شہدائے شکاگو کے خون سے عظیم جدوجہد نے جنم لیا

آج کی ترقی یافتہ دنیا میں مزدور تحریک کو نئے چیلینجزکا سامنا ہے


Habib Uddin Jinaidi May 01, 2016
آج کی ترقی یافتہ دنیا میں مزدور تحریک کو نئے چیلینجزکا سامنا ہے۔ فوٹو: فائل

پتھر کے زمانے سے لے کرآج کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں بھی انسان طبقاتی مظالم کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی کے باوجود پوری دنیا میں سماجی اور معاشرتی ناہمواری پائی جاتی ہے۔

طاقت ور مرد، عورت کے حقوق کو غصب کرنا حق تصور کرتا ہے، معاشرے کے طاقت ور افراد کم زور طبقے کا استحصال کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ طاقت ور اور امیر ترین ممالک کی خوش حالی کا راز تیسری دنیا کی غربت میں پنہاں ہے۔ یہی صورت حال آجر اور اجیر کے مابین تعلقات کی ہے۔ ہمیں آج دنیا کے بیشتر ممالک میں قدم قدم پر محنت کش طبقے کا بد ترین استحصال نظر آتا ہے۔

131 سال قبل شکاگو کے شہید مزدوروں اور اُن کے عظیم قائدین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ تو ثابت کردیا کہ حقوق کی پاس داری کے لیے جان تک نچھاور کی جاسکتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محنت کشوں کے حقوق کا استحصال بہر طور جاری ہے۔ یوم محنت دنیا کے بیشتر حصّے میں ہر سال یکم مئی کو منایا جاتا ہے۔ اُس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اُس وقت یورپ اور امریکا میںکارخانوں میں مزدوروں کے معاملات کے حوالے سے تمام تر اختیار طاقت ور سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور حکومتوں کے ہاتھوں میں تھا۔ کارکنوں سے 16سے 18گھنٹے یومیہ تک مشقت لی جاتی، اس کے عوض کوئی اضافی سہولت بھی نہیں ہوتی تھی۔

اس غیرانسانی صورت حال کے خاتمے کے لیے مزدور تنظیمیں کئی دہائیوں سے جدوجہد میں مصروف تھیں۔ امریکن لیبر فیڈریشن نے اپریل1886میں ایک قرارداد منظور کی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ یکم مئی 1886 سے مزدوروں کے اوقات کار 8گھنٹے یومیہ مقرر کیے جائیں۔ اس قرارداد نے صنعتوں کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ امریکا اور کینیڈا کے مزدور اور اُن کے قائدین نے اس مقصد کے حصول کے لیے ایک زبردست تحریک چلائی مگر شکاگو میں مزدور تحریک کا جوش و خروش اپنے عروج پر تھا۔

اپریل کے آخری ہفتے میں تحریک میں زبردست اُبھار آیا اور یکم مئی 1886کو مزدوروں کا ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا، جس کے شرکاء کی تعداد 4 لاکھ سے بھی زاید تھی اور وہ مکمل طور پر پُرامن تھا۔ ایک سازش کے تحت خفیہ پولیس کے کارندوں نے نہتے مزدوروں پر تشدد کا جواز پیدا کرنے کے لیے جلوس کے اندر سے ایک بم مسلح پولیس کی جانب پھینکا جس سے ایک پولیس اہل کار مارا گیا۔ اس حملے کو جواز بناکر مسلح پولیس نے مزدوروں پر اندھادُھند فائرنگ شروع کردی۔ ایک بڑی تعداد اس کا نشانہ بنی۔

بم پھینکے جانے کے نام نہاد واقعے کو بنیاد بناکر اور مزدور تحریک کو کچلنے کے مذموم مقصد کے تحت 8 مزدور راہ نماؤں کو گرفتار کرکے اُن پر قتل کے مقدمات قائم کیے گئے، جن میں مزدور راہ نما اسپائس، فیلڈین، پارسنز، ایڈولف فشر، جارج اینجل، مائیکل شواب، لوئس لنگ اور آسکر نیبے شامل تھے۔ اسپائس، اینجل، پارسنز اور فشر کو 11نومبر 1887کو پھانسی دے دی گئی۔ شکاگو کے مزدوروں پر گولیاں چلانے والے، انہیں قتل اور پھانسی پر چڑھانے والے تاریخ کے کوڑے دان کا حصّہ بن چکے ہیں، مگر ہر سال یکم مئی کو کروڑہا محنت کش اسپائس اور اس کے ساتھیوں کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔

یہ شہدائے شکاگو کے خون کی حدّت ہی تھی جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحاریک نے جنم لیا، نئی سیاسی قوتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے کئی ریاستوں میں ظلم کے اس نظام کو تہہ و بالا کرڈالا۔ یہ جدوجہد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آج بھی جاری ہے اور اُس کے سامنے آج کی ترقی یافتہ دنیا کے نئے چیلنجز سامنے آچکے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد گلوبلائزیشن کے ظالمانہ نظام کے نفاذ کے بعد سرمایہ اور محنت کے درمیان کشمکش میں اضافہ ہوا ہے۔ صنعتوں،کارخانوں، دفاتر اور تجارت میں افرادی قوت پر انحصار کم اور کمپیوٹر پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔

پاکستان میں سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی انتہائی بدترین شکل رائج ہے۔ بالخصوص پرائیویٹ سیکٹر میں مستقل ملازمت کے نظام کو تقریباً ختم کیا جاچکا ہے۔ رہی سہی کسر آؤٹ سورسنگ کے طریقۂ کار نے پوری کردی ہے۔ پاکستان میں گذشتہ کئی سال سے ملازمت پیشہ افراد کا بدترین استحصال ہورہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ورکنگ کلاس جس کی تعداد پاکستان میں6 کروڑ 15لاکھ میں صرف ایک فی صد افراد ٹریڈ یونینز کے رکن ہیں۔ ہمارے ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور کمرشیل بینکوں، جہاں اب سے دو دہائی قبل ٹریڈ یونینز کی ممبرشپ اداروں کی کل افرادی قوت کا 75یا 80 فی صد ہوا کرتی تھی، وہ اب گھٹتے گھٹتے 10فی صد رہ گئی ہے۔ اس صورت حال کے منفی اثرات محنت کش طبقے اور اُس کی ٹریڈ یونینز پر مرتب ہوئے ہیں، ملازمت پیشہ طبقہ کی تن خواہوں اور دیگر سہولیات میں تخفیف ہوتی چلی گئی۔



پرائیویٹائزیشن کے عمل نے ہمارے ملک میں بے روز گاری کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کے محنت کش نجکاری کے عمل کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے حکومتی فیصلے کے خلاف اس ادارے کے ملازمین نے جرأت مندانہ جدوجہد کی۔ اس تحریک کے ٹریڈ یونینز پر اثرات کیا مرتب ہوں گے اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی، لیکن پی آئی اے کے ملازمین نے اپنا حق بہرکیف ادا کردیا۔1991میں بھی پاکستان کی ٹریڈ یونینز نے نجکاری کے خلاف ایک بڑی تحریک منظم کی تھی، 160سے زاید اداروں کی سی بی اے یونینز نے اپنا اتحاد ''آل پاکستان اسٹیٹ انٹر پرائزز ورکرز ایکشن کمیٹی ''(APSEWAC) کے نام سے قائم کیا تھا۔

اُس کمیٹی نے ایک بڑی تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں پاکستان کے محنت کشوں کے نجکاری مخالف جذبات پوری دنیا تک پہنچے تھے، لیکن حکومت نے نجکاری کا عمل جاری رکھا۔ آج بھی نجکاری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، وہ ادارے جو نجکاری کی لسٹ میں شامل ہیں، اُن کی ٹریڈ یونینز کا کوئی اتحاد تاحال منظر عام پر نہیں آیا۔ 1991 اور آج 2016 میں فرق یہ ہے کہ جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر آچکی ہے۔1991میں پاکستان میں صرف سرکاری ٹی وی ہوا کرتا تھا لیکن آج ایک سو سے زاید پرائیویٹ چینلز 24گھنٹے اپنی نشریات جاری رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج پی آئی اے کے ملازمین کی جدوجہد کے حق میں میڈیا اور پارلیمان میں جو آواز اُٹھائی گئی وہ بھی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس حوالے سے ٹریڈ یونینز کا کوئی ملک گیر اتحاد بہر کیف ابھی تک قائم نہیں ہوسکا۔

عرصے سے یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک انحطاط کا شکار ہے۔ اس حوالے سے مختلف مزدور تنظیمیں اور سماجی ادارے جن میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (PILER)، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن(NTUF)، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(HRCP)، ہوم نیٹ (Homenet)، عورت فاؤنڈیشن، ناؤ کمیونیٹیز ) (Now Communities اور لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن وغیرہ شامل ہیں مشاورتی اجلاس اور مظاہرے منعقد کرتے رہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے صورت حال میں کوئی خاصی مثبت تبدیلی نہیں آرہی، مگر کچھ حوصلہ افزاء اشارے بھی ملے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس انحطاط کو بہرکیف ختم ہونا ہے۔

مزدوروں کی بڑی افرادی قوّت اب سرکاری تحویل کی صنعتوں میں نہیں بل کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ہے جو بکھری ہوئی ہے، یہ تعداد لاکھوں میں ہے لیکن غیرمنظم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ٹریڈ یونینز، لیبر فیڈریشنز، کنفیڈریشنز اور سیاسی جماعتوں کے لیبر ونگز کی موجودگی کے باوجود محنت کش طبقہ غیرمنظم کیوں؟ کیا اس کی وجہ ملازمتوں کا ٹھیکے داری نظام، تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم، آؤٹ سورسنگ، پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں کی انتظامیہ کا ٹریڈ یونین دشمن روّیہ اور لیبر قوانین کے اطلاق سے فرار، ٹریڈ یونین لیڈرشپ میں نوجوانوں کی عدم شرکت، مزدور لیڈر شپ میں عدم یک جہتی، حکومت کی جانب سے محنت کشوں کے معاملات و مسائل اور مزدور قوانین پر عمل درآمد سے عدم دل چسپی ہے یا پھر آج کی دنیا کا ''فری مارکیٹ اکانومی کا نظام'' ہے؟

بتایا جاتا ہے کہ ورکنگ کلاس ملک کی کُل آبادی کا تقریباً 35 فی صد ہے، مگر منتخب پارلیمان میں اُن کی حقیقی نمائندگی موجود نہیں۔ یہ ذمے داری تمام جمہوریت پسند جماعتوں پر عاید ہوتی ہے کہ وہ سینیٹ آف پاکستان، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں محنت کش طبقے کے لیے کوٹا مختص کریں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ورکنگ کلاس کی خبروں، سرگرمیوں اور مسائل کی کوریج ایک فی صد بھی نہیں۔ مزدور تحریک اور ٹریڈ یونینز کے لیے اُن کی سرگرمیوں کی کوریج اُسی طرح ضروری ہے جس طرح سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی سرگرمیوں کی۔ آج یکم مئی 2016کو پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام بظاہر پوری قوت کے ساتھ قابض ہے مگر حقیقتاً اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کیوںکہ وہ انسانوں کو بھوک، افلاس اور ناانصافی سے نجات نہیں دلا سکا۔

وطن عزیز میں مختلف سرویز بتاتے ہیں کہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 50فی صد سے بھی زاید ہوچکی ہے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں، مزدور اور ٹریڈ یونین تحریک سے وابستہ کارکنوں کے لیے مایوس ہونے کے بجائے بلند عزم اور حوصلوں کے ساتھ ان چیلینجز کا مقابلہ کرنا ہی درست انتخاب ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور مزدور تنظیموں نے طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعد جمہوریت کو بحال کروایا ہے۔ یہ قوتیں متحد ہوکر معاشرے کو دہشت گردی اور لاقانونیت سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ متحرک، موثر اور فعال ٹریڈ یونین تحریک کو جنم کیوں نہیں دے سکتیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔