ہفتہ رفتہاوپن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ 6000روپے من تک پہنچ گئے
اسپاٹ ریٹ 100روپے من اضافے سے 5650 روپے پر آگئے جب کہ روئی کی کاشت میں تاخیر سے خریداری بڑھی
عالمی سطح پر کپاس کی پیداوار ابتدائی تخمینوں کے مقابلے میں مزید کم اورکھپت بڑھنے کی رپورٹس کے علاوہ چین کی روئی کے ذخائر سے فروخت کی پالیسی کی عالمی سطح پر عدم پزیرائی جیسے کے باعث گزشتہ ہفتے بھی دنیابھرمیں روئی کی تجارتی سرگرمیوں اورقیمتوں میں تیزی کا تسلسل قائم رہاجبکہ مقامی سطح پرغیرمناسب موسم کی بنیاد پرتمام کاٹن زونز میں روئی کی بوائی میں ہونے والی غیر معمولی تاخیر اور ٹیکسٹائل ملوں کی روئی کی خریداری دلچسپی بڑھنے جیسے عوامل کے باعث پاکستانی کاٹن مارکیٹس میں بھی روئی کی قیمت میں تیزی رہی۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل چین نے اپنے ذخائر سے روئی فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا اور چین کی جانب سے جاری ہونیوالی پالیسی کے مطابق اس روئی کی قیمت فروخت اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں 10سے 12سینٹ فی پاؤنڈ زیادہ مقرر کی گئی تھی جس کے باعث اس پالیسی کے باعث روئی کی عالمی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں آنے والا مندی کا رجحان دوبارہ زبردست تیزی کے رجحان میں تبدیل ہو گیا تاہم پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس پالیسی کے اثرات کل (3مئی) کو اس روئی کی فروخت شروع ہونے کے بعد ہی سامنے آ سکیں گے۔
تاہم توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں روئی کی قیمتوں میں تیزی کا یہ رجحان جاری رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیو یارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 0.05 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 71.70 سینٹ فی پاؤنڈ ،جولائی ڈلیوری روئی کے سودے 0.08سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 63.77 سینٹ فی پاؤنڈ تک پہنچ گئے جبکہ بھارت میں روئی کی قیمتیں گزشتہ ہفتے کے دوران 671 روپے فی کینڈی اضافے کے ساتھ 34 ہزار 774 روپے فی کینڈی اور چین میں 580 یو آن فی ٹن کمی کے بعد 12 ہزار 95 یو آن فی ٹن تک گر گئے جبکہ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے اسپاٹ ریٹ 100روپے فی من مزید اضافے کے ساتھ 5 ہزار 650 روپے فی من تک پہنچ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں روئی کی قیمتیں 200روپے فی من اضافے کے ساتھ کاٹن ایئر 2015-16 کی نئی بلند ترین سطح 6 ہزار روپے فی من تک پہنچ گئی تھیں تاہم روئی کی قیمتوں میں زبردست اور مسلسل تیزی کے رجحان کے باعث ٹیکسٹائل ملز مالکان نے ایک ''پول''کے تحت گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری دو دن روئی کی خریداری معطل کر دی تھی تاکہ روئی کی قیمتوں میں مصنوعی مندی کا رجحان قائم کیا جا سکے۔
احسان الحق نے ڈبلیوٹی او کے حوالے سے بتایا کہ یکم جنوری 2017 سے کوئی بھی ملک اپنے خام روئی کے برآمد کنندگان کو سبسڈی نہیں دے سکے گا جس سے عالمی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں مزید تیزی کا رجحان سامنے آ سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت امریکا، برازیل، مصر، ویسٹ افریقی ممالک اور آسٹریلیا اپنے خام روئی کے برآمد کنندگان کو بڑے پیمانے پر سبسڈی دے رہا ہے تاکہ اپنے اپنے ملک کی خام روئی کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ خام روئی کی برآمد پر سبسڈی کی ادائیگی نہ ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور خاص طور پر کاٹن زونز میں نئی شوگر ملز کا قیام پاکستانی کاٹن انڈسٹری کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے بڑے کاٹن زونز جن میں رحیم یار خان، بہاولپور، گھوٹکی، سکھر اور سانگھڑ شامل ہیں، ان اضلاع میں بڑی تیزی سے نئے شوگر ملز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس سے پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار اور معیار میں غیر معمولی کمی کے خدشات کے پیش نظر ٹیکسٹائل ملز کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرونی ممالک سے بڑے پیمانے پر روئی درآمد کرنے پڑے گی جس سے پاکستان کے تجارتی خسارے میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو روئی خریداری میں غیر معمولی معاشی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل چین نے اپنے ذخائر سے روئی فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا اور چین کی جانب سے جاری ہونیوالی پالیسی کے مطابق اس روئی کی قیمت فروخت اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں 10سے 12سینٹ فی پاؤنڈ زیادہ مقرر کی گئی تھی جس کے باعث اس پالیسی کے باعث روئی کی عالمی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں آنے والا مندی کا رجحان دوبارہ زبردست تیزی کے رجحان میں تبدیل ہو گیا تاہم پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس پالیسی کے اثرات کل (3مئی) کو اس روئی کی فروخت شروع ہونے کے بعد ہی سامنے آ سکیں گے۔
تاہم توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں روئی کی قیمتوں میں تیزی کا یہ رجحان جاری رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیو یارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 0.05 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 71.70 سینٹ فی پاؤنڈ ،جولائی ڈلیوری روئی کے سودے 0.08سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے ساتھ 63.77 سینٹ فی پاؤنڈ تک پہنچ گئے جبکہ بھارت میں روئی کی قیمتیں گزشتہ ہفتے کے دوران 671 روپے فی کینڈی اضافے کے ساتھ 34 ہزار 774 روپے فی کینڈی اور چین میں 580 یو آن فی ٹن کمی کے بعد 12 ہزار 95 یو آن فی ٹن تک گر گئے جبکہ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے اسپاٹ ریٹ 100روپے فی من مزید اضافے کے ساتھ 5 ہزار 650 روپے فی من تک پہنچ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں روئی کی قیمتیں 200روپے فی من اضافے کے ساتھ کاٹن ایئر 2015-16 کی نئی بلند ترین سطح 6 ہزار روپے فی من تک پہنچ گئی تھیں تاہم روئی کی قیمتوں میں زبردست اور مسلسل تیزی کے رجحان کے باعث ٹیکسٹائل ملز مالکان نے ایک ''پول''کے تحت گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری دو دن روئی کی خریداری معطل کر دی تھی تاکہ روئی کی قیمتوں میں مصنوعی مندی کا رجحان قائم کیا جا سکے۔
احسان الحق نے ڈبلیوٹی او کے حوالے سے بتایا کہ یکم جنوری 2017 سے کوئی بھی ملک اپنے خام روئی کے برآمد کنندگان کو سبسڈی نہیں دے سکے گا جس سے عالمی منڈیوں میں روئی کی قیمتوں میں مزید تیزی کا رجحان سامنے آ سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت امریکا، برازیل، مصر، ویسٹ افریقی ممالک اور آسٹریلیا اپنے خام روئی کے برآمد کنندگان کو بڑے پیمانے پر سبسڈی دے رہا ہے تاکہ اپنے اپنے ملک کی خام روئی کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ خام روئی کی برآمد پر سبسڈی کی ادائیگی نہ ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور خاص طور پر کاٹن زونز میں نئی شوگر ملز کا قیام پاکستانی کاٹن انڈسٹری کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے بڑے کاٹن زونز جن میں رحیم یار خان، بہاولپور، گھوٹکی، سکھر اور سانگھڑ شامل ہیں، ان اضلاع میں بڑی تیزی سے نئے شوگر ملز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس سے پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار اور معیار میں غیر معمولی کمی کے خدشات کے پیش نظر ٹیکسٹائل ملز کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرونی ممالک سے بڑے پیمانے پر روئی درآمد کرنے پڑے گی جس سے پاکستان کے تجارتی خسارے میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل ملز مالکان کو روئی خریداری میں غیر معمولی معاشی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔