کے لیے رسد کی فراہمی کا اہم مرکز ہے۔ تین مارچ کو حلب کے نواح میں واقع قصبے شیخ مقصود میں بھی ان گروپوں کے درمیان جھڑپوں کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں۔
ایک دوسرے سے برسرپیکار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے بھی کوشاں ہیں اور اور داعش سے بھی جنگ کررہے ہیں۔ امریکا ان گروپوں کو متحد کرنا چاہتا ہے مگر ان کا ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوجانا اس امر کا مظہر ہے کہ امریکا کو انھیں باندھ کر رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کا اظہار امریکی حکام بھی کررہے ہیں۔ ایوان نمائندگان کی ہاؤس انٹیلی جینس کمیٹی کے رکن اور ایڈم شیف امریکی حمایت یافتہ گروپوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ کو 'ایک نیا مظہر' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکا کے لیے یہ بہت بڑا چیلینج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام کا میدان جنگ ایک سہ جہتی شطرنج ہے اور یہ 'مظہر' اس کا ایک حصہ ہے۔
شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب کے قرب و جوار کے علاقے میں نہ صرف بشارالاسد کی حکومت اور اس کے مخالفین کے درمیان جنگ جاری ہے بل کہ یہاں دولت اسلامیہ کے جنگ جوؤں کے خلاف بھی وقفے وقفے سے خون ریز لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ملک کے بیشتر شمالی حصے پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں شہر کے شمال مغرب میں بھی کچھ علاقہ ان کے زیرتسلط ہے۔ مسلح گروپوں کے علاوہ اس علاقے کی مقامی آبادی کے عربوں، کُردوں اور ترکوں کے درمیان بھی تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یوں حلب کا مضافاتی علاقہ مسلسل جنگی کیفیت میں ہے۔
اس منظرنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے ذرائع ابلاغ سے کہا،''یہ ایک پیچیدہ، کثیر فریقی جنگ ہے جس میں ہمارے آپشن بہت محدود ہیںِ۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں سرزمین شام پر ایک پارٹنر کی ضرورت ہے جس کے بغیر ہم دولت اسلامیہ کو شکست نہیں دے سکتے۔ چناں چہ ہم ان گروپوں سے تعلق کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔''
امریکی صدر باراک اوباما نے حال ہی میں پینٹاگون کے ایک نئے منصوبے کی منظوری دی ہے جس کے تحت شام میں داعش سے برسرپیکار مسلح جنگ جوؤں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔ ماضی میں امریکی تربیت یافتہ کئی جنگ جُو القاعدہ کے اتحادی گروپ سے جا ملے تھے۔ وہ اپنے ساتھ امریکی اسلحہ اور ٹرک وغیرہ بھی لے گئے تھے۔ اس طرح کے کئی واقعات پیش آنے کے بعد جنگ جوؤں کی تربیت اور انھیں اسلحے کی فراہمی کا سلسلہ معطل کردیا گیا تھا، جسے اب پھر سے شروع کیا جارہا ہے۔
جنگ جوؤں کی 'بے وفائی' کے واقعات پیش آنے کے دوران ہی، گذشتہ برس کے اواخر میں پینٹاگون نے شمال مشرقی شام میں، جہاں کُردوں کا کنٹرول ہے، خصوصی فورسز کے پچاس اہل کار تعینات کیے تھے۔ ان کی تعیناتی کا مقصد مقامی ملیشیاؤں سے بہتر طور سے رابطہ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ امریکی حمایت یافتہ جنگ جُو گروپ ایک دوسرے سے برسرپیکار نہ ہوں۔ مگر اس اقدام کا بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ گروپوں کے درمیان جھڑپیں اسی طرح جاری ہیں۔
گذشتہ برس پینٹاگون کی کوششوں سے ایک نیا عسکری اتحاد وجود میں آیا تھا۔ اس اتحاد کو قوات سوریا ا الدیمقراطیۃ (سیرین ڈیموکریٹک فورسز) کا نام دیا گیا تھا۔ پینٹاگون کا مقصد اس گروپ کو شمال مشرقی شام میں داعش سے مقابلے کے لیے تیار کرنا تھا۔ علاوہ ازیں یہ گروپ فضائی حملوں کے لیے بھی معلومات فراہم کرتا۔ اس عسکری اتحاد میں کُرد جنگ جُو گروپوں جیسے پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کو غلبہ حاصل ہے۔
امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ اور یو ایس اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے سابق کمانڈر جنرل جوزف ووٹل کے مطابق سیرین ڈیموکریٹک فورسز میں لڑنے والے 80 فی صد جنگ جُو کُرد ہیں۔ تاہم سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے بارے میں حملہ آور کُرد فوج کا تأثر زائل کرنے کے لیے کچھ عرب گروپ بھی اس اتحاد کا حصہ بنائے گئے۔ اس اتحاد کو امریکا کی اسپیشل فورسز کے طیاروں نے ہتھیار اور دیگر سامان حرب فراہم کیا۔ کُرد اکثریت پر مشتمل مسلح فوج کی تخلیق پر امریکا اور ترکی کے تعلقات میں تناؤ آگیا، جو نہیں چاہتا تھا کہ اس کی جنوبی سرحد کے ساتھ لگنے والا بیشتر علاقہ کُردوں کے زیرتسلط آجائے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب پینٹاگون نے ترک حکومت کی خواہش کے برعکس کُرد اکثریت پر مشتمل فوجی اتحاد تشکیل دیا تو دوسری جانب سی آئی اے کا آپریشن سینٹر ترک سرزمین پر ہی واقع ہے جہاں سے وہ شام کے باغی جنگ جُو گروپوں کو امداد اور ٹینک شکن میزائل سمیت بھاری اسلحہ فراہم کررہی ہے۔
پینٹاگون کے اقدامات امریکا اور اس کے اتحادیوں کی داعش کے خلاف کُھلی کوششوں کا حصہ ہیں تو دوسری جانب سی آئی اے کی جانب سے باغی گروپوں کی حمایت امریکی حکومت کی مخفی حکمت عملی کا جزو ہے جس کا مقصد شامی صدر پر دباؤ بڑھاتے ہوئے انھیں مذاکرات کی میز تک آنے پر مجبور کرنا ہے۔
ابتدا میں امریکا سے امداد لینے والے مسلح گروپ شام کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کررہے تھے۔ پینٹاگون کی تخلیق کردہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز شمال مشرقی اور سی آئی اے کے حمایت یافتہ باغی گروپ انتہائی مغربی حصے میں مصروف کار تھے۔ تاہم گذشتہ مہینوں کے دوران شمال مغربی شام میں بشارالاسد کے مخالف گروپوں پر روسی طیاروں کی بم باری نے انھیں کم زور کردیا ہے۔ چناں چہ کُرد اکثریتی گروپوں کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنا کنٹرول حلب کے مضافات تک وسیع کرسکیں۔
اس کوشش کے نتیجے میں سی آئی اے کے حمایت یافتہ باغی گروپوں کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہونے لگیں جو اب معمول بن چکی ہیں۔ ان گروپوں کو باہم الجھنے سے روکنا امریکی انتظامیہ کے لیے دردِسر بن گیا ہے۔ اس کا اظہار نکولس ہیرس بھی کرتے ہیں۔ نکولس سینٹر فار اے نیو امریکن سیکیورٹی نامی تھنک ٹینک سے وابستہ اور شام میں جاری خانہ جنگی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،''حلب میں قبضے کی جنگ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کے لیے ان جھڑپوں کو روکنا کتنا مشکل ہوچکا ہے۔'' نکولس کا یہ بھی کہنا ہے کہ گروپوں کے باہمی تصادم کا انسداد ترکی کے ساتھ جوائنٹ آپریشن روم میں ہونے والی گفتگو کا مستقل موضوع بنا ہوا ہے۔
مارع کو خانہ جنگی کے پورے عرصے کے دوران، حلب میں سے گزرکر شمالی شام کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے داعش کی کوششوں میں اگلے محاذ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اٹھارہ فروری کو سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے اس قصبے پر چڑھائی کردی تھی۔ سی آئی اے کے حمایت یافتہ گروپ صقور الجبل بریگیڈ کے ایک جنگ جُو نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ امریکی سربراہی میں داعش سے لڑنے والے گروپ کے انٹیلی جینس افسران کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ان کا گروپ پینٹاگون کے تربیت یافتہ ملیشیا سے بھڑ گیا ہے۔ اہل کار کاکہنا تھا،''جوائنٹ آپریشن روم کو خبر تھی کہ ہم اس سے لڑ رہے ہیں۔۔۔۔ ہم ان سب کا مقابلہ کریں گے جو شام کو تقسیم یا یہاں کے لوگوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔''
2011 ء میں عرب ممالک میں اٹھنے والی احتجاج کی لہر کے دوران بشارالاسد کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے بیشتر جنگ جُوؤں کا تعلق مارع سے ہے۔ ترکی سے حلب تک پہنچنے والے سامان رسد اور جنگ جوؤں کے لیے یہ قصبہ ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہیرس کے مطابق سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی جانب سے مارع پر چڑھائی 'بے وفائی' کی بڑی مثال تھی۔ امریکا کی جانب سے سفارتی دباؤ ڈالنے پر یہ عسکری اتحاد قصبے کا کنٹرول چھوڑ کر اس کے مضافات تک محدود ہوگیا تھا۔
شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ امریکی حمایت یافتہ یہ گروپ باہم دست بہ گریباں ہونے سے باز رہیں گے، کیوںکہ ایک بار جب یہ جنگ جُو سرحد پار کرکے شام میں داخل ہوجائیں تو پھر انھیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی استعداد کم ہوجاتی ہے۔
پانچ برس قبل بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والا عوامی احتجاج، سرکاری فوجوں کی جوابی مسلح کارروائی اور داعش اور حزب اﷲ جیسے گروپوں اور روس، ایران، امریکا اور سعودی عرب جیسے ممالک کی مداخلت کے نتیجے میں خانہ جنگی میں ڈھل گیا۔ عسکری ماہرین کے مطابق شام کی سرزمین پر پراکسی وار لڑی جارہی ہے۔ روس و ایران، اور امریکا و سعودی عرب اس جنگ کے اہم فریق ہیں۔ داعش، القاعدہ اور دوسرے گروپوں کے خلاف بشارالاسد کی افواج کو روس کی فضائی اور ایران کی زمینی مدد حاصل ہے۔ اگرچہ فروری کے اواخر میں دونوں بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان شام میں جنگ بندی پر اتفاق کے بعد بیشتر روسی افواج واپس جاچکی ہیں، مگر سرکاری فوجوں اور بالخصوص دولت اسلامیہ کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے معتبر ادارے ' سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' (ایس او ایچ آر) کے مطابق خانہ جنگی کے دوران اب تک مجموعی طور پر پونے پانچ لاکھ ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ عوام بے گھر اور چالیس لاکھ سے زاید مختلف ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
شامی سرزمین پر سرکاری افواج سے برسرپیکار کئی گروپ امریکی جنگی مشینری کے تربیت یافتہ ہیں۔ انھیں سی آئی اے اور پینٹاگون کی جانب سے مالی امداد اور ہتھیار ملتے رہے ہیں۔ اصولی طور پر انھیں اپنے مشترکہ دشمن سے لڑنا چاہیے، مگر یہ گروپ آپس میں ہی لڑنے لگے ہیں۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ امریکی انٹیلی جینس کے افسران اور منصوبہ سازوں کی ان گروپوں پر گرفت کم زور پڑگئی ہے، جنھیں پانچ سالہ خانہ جنگی کے دوران تربیت اور مالی امداد فراہم کی جاتی رہی ہے۔
سی آئی اے اور پینٹاگون کے درمیان یہ 'جنگ' حلب کے تاریخی شہر اور ترک سرحد کے درمیانی میدانوں میں لڑی جارہی ہے۔ پچھلے دو ماہ کے دوران ان گروپوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں شدت آگئی ہے۔ حلب کے شمالی مضافاتی علاقے میں ان گروپوں کے اراکین اکثر و بیشتر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں کی امریکی حکام اور ان گروپوں کے لیڈر بھی تصدیق کرچکے ہیں۔
فروری کے وسط میں سی آئی اے کے حمایت یافتہ مزاحمتی گروپ فرسان الحق کو حلب کے شمال میں بیس میل کے فاصلے پر واقع مارع کے قصبے سے قوات سوریا الدیمقراطیۃ (سیرین ڈیموکریٹک فورسز ) نے مار بھگایا۔ کُردوں کے زیرتسلط علاقے سے مشرق کی جانب بڑھتی ہوئی اس ملیشیا کو پینٹاگون کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ فرسان الحق کے لیڈر فیئرس بایوش کہتے ہیں،''جو بھی ہم پر حملہ آور ہوگا ہم اس کا مقابلہ کریں گے، قطع نظر اس کے کہ اس کی پُشت پر کون ہے۔'' جنگ جُو گروپوں کے درمیان اس نوع کی جھڑپیں عزاز نامی قصبے میں ہوئیں۔ حلب اور ترک سرحد کے درمیان واقع یہ قصبہ جنگ جُووں کے لیے رسد کی فراہمی کا اہم مرکز ہے۔ تین مارچ کو حلب کے نواح میں واقع قصبے شیخ مقصود میں بھی ان گروپوں کے درمیان جھڑپوں کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں۔
ایک دوسرے سے برسرپیکار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے بھی کوشاں ہیں اور اور داعش سے بھی جنگ کررہے ہیں۔ امریکا ان گروپوں کو متحد کرنا چاہتا ہے مگر ان کا ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوجانا اس امر کا مظہر ہے کہ امریکا کو انھیں باندھ کر رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کا اظہار امریکی حکام بھی کررہے ہیں۔ ایوان نمائندگان کی ہاؤس انٹیلی جینس کمیٹی کے رکن اور ایڈم شیف امریکی حمایت یافتہ گروپوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ کو 'ایک نیا مظہر' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکا کے لیے یہ بہت بڑا چیلینج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام کا میدان جنگ ایک سہ جہتی شطرنج ہے اور یہ 'مظہر' اس کا ایک حصہ ہے۔
شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب کے قرب و جوار کے علاقے میں نہ صرف بشارالاسد کی حکومت اور اس کے مخالفین کے درمیان جنگ جاری ہے بل کہ یہاں دولت اسلامیہ کے جنگ جوؤں کے خلاف بھی وقفے وقفے سے خون ریز لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ملک کے بیشتر شمالی حصے پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں شہر کے شمال مغرب میں بھی کچھ علاقہ ان کے زیرتسلط ہے۔ مسلح گروپوں کے علاوہ اس علاقے کی مقامی آبادی کے عربوں، کُردوں اور ترکوں کے درمیان بھی تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یوں حلب کا مضافاتی علاقہ مسلسل جنگی کیفیت میں ہے۔
اس منظرنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے ذرائع ابلاغ سے کہا،''یہ ایک پیچیدہ، کثیر فریقی جنگ ہے جس میں ہمارے آپشن بہت محدود ہیںِ۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں سرزمین شام پر ایک پارٹنر کی ضرورت ہے جس کے بغیر ہم دولت اسلامیہ کو شکست نہیں دے سکتے۔ چناں چہ ہم ان گروپوں سے تعلق کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔''
امریکی صدر باراک اوباما نے حال ہی میں پینٹاگون کے ایک نئے منصوبے کی منظوری دی ہے جس کے تحت شام میں داعش سے برسرپیکار مسلح جنگ جوؤں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔ ماضی میں امریکی تربیت یافتہ کئی جنگ جُو القاعدہ کے اتحادی گروپ سے جا ملے تھے۔ وہ اپنے ساتھ امریکی اسلحہ اور ٹرک وغیرہ بھی لے گئے تھے۔ اس طرح کے کئی واقعات پیش آنے کے بعد جنگ جوؤں کی تربیت اور انھیں اسلحے کی فراہمی کا سلسلہ معطل کردیا گیا تھا، جسے اب پھر سے شروع کیا جارہا ہے۔
جنگ جوؤں کی 'بے وفائی' کے واقعات پیش آنے کے دوران ہی، گذشتہ برس کے اواخر میں پینٹاگون نے شمال مشرقی شام میں، جہاں کُردوں کا کنٹرول ہے، خصوصی فورسز کے پچاس اہل کار تعینات کیے تھے۔ ان کی تعیناتی کا مقصد مقامی ملیشیاؤں سے بہتر طور سے رابطہ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ امریکی حمایت یافتہ جنگ جُو گروپ ایک دوسرے سے برسرپیکار نہ ہوں۔ مگر اس اقدام کا بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ گروپوں کے درمیان جھڑپیں اسی طرح جاری ہیں۔
گذشتہ برس پینٹاگون کی کوششوں سے ایک نیا عسکری اتحاد وجود میں آیا تھا۔ اس اتحاد کو قوات سوریا ا الدیمقراطیۃ (سیرین ڈیموکریٹک فورسز) کا نام دیا گیا تھا۔ پینٹاگون کا مقصد اس گروپ کو شمال مشرقی شام میں داعش سے مقابلے کے لیے تیار کرنا تھا۔ علاوہ ازیں یہ گروپ فضائی حملوں کے لیے بھی معلومات فراہم کرتا۔ اس عسکری اتحاد میں کُرد جنگ جُو گروپوں جیسے پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کو غلبہ حاصل ہے۔
امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ اور یو ایس اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے سابق کمانڈر جنرل جوزف ووٹل کے مطابق سیرین ڈیموکریٹک فورسز میں لڑنے والے 80 فی صد جنگ جُو کُرد ہیں۔ تاہم سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے بارے میں حملہ آور کُرد فوج کا تأثر زائل کرنے کے لیے کچھ عرب گروپ بھی اس اتحاد کا حصہ بنائے گئے۔ اس اتحاد کو امریکا کی اسپیشل فورسز کے طیاروں نے ہتھیار اور دیگر سامان حرب فراہم کیا۔ کُرد اکثریت پر مشتمل مسلح فوج کی تخلیق پر امریکا اور ترکی کے تعلقات میں تناؤ آگیا، جو نہیں چاہتا تھا کہ اس کی جنوبی سرحد کے ساتھ لگنے والا بیشتر علاقہ کُردوں کے زیرتسلط آجائے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب پینٹاگون نے ترک حکومت کی خواہش کے برعکس کُرد اکثریت پر مشتمل فوجی اتحاد تشکیل دیا تو دوسری جانب سی آئی اے کا آپریشن سینٹر ترک سرزمین پر ہی واقع ہے جہاں سے وہ شام کے باغی جنگ جُو گروپوں کو امداد اور ٹینک شکن میزائل سمیت بھاری اسلحہ فراہم کررہی ہے۔
پینٹاگون کے اقدامات امریکا اور اس کے اتحادیوں کی داعش کے خلاف کُھلی کوششوں کا حصہ ہیں تو دوسری جانب سی آئی اے کی جانب سے باغی گروپوں کی حمایت امریکی حکومت کی مخفی حکمت عملی کا جزو ہے جس کا مقصد شامی صدر پر دباؤ بڑھاتے ہوئے انھیں مذاکرات کی میز تک آنے پر مجبور کرنا ہے۔
ابتدا میں امریکا سے امداد لینے والے مسلح گروپ شام کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کررہے تھے۔ پینٹاگون کی تخلیق کردہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز شمال مشرقی اور سی آئی اے کے حمایت یافتہ باغی گروپ انتہائی مغربی حصے میں مصروف کار تھے۔ تاہم گذشتہ مہینوں کے دوران شمال مغربی شام میں بشارالاسد کے مخالف گروپوں پر روسی طیاروں کی بم باری نے انھیں کم زور کردیا ہے۔ چناں چہ کُرد اکثریتی گروپوں کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنا کنٹرول حلب کے مضافات تک وسیع کرسکیں۔
اس کوشش کے نتیجے میں سی آئی اے کے حمایت یافتہ باغی گروپوں کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہونے لگیں جو اب معمول بن چکی ہیں۔ ان گروپوں کو باہم الجھنے سے روکنا امریکی انتظامیہ کے لیے دردِسر بن گیا ہے۔ اس کا اظہار نکولس ہیرس بھی کرتے ہیں۔ نکولس سینٹر فار اے نیو امریکن سیکیورٹی نامی تھنک ٹینک سے وابستہ اور شام میں جاری خانہ جنگی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،''حلب میں قبضے کی جنگ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کے لیے ان جھڑپوں کو روکنا کتنا مشکل ہوچکا ہے۔'' نکولس کا یہ بھی کہنا ہے کہ گروپوں کے باہمی تصادم کا انسداد ترکی کے ساتھ جوائنٹ آپریشن روم میں ہونے والی گفتگو کا مستقل موضوع بنا ہوا ہے۔
مارع کو خانہ جنگی کے پورے عرصے کے دوران، حلب میں سے گزرکر شمالی شام کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے داعش کی کوششوں میں اگلے محاذ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اٹھارہ فروری کو سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے اس قصبے پر چڑھائی کردی تھی۔ سی آئی اے کے حمایت یافتہ گروپ صقور الجبل بریگیڈ کے ایک جنگ جُو نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ امریکی سربراہی میں داعش سے لڑنے والے گروپ کے انٹیلی جینس افسران کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ان کا گروپ پینٹاگون کے تربیت یافتہ ملیشیا سے بھڑ گیا ہے۔ اہل کار کاکہنا تھا،''جوائنٹ آپریشن روم کو خبر تھی کہ ہم اس سے لڑ رہے ہیں۔۔۔۔ ہم ان سب کا مقابلہ کریں گے جو شام کو تقسیم یا یہاں کے لوگوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔''
2011 ء میں عرب ممالک میں اٹھنے والی احتجاج کی لہر کے دوران بشارالاسد کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے بیشتر جنگ جُوؤں کا تعلق مارع سے ہے۔ ترکی سے حلب تک پہنچنے والے سامان رسد اور جنگ جوؤں کے لیے یہ قصبہ ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہیرس کے مطابق سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی جانب سے مارع پر چڑھائی 'بے وفائی' کی بڑی مثال تھی۔ امریکا کی جانب سے سفارتی دباؤ ڈالنے پر یہ عسکری اتحاد قصبے کا کنٹرول چھوڑ کر اس کے مضافات تک محدود ہوگیا تھا۔
شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ امریکی حمایت یافتہ یہ گروپ باہم دست بہ گریباں ہونے سے باز رہیں گے، کیوںکہ ایک بار جب یہ جنگ جُو سرحد پار کرکے شام میں داخل ہوجائیں تو پھر انھیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی استعداد کم ہوجاتی ہے۔