ہیلی کاپٹروں کا مشکوک سودا
ایسے لگتا ہے کہ صدر پرناب مکھرجی بڑی تیزی سے اپنے مشکوک ماضی کی گرفت میں آ رہے ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ صدر پرناب مکھرجی بڑی تیزی سے اپنے مشکوک ماضی کی گرفت میں آ رہے ہیں۔ اس مرتبہ ان کا نام آگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹروں کے سودے میں سامنے آیا ہے جو کانگریس کے حکومتی اراکین کے آرام دہ سفر کے لیے خریدے گئے تھے جب مکھرجی وزیر خزانہ تھے۔ اس اسکینڈل میں ان کے کردار کا انکشاف اٹلی کے شہر میلان کی عدالت میں کیا گیا۔ حالانکہ بھارت کا سینٹرل بورڈ آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) گزشتہ تین سال سے اس معاملے کی انکوائری کر رہا تھا مگر اس نے مکھرجی کا نام نہیں لیا۔
ظاہر ہے مرکزی حکومت کے زیر انتظام چلایا جانے والا کوئی ادارہ آخر کس طرح آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود باور کیا جاتا ہے کہ سی بی آئی رکاوٹوں کے باوجود سچ کی تہہ تک پہنچ جائے گا۔ اگر اس تحقیقاتی ایجنسی نے براہ راست پارلیمنٹ کو رپورٹ کرنا ہوتا تب ہیلی کاپٹروں کے سودے کا یہ اسکینڈل عوام تک پہنچ جاتا لیکن کوئی حکومت بھی اس ایجنسی کو آزادی دینے پر تیار نہیں کیونکہ اس طرح حکمرانوں کا اس پر کنٹرول ڈھیلا پڑ جائے گا جو وہ ہرگز نہیں چاہتے۔ لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں جب بھارتی عوام کو اس قسم کی سرکاری کرپشن کی اطلاع اس وقت ملتی ہے جب کوئی غیر ملکی ایجنسی اس بارے میں رپورٹ کرتی ہے۔ ہیلی کاپٹروں کا سودا اس کی بس ایک مثال ہے۔
ماضی میں بھی بہت سے سیکنڈل صرف اسی صورت میں منظر عام پر آئے جب کسی غیر ملکی ایجنسی نے انھیں آشکار کیا اور اب بھی میلان کی عدالتی کارروائی سے اس کا پتہ چلا۔ آخر سی بی آئی نے اس خط کا انکشاف کیوں نہیں کیا جو جیمز کرسچن مائیکل نے پیٹرہولٹ کو لکھا تھا جو آگسٹا ویسٹ لینڈ کی خریداری کے وقت بھارت کے سرکاری ادارے کے سربراہ تھے۔ اپنے خط میں جیمز کرسچن مائیکل نے لکھا تھا کہ چونکہ محترمہ سونیا گاندھی وی آئی پی کے پیچھے اصل طاقت تھیں لہٰذا وہ ایم آئی8- ہیلی کاپٹر کے ذریعے پرواز نہیں کریں گی اور ان کے سب سے قریبی معتمد وزیراعظم منموہن سنگھ ہیں اور پرناب مکھرجی اس وقت وزیرخزانہ تھے۔ اب وہ بھارت کے صدر مملکت ہیں جب کہ اوسکر فرنینڈیس مقامی سیاستدان ہیں۔
یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہے کہ سی بی آئی کو اس سارے معاملے کا علم نہیں تھا۔ البتہ اس ایجنسی کی خاموشی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔ ہیلی کاپٹروں کے اس سودے میں جو چیز دھچکہ پہنچانے والی ہے وہ یہ ہے کہ وزارت دفاع ایسا ہیلی کاپٹر چاہتی تھی جو ایک خاص بلندی پر پرواز کر سکے۔ اس مقصد کے لیے ایک فرانسیسی ہیلی کاپٹر موجود تھا جو مطلوبہ خصوصیات کا حامل تھا۔ لیکن اس کے باوجود آگسٹا ویسٹ لینڈ کو ترجیح دی گئی حالانکہ وہ اس مطلوبہ بلندی پر پرواز نہیں کر سکتا تھا اور افسوس کی بات یہ کہ حکومت نے آگسٹا ویسٹ لینڈ کی خریدکے لیے مطلوبہ بلندی میں کمی کر دی۔
بہرحال سیاسی سطح پر یا بیوروکریسی میں جو بھی اس کا ذمے دار ہے اس کا نام شاہر کیا جانا چاہیے۔ سونیا گاندھی نے تو صاف صاف انکار کر دیا ہے کہ ہیلی کاپٹروں کے سودے میں ان کا کوئی کردار ہے۔ سونیا کے سیاسی سیکریٹری احمد پٹیل کو خود منظرعام پر آ کر سونیا گاندھی کا تحفظ کرنا چاہیے۔ لیکن اس صورت میں یہ بات عجیب لگے گی کیونکہ معمول کے مطابق ایک سرکاری ترجمان کانگریس صدر کے نکتہ نظر کو بیان کرتا ہے۔ البتہ یہ بات بہت عجیب ہے کہ ترجمان نے اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود اپنی ذات کا دفاع کیا ہے کیونکہ کرسچن مائیکل نے اس کو بھی اس معاملے میں نامزد کر دیا ہے۔
جہاں تک آگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹروں کے سودے کا تعلق ہے تو میلان کی عدالت نے اس سودے میں رشوت وصول کرنے والوں کو سزا سنا دی ہے لیکن عدالت رشوت دینے والوں کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی اور یہ وہ مقام ہے جہاں پر بھارتی حکام قابل مواخذہ ٹھہرتے ہیں۔ اب ملک پر بی جے پی کی حکومت ہے لہٰذا سی بی آئی وہ سارا مواد منظرعام پر لا سکتی ہے جو اس کے پاس ہے اور جسے وہ کانگریس کی حکومت کے دوران ظاہر کرنے سے ڈرتی تھی۔ کم از کم نام تو بتا دینے چاہئیں۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کانگریسی اراکین کے شور و غل کے باعث جاری نہیں رکھی جا سکی جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس سیکنڈل میں کانگریسی لیڈر ہی ملوث ہیں۔
اس سے مجھے بوفورس توپوں کا سودا یاد آتا ہے جس میں سابق وزیراعظم راجیوگاندھی ملوث تھے۔ گو کہ اس معاملے میں کانگریس کے چوٹی کے لیڈر بھی اندرونی کہانی سے آگاہ نہیں تھے کیونکہ راجیو گاندھی نے ایک علیحدہ بینک اکاؤنٹ کھول لیا تھا جس سے متعلقہ افراد کو اٹلی میں فائدہ پہنچایا گیا تھا۔ ممتاز کانگریسی لیڈرکمل ناتھ کو پوری کہانی کا پتہ تھا لیکن پارٹی کے ساتھ اپنی وفاداری کی بنا پر اس نے اپنی زبان بند رکھی۔ دوسرا شخص جسے اس کا علم تھا وہ تھا اوٹاویو کواتروچی (Ottavio Quattrocchi) لیکن اس کو بھارت چھوڑ کر جانے کی اجازت دیدی گئی۔ حالانکہ یہ ثابت ہو چکا تھا کہ اس کروڑوں ڈالر کے سودے میں اس نے ''مڈل مین'' کا کردار ادا کیا تھا۔ چونکہ مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اس لیے اس کے ملک چھوڑنے پر کوئی رکاوٹ عائد نہ کی گئی۔ اس وقت بھی سونیا گاندھی کا نام اس سیکنڈل میں آیا تھا جس طرح کہ اب بھی آیا ہے۔
سی بی آئی کو اس معاملے کا کھوج سابق وزیردفاع اے کے انتھونی کے اس ریمارک کی روشنی میں لگانا چاہیے کہ ''ہیلی کاپٹروں کے سودے میں رشوت ستانی میں قطعاً کوئی شک و شبہ ہی نہیں ہے۔''
انتھونی نے مزید کہا ''... ہم نے آگسٹا ویسٹ لینڈ کو بلیک لسٹ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی سرپرست کمپنی فن میکانیکا اور اس کی تمام ذیلی کمپنیاں بھی بلیک لسٹ کی جا رہی ہیں۔ ہم نے بینک گارنٹی بھی حاصل کر لی ہے اور 2068 کروڑ روپے کی رقم وصول کر لی ہے۔ آگسٹا ویسٹ لینڈ کمپنی کے تین ہیلی کاپٹر بھی ضبط کر لیے گئے ہیں۔'' لیکن انتھونی کے مطابق مودی حکومت نے دوبارہ کمپنی کے ساتھ معاملات استوار کر لیے ہیں۔ اسے بھارت میں آ کر ملکی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے اور اسے مزید ٹھیکے لینے کی اجازت بھی دیدی ہے۔
اگر میں جواہر لعل نہرو کی حکومت کے زمانے کو یاد کروں تو اس زمانے میں جگ جیون رام پر شک ہوا۔ اگرچہ اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا مگر اس کی شہرت مشکوک تھی۔ 1990ء کے عشرے میں ''جین حوالہ کیس'' میں بہت سے لوگوں کے نام آئے جن میں ملک کے چوٹی کے سیاستدان جیسے کہ ایل۔کے۔ایڈوانی بھی شامل تھے۔ اس معاملے میں جین برادرز کے قبضے سے ایک ڈائری بھی ملی جس میں فائدہ اٹھانے والے بہت سے لوگوں کے نام درج تھے۔ لیکن نہ تو کانگریس کے اور نہ ہی بی جے پی کے کسی لیڈر پر فرد جرم عائد کی گئی۔
تاہم اب حالات مختلف ہیں کیونکہ میڈیا بالخصوص ٹیلی ویژن بہت زیادہ چوکس اور طاقتور ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب یہ سوچنا مشکل ہے کہ ہیلی کاپٹروں کے اسکینڈل کی جتنی تشہیر ہو چکی ہے اس کے باوجود اس معاملے کو طاق نسیاں پر رکھ دیا جائے گا اور اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔
پارلیمنٹ کے ارکان کو احساس ہے کہ عوام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب انھیں بھی اپنے ووٹ کی طاقت کا احساس ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں بے شک ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتی رہیں لیکن وہ اس غصے سے منہ نہیں موڑ سکتیں جو بددیانتی کے سودوں کی وجہ سے عوام میں پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا کانگریس خواہ کتنی ہی شدت سے انکار کرتی رہے لیکن ہیلی کاپٹروں کے سودے میں رشوت دینے اور لینے والوں کے خلاف یقینا کارروائی عمل میں لائی جائے گی جو کہ ایک بہت اچھی پیش رفت کی علامت ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)