جرم اور قانون

جن ڈاکوؤں کو عوام نے تشدد کرکے مار ڈالا وہ کتنے بڑے ڈاکے ڈال رہے تھے؟

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

پچھلے دنوں اخبارات میں ڈاکوؤں کو پکڑ کر مارنے اور جلانے کی خبریں چھپتی رہی ہیں، عوام کے تشدد سے کئی ڈاکو ہلاک ہوچکے ہیں، اب تک جتنے ڈاکو عوام کے غیض و غضب کا شکار ہوئے ہیں وہ سب ڈکیتیوں کے دوران پکڑے گئے ہیں۔

میں نے ان ڈاکوؤں کے زخموں سے چور جسم اور کٹی پھٹی لاشیں ٹی وی اسکرین پر دیکھی ہیں، میرے ذہن میں بار بار یہ سوال اُبھرتا رہا ہے کہ جن ڈاکوؤں کو عوام نے تشدد کرکے مار ڈالا وہ کتنے بڑے ڈاکے ڈال رہے تھے؟ چند سونے کے زیورات، کچھ نقدی یا کچھ الیکٹرانک آئٹمز جن کی مجموعی مالیت چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہوسکتی اور ان ڈاکوؤں کا تعلق بھی انھی طبقات سے ہوتا ہے جو جائز طریقوں سے اپنی ضروریات پوری کرنے سے محروم ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان میں کچھ پیشہ ور ڈاکو بھی ہوں، لیکن ان سب کی ڈکیتیوں کی مالیت چند لاکھ روپوں سے زیادہ نہیں رہی۔

پھر بھی یہ ڈاکو عوام کے غیض و غضب کا شکار ہوگئے، عوام اپنی محنت کی کمائی ڈاکوؤں کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہوتے، لیکن چونکہ یہ نہتے ہوتے ہیں اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں ہتھیار ہوتے ہیں لہٰذا نہتے شہری بڑی بے بسی سے اپنے لٹنے کا منظر دیکھتے رہتے ہیں، لیکن ایسے وقت میں لٹنے والوں کے دلوں میں انتقام، غصے اور نفرت کا جو طوفان مچلتا رہتا ہے اس کی شدت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی ڈاکو کو عوام پکڑ لیتے ہیں۔

ڈاکوؤں کو پکڑنے اور تشدد کرکے انھیں جان سے مارنے کے اس عمل کو ''قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا'' کہا جاتا ہے۔ میں خود بھی اس عمل کو قانون کی خلاف ورزی محسوس کرتا ہوں، لیکن جب بھی میں اس مسئلے کے قانونی پہلوؤں پر غور کرتا ہوں تو کئی سوالات میرے ذہن میں پیدا ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً قانون کے رکھوالے خود ڈاکوؤں سے ملے ہوئے ہوں، ان کی سرپرستی کرتے ہوں اور خود ہی ڈکیتیوں میں شامل ہوں۔ مثلاً ڈاکو گرفتار ہونے کے بعد قانون کے ماہر وکلاء اپنی دلیلوں سے عدالت کو ڈاکوؤں کی ضمانت پر مجبور کردیں یا گواہوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر انھیں باعزت بری کروالیں تو لٹنے والے غریب عوام کے پاس سوائے قانون کو ہاتھ میں لینے کے کون سا راستہ باقی بچ جاتا ہے؟ خود عدلیہ بعض اوقات دانستہ مجرموں کو کسی نہ کسی حوالے سے بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کردیتی ہے اور بری ہونے والے ڈاکو اور زیادہ اعتماد کے ساتھ ڈکیتیاں کرتے ہیں۔


یہ جرائم، یہ ڈکیتیاں بہت چھوٹے پیمانے کی ہوتی ہیں، لیکن موقع ملتے ہی مشتعل عوام ان ڈاکوؤں کی تکہ بوٹی کردیتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ سوال فطری طور پر ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آئے دن اربوں کی لوٹ مار کی جو خبریں آرہی ہیں کیا یہ بڑے پیمانے کی ڈکیتیاں نہیں ہیں؟ ان اربوں کی ڈکیتیوں کا ارتکاب کرنے والے کوئی غریب طبقات کے للّو پنجو ڈاکو ہیں نہ ہیں ڈاکو پیٹ بھرنے کے لیے اربوں روپوں کی ڈکیتیوں کے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں بلکہ ان ڈکیتیوں کا مقصد ہوسِ زر ہے، زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے، اربوں روپوں کے محل بنانے، ملازموں کی فوج، نئی نئی کاریں خریدنے کا جنون انھیں ان اعلیٰ سطحی ڈکیتیوں پر اُکساتا ہے۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ خواہ ان کا تعلق حزبِ اقتدار سے ہو یا حزبِ اختلاف سے، قوم کی محنت کی اربوں کھربوں کی کمائی کو 65 سالوں سے انتہائی بے شرمی سے لوٹتے آرہے ہیں۔ بیچارے عوام جو اپنے طبقے کے چھوٹے موٹے ڈاکوؤں کو تو پکڑ کر ان کی تکہ بوٹی کر رہے ہیں، مگر اربوں کی ڈکیتیوں اور ڈاکوؤں کو ٹھنڈے پیٹ کیوں برداشت کر رہے ہیں؟ کیا اس قسم کے سوالات غیر فطری ہوتے ہیں؟

ہمارے کالم کے قارئین کی بڑی تعداد فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے ہم سے کہتی ہے کہ انقلاب اور بامعنی تبدیلیوں کی آپ جو تبلیغ کرتے رہتے ہیں ہم اس سے سو فیصد متفق ہیں۔ ہم بھی ایسی تبدیلیوں کی شدید خواہش رکھتے ہیں، لیکن یہ تبدیلیاں کیسے آئیں گی؟ کیا انتخابات اور جمہوریت سے کوئی انقلاب کوئی بامعنی تبدیلی ممکن ہے؟ اس قسم کے سوال کرنے والوں کے لیے ہمارے پاس دو جواب موجود ہیں، ایک یہ کہ 65 سالوں کے دوران تقریباً نصف حصہ جمہوریت میں گزرا اس جمہوریت میں آنے والی تبدیلیوں اور اربوں کھربوں کی ڈکیتیوں سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم آپ جس بدترین دور سے یعنی خاندانی سیاست، خاندانی حکمرانیوں، خاندانی لوٹ مار سے مشرق وسطیٰ کے کروڑوں عوام بھی تنگ تھے۔ انھوں نے اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کون سا راستہ اختیار کیا؟ آج مشرق وسطیٰ جن عوامی تحریکوں کی زد میں ہے اور خاندانی ڈاکوؤں کا جو انجام ہورہا ہے کیا آپ یہ سب کچھ دیکھ نہیں رہے ہیں؟ آپ معمولی معمولی ڈاکوؤں کو پکڑ کر ان کا حشر تو کردیتے ہیں، لیکن اربوں روپوں کی قومی دولت کو لوٹنے والوں کے جلسوں جلوسوں میں آپ لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوکر اور انھیں اپنے ووٹوں کے ذریعے بار بار اقتدار میں لاکر کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں، کون سی تبدیلی لارہے ہیں، کون سا انقلاب برپا کر رہے ہیں؟

قانون کو اپنے ہاتھوںمیں لینا یقیناً ایک منظم اور مہذب معاشرے کی نفی ہے، لیکن جب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ غریب اور مظلوم عوام قانون کو ہاتھ میں کیوں اور کب لیتے ہیں؟ تو جواب یہ آتا ہے کہ غریب عوام قانون کو اس وقت اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں جب وہ قانون اور انصاف سے مکمل طور پر مایوس ہوجاتے ہیں اور جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ قانون اور اس کے رکھوالے ڈاکوؤں، مجرموں کی نہ صرف سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ خود جرائم میں شامل ہورہے ہیں اور انصاف یہ سارا تماشہ دیکھ رہا ہے اور ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے تو معمولی جرائم کرنے والوں کو بھی مشتعل اور مایوس عوام جان سے مار دیتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کروڑوں بھوکے ننگے عوام اپنی بھوک، اپنے ننگ، اپنی بیماریوں، اپنی بیکاری کو ختم کرنے کے لیے اپنے ووٹوں سے اپنے نمایندے چُن کر قانون ساز اداروں میں بھیجتے ہیں، انھیں صدر، وزیراعظم کے مرتبوں پر فائز کرتے ہیںاور ان کے ووٹوںسے حکمران بننے والے عوام کی بھوک، عوام کی غربت، عوام کی بیکاری، عوام کی بیماری، عوام کی بے روزگاری ختم کرنے کے بجائے اربوں روپوں کی عوامی کمائی پر ڈاکے ڈالنے ہی میں اپنا سارا وقت، ساری توانائیاں صرف کرتے ہوں تو پھر عوام کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جب تک عوام کوئی مثبت جواب تلاش نہیں کریں گے وہ خوار ہوتے رہیں گے، ہمارے بعض قاری بڑی محبت سے یہ کہتے ہیں کہ آپ میں قوم کی قیادت کرنے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں، آپ آگے کیوں نہیں آتے؟ تو میرے بھائیو! اس کا جواب یہ ہے کہ اہلِ قلم، اہل دانش کا کام ذہنی انقلاب لانا ہے، انقلاب کی فکری رہنمائی کرنا ہے، انقلاب یا بامعنی تبدیلی لانا آپ کی ذمے داری ہے۔ مشرق وسطیٰ آپ کے سامنے کھڑا ہے جہاں کسی سیاسی قیادت کے بغیر لاکھوں عوام سڑکوں پر آگئے اور خاندانی حکمرانیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا، کیا آپ اپنی اس اجتماعی طاقت کے اسرارورموز سے واقف ہیں۔۔۔۔۔؟
Load Next Story