بلوچستان کے جگمگاتے ستارے

غربت، افلاس اور عدم توجہی کے باوجود بلوچستان میں ایسے گوہر نایاب موجود ہیں جن کے متعلق جان کر آپ فخر محسوس کریں گے۔


عثمان فاروق May 02, 2016
بلوچستان کے چند جگمگاتے ستاروں کی کہانیاں، جن کو پڑھ کر یہ ولولہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان محنت کرے تو کٹھن حالات کے باوجود کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔

بلوچستان کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ وہاں تعلیمی معیار پست رہا ہے، جس کے سبب اس صوبے کے کسی طالبعلم کی جانب سے کبھی تعلیمی یا کسی اور میدان میں کوئی قابل قدر کارنامہ سننے کو نہیں ملا۔ جی ہاں کافی عرصہ تک ہم بھی ایسا ہی سمجھتے تھے مگر جب تحقیق کی تو پتا چلا بلوچستان میں ایسے گوہر نایاب موجود ہیں جن کے متعلق جان کر آپکو بے اختیار فخر محسوس ہوگا کہ نامساعد حالات کے باوجود ان لوگوں نے کس طرح قومی اور بین الااقوامی سطح پر خود کو منوایا۔

تو بات کو طویل کرنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف چلتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دائرے میں تاریخ رقم کی ہے۔
کرار حسین جعفر

کرار حسین جعفر کا تعلق بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ کے مضافات میں واقع ''ماڑی آباد'' سے ہے۔ انہوں نے کم تعلیمی سہولیات اور غربت کے باوجود لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) یونیورسٹی لمیں فل اسکالرشپ پروگرام میں داخلہ لیا۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ لمز یونیورسٹی میں اسکالرشپ کا حصول کس قدر مشکل کام ہے تو ذرا یونیورسٹی جائیے اور وہاں کی انتظامیہ سے اس کے لیے مطلوب کارناموں کا پوچھ لیجیے، کیونکہ ان معلومات کے حصول کے بعد ہی آپ کو علم ہوگا کہ کرار نے کتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔

کرار حسین کا کہنا ہے کہ لمز میں روانی سے انگریزی بولنے والے اور پتلون شرٹ پہننے والوں کی بھرمار تھی۔ شروع میں انگریزی کمزور تھی مگر سخت محنت کے بعد وہ بھی انگریزی بولنے والوں میں شامل ہوگئے۔ پھر ریاضی اور اکنامکس میں بالترتیب 3.68 اور 3.70 جی پی اے حاصل کی، جس پر بہت سے بینکوں سے اچھی نوکری کی آفر ہوئی مگر کرار حسین کی تعلیمی پیاس ابھی تشنہ تھی۔ اس کے گھر میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی، لہذا وہ اپنے گھر سے 15 منٹ چہل قدمی کرکے وہاں موجود انٹرنیٹ کیفے جاتے اور دنیا کی مختلف جامعات میں داخلے کے لیے فارم جمع کرواتے۔ عام طور پر خالی ہاتھ ہی واپسی ہوتی لیکن پھر ایک دن ہاورڈ یونیورسٹی کی جانب سے اسکی درخواست منظور کرلی گئی اور اسے فل برائیٹ اسکالر شپ دے دی گئی۔

کرار حسین کہتے ہیں کہ جب وہ خوشی سے بھاگتے ہوئے گھر آئے اور اپنے والدین کو اطلاع دی تو ان کے والد نے کہا کہ ابھی مجھے دوسری یونیورسٹیوں کے جواب کا بھی انتظار کرنا چاہیئے جبکہ والدہ نے پوچھا یہ ہاورڈ کیا ہوتا ہے؟ قرار حسین کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے والدین کو یہ سمجھانے میں وقت لگا کہ مجھے دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ مل چکا ہے۔ کرار حسین کی کامیابی کی وجہ سے ان کے والدین نے کرار کی بہن کو لاہور یونیورسٹی میں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی۔ کرار حسین کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آکر اپنے ملک کو سنوارنے کی کوشش کریں گے۔



سلمہ رسول بلوچ


سلمہ رسول بلوچ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ ان کے والد کو 2008 میں BLA کے دہشتگردوں نے اپنے گھر پر پاکستان کا جھنڈا لگانے کے جرم میں گولی ماردی تھی اور اسکے بعد انکے بھائی کو بھی اسی جرم میں شہید کردیا گیا۔ مگر اس بہادر بلوچ بیٹی نے ہار نہیں مانی بلکہ ایک این جی او قائم کی جو اِس وقت بلوچستان میں خواتین کی تعلیم اور بہتر روزگار دلوانے کے سلسلے میں جدوجہد کررہی ہے۔


منیبہ مزاری

منیبہ مزاری بلوچ! آرٹسٹ، لکھاری اور بہت اچھی مقررہ ہیں۔ 2007 میں کار حادثے میں انکی دونوں ٹانگیں عمر بھر کے لئے بیکار ہوگئیں۔ ایک چلتا پھرتا انسان اچانک معذور ہوجائے اور ڈھائی سال تک ایک ہی کمرے میں بند کردیا جائے تو ان حالات میں مایوسی گھیر ہی لیتی ہے، مگر منیبہ مزاری نے ہمت نہیں ہاری اور سخت محنت کرکے دنیا پر یہ ثابت کیا کہ جب تک انسان کا دماغ کام کررہا ہے، اُسے کوئی بھی چوٹ توڑ نہیں سکتی۔ اپنے حادثے کے بعد منیبہ مزاری نہ صرف پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر میزبانی کے فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔ منیبہ کو یہ اعزاز بھی شامل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی وہیل چئیر اینکر پرسن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آج وہ مختلف کمپنیوں کی تشہیری سفیر کے ساتھ ساتھ ماڈلنگ کے میدان میں بھی اپنے جوہر منوارہی ہیں۔ اگرچہ منیبہ غربت کا شکار نہیں رہیں، لیکن حادثے کے بعد جن مسائل کا وہ شکار رہی ہیں اُن کو برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور آج بھی صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت ایک پیر بھی نہیں اُٹھا سکتی۔ منیبہ اپنی معذوری کے بارے میں کہتی ہیں کہ ان کو حرکت کے لیے 24 گھنٹے کسی نہ کسی فرد کی ضرورت رہتی ہے، اور اگر رات کو وہ اپنے بستر کے قریب پانی رکھوانا بھول جائیں تو پیاس کے باوجود پوری رات وہ پیاسی رہتی ہیں کیونکہ خود سے وہ چل کر نہیں جاسکتیں۔


رافع بلوچ

ان کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اور صرف 21 سال کی عمر میں 2014ء میں دنیا کی صف اول کی سیکیورٹی کمپنی نے ان کو دنیا کا بہترین ''Ethical Hacker'' قرار دیا۔ ایتھیکل ہیکر اسے کہتے ہیں جو کسی بھی کمپنی کی مرضی سے اسکا کمپیوٹر سیکیورٹی سسٹم ہیک کرتا ہے تاکہ وہ سیکورٹی سسٹم میں چور دروازے تلاش کرے اور ان چور دروازوں کو بند کرنے کے لئے کمپنی کو تجاویز دے۔ چیک مارکس نامی کمپنی رافع بلوچ کو دنیا کے پانچ بہترین ایتھیکل ہیکرز میں سے ایک قرار دے چکی ہے۔


لیفٹیننٹ ذکیہ جمالی

ذکیہ جمالی کا تعلق بلوچستان کےعلاقے ''اوستہ محمد جعفرآباد ڈسٹرکٹ'' سے ہے۔ انہوں نے وہیں سے تعلیم حاصل کی اور ایک سرکاری اسکول میں بطور استاد فرائض سر انجام دینے شروع کردیئے۔ انکو بچپن سے ہی ائیر فورس میں جانے کا شوق تھا مگر چھوٹے قد کی وجہ سے ائیر فورس میڈیکل کلئیر نہ ہوسکا۔

انکا کہنا ہے کہ جب انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا تو انہیں لگا کہ ان کا فورس کو جوائن کرنے کا شوق ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ مگر پھر ایک دن انہوں نے اخبار میں پاکستان نیوی کا اشتہار دیکھا تو فوراً ہی داخلے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ بس پھر تمام امتحانات کلئیر کرنے کے بعد انکو پاکستان نیوی کی ایجوکیشن برانچ میں بطور لیفٹیننٹ کمیشن اپنی خدمات سرانجام دینے کا موقع مل گیا اور یوں برسوں کا خواب حقیقت میں بدل گیا۔


عمران خان

رکیے رکیے، یہاں سیاست والے عمران خان کی بات نہیں بلکہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی عمران خان کی بات ہورہی ہے جو کہ فاسٹ یونیورسٹی پشاور کے فارغ التحصیل ہیں۔ عمران خان (Gran Sasso Science Institute GSS) کے ساتھ کام کرچکے ہیں اور سائنسدانوں کی اس ٹیم میں شامل ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار ثقلی لہریں ریکارڈ کیں جو کہ پاکستان کے لئے یقیناً قابل فخر بات ہے۔


کلیم اللہ خان

کلیم اللہ خان کا تعلق بلوچستان سے ہے جن کو فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ یہ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے درالحکومت کی ٹیم کی طرف سے بھی کھیل چکے ہیں۔ پاکستان میں فٹ بال کے معیار اور پھر بلوچستان سے تعلق رکھنے کے باوجود دنیا کی نمبر ون ٹیموں کی طرف سے کھیلنا یقیناً پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے اور کلیم اللہ خان کے عزم و ہمت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔



تو جناب یہ تھیں بلوچستان کے چند جگمگاتے ستاروں کی کہانیاں، جن کو پڑھ کر یہ ولولہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان محنت کرے تو کٹھن حالات کے باوجود کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔ یہ کہانیاں ان تمام پاکستانیوں کے لئے مشعل راہ ہیں جو ذرا سی مشکل سے مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ انشااللہ موقع ملا تو عظم و ہمت کی ایسی مزید داستانیں پیش کرتا رہوں گا۔
[poll id="1093"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں