ہزارہا مسلمان شہید کرنے والا یورپ کا مطلوب ترین کرپٹ لیڈر
اس ماہرنفسیات اور شاعر کی ڈرامائی داستان ِحیات جس نے منظم انداز میں بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام کرایا
JOHANNESBURG:
''نفرت کرنا بہت آسان ہے۔ محبت کرنے کے لیے ہمت اور حوصلہ درکار ہوتا ہے۔'' (افریقی کہاوت)
٭٭
2008ء تک ردوان کاراجیچ یورپ کی مطلوب ترین (Most Wanted)شخصیت بن چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان خیر اور شرکا مجموعہ ہے۔ وہ چاہے، تو خیر اپنا لے یا شر کے دامن میں جابیٹھے۔ کاراجیچ نے شر کو ایسے شدومد سے اپنایا کہ شیطان بھی شرما گیا۔ یہ انسان یورپ کے دامن پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی کاراجیچ کا ذکر آئے، باشعور اور انسان دوست یورپی شرم کے مارے منہ چھپانے لگتے ہیں۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ردوان کاراجیچ (Radovan Karadžic)ماہر نفسیات اور شاعر تھا۔ اس کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ۔مگر عملی طور پہ وہ کرپٹ اور ظالم انسان ثابت ہوا۔ یہ حقیقت کاراجیچ کو انوکھا اور متناقص ذی نفس بناڈالتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جو محبت میں شرابور ہو، وہ شاعر بن جاتا ہے۔ مگر کاراجیچ تو سرتاپا نفرت سے لتھڑا ہوا تھا۔پہلے اس نے کرپشن کے سہارے اپنا کیریئر آگے بڑھایا۔جب سیاست میں داخل ہوا تو بوسنیائی مسلمانوں کا اتنا شدید دشمن بنا کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہو گیا۔ اس کے احکامات پر بوسنیائی سربوں نے ایسے ایسے نادر ونایاب طریقوں سے بوسنیائی مسلمانوں پر ظلم توڑے کہ ان کی بابت پڑھ کر انسان تھرا اٹھتا ہے۔ بوسنیائی مسلمانوںکی منظم نسل کشی کرنے کے باعث ہی اسے ''بوسنیا کا قصائی'' کہا گیا۔ حیرت ہے کہ تتلیوں، پھولوں اور ستاروں کی باتیں کرنے والا کاراجیچ عملی زندگی میں معصوم بچوں اور فرشتوں جیسی عورتوںکا بھی خون بہانے والا سفاک قاتل کیسے بن گیا؟
کاراجیچ کے حکم پر بوسنیائی سرب فوج نے 1992ء تا 1995ء مسلمانوں کے دیہات پر دھاوا بولے رکھا۔ فوج کا طریق واردات یہ تھا کہ ایک دیہات میں مرد اور بچے ایک طرف اور خواتین دوسری طرف جمع کرلیے جاتے۔ پہلے گھروں کو آگ لگائی جاتی۔ پھر بیشتر مرد اور بچے گولیوں سے شہید کردیئے جاتے۔ بعدازاں خواتین و لڑکیوں کی بے حرمتی کی جاتی۔ ''موت کے کیمپوں'' میں قید مسلمانوں سے اذیت ناک سلوک کیا جاتا۔
وحشت ناک بات یہ کہ کاراجیچ اور اس کے ساتھی تین سال تک بوسنیا میں مسلمانوں پر خوفناک ظلم و ستم کرتے رہے اور یورپ سمیت سارا مغرب تماشائی بنا رہا۔ کاراجیچ کو روکنے اور ختم کرنے کی باتیں تو بہت ہوئیں مگر ایک بھی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔ چناں چہ اس دوران بوسنیائی سربوں نے تقریباً ایک لاکھ بوسنیائی مسلمان شہید کردیئے جبکہ لاکھوں مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ظالم و جابر کاراجیچ کا راستہ نہ روک کر مغرب نے بے حسی اورنامردمی کا ثبوت دیا جبکہ بوسنیائی مسلمانوں پر ظلم و ستم نے جنگجو اسلامی تنظیموں کو اکسایا کہ وہ مغرب کے خلاف علم جنگ بلند کردیں۔
آخر تین سال بعد سپرپاور نے کاراجیچ کے قتل و غارت گری کے آگے بند باندھا، تو اسے معصوم و بے خطا سمجھ کر جانے دیا گیا۔ وہ پھر بارہ سال تک بھیس بدل کر عیش و عشرت کی زندگی گزارتا رہا۔ یورپ اور سپرپاورز کی سبھی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس خطرناک قاتل کا بال بیکا تک نہ کرسکیں۔
خطرناک مفرور کی تلاش
یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد اس کی ریاستوں میں جو شخصیات خانہ جنگی اور انسانوں کے قتال میں ملوث رہیں، ان پر مقدمہ چلانے کے لیے اقوام متحدہ نے 25 مئی 1993ء کو بین الاقوامی عدالت برائے سابق یوگوسلاویہ کی بنیاد رکھی جس کا صدر دفتر ہالینڈ کے شہر،ہیگ میں واقع ہے۔۔ اس عالمی عدالت نے 24 جولائی 1995ء کو کاراجیچ اور اس کے سفاک و ظالم دست راست اور بوسنیائی سرب فوج کے کمانڈر، جنرل راٹکو مالدک پر فرد جرم عائد کردی۔
لیکن روس اور سربیا کی پشت پناہی سے ہزارہا مسلمانوں کا یہ قاتل جولائی 1996ء تک ریاست جمہوریہ سرپسکا کا صدر بنا رہا جو بوسنیا و ہرگزوینیا کے ایک حصے پر قائم کی گئی تھی۔ جب امریکا، برطانیہ وغیرہ نے سرب حکومت اور بوسنیائی سربوں پر زور دیا کہ کاراجیچ کو گرفتار کیا جائے، تو اسے فرار کرا دیا گیا۔ردوان کاراجیچ پھر اپنے سرپرستوں اور ہمدردوں کے سہارے قانون کی گرفت میں آنے سے بچتا رہا۔ سربیا اور جمہوریہ سرپسکا میں اس کے ہزاروں حمایتی موجود تھے۔ چناں چہ جب بھی سکیورٹی فورسز کاراجیچ کی تلاش میں اس کے ٹھکانے تک پہنچتیں، ہمدرد پیشگی اطلاع دے کر اسے فرار کروادیتے۔
اس دوران کاراجیچ کا پیچھا کرنے والے تھکن کا شکار ہو گئے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے عالم اسلام میں نئی جنگیں چھیڑ دیں۔ اب وہ مخالف مسلمانوں کے تعاقب میں لگ گئے جنہیں ''دہشت گرد'' کا خطاب دیا گیا۔کاراجیچ ان کا واضح ٹارگٹ نہیں رہا۔ بعض یورپی سفارت کاروں نے تو یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ مرچکا۔ کاراجیچ کا خاندان یہ بات سچ ثابت کرنے کی خاطر ڈیتھ سرٹیفکیٹ پانے کی تگ و دو میں لگ گیا ۔لیکن کاراجیچ اور اس کے ساتھیوں نے جن ہزار ہا بوسنیائی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے' وہ اس سفاک جلاد کو نہ بھول پا ئے۔ انھیں تعجب' حیرت' افسوس اور غصّہ تھا کہ بین الاقوامی سراغ رساں جدید ترین آلات ِجاسوسی ہوتے ہوئے بھی کاراجیچ کو تلاش نہ کر پائے جوچھلاوے کی طرح کہیں غائب ہو گیا تھا۔
صورت حال میں بہتری 2004 ء کے بعد آئی۔ اس سال ڈاکٹر بورس تاریج سربیا کا صدر بن گیا۔ ڈاکٹر بورس بوسنیا و ہرگزوینیا کے صدر مقام، سراجیو میں پیدا ہوا تھا۔ سرب خاندان سے تھا مگر والدین کے بوسنیائی مسلمانوں سے اچھے تعلقات تھے۔ خانہ جنگی میں یہ خاندان بلغراد منتقل ہو گیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر بورس اعتدال پسند سرب سیاسی جماعت' ڈیمو کریٹک پارٹی کا حصہ بن گیا۔ وہ بوسنیائی مسلمانوں کے کٹر دشمن کا مخالف تھا۔ جولائی 2004ء میں ڈاکٹر بورس سربیا کا صدر بن گیا۔ دسمبر2004ء میں اس نے بوسنیائی مسلمانوں سے ان مظالم پر معافی مانگی جو سرب قومیت کے نام پر ڈھائے گئے۔
ڈاکٹر بورس نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ مفرور کاراجیچ کو ہر قیمت پر تلاش کیا جائے۔ دریں اثناء یورپی یونین نے یہ شرط عاید کر دی کہ کارا جیچ کی گرفتاری کے بعد ہی سربیا تنظیم میں شامل ہو سکے گا۔ ڈاکٹر بورس اور ان کے ساتھیوں کی سعی تھی کہ سربیا یورپی یونین کا حصہ بن کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔سربیا کے عوام ڈاکٹر بورس کی حمایت کر رہے تھے ۔ مگر ایک خلاف توقع مجبوری سربیائی صدر کے آڑے آ گئی۔
ردوان کاراجیچ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانا مملکت کی خفیہ ایجنسی ' بی آئی اے (Bezbednosno-informativna agencija)کی ذمے داری تھی۔ مگر اس خفیہ ایجنسی کے معاملات ان افسروںکی گرفت میں تھے جنہیں سابقہ صدر' مائیلوشویچ نے مقرر کیا تھا۔ یہ قوم پرست افسر تھے اور ان کی سرتوڑ کوشش رہی کہ سرب لیڈروں خصوصاً کاراجیچ کو گرفتاری سے بچا لیا جائے۔بین الاقوامی عدالت برائے سابق یوگوسلاویہ سے منسلک سراغ رسانوں کی ٹیم ہر ماہ سربیا آتی ۔ وہ بی آئی ا ے کے افسروں سے ملاقاتیں کرتے اور پوچھتے کہ کاراجیچ سمیت مفرور سرب راہنماؤں کی گرفتاری کا معاملہ کس مقام پر ہے؟ وہ سوال پوچھتے:
''آپ نے کارا جیچ کے فلاں رشتے دار پر نظر رکھی ہوئی ہے؟ فلاں رشتے دار کا فون ٹیپ ہو رہا ہے؟ نگرانی کے ان جدید ترین آلات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے جو امریکی' برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں نے فراہم کیے ہیں؟ کارا جیچ کے اہل خانہ کی جاسوسی جاری ہے نا؟''سرب خفیہ ایجنسی کے کارپرداز ان سوالات پر بہت جھنجھلاتے ۔ انہیں یہ دیکھ کر کوفت ہوتی کہ غیر ملکی انہیں کام کا طریقہ کار سکھلا رہے ہیں۔ وہ بھی آئیں بائیں شائیں کر کے عالمی عدالت کے سراغ رسانوں کو ٹالتے اور انہیں واپس ہیگ بھجوا دیتے۔ ٹال مٹول کا یہ گھناؤنا کھیل طویل عرصے سے جاری تھا۔ اوائل 2008ء میں آخرخوش قسمتی نے صدارتی دفتر کے در پر دستک دے ہی دی۔
''بابا'' نظروں میں
ہوا یہ کہ ایک موبائل نمبر ردوان کاراجیچ کے بھائی، لوکا کاراجیچ کے زیر استعمال تھا۔ یہ شخص اپنے بھائی کا بہت مدد گار تھا۔ مگر یہ موبائل فون نمبر پچھلے چار برس سے خاموش چلا آ رہا تھا۔ اوائل 2008ء میں نمبر اچانک جاگ اٹھا اور لوکا اس سے کسی کو کالیں کرنے لگا۔لوکا کارا جیچ بلغراد کا رہائشی کاروباری تھا۔ 2005ء میں وہ نشے میں دھت کار چلا رہا تھا کہ ایک نوجوان لڑکی کو ٹکر مار دی۔ بیچاری لڑکی نے سڑک پر دم توڑ دیا۔ اب لوکا غیر ارادی قتل کے مقدمے کی پیشیاں بھگت رہا تھا۔
بی آئی اے کے سراغ رسانوںنے پڑتال کی کہ لوکا موبائل سے کس ہستی کو کالیں کر رہا ہے؟ ریکارڈ شدہ کالوں میں کوئی روانی سے سرب زبان بول رہا تھا۔ مگر ان کالوں سے کوئی ٹھوس بات برآمد نہ ہو سکی۔ آخر فیصلہ ہواکہ پُراسرار اجنبی کے پتے پر پہنچا جائے جو اس کے موبائل فون نمبر کے فارم پر درج تھا۔فارم کے مطابق لوکا سے بات کرنے والے کا نام درگان ڈیوڈ دابک تھا۔ وہ بلغراد کے مضافاتی علاقے' نیو بلغراد میں یوری گیگارین اسٹریٹ پر واقع ایک اپارٹمنٹ میں مقیم تھا۔ بی آئی اے کے دو جاسوس اپارٹمنٹ کی نگرانی کرنے لگے۔ جلد ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ اس میں روحانی علاج کرنے والا ایک ''بابا'' رہائش پذیر ہے۔اس کی سفید ڈاڑھی تھی اور وہ سر کے بال پونی ٹیل سے باندھ کر رکھتا۔ آنکھوں پر چشمہ لگاتا۔
اب سراغ رساں اس روحانی بابا کے متعلق چھان بین کرنے لگے۔ معلوم ہوا کہ وہ نفسیاتی ،جنسی اور معاشرتی مسائل میں گرفتار مرد و زن کو روحانی مشورے دیتا اور ایک ہیلتھ میگزین میں صحت پر کالم لکھتا ہے۔ وہ وٹامن بنانے والی ایک امریکی کمپنی کا مقامی نمائندہ بھی تھا۔ اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ وہ روحانی طریقے سے بانجھ مردوں کا علاج کر سکتا ہے۔
لوکا عادی شراب نوش' جھگڑالو اور مادہ پرست آدمی تھا۔ سراغ رسانوں کو تعجب ہوا کہ وہ ایک روحانی بابا کا واقف کار کیسے بن گیا؟ بہر حال وہ بابا کے بارے میں زیادہ جاننے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگے۔ جوں جوں انہیں ''ڈاکٹر دابک'' کے متعلق معلومات حاصل ہوئیں ' وہ ایک پراسرار ہستی بنتا چلا گیا۔
چھان بین سے افشا ہوا کہ یہ بابا بلغراد سے جانب مغرب واقع روما نامی قصبے کا رہائشی ہے۔ مگر تفتیش سے ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ وہ یہ کہ روما میں بھی درگان ڈیوڈ دابک نامی ایک شخص رہائش پذیر تھا۔ دونوں دابکوں کی تاریخ پیدائش ایک تھی مگر ان کے حلیے اور حالات زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔روما کا دابک موٹا تازہ کاشت کار تھا جو کبھی اپنے قصبے سے باہر نہیں نکلا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے پاس موبائل فون بھی نہ تھا۔ گویا ان میں ایک دابک جعلی تھا۔ اور اسے تلاش کرنے کے لیے شرلاک ہومز کی ضرورت نہ تھی۔مزید پڑتال سے ''روحانی بابا'' کا ایک اور اچھوتا پہلو سامنے آیا۔وہ درجن بھر موبائل فونوں کا مالک تھا۔ ان کے ذریعے وہ ایسے کٹر قوم پرست سرب سیاستدانوں سے رابطے میں تھا جو ہیگ ٹریبونل کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اب بی آئی اے کاایک سراغ رساں یوری گیگارین اسٹریٹ بھیجا گیا تاکہ وہ مٹر گشت کرتے بابا کا قریب سے مشاہدہ کر سکے۔ایجنٹ واپسی پر ایک تحیر خیز انکشاف لایا۔ اس نے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ پراسرار روحانی بابا کاراجیچ تک پہنچنے کا اہم ذریعہ نہیں بلکہ اس کی ڈاڑھی مونڈ دی جائے ' پونی ٹیل جاتی رہے اور عینک بھی نہ رہے تو نچے سے خود ردوان کاراجیچ برآمد ہو سکتا ہے۔اب تک نچلی سطح کے سراغ رساںآزادنہ طور پر روحانی بابا کی چھان بین کر رہے تھے۔ جب انکشاف ہوا کہ یہ بابا یورپ کا مطلوب ترین شخص ہوسکتا ہے ' تو ان کے کان کھڑے ہو گئے۔ بہر حال انہوں نے اپنی تحقیقی رپورٹ مرتب کرکے اعلیٰ افسران کو بھجوانے کا فیصلہ کر لیا ۔مگر اس دوران نئی پیش رفت نے انھیں بریک لگانے پر مجبور کر دیا۔
ہوا یہ کہ نئے پارلیمانی انتخابات میں ڈاکٹر بور س کو کامیابی نصیب ہوگئی۔ اب پارلیمنٹ میں انہیں اتنے ارکان کی حمایت مل سکتی تھی کہ وہ بی آئی اے میں بیٹھے سابقہ حکمرانوں کے چمچے اعلی افسران کو ہٹا سکیں۔ اس نئی صورت حال میں ایجنسی کے سراغ رساں بابا کا کیس اعلیٰ افسروں تک پہنچانے کے بجائے صدارتی دفتر پہنچ گئے۔قصر صدارت میں ان کی ملاقات ڈاکٹر بورس کے دست راست' ماؤ ڈریگ راگ سے ہوئی۔ پست قامت اور فربہ بدن کا مالک ماؤ ڈریگ ایک ذہن اور انصاف پسند انسان تھا۔ وہ بوسنیائی مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے سبھی سربوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا خواہش مند تھا۔ جب بی آئی اے کے سراغ رسانوں نے اسے بتایا کہ وہ شاید کا را زیچ تک پہنچ چکے' تو ماؤڈریگ جوش کے مارے کرسی سے ا چھل گیا۔ کارا زیچ کی گرفتاری سے عالمی سطح پر سربیا کی عزت و وقار بحال ہو سکتا تھا۔
تاہم مشکوک بابا کی گرفتاری میں ایک رکاوٹ آڑے آ گئی۔ بی آئی اے کے سراغ رسانوں نے اعلیٰ افسروں خصوصاً سربراہ ایجنسی ' ریڈ بولاٹوویک کو اپنی خفیہ سرگرمی سے بے خبر رکھا تھا۔ اب یہ سراغ رساں ماؤڈریگ سے اس امر کی ضمانت چاہتے تھے کہ گرفتاری کے بعد بابا ردوان کارا زیچ نکلا' تو بھی آئی اے میں ان کی ملازمتیں محفوظ رہیں گی۔ماؤ ڈریگ فی الحال یہ ضمانت دینے کو تیار نہ تھا مگر اس نے سراغ رسانوں کو ہدایت کی کہ وہ معاملہ اپنے تک خفیہ رکھ کر ماہ جولائی آنے کا انتظار کریں۔ اس ماہ پارلیمنٹ کا اہم اجلاس ہونا تھا۔ اسی اجلاس میں طے پاتا کہ بورس حکو مت بدستور کمزور رہے گی یا طاقتور ہونا اس کے مقدر میں لکھا جا چکا۔
گرفتار کرنے کا اذن
پارلیمانی الیکشن 2008ء میں ڈاکٹر بورس کی پارٹی 102نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔بعدازاں ایک چھوٹی پارٹی اس سے آن ملی۔ یوں نشستوں کی تعداد 108ہو گئی۔ اُدھر قدامت پسند پارٹیاں بھی 250 میں سے 122نشستیں جیتنے میں کامیاب رہیں۔ اب معاملہ سوشلسٹ پارٹی پر آن ٹکا جس کی20 نشستیں تھیں۔ سوشلسٹ جس گروہ کی حمایت کرتے' وہ نئی حکومت بنا لیتا۔سو شلسٹ پارٹی نے ڈاکٹر بورس کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ یوں سرب وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں 20 ووٹ پا کر فیصلہ کن برتری حاصل ہو گئی۔ اس نے اپنی طاقتور حیثیت سے فائد ہ اٹھایا اور اواخر جولائی میں ڈائرکٹر بی آئی اے اور دیگر مخالف سرکاری افسروں کا تبادلہ کر دیا۔ ان کی جگہ حکومتی پالیسیوں کی طرف داری کرنے والے سرکاری افسر مقرر ہوئے۔37 سالہ پولیس افسر' ساسا ووکڈی نووف بی آئی اے کا نیا سربراہ بن گیا۔ وہ منظم جرائم پیشہ گروہوں کا قلع قمع کر کے ملک گیر شہرت پا چکاتھا۔ اب کارا زیچ سمیت مفرور جنگی مجرموں کی گرفتاری کا بھاری ٹاسک اس کے کاندھو ں پر آن پڑا۔ تاہم وہ اس امر سے بے خبر تھا کہ بی آئی اے کے سراغ رساں مطلوبہ ترین شخصیت ' ردوان کاراجیچ تک پہنچ چکے ۔ روحانی بابا وہی مفرور جنگی مجرم تھا۔جب نووف کو معاملے کا علم ہوا ،تو اس نے کاراجیچ المعروف بہ روحانی بابا کو گرفتار کرنے کا منصوبہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
اُدھر روحانی بابا کو چھٹی حس کے ذریعے احساس ہو گیا کہ وہ ارکانِ خفیہ ایجنسی کی نظروں میں آ چکا ۔ چند ماہ سے وہ گلی میں آتے جاتے اجنبی چہرے دیکھ رہا تھا۔ جب بی آئی اے کا شناسا سربراہ رخصت ہوا' تو اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ بابا پھر فرار ہونے کی تیاری کرنے لگا۔پچھلے دس برس میں کاراجیچ اپنے کئی حمایتیوں سے محروم ہو چکا تھا۔پہلے تو یورپی وامریکی حکومتوں کے دباؤ پر ذی اثر حامی اس کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئے۔بعد ازاں سرب عوام میں یہ تاثر پھیل گیا کہ بوسنیا کی خانہ جنگی کے دوران کاراجیچ نے درست فیصلے نہیں کیے۔انہی عوامل کے باعث سربیا میں کاراجیچ کی شہرت پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔
18 جولائی کی صبح نیلی ٹی شرٹ ' سولاہیٹ اور سفید پتلون میں ملبوس بابا اپنے فلیٹ سے نکلا۔ اس نے ایک بڑا سا سفید پلاسٹک بیگ تھام رکھا تھا۔ کمر کے پشت پر ایک تھیلا ٹکا تھا۔ دونوں سامان سے بھرے نظر آتے تھے۔ بابا کا رخ بس سٹاپ کی طرف تھا۔بابا بس نمبر73پر سوار ہوا جو بلغراد کی مضافاتی بستیوں میں جاتی تھی۔ اسے خبر نہ تھی کہ بس میں بی آئی اے کا ایک ایجنٹ بھی سوار ہو چکا۔ وہ اگلی نشستوں پر بیٹھا' تو ایجنٹ سب سے پیچھے جا پہنچا۔ اس نے موبائل فون کے ذریعے افسروں سے رابطہ کر رکھا تھا۔
دوران سفر ایجنٹ کو احسا س ہوا کہ بابا کسی بھی سٹاپ پر اتر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہاں اس کا کوئی حمایتی کار لیے بابا کا منتظر ہو۔ ایسی صورت میں بی آئی اے پھر کاراجیچ کا سراغ کھو سکتی تھی۔ جب اس نے اعلیٰ افسروں کے سامنے اپنا خدشہ رکھا' تو وہ آپس میں بحث کرنے لگے۔ آخر ووکڈی نووف نے حکم دیا کہ اگلے سٹاپ پر بس روک کر مشکوک بابا کو گرفتار کر لیا جائے۔چناںچہ بٹا جنکانامی اسٹاپ پر سادہ کپڑوں میں ملبوس بی آئی اے کے کارندوں نے بس کو گھیر لیا۔ دو ایجنٹ ٹکٹ چیکنگ کے بہانے بس میں داخل ہوئے اور تھوڑی دیر بعد بابا تک جا پہنچے ۔ اچانک ایک ایجنٹ نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا ''ڈاکٹر کارا زیچ۔''
بابا ہڑبڑا گیا اور زور سے بولا ''ارے میں درگان دابک ہوں۔''
ایجنٹ نے اصرار کیا ''نہیں ' تم کاراجیچ ہو۔''
تبھی بابا نے پوچھا''کیا تمہارے افسر جانتے ہیں کہ تم کیا کر رہے ہو؟''
''جی ہاں' انہی کا حکم ہے کہ تمہیں گرفتار کر لیا جائے۔''
بابا نے یہ سن کر مزاحمت ترک کر دی۔ ایجنٹ اسے لیے بس سے باہر نکل آئے۔ یوں 18جولائی کی دوپہر درگان دابک سے وابستہ افسانوی داستان کافور کے مانند فضا میں تحلیل ہو ئی اور نیچے سے ردوان کاراجیچ کا خوفناک روپ ظاہر ہو گیا... وہ ظالم اور شیطان جس نے تین سال بوسنیا جیسے خوبصورت فطری مناظر والے جنت نشان علاقے کو ارض جہنم بنائے رکھا۔
ایک ڈرامائی داستان
ردوان کاراجیچ 19 جون 1945ء کو مونٹی نیگرو کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوا۔ سرب نسل سے تعلق رکھنے والا اس کا باپ، ووکو کاراجیچ موچی تھا۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو وہ شاہ پرستوں سے جاملا۔ یہ شاہ پرست ابتداً جرمنوں کے خلاف لڑے۔ مگر جب جرمنوں نے سربیا اور مونٹی نیگرو پر قبضہ کرلیا، تو شاہ پرست ان سے جا ملے۔ وہ پھر قوم پسندوں کے خلاف لڑنے لگے جن کی قیادت مارشل ٹیٹو کررہا تھا۔جنگ کے آخری مراحل میں جیت یقینی ہوگئی، تو ووکو کاراجیچ لوٹا بن گیا۔ اس نے شاہ پرستوں کو چھوڑا اور قوم پسندوں سے جاملا۔ مگر علاقے کے قوم پسند اس کا ماضی نہیں بھولے تھے۔ چناںچہ یوگوسلاویہ بننے کے بعد اسے پانچ سال تک جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ اس دوران ووکو کی بیوی محنت مزدوری کرکے ننھے ردوان کی پرورش کرتی رہی۔
ردوان کاراجیچ ایک جوشیلا نوجوان تھا۔ وہ دنیا والوں کو ''کچھ کرکے''دکھانا چاہتا تھا، اسی لیے گاؤں چھوڑ کر بوسنیا و ہرگزوینیا کے صدرمقام، سراجیو چلا آیا۔ یہ ایک حیرت انگیز فیصلہ تھا کیونکہ یہ یوگوسلاویہ کی واحد ریاست تھی جہاں کسی ایک نسلی گروہ کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔سراجیو میں کاراجیچ نے ماہر نفسیات بننے کی تعلیم پائی ۔ دوران تعلیم اس نے شادی بھی کرلی۔ یوں سراجیو اس کا مستقل مسکن بن گیا۔ اس کے دوستوں میں بوسنیائی مسلمان اور کروشیائی عیسائی بھی شامل تھے۔
تعلیم مکمل کرکے وہ سراجیو کے ایک بڑے ہسپتال سے بہ حیثیت ماہر نفسیات منسلک ہوگیا۔ جلد ہی راتوں رات امیر بننے کے چکر میں کاراجیچ کرپشن کرنے لگا۔ رشوت لے کر جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرنا اس کا مشغلہ بن گیا۔ 1983ء میں اس نے حکومت سے زرعی فارم بنانے کے لیے قرضہ لیا۔ مگر قرضے کی رقم سے کاراجیچ نے بوسنیا کے سیاحتی مقام پر اپنا گھر بنالیا۔ بعدازاں اس کی کرپشن عیاں ہوئی، تو پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ اس پر مقدمہ چلا تو 1985ء میں اسے تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
رہائی کے بعد کاراجیچ نے ایک نفسیاتی کلینک کھول لیا۔ شہرت، دولت اور عزت کا یہ طلب گار سراجیو میں اپنا حلقہ احباب بڑھانا چاہتا تھا۔ مگر اسے شکایت تھی کہ شہر کے مسلمان اور کروشیائی دانشور اسے چنداں اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے برتاؤ نے شاید کاراجیچ کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا جو آگے چل کر متشددانہ انداز میں اجاگر ہوا۔
1990ء میں سوویت یونین کی شکست و ریخت نے یوگوسلاویہ کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اس مملکت کی ریاستیں بھی علم آزادی بلند کرنے لگیں۔ سب سے زیادہ مخدوش حالات نے ریاست بوسنیا ہرگزونیا میں جنم لیا جہاں سرب عیسائی اور بوسنیائی مسلمان تقریباً برابر تعداد میں آباد تھے۔حسب توقع مسلمانوں نے ریاست کی آزادی کا اعلان کردیا۔ مگر بوسنیائی سرب ریاست کا الحاق سربیا سے چاہتے تھے۔ اس امر پہ دونوں نسلوں کے مابین تصادم ہوگیا۔ یہی تصادم کاراجیچ کو سیاست میں گھسیٹ لایا۔
کاراجیچ ابتداً سیاست کے خرخشوں سے دور رہ کر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں محو رہنا چاہتا تھا مگر سربیا میں بیٹھے مشہور قوم پسند سرب رہنما (بعدازاں صدر سربیا) دوبریتا جوسیچ نے تاڑ لیا کہ یہ متحرک و قوم پسند شخص بوسنیائی سربوں کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ تب تک کاراجیچ بوسنیائی سربوں میں ''دانشور'' کی حیثیت سے مشہور ہوچکا تھا۔ چناںچہ جوسیچ کی کوششوں سے ردوان کاراجیچ کو بوسنیا و ہرگزوینیا میں سربوں کا لیڈر بنا دیا گیا۔
یوں راتوں رات شہرت، دولت اور عزت اس کی جھولی میں آگریں۔ وہ انہی دیویوں کی ہی پرستش کرتا تھا لیکن محیرالعقول کامیابی نے کاراجیچ کا دماغ خراب کردیا۔ وہ بوسنیائی سربوں کے مفادات کا تحفظ کرتے کرتے انتہا پسند بن بیٹھا اور ساری دانشوری و اخلاقیات بھول گیا۔15 اکتوبر 1991ء کو بوسنیا و ہرگزوینیا کی پارلیمنٹ نے اعلان آزادی کردیا۔ مگر کاراجیچ اور دیگر بوسنیائی سربوں کو یہ منظور نہ تھا۔ انہوں نے ریاست کے اندر خود مختار مملکت، جمہوریہ سرپسکا کے قیام کا اعلان کردیا۔ اسی دوران سربیا کا مسلم دشمن صدرسلوبودان مائیلوشویچ بوسنیائی سربوں کو بھاری اسلحہ اور فوجی بھجوانے لگا۔ مدعا یہ تھا کہ بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کرکے ریاست پر قبضہ کرلیا جائے۔
1992ء کے موسم گرما میں بوسنیائی سرب مسلمانوں کے علاقوں پر حملے کرنے لگے۔ کاراجیچ نے فوجیوں کوحکم دیا تھا کہ وہ مرد عورتوں اور بچوں میں کوئی تمیز نہ کریں اور سبھی کو گولیوں سے بھون ڈالیں۔ ایک سفاک، بے حس اور ظالم شخص ہی ایسا حکم دے سکتا تھا۔ یوں اس نے اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں مسلمانان بوسنیا کو ملیامیٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔آخرکاراجیچ کی فوج سراجیو شہر پر بمباری کرنے لگی جہاں اس کی تقریباً ساری بالغ زندگی گزری تھی۔ اس شہر سے اس کی حسین یادیں وابستہ تھیں مگر سراجیو آگ و خون میں نہاتا رہا اور کاراجیچ نہرو کی طرح بانسری بجانے میں مصروف رہا۔ مسلمانوں کے خلاف جنگ نے اب صلیبی چولا پہن لیا تھا۔مارچ 1992ء سے جولائی 1996ء تک ردوان کاراجیچ ہی جمہوریہ سرپسکا میں سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ حتیٰ کہ عالمی قوتوں کی مداخلت سے بوسنیا میں جنگ بندی ہوگئی، تب بھی وہ اقتدار سے چمٹا رہا۔ آخر دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا نے سرب صدر، مائیلوشویچ کو دھمکیاں دیں، تو اس کے دباؤ پر کاراجیچ نے اقتدار چھوڑ دیا۔ تاہم امریکیوں کو بھی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس کوگرفتار کرلیتے۔اب ردوان کاراجیچ کی حیات کا نیا باب شروع ہوا۔ وہ روپوش ہوکر زندگی گزارنے لگا کیونکہ عالمی عدالت انصاف اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی تھی۔ مگر بوسنیا اور سربیا میں اس کے حمایتوں کی کمی نہ تھی۔ چناں چہ وہ ان کی مالی امداد سے شاہانہ انداز میں رہنے لگا۔لیکن جوں جوں قانون کا دائرہ تنگ ہوا، اس کے دوستوں میں کمی آتی گئی۔آخر ردوان نے ''روحانی عالم'' کا روپ دھارا اور دقیانوسی خیالات کے مالک سربوں کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر اپنا دھندہ چمکالیا۔ نفسیاتی مشورے دینے سے اسے اتنی آمدن ہوجاتی کہ خود کو پال سکے۔ لیکن مجرم کتنا ہی شاطر و عیار ہو، ایک دن قانون کے لمبے ہاتھ اسے دبوچ ہی لیتے ہیں۔ردوان کاراجیچ کی گرفتاری پر بوسنیائی مسلمانوں نے اظہار خوشی کیا۔ کچھ مسلمانوں کے زخم ہرے ہوگئے اور زاروقطار رونے لگے۔ بہت سے بوسنیائی مسلمان انصاف ملنے کی امید ترک کرکے ہمت ہار بیٹھے تھے۔انسانیت کے خلاف گھناؤنے جرائم اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پہ کاراجیچ پر تقریباً آٹھ سال مقدمہ چلا۔ 24 مارچ 2016ء کو عالمی عدالت نے اسے چالیس سال قید کی سزا سنادی۔ یہ یقین واثق ہے کہ وہ حالتِ اسیری میں جہنم واصل ہوگا۔
اس جنگی مجرم کی داستان حیات واضح کرتی ہے کہ نوجوانی میں وہ اپنے حال میں مست رہنے والا ایک شاعر تھا لیکن جوں جوں عملی زندگی میں داخل ہوا، مادہ پرستی کے جال میں الجھتا چلا گیا۔ اور جب میدان سیاست میں قدم رکھا، تو اس کی رہی سہی انسانیت بھی منفی سیاست کرنے کے باعث جاتی رہی۔ یہ تلخ سچائی کاراجیچ کی ماتم کناں ماں ،جوونکا کچھ یوں بیان کرتی ہے:
''میں نے اپنے بیٹے کو تعلیم و تربیت دیتے ہوئے بتایا کہ دیانت دار بنو اور قانون کا کہنا مانو۔ محنت مزدوری کرکے میں نے اسے لکھایا، پڑھایا تاکہ وہ ڈاکٹر اور شریف آدمی بن سکے۔ تب میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ وہ سیاست میں داخل ہوجائے گا۔ میں ہمیشہ سے سمجھتی ہوں کہ سیاست اچھی نہیں ہوتی۔ اسی لیے بیٹے کو اس سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ کاش وہ میری نصیحتوں پر عمل کرلیتا، اے کاش!''
''نفرت کرنا بہت آسان ہے۔ محبت کرنے کے لیے ہمت اور حوصلہ درکار ہوتا ہے۔'' (افریقی کہاوت)
٭٭
2008ء تک ردوان کاراجیچ یورپ کی مطلوب ترین (Most Wanted)شخصیت بن چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان خیر اور شرکا مجموعہ ہے۔ وہ چاہے، تو خیر اپنا لے یا شر کے دامن میں جابیٹھے۔ کاراجیچ نے شر کو ایسے شدومد سے اپنایا کہ شیطان بھی شرما گیا۔ یہ انسان یورپ کے دامن پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی کاراجیچ کا ذکر آئے، باشعور اور انسان دوست یورپی شرم کے مارے منہ چھپانے لگتے ہیں۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ردوان کاراجیچ (Radovan Karadžic)ماہر نفسیات اور شاعر تھا۔ اس کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ۔مگر عملی طور پہ وہ کرپٹ اور ظالم انسان ثابت ہوا۔ یہ حقیقت کاراجیچ کو انوکھا اور متناقص ذی نفس بناڈالتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جو محبت میں شرابور ہو، وہ شاعر بن جاتا ہے۔ مگر کاراجیچ تو سرتاپا نفرت سے لتھڑا ہوا تھا۔پہلے اس نے کرپشن کے سہارے اپنا کیریئر آگے بڑھایا۔جب سیاست میں داخل ہوا تو بوسنیائی مسلمانوں کا اتنا شدید دشمن بنا کہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہو گیا۔ اس کے احکامات پر بوسنیائی سربوں نے ایسے ایسے نادر ونایاب طریقوں سے بوسنیائی مسلمانوں پر ظلم توڑے کہ ان کی بابت پڑھ کر انسان تھرا اٹھتا ہے۔ بوسنیائی مسلمانوںکی منظم نسل کشی کرنے کے باعث ہی اسے ''بوسنیا کا قصائی'' کہا گیا۔ حیرت ہے کہ تتلیوں، پھولوں اور ستاروں کی باتیں کرنے والا کاراجیچ عملی زندگی میں معصوم بچوں اور فرشتوں جیسی عورتوںکا بھی خون بہانے والا سفاک قاتل کیسے بن گیا؟
کاراجیچ کے حکم پر بوسنیائی سرب فوج نے 1992ء تا 1995ء مسلمانوں کے دیہات پر دھاوا بولے رکھا۔ فوج کا طریق واردات یہ تھا کہ ایک دیہات میں مرد اور بچے ایک طرف اور خواتین دوسری طرف جمع کرلیے جاتے۔ پہلے گھروں کو آگ لگائی جاتی۔ پھر بیشتر مرد اور بچے گولیوں سے شہید کردیئے جاتے۔ بعدازاں خواتین و لڑکیوں کی بے حرمتی کی جاتی۔ ''موت کے کیمپوں'' میں قید مسلمانوں سے اذیت ناک سلوک کیا جاتا۔
وحشت ناک بات یہ کہ کاراجیچ اور اس کے ساتھی تین سال تک بوسنیا میں مسلمانوں پر خوفناک ظلم و ستم کرتے رہے اور یورپ سمیت سارا مغرب تماشائی بنا رہا۔ کاراجیچ کو روکنے اور ختم کرنے کی باتیں تو بہت ہوئیں مگر ایک بھی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔ چناں چہ اس دوران بوسنیائی سربوں نے تقریباً ایک لاکھ بوسنیائی مسلمان شہید کردیئے جبکہ لاکھوں مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ظالم و جابر کاراجیچ کا راستہ نہ روک کر مغرب نے بے حسی اورنامردمی کا ثبوت دیا جبکہ بوسنیائی مسلمانوں پر ظلم و ستم نے جنگجو اسلامی تنظیموں کو اکسایا کہ وہ مغرب کے خلاف علم جنگ بلند کردیں۔
آخر تین سال بعد سپرپاور نے کاراجیچ کے قتل و غارت گری کے آگے بند باندھا، تو اسے معصوم و بے خطا سمجھ کر جانے دیا گیا۔ وہ پھر بارہ سال تک بھیس بدل کر عیش و عشرت کی زندگی گزارتا رہا۔ یورپ اور سپرپاورز کی سبھی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس خطرناک قاتل کا بال بیکا تک نہ کرسکیں۔
خطرناک مفرور کی تلاش
یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد اس کی ریاستوں میں جو شخصیات خانہ جنگی اور انسانوں کے قتال میں ملوث رہیں، ان پر مقدمہ چلانے کے لیے اقوام متحدہ نے 25 مئی 1993ء کو بین الاقوامی عدالت برائے سابق یوگوسلاویہ کی بنیاد رکھی جس کا صدر دفتر ہالینڈ کے شہر،ہیگ میں واقع ہے۔۔ اس عالمی عدالت نے 24 جولائی 1995ء کو کاراجیچ اور اس کے سفاک و ظالم دست راست اور بوسنیائی سرب فوج کے کمانڈر، جنرل راٹکو مالدک پر فرد جرم عائد کردی۔
لیکن روس اور سربیا کی پشت پناہی سے ہزارہا مسلمانوں کا یہ قاتل جولائی 1996ء تک ریاست جمہوریہ سرپسکا کا صدر بنا رہا جو بوسنیا و ہرگزوینیا کے ایک حصے پر قائم کی گئی تھی۔ جب امریکا، برطانیہ وغیرہ نے سرب حکومت اور بوسنیائی سربوں پر زور دیا کہ کاراجیچ کو گرفتار کیا جائے، تو اسے فرار کرا دیا گیا۔ردوان کاراجیچ پھر اپنے سرپرستوں اور ہمدردوں کے سہارے قانون کی گرفت میں آنے سے بچتا رہا۔ سربیا اور جمہوریہ سرپسکا میں اس کے ہزاروں حمایتی موجود تھے۔ چناں چہ جب بھی سکیورٹی فورسز کاراجیچ کی تلاش میں اس کے ٹھکانے تک پہنچتیں، ہمدرد پیشگی اطلاع دے کر اسے فرار کروادیتے۔
اس دوران کاراجیچ کا پیچھا کرنے والے تھکن کا شکار ہو گئے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے عالم اسلام میں نئی جنگیں چھیڑ دیں۔ اب وہ مخالف مسلمانوں کے تعاقب میں لگ گئے جنہیں ''دہشت گرد'' کا خطاب دیا گیا۔کاراجیچ ان کا واضح ٹارگٹ نہیں رہا۔ بعض یورپی سفارت کاروں نے تو یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ مرچکا۔ کاراجیچ کا خاندان یہ بات سچ ثابت کرنے کی خاطر ڈیتھ سرٹیفکیٹ پانے کی تگ و دو میں لگ گیا ۔لیکن کاراجیچ اور اس کے ساتھیوں نے جن ہزار ہا بوسنیائی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے' وہ اس سفاک جلاد کو نہ بھول پا ئے۔ انھیں تعجب' حیرت' افسوس اور غصّہ تھا کہ بین الاقوامی سراغ رساں جدید ترین آلات ِجاسوسی ہوتے ہوئے بھی کاراجیچ کو تلاش نہ کر پائے جوچھلاوے کی طرح کہیں غائب ہو گیا تھا۔
صورت حال میں بہتری 2004 ء کے بعد آئی۔ اس سال ڈاکٹر بورس تاریج سربیا کا صدر بن گیا۔ ڈاکٹر بورس بوسنیا و ہرگزوینیا کے صدر مقام، سراجیو میں پیدا ہوا تھا۔ سرب خاندان سے تھا مگر والدین کے بوسنیائی مسلمانوں سے اچھے تعلقات تھے۔ خانہ جنگی میں یہ خاندان بلغراد منتقل ہو گیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر بورس اعتدال پسند سرب سیاسی جماعت' ڈیمو کریٹک پارٹی کا حصہ بن گیا۔ وہ بوسنیائی مسلمانوں کے کٹر دشمن کا مخالف تھا۔ جولائی 2004ء میں ڈاکٹر بورس سربیا کا صدر بن گیا۔ دسمبر2004ء میں اس نے بوسنیائی مسلمانوں سے ان مظالم پر معافی مانگی جو سرب قومیت کے نام پر ڈھائے گئے۔
ڈاکٹر بورس نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ مفرور کاراجیچ کو ہر قیمت پر تلاش کیا جائے۔ دریں اثناء یورپی یونین نے یہ شرط عاید کر دی کہ کارا جیچ کی گرفتاری کے بعد ہی سربیا تنظیم میں شامل ہو سکے گا۔ ڈاکٹر بورس اور ان کے ساتھیوں کی سعی تھی کہ سربیا یورپی یونین کا حصہ بن کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے۔سربیا کے عوام ڈاکٹر بورس کی حمایت کر رہے تھے ۔ مگر ایک خلاف توقع مجبوری سربیائی صدر کے آڑے آ گئی۔
ردوان کاراجیچ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانا مملکت کی خفیہ ایجنسی ' بی آئی اے (Bezbednosno-informativna agencija)کی ذمے داری تھی۔ مگر اس خفیہ ایجنسی کے معاملات ان افسروںکی گرفت میں تھے جنہیں سابقہ صدر' مائیلوشویچ نے مقرر کیا تھا۔ یہ قوم پرست افسر تھے اور ان کی سرتوڑ کوشش رہی کہ سرب لیڈروں خصوصاً کاراجیچ کو گرفتاری سے بچا لیا جائے۔بین الاقوامی عدالت برائے سابق یوگوسلاویہ سے منسلک سراغ رسانوں کی ٹیم ہر ماہ سربیا آتی ۔ وہ بی آئی ا ے کے افسروں سے ملاقاتیں کرتے اور پوچھتے کہ کاراجیچ سمیت مفرور سرب راہنماؤں کی گرفتاری کا معاملہ کس مقام پر ہے؟ وہ سوال پوچھتے:
''آپ نے کارا جیچ کے فلاں رشتے دار پر نظر رکھی ہوئی ہے؟ فلاں رشتے دار کا فون ٹیپ ہو رہا ہے؟ نگرانی کے ان جدید ترین آلات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے جو امریکی' برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں نے فراہم کیے ہیں؟ کارا جیچ کے اہل خانہ کی جاسوسی جاری ہے نا؟''سرب خفیہ ایجنسی کے کارپرداز ان سوالات پر بہت جھنجھلاتے ۔ انہیں یہ دیکھ کر کوفت ہوتی کہ غیر ملکی انہیں کام کا طریقہ کار سکھلا رہے ہیں۔ وہ بھی آئیں بائیں شائیں کر کے عالمی عدالت کے سراغ رسانوں کو ٹالتے اور انہیں واپس ہیگ بھجوا دیتے۔ ٹال مٹول کا یہ گھناؤنا کھیل طویل عرصے سے جاری تھا۔ اوائل 2008ء میں آخرخوش قسمتی نے صدارتی دفتر کے در پر دستک دے ہی دی۔
''بابا'' نظروں میں
ہوا یہ کہ ایک موبائل نمبر ردوان کاراجیچ کے بھائی، لوکا کاراجیچ کے زیر استعمال تھا۔ یہ شخص اپنے بھائی کا بہت مدد گار تھا۔ مگر یہ موبائل فون نمبر پچھلے چار برس سے خاموش چلا آ رہا تھا۔ اوائل 2008ء میں نمبر اچانک جاگ اٹھا اور لوکا اس سے کسی کو کالیں کرنے لگا۔لوکا کارا جیچ بلغراد کا رہائشی کاروباری تھا۔ 2005ء میں وہ نشے میں دھت کار چلا رہا تھا کہ ایک نوجوان لڑکی کو ٹکر مار دی۔ بیچاری لڑکی نے سڑک پر دم توڑ دیا۔ اب لوکا غیر ارادی قتل کے مقدمے کی پیشیاں بھگت رہا تھا۔
بی آئی اے کے سراغ رسانوںنے پڑتال کی کہ لوکا موبائل سے کس ہستی کو کالیں کر رہا ہے؟ ریکارڈ شدہ کالوں میں کوئی روانی سے سرب زبان بول رہا تھا۔ مگر ان کالوں سے کوئی ٹھوس بات برآمد نہ ہو سکی۔ آخر فیصلہ ہواکہ پُراسرار اجنبی کے پتے پر پہنچا جائے جو اس کے موبائل فون نمبر کے فارم پر درج تھا۔فارم کے مطابق لوکا سے بات کرنے والے کا نام درگان ڈیوڈ دابک تھا۔ وہ بلغراد کے مضافاتی علاقے' نیو بلغراد میں یوری گیگارین اسٹریٹ پر واقع ایک اپارٹمنٹ میں مقیم تھا۔ بی آئی اے کے دو جاسوس اپارٹمنٹ کی نگرانی کرنے لگے۔ جلد ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ اس میں روحانی علاج کرنے والا ایک ''بابا'' رہائش پذیر ہے۔اس کی سفید ڈاڑھی تھی اور وہ سر کے بال پونی ٹیل سے باندھ کر رکھتا۔ آنکھوں پر چشمہ لگاتا۔
اب سراغ رساں اس روحانی بابا کے متعلق چھان بین کرنے لگے۔ معلوم ہوا کہ وہ نفسیاتی ،جنسی اور معاشرتی مسائل میں گرفتار مرد و زن کو روحانی مشورے دیتا اور ایک ہیلتھ میگزین میں صحت پر کالم لکھتا ہے۔ وہ وٹامن بنانے والی ایک امریکی کمپنی کا مقامی نمائندہ بھی تھا۔ اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ وہ روحانی طریقے سے بانجھ مردوں کا علاج کر سکتا ہے۔
لوکا عادی شراب نوش' جھگڑالو اور مادہ پرست آدمی تھا۔ سراغ رسانوں کو تعجب ہوا کہ وہ ایک روحانی بابا کا واقف کار کیسے بن گیا؟ بہر حال وہ بابا کے بارے میں زیادہ جاننے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگے۔ جوں جوں انہیں ''ڈاکٹر دابک'' کے متعلق معلومات حاصل ہوئیں ' وہ ایک پراسرار ہستی بنتا چلا گیا۔
چھان بین سے افشا ہوا کہ یہ بابا بلغراد سے جانب مغرب واقع روما نامی قصبے کا رہائشی ہے۔ مگر تفتیش سے ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ وہ یہ کہ روما میں بھی درگان ڈیوڈ دابک نامی ایک شخص رہائش پذیر تھا۔ دونوں دابکوں کی تاریخ پیدائش ایک تھی مگر ان کے حلیے اور حالات زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔روما کا دابک موٹا تازہ کاشت کار تھا جو کبھی اپنے قصبے سے باہر نہیں نکلا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے پاس موبائل فون بھی نہ تھا۔ گویا ان میں ایک دابک جعلی تھا۔ اور اسے تلاش کرنے کے لیے شرلاک ہومز کی ضرورت نہ تھی۔مزید پڑتال سے ''روحانی بابا'' کا ایک اور اچھوتا پہلو سامنے آیا۔وہ درجن بھر موبائل فونوں کا مالک تھا۔ ان کے ذریعے وہ ایسے کٹر قوم پرست سرب سیاستدانوں سے رابطے میں تھا جو ہیگ ٹریبونل کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اب بی آئی اے کاایک سراغ رساں یوری گیگارین اسٹریٹ بھیجا گیا تاکہ وہ مٹر گشت کرتے بابا کا قریب سے مشاہدہ کر سکے۔ایجنٹ واپسی پر ایک تحیر خیز انکشاف لایا۔ اس نے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ پراسرار روحانی بابا کاراجیچ تک پہنچنے کا اہم ذریعہ نہیں بلکہ اس کی ڈاڑھی مونڈ دی جائے ' پونی ٹیل جاتی رہے اور عینک بھی نہ رہے تو نچے سے خود ردوان کاراجیچ برآمد ہو سکتا ہے۔اب تک نچلی سطح کے سراغ رساںآزادنہ طور پر روحانی بابا کی چھان بین کر رہے تھے۔ جب انکشاف ہوا کہ یہ بابا یورپ کا مطلوب ترین شخص ہوسکتا ہے ' تو ان کے کان کھڑے ہو گئے۔ بہر حال انہوں نے اپنی تحقیقی رپورٹ مرتب کرکے اعلیٰ افسران کو بھجوانے کا فیصلہ کر لیا ۔مگر اس دوران نئی پیش رفت نے انھیں بریک لگانے پر مجبور کر دیا۔
ہوا یہ کہ نئے پارلیمانی انتخابات میں ڈاکٹر بور س کو کامیابی نصیب ہوگئی۔ اب پارلیمنٹ میں انہیں اتنے ارکان کی حمایت مل سکتی تھی کہ وہ بی آئی اے میں بیٹھے سابقہ حکمرانوں کے چمچے اعلی افسران کو ہٹا سکیں۔ اس نئی صورت حال میں ایجنسی کے سراغ رساں بابا کا کیس اعلیٰ افسروں تک پہنچانے کے بجائے صدارتی دفتر پہنچ گئے۔قصر صدارت میں ان کی ملاقات ڈاکٹر بورس کے دست راست' ماؤ ڈریگ راگ سے ہوئی۔ پست قامت اور فربہ بدن کا مالک ماؤ ڈریگ ایک ذہن اور انصاف پسند انسان تھا۔ وہ بوسنیائی مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے سبھی سربوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا خواہش مند تھا۔ جب بی آئی اے کے سراغ رسانوں نے اسے بتایا کہ وہ شاید کا را زیچ تک پہنچ چکے' تو ماؤڈریگ جوش کے مارے کرسی سے ا چھل گیا۔ کارا زیچ کی گرفتاری سے عالمی سطح پر سربیا کی عزت و وقار بحال ہو سکتا تھا۔
تاہم مشکوک بابا کی گرفتاری میں ایک رکاوٹ آڑے آ گئی۔ بی آئی اے کے سراغ رسانوں نے اعلیٰ افسروں خصوصاً سربراہ ایجنسی ' ریڈ بولاٹوویک کو اپنی خفیہ سرگرمی سے بے خبر رکھا تھا۔ اب یہ سراغ رساں ماؤڈریگ سے اس امر کی ضمانت چاہتے تھے کہ گرفتاری کے بعد بابا ردوان کارا زیچ نکلا' تو بھی آئی اے میں ان کی ملازمتیں محفوظ رہیں گی۔ماؤ ڈریگ فی الحال یہ ضمانت دینے کو تیار نہ تھا مگر اس نے سراغ رسانوں کو ہدایت کی کہ وہ معاملہ اپنے تک خفیہ رکھ کر ماہ جولائی آنے کا انتظار کریں۔ اس ماہ پارلیمنٹ کا اہم اجلاس ہونا تھا۔ اسی اجلاس میں طے پاتا کہ بورس حکو مت بدستور کمزور رہے گی یا طاقتور ہونا اس کے مقدر میں لکھا جا چکا۔
گرفتار کرنے کا اذن
پارلیمانی الیکشن 2008ء میں ڈاکٹر بورس کی پارٹی 102نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔بعدازاں ایک چھوٹی پارٹی اس سے آن ملی۔ یوں نشستوں کی تعداد 108ہو گئی۔ اُدھر قدامت پسند پارٹیاں بھی 250 میں سے 122نشستیں جیتنے میں کامیاب رہیں۔ اب معاملہ سوشلسٹ پارٹی پر آن ٹکا جس کی20 نشستیں تھیں۔ سوشلسٹ جس گروہ کی حمایت کرتے' وہ نئی حکومت بنا لیتا۔سو شلسٹ پارٹی نے ڈاکٹر بورس کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ یوں سرب وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں 20 ووٹ پا کر فیصلہ کن برتری حاصل ہو گئی۔ اس نے اپنی طاقتور حیثیت سے فائد ہ اٹھایا اور اواخر جولائی میں ڈائرکٹر بی آئی اے اور دیگر مخالف سرکاری افسروں کا تبادلہ کر دیا۔ ان کی جگہ حکومتی پالیسیوں کی طرف داری کرنے والے سرکاری افسر مقرر ہوئے۔37 سالہ پولیس افسر' ساسا ووکڈی نووف بی آئی اے کا نیا سربراہ بن گیا۔ وہ منظم جرائم پیشہ گروہوں کا قلع قمع کر کے ملک گیر شہرت پا چکاتھا۔ اب کارا زیچ سمیت مفرور جنگی مجرموں کی گرفتاری کا بھاری ٹاسک اس کے کاندھو ں پر آن پڑا۔ تاہم وہ اس امر سے بے خبر تھا کہ بی آئی اے کے سراغ رساں مطلوبہ ترین شخصیت ' ردوان کاراجیچ تک پہنچ چکے ۔ روحانی بابا وہی مفرور جنگی مجرم تھا۔جب نووف کو معاملے کا علم ہوا ،تو اس نے کاراجیچ المعروف بہ روحانی بابا کو گرفتار کرنے کا منصوبہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
اُدھر روحانی بابا کو چھٹی حس کے ذریعے احساس ہو گیا کہ وہ ارکانِ خفیہ ایجنسی کی نظروں میں آ چکا ۔ چند ماہ سے وہ گلی میں آتے جاتے اجنبی چہرے دیکھ رہا تھا۔ جب بی آئی اے کا شناسا سربراہ رخصت ہوا' تو اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ بابا پھر فرار ہونے کی تیاری کرنے لگا۔پچھلے دس برس میں کاراجیچ اپنے کئی حمایتیوں سے محروم ہو چکا تھا۔پہلے تو یورپی وامریکی حکومتوں کے دباؤ پر ذی اثر حامی اس کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئے۔بعد ازاں سرب عوام میں یہ تاثر پھیل گیا کہ بوسنیا کی خانہ جنگی کے دوران کاراجیچ نے درست فیصلے نہیں کیے۔انہی عوامل کے باعث سربیا میں کاراجیچ کی شہرت پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔
18 جولائی کی صبح نیلی ٹی شرٹ ' سولاہیٹ اور سفید پتلون میں ملبوس بابا اپنے فلیٹ سے نکلا۔ اس نے ایک بڑا سا سفید پلاسٹک بیگ تھام رکھا تھا۔ کمر کے پشت پر ایک تھیلا ٹکا تھا۔ دونوں سامان سے بھرے نظر آتے تھے۔ بابا کا رخ بس سٹاپ کی طرف تھا۔بابا بس نمبر73پر سوار ہوا جو بلغراد کی مضافاتی بستیوں میں جاتی تھی۔ اسے خبر نہ تھی کہ بس میں بی آئی اے کا ایک ایجنٹ بھی سوار ہو چکا۔ وہ اگلی نشستوں پر بیٹھا' تو ایجنٹ سب سے پیچھے جا پہنچا۔ اس نے موبائل فون کے ذریعے افسروں سے رابطہ کر رکھا تھا۔
دوران سفر ایجنٹ کو احسا س ہوا کہ بابا کسی بھی سٹاپ پر اتر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہاں اس کا کوئی حمایتی کار لیے بابا کا منتظر ہو۔ ایسی صورت میں بی آئی اے پھر کاراجیچ کا سراغ کھو سکتی تھی۔ جب اس نے اعلیٰ افسروں کے سامنے اپنا خدشہ رکھا' تو وہ آپس میں بحث کرنے لگے۔ آخر ووکڈی نووف نے حکم دیا کہ اگلے سٹاپ پر بس روک کر مشکوک بابا کو گرفتار کر لیا جائے۔چناںچہ بٹا جنکانامی اسٹاپ پر سادہ کپڑوں میں ملبوس بی آئی اے کے کارندوں نے بس کو گھیر لیا۔ دو ایجنٹ ٹکٹ چیکنگ کے بہانے بس میں داخل ہوئے اور تھوڑی دیر بعد بابا تک جا پہنچے ۔ اچانک ایک ایجنٹ نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا ''ڈاکٹر کارا زیچ۔''
بابا ہڑبڑا گیا اور زور سے بولا ''ارے میں درگان دابک ہوں۔''
ایجنٹ نے اصرار کیا ''نہیں ' تم کاراجیچ ہو۔''
تبھی بابا نے پوچھا''کیا تمہارے افسر جانتے ہیں کہ تم کیا کر رہے ہو؟''
''جی ہاں' انہی کا حکم ہے کہ تمہیں گرفتار کر لیا جائے۔''
بابا نے یہ سن کر مزاحمت ترک کر دی۔ ایجنٹ اسے لیے بس سے باہر نکل آئے۔ یوں 18جولائی کی دوپہر درگان دابک سے وابستہ افسانوی داستان کافور کے مانند فضا میں تحلیل ہو ئی اور نیچے سے ردوان کاراجیچ کا خوفناک روپ ظاہر ہو گیا... وہ ظالم اور شیطان جس نے تین سال بوسنیا جیسے خوبصورت فطری مناظر والے جنت نشان علاقے کو ارض جہنم بنائے رکھا۔
ایک ڈرامائی داستان
ردوان کاراجیچ 19 جون 1945ء کو مونٹی نیگرو کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوا۔ سرب نسل سے تعلق رکھنے والا اس کا باپ، ووکو کاراجیچ موچی تھا۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو وہ شاہ پرستوں سے جاملا۔ یہ شاہ پرست ابتداً جرمنوں کے خلاف لڑے۔ مگر جب جرمنوں نے سربیا اور مونٹی نیگرو پر قبضہ کرلیا، تو شاہ پرست ان سے جا ملے۔ وہ پھر قوم پسندوں کے خلاف لڑنے لگے جن کی قیادت مارشل ٹیٹو کررہا تھا۔جنگ کے آخری مراحل میں جیت یقینی ہوگئی، تو ووکو کاراجیچ لوٹا بن گیا۔ اس نے شاہ پرستوں کو چھوڑا اور قوم پسندوں سے جاملا۔ مگر علاقے کے قوم پسند اس کا ماضی نہیں بھولے تھے۔ چناںچہ یوگوسلاویہ بننے کے بعد اسے پانچ سال تک جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ اس دوران ووکو کی بیوی محنت مزدوری کرکے ننھے ردوان کی پرورش کرتی رہی۔
ردوان کاراجیچ ایک جوشیلا نوجوان تھا۔ وہ دنیا والوں کو ''کچھ کرکے''دکھانا چاہتا تھا، اسی لیے گاؤں چھوڑ کر بوسنیا و ہرگزوینیا کے صدرمقام، سراجیو چلا آیا۔ یہ ایک حیرت انگیز فیصلہ تھا کیونکہ یہ یوگوسلاویہ کی واحد ریاست تھی جہاں کسی ایک نسلی گروہ کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔سراجیو میں کاراجیچ نے ماہر نفسیات بننے کی تعلیم پائی ۔ دوران تعلیم اس نے شادی بھی کرلی۔ یوں سراجیو اس کا مستقل مسکن بن گیا۔ اس کے دوستوں میں بوسنیائی مسلمان اور کروشیائی عیسائی بھی شامل تھے۔
تعلیم مکمل کرکے وہ سراجیو کے ایک بڑے ہسپتال سے بہ حیثیت ماہر نفسیات منسلک ہوگیا۔ جلد ہی راتوں رات امیر بننے کے چکر میں کاراجیچ کرپشن کرنے لگا۔ رشوت لے کر جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرنا اس کا مشغلہ بن گیا۔ 1983ء میں اس نے حکومت سے زرعی فارم بنانے کے لیے قرضہ لیا۔ مگر قرضے کی رقم سے کاراجیچ نے بوسنیا کے سیاحتی مقام پر اپنا گھر بنالیا۔ بعدازاں اس کی کرپشن عیاں ہوئی، تو پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ اس پر مقدمہ چلا تو 1985ء میں اسے تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
رہائی کے بعد کاراجیچ نے ایک نفسیاتی کلینک کھول لیا۔ شہرت، دولت اور عزت کا یہ طلب گار سراجیو میں اپنا حلقہ احباب بڑھانا چاہتا تھا۔ مگر اسے شکایت تھی کہ شہر کے مسلمان اور کروشیائی دانشور اسے چنداں اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے برتاؤ نے شاید کاراجیچ کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا جو آگے چل کر متشددانہ انداز میں اجاگر ہوا۔
1990ء میں سوویت یونین کی شکست و ریخت نے یوگوسلاویہ کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اس مملکت کی ریاستیں بھی علم آزادی بلند کرنے لگیں۔ سب سے زیادہ مخدوش حالات نے ریاست بوسنیا ہرگزونیا میں جنم لیا جہاں سرب عیسائی اور بوسنیائی مسلمان تقریباً برابر تعداد میں آباد تھے۔حسب توقع مسلمانوں نے ریاست کی آزادی کا اعلان کردیا۔ مگر بوسنیائی سرب ریاست کا الحاق سربیا سے چاہتے تھے۔ اس امر پہ دونوں نسلوں کے مابین تصادم ہوگیا۔ یہی تصادم کاراجیچ کو سیاست میں گھسیٹ لایا۔
کاراجیچ ابتداً سیاست کے خرخشوں سے دور رہ کر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں محو رہنا چاہتا تھا مگر سربیا میں بیٹھے مشہور قوم پسند سرب رہنما (بعدازاں صدر سربیا) دوبریتا جوسیچ نے تاڑ لیا کہ یہ متحرک و قوم پسند شخص بوسنیائی سربوں کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ تب تک کاراجیچ بوسنیائی سربوں میں ''دانشور'' کی حیثیت سے مشہور ہوچکا تھا۔ چناںچہ جوسیچ کی کوششوں سے ردوان کاراجیچ کو بوسنیا و ہرگزوینیا میں سربوں کا لیڈر بنا دیا گیا۔
یوں راتوں رات شہرت، دولت اور عزت اس کی جھولی میں آگریں۔ وہ انہی دیویوں کی ہی پرستش کرتا تھا لیکن محیرالعقول کامیابی نے کاراجیچ کا دماغ خراب کردیا۔ وہ بوسنیائی سربوں کے مفادات کا تحفظ کرتے کرتے انتہا پسند بن بیٹھا اور ساری دانشوری و اخلاقیات بھول گیا۔15 اکتوبر 1991ء کو بوسنیا و ہرگزوینیا کی پارلیمنٹ نے اعلان آزادی کردیا۔ مگر کاراجیچ اور دیگر بوسنیائی سربوں کو یہ منظور نہ تھا۔ انہوں نے ریاست کے اندر خود مختار مملکت، جمہوریہ سرپسکا کے قیام کا اعلان کردیا۔ اسی دوران سربیا کا مسلم دشمن صدرسلوبودان مائیلوشویچ بوسنیائی سربوں کو بھاری اسلحہ اور فوجی بھجوانے لگا۔ مدعا یہ تھا کہ بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کرکے ریاست پر قبضہ کرلیا جائے۔
1992ء کے موسم گرما میں بوسنیائی سرب مسلمانوں کے علاقوں پر حملے کرنے لگے۔ کاراجیچ نے فوجیوں کوحکم دیا تھا کہ وہ مرد عورتوں اور بچوں میں کوئی تمیز نہ کریں اور سبھی کو گولیوں سے بھون ڈالیں۔ ایک سفاک، بے حس اور ظالم شخص ہی ایسا حکم دے سکتا تھا۔ یوں اس نے اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں مسلمانان بوسنیا کو ملیامیٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔آخرکاراجیچ کی فوج سراجیو شہر پر بمباری کرنے لگی جہاں اس کی تقریباً ساری بالغ زندگی گزری تھی۔ اس شہر سے اس کی حسین یادیں وابستہ تھیں مگر سراجیو آگ و خون میں نہاتا رہا اور کاراجیچ نہرو کی طرح بانسری بجانے میں مصروف رہا۔ مسلمانوں کے خلاف جنگ نے اب صلیبی چولا پہن لیا تھا۔مارچ 1992ء سے جولائی 1996ء تک ردوان کاراجیچ ہی جمہوریہ سرپسکا میں سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ حتیٰ کہ عالمی قوتوں کی مداخلت سے بوسنیا میں جنگ بندی ہوگئی، تب بھی وہ اقتدار سے چمٹا رہا۔ آخر دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا نے سرب صدر، مائیلوشویچ کو دھمکیاں دیں، تو اس کے دباؤ پر کاراجیچ نے اقتدار چھوڑ دیا۔ تاہم امریکیوں کو بھی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس کوگرفتار کرلیتے۔اب ردوان کاراجیچ کی حیات کا نیا باب شروع ہوا۔ وہ روپوش ہوکر زندگی گزارنے لگا کیونکہ عالمی عدالت انصاف اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی تھی۔ مگر بوسنیا اور سربیا میں اس کے حمایتوں کی کمی نہ تھی۔ چناں چہ وہ ان کی مالی امداد سے شاہانہ انداز میں رہنے لگا۔لیکن جوں جوں قانون کا دائرہ تنگ ہوا، اس کے دوستوں میں کمی آتی گئی۔آخر ردوان نے ''روحانی عالم'' کا روپ دھارا اور دقیانوسی خیالات کے مالک سربوں کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر اپنا دھندہ چمکالیا۔ نفسیاتی مشورے دینے سے اسے اتنی آمدن ہوجاتی کہ خود کو پال سکے۔ لیکن مجرم کتنا ہی شاطر و عیار ہو، ایک دن قانون کے لمبے ہاتھ اسے دبوچ ہی لیتے ہیں۔ردوان کاراجیچ کی گرفتاری پر بوسنیائی مسلمانوں نے اظہار خوشی کیا۔ کچھ مسلمانوں کے زخم ہرے ہوگئے اور زاروقطار رونے لگے۔ بہت سے بوسنیائی مسلمان انصاف ملنے کی امید ترک کرکے ہمت ہار بیٹھے تھے۔انسانیت کے خلاف گھناؤنے جرائم اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پہ کاراجیچ پر تقریباً آٹھ سال مقدمہ چلا۔ 24 مارچ 2016ء کو عالمی عدالت نے اسے چالیس سال قید کی سزا سنادی۔ یہ یقین واثق ہے کہ وہ حالتِ اسیری میں جہنم واصل ہوگا۔
اس جنگی مجرم کی داستان حیات واضح کرتی ہے کہ نوجوانی میں وہ اپنے حال میں مست رہنے والا ایک شاعر تھا لیکن جوں جوں عملی زندگی میں داخل ہوا، مادہ پرستی کے جال میں الجھتا چلا گیا۔ اور جب میدان سیاست میں قدم رکھا، تو اس کی رہی سہی انسانیت بھی منفی سیاست کرنے کے باعث جاتی رہی۔ یہ تلخ سچائی کاراجیچ کی ماتم کناں ماں ،جوونکا کچھ یوں بیان کرتی ہے:
''میں نے اپنے بیٹے کو تعلیم و تربیت دیتے ہوئے بتایا کہ دیانت دار بنو اور قانون کا کہنا مانو۔ محنت مزدوری کرکے میں نے اسے لکھایا، پڑھایا تاکہ وہ ڈاکٹر اور شریف آدمی بن سکے۔ تب میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ وہ سیاست میں داخل ہوجائے گا۔ میں ہمیشہ سے سمجھتی ہوں کہ سیاست اچھی نہیں ہوتی۔ اسی لیے بیٹے کو اس سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ کاش وہ میری نصیحتوں پر عمل کرلیتا، اے کاش!''