مزدوروں کا عالمی تہوار
ہم محنت کش اپنے ساتھیوں کی شہادت پر روتے ہیں اور نہ آہ و بکا۔
ISLAMABAD:
ہم محنت کش اپنے ساتھیوں کی شہادت پر روتے ہیں اور نہ آہ و بکا۔ بلکہ عہد کرتے ہیں کہ ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے، اور ان کی جدوجہد و قربانیوں پر فخر کرتے ہیں۔ 1886 سے قبل دنیا بھر کے مزدور 12 سے 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور تھے، لیکن 1886 یکم مئی سے 5 مئی تک مزدوروں کی عظیم جدوجہد نے نہ صرف امریکا بلکہ اقوام متحدہ سے بھی اپنے مطالبات منوالیے۔ ہرچند کہ اب بھی پاکستان اور بہت سارے پسماندہ ممالک میں مزدور 10 سے 12 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں، مگر پاکستان میں بھی سرکاری اداروں اور بہت سے دیگر اداروں میں آٹھ گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے۔
امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں کا دیگر مطالبات کے ساتھ یہ مطالبہ سرفہرست تھا کہ 8 گھنٹے کام، آٹھ گھنٹہ سونا اور آٹھ گھنٹہ تفریح۔ ان مطالبات کے لیے جن بے پناہ مزدوروں نے شہادتیں دیں، ان کے علاوہ جن 6 مزدور رہنماؤں کو 9 ماہ بعد پھانسی دی گئی، ان میں 2 امریکا، 2 جرمنی، ایک آئرلینڈ اور ایک انگلینڈ کا تھا۔ یعنی کہ پھانسی پہ چڑھنے والے بھی صرف امریکا کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے شہری تھے۔ یہ 6 رہنما سب کے سب انارکسٹ تھے، جنھیں انارکو کمیونسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق تھا اور نہ کسی مزدور تنظیم کے عہدیدار تھے۔ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کسی ریاست نے دی، پارٹی نے دی اور نہ پارلیمنٹ نے دی۔ یہ مطالبات مزدوروں کی عالمی یکجہتی اور نظریے نے منوائے۔
انارکسٹوں کی یہ جدوجہد شکاگو کی جدوجہد سے بہت قبل شروع ہوئی تھی۔ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، انقلاب روس، چین، کیوبا، کوریا، اسپین کی عوامی جنگ سے لے کر گزشتہ 'وال اسٹریٹ قبضہ تحریک' تک، جن کا نعرہ تھا کہ 'ہم 99 فیصد ہیں'۔ اس مزدور تحریک کے بانیوں میں سے پرودھون، باکونن، کارل مارکس، اینگلز، پیترکرو پوتکن، ایما گولڈمان، لینن، تروترسکی، اسٹالن، ماؤژے تنگ وغیرہ تھے اور یہ سب ہیگلین فلسفے سے متاثر تھے۔ بعد ازاں ان میں اختلاف بھی ہوئے لیکن مزدوروں کی طبقاتی جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔
آج بھی مزدور، پیداواری قوتیں اور شہری اپنے حقوق کے لیے لڑرہے ہیں۔ یہ لڑائی کہیں تیز ہے تو کہیں سست بھی ہے، مگر ہے عالمی۔گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر میں مزدوروں نے عظیم جدوجہد کی ہے۔
ہندوستان میں 16 کروڑ مزدوروں کی ہڑتال نے عالمی ریکارڈ توڑ دیے۔ میکسیکو میں 50 لاکھ کی عظیم الشان ریلی، چین میں مزدوروں اور کسانوں کی ہزاروں ریلیاں۔ جنوبی یورپ خصوصاً یونان، اسپین، پرتگال، اٹلی میں محنت کشوں کی عظیم جدوجہد اور فرانس میں پھر ایک بار مزدوروں کا ابھار۔ ترکی میں محنت کشوں کی جماعت کا دوسرے نمبر کی جماعت بن کر ابھرنا، تیونس میں ورکرز پارٹی کا مضبوط ہونا، تھائی لینڈ، فلپائن اور برما میں مزدور تحریک کا بڑھنا اور نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کی موثر کامیابی، ہندوستان میں 92 ہزار مربع میل پر ماؤ نواز کمیونسٹوں کا قبضہ اور انڈیا کے ایک تہائی رقبے پر کمیونسٹوں کا راج قابل ذکر ہے۔
امریکا کی شام، یوکرین اور عراق میں شکست اور کردوں کی کامیابی، بحرین کے انقلابیوں کی مسلسل جدوجہد بھی عالمی طور پر محنت کشوں کی ہی کامیابی ہے۔ مگر ساتھ ساتھ بہت سے علاقوں اور خطوں میں رجعت کو فروغ ملی ہے۔ اور یہ کام عالمی سامراج کی گھناؤنی سازش کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ، مغربی افریقہ، افغانستان، لیبیا، عراق اور شام کے کچھ علاقے۔
ہرچند کہ پاکستان کے محنت کش بھی ہر روز اپنے حقوق کے جدوجہد کررہے ہیں لیکن چونکہ متحد نہیں ہیں، اس لیے قابل ذکر طور پر نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس لیے بھی کہ یہاں کی معاشی، سماجی اور سیاسی صورتحال دگرگوں ہے۔ اس لیے بھی مزدوروں اور کسانوں کو سر اٹھانے کا موقع کم ملتا ہے۔ پھر بھی گزشتہ برسوں اور حالیہ سال میں پنجاب میں کسانوں کی قابل ذکر جدوجہد نظر آئی ہے، مزدور بھی ٹکڑیوں میں لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا کے چار ممالک میں سے ایک پاکستان ہے، جہاں سب سے زیادہ بدعنوانی ہے۔ دنیا کے چار ملکوں میں سے ایک پاکستان ہے جہاں سب سے ان پڑھ لوگ رہتے ہیں۔ دنیا میں جن چار ملکوں میں خواتین پر مختلف پابندیاں ہیں ان میں ایک پا کستان ہے۔
دنیا میں زچگی کے دوران سب سے زیادہ ماؤں کی اموات جن چار ملکوں میں ہوتی ہیں ان میں سے ایک پاکستان ہے۔ دنیا کے جن چار ممالک میں مزدوروں کی تنظیم کاری پر پابندیاں ہیں، ان میں سے ایک پاکستان ہے۔ جب کہ دنیا کے ان 8 ملکوں میں سے ایک پاکستان ہے جن کے پاس ایٹم بم ہے۔ اسلحہ کی پیداوار اور تجارت میں پاکستان کا نمبر 11 واں ہے۔ سب سے زیادہ بری صورتحال مزدوروں کی ہے۔ یہاں حکومت کی جانب سے کم از کم تنخواہ 13 اور 14 ہزار روپے کا اعلان کیا ہے لیکن 8 یا 10 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں 90 فیصد مزدوروں کو نہیں ملتی ہیں۔
سب سے کم تنخواہ بھٹہ مزدوروں، سیکیورٹی گارڈ، پٹرول پمپ پر کام کرنیوالے، پاور لومز کے مزدوروں اور ٹیکسٹائل کے مزدوروں کو ملتی ہیں اور ان کی ڈیوٹی بھی 12 گھنٹے کی ہوتی ہے۔ دوسری جانب عالمی سامراج نیو ورلڈ آرڈر کے تحت نجکاری کا سلسلہ شروع کرکے محنت کشوں کو بے روزگار کررہا ہے۔ کے پی ٹی سے ہزاروں مزدوروں کو انتظامیہ نے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، ریلوے، پاکستان پوسٹ، کے پی ٹی، واپڈا، اسٹیٹ لائف، پی ایس او سمیت 36 اداروں کی فوری نجکاری کرنے کا حکومت نے فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح سے صحت، تعلیمی اداروں، توانائی، اسپتالوں اور یونیورسٹیوں کو نجی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اس کے خلاف محنت کش جابجا، وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کررہے ہیں۔ اب تک جہاں بھی نجکاری ہوئی ہے، وہاں سے مزدور نکالے گئے ہیں اور پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ حال ہی میں اوکاڑہ کے کسانوں نے زبردست مظاہرے کیے، ان کے ہر مظاہرے میں بائیں بازو کی عوامی ورکرز پارٹی پیش پیش تھی۔
مگر ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ سپلا کے تحت استادوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس پر باربار مظاہرہ کرنے کے بعد اب حکومت مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوئی ہے۔ اب دیکھئے آگے چل کر کیا ہوتا ہے؟ محنت کشوں کے لیے مہنگائی ایک مصیبت بن گئی ہے۔ دال، چاول، آٹا، تیل، چینی، گوشت، دودھ، سبزی، مصالحہ جات، یہاں تک کہ نمک بھی 25 روپے کا پیکٹ مل رہا ہے۔ ان مسائل کا حل انتخابات نہیں بلکہ محنت کش طبقے کا انقلاب ہے۔ بقول ایما گولڈمان 'انتخابات سے اگر مسائل حل ہوتے تو حکمران انتخابات پر کب کی پابندی لگا چکے ہوتے'۔