دینی جماعتیں اور انتخابی سیاست ایک جائزہ پہلا حصہ
90کا عشرہ دراصل مذہبی جماعتوں کے لیے پارلیمانی اعتبار سے ناکامی کا عشرہ ہے۔
ملکی سیاست میں ایک عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ تیسری بڑی سیاسی قوت کون سی ہے؟
عددی اعتبار سے ایم کیو ایم پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت تو رہی ہے مگر یہ جماعت پورے ملک میں نمایندگی سے محروم ہے، اورصرف سندھ کے شہری علاقوں تک محدود ہے۔ 2002 کے عام انتخابات میں جب ملک کی بڑی مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تو یہ نہ صرف تیسری بڑی قوت کی شکل میں سامنے آئیں بلکہ دو صوبوں میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہیں ۔دراصل،برصغیر کے مسلمانوں میں مسلکی بنیادوں پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں تاہم قیام پاکستان کے بعد جب 70 میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو یہ مذہبی اختلافات سیاسی میدان میں بھی کھل کر سامنے آگئے۔
70 کے انتخابات سے قبل عام تاثر یہ تھاکہ جماعت اسلامی انتخابات میں متاثر کن کارکردگی پیش کرے گی اور شوکت اسلام کے عظیم الشان جلوس بھی اس بات کی گواہی دے رہے تھے۔قرارداد مقاصد کی منظوری سے ایوب مخالف تحریکوں تک جماعت اسلامی کا کردار مرکزی نوعیت کا رہا تھا اور اپوزیشن جماعتوں کی قیادت بھی عموماً جماعت اسلامی ہی کرتی تھی۔دیگر مذہبی جماعتیں اپنے آپ کو ایک موثر سیاسی قوت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہی تھیں یا شاید یہ ان کے ایجنڈے کا حصہ بھی نہ تھا۔
تاہم ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات سے تھوڑ ا قبل ہی اچانک مولانا نورانی کی قیادت میں جمعیت علمائے پاکستان جماعت اسلامی کے مقابلے پر ایک موثر قوت کے طور پر سامنے آئی اور اس نے جماعت اسلامی کے خلاف 42نشستوں پراپنے امیدوار کھڑے کر کے نہ صرف ووٹ تقسیم کردیے بلکہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف ایک زبردست پروپیگنڈہ مہم بھی زور و شور کے ساتھ چلائی اور اس کا سارا فائدہ پیپلزپارٹی اور جماعت مخالف امیدواروں کو ہوا۔دوسری جانب صوبہ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی نے نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ اشتراک کرکے انتخابات میںنسبتاً بہتر کارکردگی دکھائی۔
70 کے عام انتخابات میں مذہبی جماعتیں مغربی پاکستان سے مجموعی طور پر 18 نشستیں اورتقریباً12 فیصدووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں جس سے یہ بات ضرور ثابت ہوئی کہ ملک میں مذہبی قوتوں کا ووٹ بینک محدود اور منقسم ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں بھٹو صاحب کے آمرانہ طرزحکومت اور ظالمانہ اقدامات نے جلد ہی ملک کی دینی و قوم پرست قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا،اور تمام بھٹو مخالف قوتیں پی این اے کے پلیٹ فارم سے 77 کے عام انتخابات میں پی پی پی کے مقابلے پر اتریں۔
دینی جماعتوں کے باہمی اشتراک کے باوجود ان کے درمیان مسلکی بنیادوں پر اختلافات تو بہرحال باقی تھے اور انھی اختلافات کو زیادہ نمایاںکرنے کی غرض سے پی پی پی کے رہنما کوثر نیازی نے ایک جلسہ عام میں یہ چیلنج دیا کہ اگر یہ اصحاب نظام مصطفی کے نفاذ میں اتنے ہی مخلص ہیں اور ان کا اتحاد بھی خلوص نیت پر مبنی ہے تو مولانا شاہ احمد نورانی مفتی محمود کے پیچھے نماز ادا کرکے دکھائیں اور پھر اس کی قضاء بھی ادا نہ کریں،اگر ایسا ہوگا تو میں پیپلز پارٹی کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ ہم پی این اے کے امیدواروں کے مقابلے میں اپنے امیدوار بٹھادینگے ۔کہنے کو تو کوثر نیازی صاحب نے اس بات کا اعلان کردیا لیکن بھٹو صاحب بہت گھبرائے اور کوثر نیازی کو فون کرکے کہا کہ یہ تم نے کیا چیلنج کردیا یہ لو گ ایسا کر گزریں گے لیکن تیر اب کمان سے نکل چکاتھا-
چنانچہ ملتان میں ایک جلسہ عام کے دوران مغرب کی نماز مولانا مفتی محمود نے مولانا نورانی کی اقتداء میں ادا کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی انھوں نے کوثر نیازی کے چیلنج کا جواب دے دیاہے مگر کوثر نیازی نے اسی روز ایک جلسے میں اپنا چیلنج دہرایا کہ انھوں نے کہا تھا کہ شاہ احمد نورانی مفتی محمود کی امامت میں نماز اداکریں، یہ نہیں کہا تھا کہ مفتی محمود شاہ نورانی کی امامت میں نماز ادا کریں۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا اور ایران میں انقلاب کے بعد80 کی دہائی میں ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا، اسی عرصے میںسندھ کے شہری علاقوں کو جماعت اسلامی یا مذہبی جماعتوں کی گرفت سے نکالنے کے لیے ایم کیو ایم کی سرپرستی شروع کی گئی تو مولانا نورانی کی جماعت جے یوپی عملاً ختم ہوگئی ۔
بریلوی مسلک کے پیروکار وں کی بڑی تعداد ایم کیو ایم کی حامی بن گئی اورپھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ 90 کی دہائی کے وسط میں جب نورانی صاحب فیڈرل بی ایریا ،کراچی کی ایک مسجد میں خطاب کے لیے پہنچے تو انھوں نے شہر کی ایک بااثر لسانی تنظیم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور جب خطبہ جمعہ کے دوران انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں یہ جملہ ادا کیا کہ خداکی شان دیکھیں ،جوکل تک فاتح شہر تھے آج شہر میں داخل نہیں ہوسکتے تو یکایک مسجد میں موجود چند افراد اٹھ کھڑے ہوئے، دو تین فائر ہوئے ، اور مولانا کو خطبہ دینے سے روک دیاگیا۔
امام مسجد یہ درخواست کرتے رہے کہ انھیں کم از کم نمازتو پڑھانے دیں یہ میرے استاد ہیں ، لیکن ان افراد نے مان کر نہ دی ،نورانی صاحب اس سارے عرصے میں مستقل درود شریف پڑھتے رہے تاہم اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے اور نماز جمعہ مولانا نورانی کے بجائے امام مسجد نے پڑھائی۔اسی دوران مفتی محمود صاحب کے انتقال کے بعد جمعیت علمائے اسلام کی قیادت ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان سنبھال چکے تھے جو بہرحال اپنے والدکا نعم البدل ثابت نہ ہوئے۔
90کا عشرہ دراصل مذہبی جماعتوں کے لیے پارلیمانی اعتبار سے ناکامی کا عشرہ ہے،دراصل 80 کی دہائی کے وسط میں دو نئی قوتیں ملک کے سیاسی منظر نامے پر سامنے آچکی تھیں، سندھ کے شہری علاقے جو مذہبی جماعتوں کے زیر اثر تھے وہ ایم کیوایم کے ہاتھوں میںچلے گئے تھے،اور انھی علاقوں میں جماعت اسلامی و جے یو پی کا اثر و رسوخ تھا۔ پنجاب میں جے یو پی اور جماعت اسلامی کی جگہ اب مسلم لیگ میاں نواز شریف کی قیادت میں متحد ہوچکی تھی ،اور میاں صاحب بھی ایک اسلام پسند شخص کے طور پر جانے جاتے تھے اورعوام انھیں اسلام پسند جنرل ضیاء کا جانشین سمجھتے تھے۔
مولانا فضل الرحمان کے پاس کوئی واضح ایجنڈا نہ تھا اور جے یو آئی بھی دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔اس منظرنامے میں جب93 میں عام انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی ، جے یوآئی اور جے یوپی متاثرکن کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام رہیں،جماعت اسلامی کے حصے میں محض تین نشستیں آئیں جب کہ اس نے 100 سے زائد نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ جے یوپی کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا اور جے یو آئی بھی 3 نشستیں ہی حاصل کرسکی، یوں 70 کے انتخابات میں 18 نشستیں جیتنے والے مذہبی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں نمایندگی اب محض 6 نشستوں تک محدود رہ گئیںا ور70 کی دہائی میں صوبہ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے والی جے یوآئی 90 کی دہائی میں محض کشمیر کمیٹی کے سربراہی پر راضی تھی۔
97 کے عام انتخابات میںصورتحال اور بھی زیادہ خراب ہو گئی ، جماعت اسلامی نے صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا حالانکہ بے نظیر حکومت گرانے میں جماعت اسلامی کا کردار مرکزی تھا، جے یوآئی محض دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکی ،مولانا فضل الرحمان کے مقابلے پر پشتو فلموں کی اداکارہ مسرت شاہین کو میدان میں اتارا گیا ،اور مولانا کو اپنی نشست پر بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس عرصے میں مولانا نورانی زیادہ وقت بیرونی ملک تبلیغی دوروں میں گزارتے ،ان کی پارلیمانی سیاست اب ختم ہوچکی تھی۔
قاضی حسین احمد اپنے تمام تر تحرک، جلسے ،جلوسوں اوردھرنو ں کے باوجود جماعت اسلامی کے لیے کوئی نمایاں کامیابیاں سمیٹنے میں پیچھے رہ گئے،البتہ اس عشرے میں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کچھ ایسی سرگرمیاں ضرور ہوئیں جس پر خود جماعت اسلامی کے اندر خاصا شور مچا۔یوں 97کے انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ وجود میں آئی اس میں مذہبی جماعتوں کے صرف 2 نمایندے موجود تھے جو یقینا اس بات کی علامت تھی کہ ملک میں مذہبی جماعتوں کی سیاست کا دائرہ اب ماضی کے مقابلے میں مزید محدود ہوگیا ہے۔
اسی عرصے میں مذہبی جماعتوں میں اتحاد اور ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد جب کراچی آتے تو مولانا نورانی کے گھر بھی حاضر ی دیتے،یوں نورانی صاحب جو عملاً اب ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کررہے تھے ، قاضی صاحب سے خاصے خوش تھے اور بعدمیں انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ قاضی صاحب سے محبت کا تعلق ہے اور پھر ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک غیر سیاسی اتحاد وجود میں آیاجسے تما م ہی طبقات نے سراہا۔
(جاری ہے)
عددی اعتبار سے ایم کیو ایم پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت تو رہی ہے مگر یہ جماعت پورے ملک میں نمایندگی سے محروم ہے، اورصرف سندھ کے شہری علاقوں تک محدود ہے۔ 2002 کے عام انتخابات میں جب ملک کی بڑی مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تو یہ نہ صرف تیسری بڑی قوت کی شکل میں سامنے آئیں بلکہ دو صوبوں میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہیں ۔دراصل،برصغیر کے مسلمانوں میں مسلکی بنیادوں پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں تاہم قیام پاکستان کے بعد جب 70 میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو یہ مذہبی اختلافات سیاسی میدان میں بھی کھل کر سامنے آگئے۔
70 کے انتخابات سے قبل عام تاثر یہ تھاکہ جماعت اسلامی انتخابات میں متاثر کن کارکردگی پیش کرے گی اور شوکت اسلام کے عظیم الشان جلوس بھی اس بات کی گواہی دے رہے تھے۔قرارداد مقاصد کی منظوری سے ایوب مخالف تحریکوں تک جماعت اسلامی کا کردار مرکزی نوعیت کا رہا تھا اور اپوزیشن جماعتوں کی قیادت بھی عموماً جماعت اسلامی ہی کرتی تھی۔دیگر مذہبی جماعتیں اپنے آپ کو ایک موثر سیاسی قوت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہی تھیں یا شاید یہ ان کے ایجنڈے کا حصہ بھی نہ تھا۔
تاہم ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات سے تھوڑ ا قبل ہی اچانک مولانا نورانی کی قیادت میں جمعیت علمائے پاکستان جماعت اسلامی کے مقابلے پر ایک موثر قوت کے طور پر سامنے آئی اور اس نے جماعت اسلامی کے خلاف 42نشستوں پراپنے امیدوار کھڑے کر کے نہ صرف ووٹ تقسیم کردیے بلکہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف ایک زبردست پروپیگنڈہ مہم بھی زور و شور کے ساتھ چلائی اور اس کا سارا فائدہ پیپلزپارٹی اور جماعت مخالف امیدواروں کو ہوا۔دوسری جانب صوبہ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی نے نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ اشتراک کرکے انتخابات میںنسبتاً بہتر کارکردگی دکھائی۔
70 کے عام انتخابات میں مذہبی جماعتیں مغربی پاکستان سے مجموعی طور پر 18 نشستیں اورتقریباً12 فیصدووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں جس سے یہ بات ضرور ثابت ہوئی کہ ملک میں مذہبی قوتوں کا ووٹ بینک محدود اور منقسم ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں بھٹو صاحب کے آمرانہ طرزحکومت اور ظالمانہ اقدامات نے جلد ہی ملک کی دینی و قوم پرست قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا،اور تمام بھٹو مخالف قوتیں پی این اے کے پلیٹ فارم سے 77 کے عام انتخابات میں پی پی پی کے مقابلے پر اتریں۔
دینی جماعتوں کے باہمی اشتراک کے باوجود ان کے درمیان مسلکی بنیادوں پر اختلافات تو بہرحال باقی تھے اور انھی اختلافات کو زیادہ نمایاںکرنے کی غرض سے پی پی پی کے رہنما کوثر نیازی نے ایک جلسہ عام میں یہ چیلنج دیا کہ اگر یہ اصحاب نظام مصطفی کے نفاذ میں اتنے ہی مخلص ہیں اور ان کا اتحاد بھی خلوص نیت پر مبنی ہے تو مولانا شاہ احمد نورانی مفتی محمود کے پیچھے نماز ادا کرکے دکھائیں اور پھر اس کی قضاء بھی ادا نہ کریں،اگر ایسا ہوگا تو میں پیپلز پارٹی کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ ہم پی این اے کے امیدواروں کے مقابلے میں اپنے امیدوار بٹھادینگے ۔کہنے کو تو کوثر نیازی صاحب نے اس بات کا اعلان کردیا لیکن بھٹو صاحب بہت گھبرائے اور کوثر نیازی کو فون کرکے کہا کہ یہ تم نے کیا چیلنج کردیا یہ لو گ ایسا کر گزریں گے لیکن تیر اب کمان سے نکل چکاتھا-
چنانچہ ملتان میں ایک جلسہ عام کے دوران مغرب کی نماز مولانا مفتی محمود نے مولانا نورانی کی اقتداء میں ادا کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی انھوں نے کوثر نیازی کے چیلنج کا جواب دے دیاہے مگر کوثر نیازی نے اسی روز ایک جلسے میں اپنا چیلنج دہرایا کہ انھوں نے کہا تھا کہ شاہ احمد نورانی مفتی محمود کی امامت میں نماز اداکریں، یہ نہیں کہا تھا کہ مفتی محمود شاہ نورانی کی امامت میں نماز ادا کریں۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا اور ایران میں انقلاب کے بعد80 کی دہائی میں ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا، اسی عرصے میںسندھ کے شہری علاقوں کو جماعت اسلامی یا مذہبی جماعتوں کی گرفت سے نکالنے کے لیے ایم کیو ایم کی سرپرستی شروع کی گئی تو مولانا نورانی کی جماعت جے یوپی عملاً ختم ہوگئی ۔
بریلوی مسلک کے پیروکار وں کی بڑی تعداد ایم کیو ایم کی حامی بن گئی اورپھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ 90 کی دہائی کے وسط میں جب نورانی صاحب فیڈرل بی ایریا ،کراچی کی ایک مسجد میں خطاب کے لیے پہنچے تو انھوں نے شہر کی ایک بااثر لسانی تنظیم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور جب خطبہ جمعہ کے دوران انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں یہ جملہ ادا کیا کہ خداکی شان دیکھیں ،جوکل تک فاتح شہر تھے آج شہر میں داخل نہیں ہوسکتے تو یکایک مسجد میں موجود چند افراد اٹھ کھڑے ہوئے، دو تین فائر ہوئے ، اور مولانا کو خطبہ دینے سے روک دیاگیا۔
امام مسجد یہ درخواست کرتے رہے کہ انھیں کم از کم نمازتو پڑھانے دیں یہ میرے استاد ہیں ، لیکن ان افراد نے مان کر نہ دی ،نورانی صاحب اس سارے عرصے میں مستقل درود شریف پڑھتے رہے تاہم اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے اور نماز جمعہ مولانا نورانی کے بجائے امام مسجد نے پڑھائی۔اسی دوران مفتی محمود صاحب کے انتقال کے بعد جمعیت علمائے اسلام کی قیادت ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان سنبھال چکے تھے جو بہرحال اپنے والدکا نعم البدل ثابت نہ ہوئے۔
90کا عشرہ دراصل مذہبی جماعتوں کے لیے پارلیمانی اعتبار سے ناکامی کا عشرہ ہے،دراصل 80 کی دہائی کے وسط میں دو نئی قوتیں ملک کے سیاسی منظر نامے پر سامنے آچکی تھیں، سندھ کے شہری علاقے جو مذہبی جماعتوں کے زیر اثر تھے وہ ایم کیوایم کے ہاتھوں میںچلے گئے تھے،اور انھی علاقوں میں جماعت اسلامی و جے یو پی کا اثر و رسوخ تھا۔ پنجاب میں جے یو پی اور جماعت اسلامی کی جگہ اب مسلم لیگ میاں نواز شریف کی قیادت میں متحد ہوچکی تھی ،اور میاں صاحب بھی ایک اسلام پسند شخص کے طور پر جانے جاتے تھے اورعوام انھیں اسلام پسند جنرل ضیاء کا جانشین سمجھتے تھے۔
مولانا فضل الرحمان کے پاس کوئی واضح ایجنڈا نہ تھا اور جے یو آئی بھی دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔اس منظرنامے میں جب93 میں عام انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی ، جے یوآئی اور جے یوپی متاثرکن کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام رہیں،جماعت اسلامی کے حصے میں محض تین نشستیں آئیں جب کہ اس نے 100 سے زائد نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ جے یوپی کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا اور جے یو آئی بھی 3 نشستیں ہی حاصل کرسکی، یوں 70 کے انتخابات میں 18 نشستیں جیتنے والے مذہبی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں نمایندگی اب محض 6 نشستوں تک محدود رہ گئیںا ور70 کی دہائی میں صوبہ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے والی جے یوآئی 90 کی دہائی میں محض کشمیر کمیٹی کے سربراہی پر راضی تھی۔
97 کے عام انتخابات میںصورتحال اور بھی زیادہ خراب ہو گئی ، جماعت اسلامی نے صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا حالانکہ بے نظیر حکومت گرانے میں جماعت اسلامی کا کردار مرکزی تھا، جے یوآئی محض دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکی ،مولانا فضل الرحمان کے مقابلے پر پشتو فلموں کی اداکارہ مسرت شاہین کو میدان میں اتارا گیا ،اور مولانا کو اپنی نشست پر بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس عرصے میں مولانا نورانی زیادہ وقت بیرونی ملک تبلیغی دوروں میں گزارتے ،ان کی پارلیمانی سیاست اب ختم ہوچکی تھی۔
قاضی حسین احمد اپنے تمام تر تحرک، جلسے ،جلوسوں اوردھرنو ں کے باوجود جماعت اسلامی کے لیے کوئی نمایاں کامیابیاں سمیٹنے میں پیچھے رہ گئے،البتہ اس عشرے میں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کچھ ایسی سرگرمیاں ضرور ہوئیں جس پر خود جماعت اسلامی کے اندر خاصا شور مچا۔یوں 97کے انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ وجود میں آئی اس میں مذہبی جماعتوں کے صرف 2 نمایندے موجود تھے جو یقینا اس بات کی علامت تھی کہ ملک میں مذہبی جماعتوں کی سیاست کا دائرہ اب ماضی کے مقابلے میں مزید محدود ہوگیا ہے۔
اسی عرصے میں مذہبی جماعتوں میں اتحاد اور ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد جب کراچی آتے تو مولانا نورانی کے گھر بھی حاضر ی دیتے،یوں نورانی صاحب جو عملاً اب ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کررہے تھے ، قاضی صاحب سے خاصے خوش تھے اور بعدمیں انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ قاضی صاحب سے محبت کا تعلق ہے اور پھر ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک غیر سیاسی اتحاد وجود میں آیاجسے تما م ہی طبقات نے سراہا۔
(جاری ہے)