محنت کرنے والے کا حق
وہ لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل ستر کے انتخاب میں شکست کھا گئے
ڈاکٹر جاوید اقبال نے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابل ستر کے انتخاب میں شکست کھا گئے۔ لوگوں نے افسوس کیا کہ لاہوریوں نے فرزند اقبال کو ووٹ نہ دیے۔ وہ کچھ عرصے بعد ہائی کورٹ کے جج بنے اور پھر چیف جسٹس۔ اس کے بعد جناب جاوید اقبال نوے میں بطور جج سپریم کورٹ ریٹائرڈ ہوئے۔
اس فراغت کے بعد تقریباً پچیس سال تک انھوں نے علمی اور سماجی سطح پر بہت کچھ کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جسٹس جاوید اقبال ایک خوبصورت اور کامیاب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ ایک مسئلہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہمیشہ رہا کہ اتنی قابلیت اور کامیابیوں کے باوجود بھی ان کی پہچان یہی رہی کہ وہ ''شاعر مشرق'' کے بیٹے ہیں۔ وہ خود کہتے تھے کہ بہت بڑے درخت کے سائے تلے چھوٹے پودے پروان نہیں چڑھ سکتے۔ اتنی بلند پایہ نسبت کے باوجود ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی پہچان تو ضرور قائم کی لیکن اقبال تو اقبال ہیں۔
اگر موازنہ کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکیم الامت کو پاکستان و ہندوستان کے علاوہ افغانستان، ترکی اور ایران کے لوگ بھی جانتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ آج سے پانچ صدیوں بعد بھی اقبال کو یاد رکھا جارہا ہوگا۔ یہ بات ہم ان کے فرزند کے بارے میں نہیں کہہ سکتے، انھیں یاد رکھے جانے کا دورانیہ ایک آدھ صدی تک ہی ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ باپ بیٹوں کے حوالے سے ہماری گفتگو کا کیا مقصد ہے؟ جیسے جیسے کالم آگے بڑھتا جائے گا ویسے ویسے محنت کرنے والے کے حق کے حوالے سے بھی پردے اٹھتے جائیں گے۔
اقبال اور فرزند اقبال کی زندگیوں میں جھانکیں تو معاشی خوشحالی کے حوالے سے ہمیں بہت زیادہ فرق دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کی شہرۂ آفاق شاعری کی قیمت مال و دولت کی شکل میں ان کی زندگی میں بھی کوئی کردار ادا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اہل ہند صرف ان کی شاعری کو سراہتے رہے۔ ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'' کے خالق کو ہندوستان کے باسی زندگی کی سہولتیں عطا نہ کرسکے۔ ''مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا'' پڑھ کر جھومنے والے مسلمان اپنے اقبال کو غم روزگار سے آزاد نہ کرسکے۔
اقبال کی پوری زندگی تنگ دستی میں ہی گزر گئی۔ ان کے مقابلے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کو اپنے والد کی کتابوں کی رائلٹی ملی اور وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک گئے۔ انھوں نے وکالت پر توجہ دی اور بطور اعلیٰ عدلیہ کے جج انھیں زندگی کی بہتر سہولتیں حاصل رہیں۔ آج اقبال کے پوتوں کا شمار ملک کے خوشحال لوگوں میں ہوتا ہے کہ انھوں نے غم جاناں کے ساتھ ساتھ غم روزگار کو بھی اپنے سامنے رکھا۔ اقبال کی طرح کا نہ عظیم مقصد ان کے سامنے ہوسکتا ہے اور نہ قابلیت۔
امیتابھ بچن کے والد ایک بہت بڑے شاعر تھے۔ قابل و مشہور لیکن غریب، امیتابھ بتاتے ہیں کہ پتاجی مشاعروں میں شریک ہوتے تو بہت رات گئے واپس آتے۔ نوجوان بیٹے نے ایک مرتبہ بہت دیر سے آنے کا پوچھا تو باپ نے کہا کہ ''پیسہ آسانی سے نہیں کمایا جاتا، بہت محنت کرنی پڑتی ہے''۔ پھر امیتابھ بچن بڑے ادا کار بن گئے اور لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے لگے۔
انھیں ایک مرتبہ شوٹنگ میں دیر ہوگئی اور وہ بہت رات گزرنے کے بعد واپس آئے، والد انتظار کررہے تھے۔ بیٹے سے تاخیر کا سبب پوچھا تو جواب دیا کہ ''پیسہ آسانی سے نہیں کمایا جاتا، بہت محنت کرنی پڑتی ہے''۔محنت کی بات اور باپ بیٹوں کے تذکرے میں ایک بات سامنے آرہی ہے کہ باپ زیادہ قابلیت کے باوجود غریب رہے اور بیٹے کمتر علمی قابلیت کے باوجود خوشحال ہوگئے۔ یہ کیا ہے؟ آس پاس نظر دوڑائیں تو کئی ایسے باپ بیٹے نظر آئیں گے۔
ریاض شاہد پاکستان کی فلمی صنعت کا بہت بڑا نام تھا۔ بہترین قلمکار اور لاجواب ہدایت کار، فرنگی، شہید، زرقا، یہ امن اور بہشت جیسی شاہکار فلمیں تخلیق کرنے والے اداکار شان ان کے فرزند ہیں، کہاں ریاض شاہد کی تمام تر قابلیت کے باوجود تنگ دستی اور کہاں شان کی خوشحالی، یہ کیا ہے؟ قدرت ہمیں کیا سمجھا رہی ہے؟ ایسی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
جیسے اداکار سلمان خان اور ان کے والد سلیم خان ۔ شعلے، کبھی کبھی اور شکتی جیسی عمدہ فلمیں سلیم جاوید کے قلم کا شاہکار رہی ہیں۔ جاوید اختر کے ساتھ مل کر فلمی کہانیاں لکھنے والی اس جوڑی نے بالی وڈ میں بھونچال پیدا کردیا تھا۔ سلیم خان اپنی تمام تر کامیابیوں اور اچھی آمدنی کے باوجود بھی اپنے بیٹے سلمان خان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ باپ نے ساری عمر فلم انڈسٹری میں جتنے پیسے کمائے ہوں گے اس سے کہیں زیادہ سلمان خان اپنی ایک فلم سے کمالیتے ہوں گے۔
ہر شخص کو درجنوں ایسے لوگ نظر آئیں گے جو زیادہ قابلیت کے باوجود غریب ہوتے ہوں گے۔ ایسے واقعات بھی ہر ایک کی نظر میں ہوں گے کہ باپ کے مقابلے میں کم تر قابلیت کے باوجود ان کے بیٹوں نے زیادہ خوشحال زندگی گزاری ہوگی۔ محنت و قابلیت اور باپ بیٹوں کے حوالے سے کالم قدرت کی کسی حکمت کی طرف اپنے قارئین کی توجہ دلارہا ہے؟
آپ اپنے آس پاس امیر لوگوں پر نظر دوڑائیں۔ بہت بڑی اکثریت نے جھونپڑوں، کوارٹروں اور چھوٹے گھروں میں پرورش پائی ہوگی۔ دوسری طرف کچھ غریب بوڑھوں کو دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ان کا بچپن اور جوانی خوشحالی میں گزری ہوگی۔ اسے دھوپ چھاؤں کہہ لیں یا پیسے کا جگہ بدلتے رہنا۔ خوشحال لوگوں کی تمام تر احتیاطوں، عقل مندیوں اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے باوجود اکثر لوگ اپنا پیسہ اپنی اولاد کو منتقل نہیں کر پاتے اور بڑھاپے میں غربت کا سامنا کرتے ہیں۔
ان تمام مناظر کے علاوہ ایک منظر اور بھی آپ کے سامنے آیا ہوگا۔ ایسے بھی لوگ ہوں گے جو اپنی قابلیت و محنت کے باوجود زندگی بھر تنگ دست رہے ہوں گے۔ جیسے ہمارے کالم کے غریب ہیروز جنھوں نے نہ حسد کیا ہوگا اور نہ خدمت خلق کے کاموں سے دستبرداری حاصل کی ہوگی۔ کیا ان کی اس ادا کو قدرت نے نظر انداز کردیا ہوگا؟ کیا اچھائی ضایع ہوگئی؟ کیا محنت کرنے والے کو اس کا حق نہ ملا؟سوال کے جواب کے لیے اقبال و جاوید اقبال سے لے کر آخر تک کے واقعات پر نظر دوڑائیں۔
آپ کو محسوس ہوگا کہ رب العالمین کسی کی محنت ضایع نہیں کرتا۔ دیر سویر ہوسکتی ہے کہ خالق کی حکمت ہو۔ جب کہ رحمت اللعالمینؐ نے تو محنت کش کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا حق محنت ادا کرنے کی نصیحت کی ہے۔ چلیں اپنے آس پاس مشہور یا عام لوگوں پر نظر دوڑائیں۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ نیکی کبھی ضایع نہیں جاتی، قابل شخص اگر حسد نہ کرے تو قدرت اگلی نسل تک بھی تلافی کردیتی ہے اور کبھی نہیں مارتی محنت کرنے والے کا حق۔
اس فراغت کے بعد تقریباً پچیس سال تک انھوں نے علمی اور سماجی سطح پر بہت کچھ کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جسٹس جاوید اقبال ایک خوبصورت اور کامیاب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ ایک مسئلہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہمیشہ رہا کہ اتنی قابلیت اور کامیابیوں کے باوجود بھی ان کی پہچان یہی رہی کہ وہ ''شاعر مشرق'' کے بیٹے ہیں۔ وہ خود کہتے تھے کہ بہت بڑے درخت کے سائے تلے چھوٹے پودے پروان نہیں چڑھ سکتے۔ اتنی بلند پایہ نسبت کے باوجود ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی پہچان تو ضرور قائم کی لیکن اقبال تو اقبال ہیں۔
اگر موازنہ کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکیم الامت کو پاکستان و ہندوستان کے علاوہ افغانستان، ترکی اور ایران کے لوگ بھی جانتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ آج سے پانچ صدیوں بعد بھی اقبال کو یاد رکھا جارہا ہوگا۔ یہ بات ہم ان کے فرزند کے بارے میں نہیں کہہ سکتے، انھیں یاد رکھے جانے کا دورانیہ ایک آدھ صدی تک ہی ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ باپ بیٹوں کے حوالے سے ہماری گفتگو کا کیا مقصد ہے؟ جیسے جیسے کالم آگے بڑھتا جائے گا ویسے ویسے محنت کرنے والے کے حق کے حوالے سے بھی پردے اٹھتے جائیں گے۔
اقبال اور فرزند اقبال کی زندگیوں میں جھانکیں تو معاشی خوشحالی کے حوالے سے ہمیں بہت زیادہ فرق دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کی شہرۂ آفاق شاعری کی قیمت مال و دولت کی شکل میں ان کی زندگی میں بھی کوئی کردار ادا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اہل ہند صرف ان کی شاعری کو سراہتے رہے۔ ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'' کے خالق کو ہندوستان کے باسی زندگی کی سہولتیں عطا نہ کرسکے۔ ''مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا'' پڑھ کر جھومنے والے مسلمان اپنے اقبال کو غم روزگار سے آزاد نہ کرسکے۔
اقبال کی پوری زندگی تنگ دستی میں ہی گزر گئی۔ ان کے مقابلے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کو اپنے والد کی کتابوں کی رائلٹی ملی اور وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک گئے۔ انھوں نے وکالت پر توجہ دی اور بطور اعلیٰ عدلیہ کے جج انھیں زندگی کی بہتر سہولتیں حاصل رہیں۔ آج اقبال کے پوتوں کا شمار ملک کے خوشحال لوگوں میں ہوتا ہے کہ انھوں نے غم جاناں کے ساتھ ساتھ غم روزگار کو بھی اپنے سامنے رکھا۔ اقبال کی طرح کا نہ عظیم مقصد ان کے سامنے ہوسکتا ہے اور نہ قابلیت۔
امیتابھ بچن کے والد ایک بہت بڑے شاعر تھے۔ قابل و مشہور لیکن غریب، امیتابھ بتاتے ہیں کہ پتاجی مشاعروں میں شریک ہوتے تو بہت رات گئے واپس آتے۔ نوجوان بیٹے نے ایک مرتبہ بہت دیر سے آنے کا پوچھا تو باپ نے کہا کہ ''پیسہ آسانی سے نہیں کمایا جاتا، بہت محنت کرنی پڑتی ہے''۔ پھر امیتابھ بچن بڑے ادا کار بن گئے اور لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے لگے۔
انھیں ایک مرتبہ شوٹنگ میں دیر ہوگئی اور وہ بہت رات گزرنے کے بعد واپس آئے، والد انتظار کررہے تھے۔ بیٹے سے تاخیر کا سبب پوچھا تو جواب دیا کہ ''پیسہ آسانی سے نہیں کمایا جاتا، بہت محنت کرنی پڑتی ہے''۔محنت کی بات اور باپ بیٹوں کے تذکرے میں ایک بات سامنے آرہی ہے کہ باپ زیادہ قابلیت کے باوجود غریب رہے اور بیٹے کمتر علمی قابلیت کے باوجود خوشحال ہوگئے۔ یہ کیا ہے؟ آس پاس نظر دوڑائیں تو کئی ایسے باپ بیٹے نظر آئیں گے۔
ریاض شاہد پاکستان کی فلمی صنعت کا بہت بڑا نام تھا۔ بہترین قلمکار اور لاجواب ہدایت کار، فرنگی، شہید، زرقا، یہ امن اور بہشت جیسی شاہکار فلمیں تخلیق کرنے والے اداکار شان ان کے فرزند ہیں، کہاں ریاض شاہد کی تمام تر قابلیت کے باوجود تنگ دستی اور کہاں شان کی خوشحالی، یہ کیا ہے؟ قدرت ہمیں کیا سمجھا رہی ہے؟ ایسی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
جیسے اداکار سلمان خان اور ان کے والد سلیم خان ۔ شعلے، کبھی کبھی اور شکتی جیسی عمدہ فلمیں سلیم جاوید کے قلم کا شاہکار رہی ہیں۔ جاوید اختر کے ساتھ مل کر فلمی کہانیاں لکھنے والی اس جوڑی نے بالی وڈ میں بھونچال پیدا کردیا تھا۔ سلیم خان اپنی تمام تر کامیابیوں اور اچھی آمدنی کے باوجود بھی اپنے بیٹے سلمان خان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ باپ نے ساری عمر فلم انڈسٹری میں جتنے پیسے کمائے ہوں گے اس سے کہیں زیادہ سلمان خان اپنی ایک فلم سے کمالیتے ہوں گے۔
ہر شخص کو درجنوں ایسے لوگ نظر آئیں گے جو زیادہ قابلیت کے باوجود غریب ہوتے ہوں گے۔ ایسے واقعات بھی ہر ایک کی نظر میں ہوں گے کہ باپ کے مقابلے میں کم تر قابلیت کے باوجود ان کے بیٹوں نے زیادہ خوشحال زندگی گزاری ہوگی۔ محنت و قابلیت اور باپ بیٹوں کے حوالے سے کالم قدرت کی کسی حکمت کی طرف اپنے قارئین کی توجہ دلارہا ہے؟
آپ اپنے آس پاس امیر لوگوں پر نظر دوڑائیں۔ بہت بڑی اکثریت نے جھونپڑوں، کوارٹروں اور چھوٹے گھروں میں پرورش پائی ہوگی۔ دوسری طرف کچھ غریب بوڑھوں کو دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ان کا بچپن اور جوانی خوشحالی میں گزری ہوگی۔ اسے دھوپ چھاؤں کہہ لیں یا پیسے کا جگہ بدلتے رہنا۔ خوشحال لوگوں کی تمام تر احتیاطوں، عقل مندیوں اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے باوجود اکثر لوگ اپنا پیسہ اپنی اولاد کو منتقل نہیں کر پاتے اور بڑھاپے میں غربت کا سامنا کرتے ہیں۔
ان تمام مناظر کے علاوہ ایک منظر اور بھی آپ کے سامنے آیا ہوگا۔ ایسے بھی لوگ ہوں گے جو اپنی قابلیت و محنت کے باوجود زندگی بھر تنگ دست رہے ہوں گے۔ جیسے ہمارے کالم کے غریب ہیروز جنھوں نے نہ حسد کیا ہوگا اور نہ خدمت خلق کے کاموں سے دستبرداری حاصل کی ہوگی۔ کیا ان کی اس ادا کو قدرت نے نظر انداز کردیا ہوگا؟ کیا اچھائی ضایع ہوگئی؟ کیا محنت کرنے والے کو اس کا حق نہ ملا؟سوال کے جواب کے لیے اقبال و جاوید اقبال سے لے کر آخر تک کے واقعات پر نظر دوڑائیں۔
آپ کو محسوس ہوگا کہ رب العالمین کسی کی محنت ضایع نہیں کرتا۔ دیر سویر ہوسکتی ہے کہ خالق کی حکمت ہو۔ جب کہ رحمت اللعالمینؐ نے تو محنت کش کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا حق محنت ادا کرنے کی نصیحت کی ہے۔ چلیں اپنے آس پاس مشہور یا عام لوگوں پر نظر دوڑائیں۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ نیکی کبھی ضایع نہیں جاتی، قابل شخص اگر حسد نہ کرے تو قدرت اگلی نسل تک بھی تلافی کردیتی ہے اور کبھی نہیں مارتی محنت کرنے والے کا حق۔