فاتح اوباما اور پاکستان
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اوباما نے گزشتہ چار سالوں سے ہم پر مسلسل دباؤ رکھا ہوا ہے۔
باراک اوباما اپنے مدِ مقابل ری پبلکن امیدوار مٹ رومنی کو واضح شکست دے کر دوسری مرتبہ امریکا کے صدرمنتخب ہو گئے۔
اوباما نے کل 538 الیکٹرل ووٹ میں سے 303 جب کہ رومنی نے 206 ووٹ حاصل کیے۔ فتح کے بعد اوباما نے اپنے حریف کو مل جل کر ملکی مسائل حل کرنے کی دعوت دی جب کہ رومنی نے بھی کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرلی، نہ دھاندلی کا شور تھا اور نہ ہی بدعنوانی کے الزامات کی بازگشت سنائی دی، یہ ہوتا ہے باشعور قوموں کا مہذبانہ انداز۔کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ شاید ہم آیندہ کسی دہائی میں اس سوال کا جواب ہاں میں دینے کی پوزیشن میں آجائیں۔
فی الحال تو جواب نفی میں ہے۔ صدر اوباما نے شکاگو میں کامیابی کے جشن میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کی دہائی ختم ہو گئی، بہترین وقت آنیوالا ہے، وہ آیندہ نسلوں کو ایک ایسا ملک ورثے میں دینا چاہتے ہیں جوکہ محفوظ اور پوری دنیا میں باعزت ہو، جس کا دفاع دنیا کی بہترین فوج کرتی ہو۔ کیا صدر اوباما اپنے قول کی لاج رکھ پائیں گے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ چار سال قبل جب باراک اوباما نے پہلی مرتبہ امریکی صدر کے لیے منعقدہ انتخابات میں حصہ لیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نسل پرست گوروں کے ملک میں ایک سیاہ فام شخص امریکی وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر گوروں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، لیکن اوباما اپنی دھن کے پکے تھے اُن کی ساری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے، اوباما نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے تاریخ ساز اور حیران کن جنگ لڑی اور تمام تر منفی پروپیگنڈوں کے باوجود سپرپاور امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے جو یقینا اُن کے رہنمائے اوّل کنگ لوتھر کے خواب کی تعبیر تھی۔
اگرچہ اوباما کی ماں ایک گوری خاتون تھی اور باپ ایک سیاہ فام کینیائی مسلمان تھا۔ اسی نسبت سے ان کا پورا نام باراک حسین اوباما ہے تاہم اوباما نے کسی گوری کی بجائے ایک سیاہ فام لڑکی میشل سے شادی کی جس نے ہر قدم اور ہر فیصلے میں اوباما کا بھرپور ساتھ دیا۔ دوسری مدت کے صدارتی انتخاب کے موقعے پر مختلف مواقعوں پر کیے گئے سروے رپورٹس کی بنیاد پر کہا جارہا تھا کہ مقابلہ کانٹے کا ہوگا، مگر مقابلہ یکطرفہ ہوگیا۔رومنی کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔
ادھر سینڈی طوفان نے بھی عین موقعے پر امریکی ریاستوں میں آفت برپا کردی جو اوباما کے لیے انتخابات سے قبل ایک بڑا چیلنج تھا تاہم خوش قسمتی سے اوباما سینڈی طوفان سے ہونے والی تباہی سے اس جذبے کے ساتھ نمٹے کہ ان کے مخالفین بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ انتخابات سے قبل ہی صورتحال بہتر ہوگئی، زندگی کی رونقیں لوٹ آئیں، کالوں کے علاوہ امریکا کے گورے مردوں اور عورتوں نے بھی اوباما کو بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے جو اوباما پر ان کے اعتماد کا اظہار تھا جس کے باعث صدر اوباما دوسری مدت کے لیے بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوکر وائٹ ہاؤس میں مزید چار سال قیام کرسکیں گے۔
صدر اوباما نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں سابق امریکی صدر بش کی شروع کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی کو آگے بڑھایا حالانکہ انھوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا جو محض اس حد تک ہوئی کہ افغانستان میں جاری جنگ کو 12 سال گزرنے کے باوجود امریکا وہاں کامیابی حاصل نہیں کرسکا لہٰذا 2014تک امریکی و اتحادی فوجوں کی واپسی کا روٹ میپ ضرور دے دیا گیا۔ ماسوائے اس کے اوباما کے پورے دورِ اقتدار میں کوئی نمایاں، قابلِ ذکر اور جوہری تبدیلی نہیں آئی وہ تسلسل کے ساتھ لیبیا، شام اور ایران کے حوالے سے جارحانہ اور جنگجوانہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہے اور اپنے اگلے حکومتی عرصے میں اوباما ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنے کے لیے اس پر حملہ آور ہونے سے بھی گریز نہ کریں جو امریکا کے لیے بھی ایک نیا محاذ جنگ ہوگا اور خطے میں اس کے منفی اثرات سے جاری مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اوباما نے گزشتہ چار سالوں سے ہم پر مسلسل دباؤ رکھا ہوا ہے۔ وقفے وقفے سے ''ڈو مور'' کی گردان کے پہلو بہ پہلو ڈرون حملوں کا دائرہ وسیع کرکے قبائلی علاقوں تک پھیلادیا گیا ہے، شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے تواتر کے ساتھ مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اسام بن لادن کی تلاش میں رات کی تاریکیوں میں امریکا نے ایبٹ آباد پر براہِ راست حملہ کیا جو عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی اور ہماری آزادی، خودمختاری اور سلامتی کو نشانہ بنانے کے مترادف تھا۔ اوباما اسامہ آپریشن کی براہِ راست نگرانی کر رہے تھے، اپنی اس کامیابی کو انھوں نے حالیہ انتخابات میں بڑے سلیقے سے استعمال کیا اور الیکشن سے 3/4 روز قبل Raid on Usama نامی فلم بھی جاری کردی جس نے اوباما کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
اہم سوال یہ ہے کہ صدر اوباما اگلے چار سال میں پاکستان کے حوالے سے کیا حکمتِ عملی اختیار کریں گے؟ اس ضمن میں مبصرین و تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اوباما کے جنگ کی دہائی ختم ہونے کے خوش کن اعلان کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ پاکستان پر دباؤ قائم رکھنے بلکہ اس میں اضافے کی پالیسی جاری رکھیں گے۔ صدر اوباما نہ صرف ڈرون حملوں میں اضافہ کرسکتے ہیں بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع کرکے مشتبہ شہری علاقوں تک بھی پھیلا سکتے ہیں جس کے باعث ڈرون حملوں میں عام آدمیوں کے نشانہ بننے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ نتیجتاً پاکستانی عوام میں نہ صرف غم و غصہ پھیلے گا بلکہ امریکا مخالف نفرتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
اوباما شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے بھی دباؤ بڑھائیں گے اور بہت ممکن ہے کہ ایران کے خلاف کسی امکانی جارحانہ اقدام کی صورت میں پاکستان کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالیں جس کے لیے وہ پاکستان کی امداد میں کٹوتی یا روکنے جیسا ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ امکانات اور خدشات پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے خطرے کی علامت ہیں اور سیاسی و عسکری قیادت کے لیے لمحۂ فکریہ بھی۔ہمیں نہایت سوچ بچار کے بعد قدم اُٹھانا ہوں گے، اگلے سال پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے بعد جو بھی حکومت برسرِ اقتدار ہوگی اس کے لیے فاتح اوباما سے پاکستان کو محفوظ رکھنا یقینا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
اوباما نے کل 538 الیکٹرل ووٹ میں سے 303 جب کہ رومنی نے 206 ووٹ حاصل کیے۔ فتح کے بعد اوباما نے اپنے حریف کو مل جل کر ملکی مسائل حل کرنے کی دعوت دی جب کہ رومنی نے بھی کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرلی، نہ دھاندلی کا شور تھا اور نہ ہی بدعنوانی کے الزامات کی بازگشت سنائی دی، یہ ہوتا ہے باشعور قوموں کا مہذبانہ انداز۔کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ شاید ہم آیندہ کسی دہائی میں اس سوال کا جواب ہاں میں دینے کی پوزیشن میں آجائیں۔
فی الحال تو جواب نفی میں ہے۔ صدر اوباما نے شکاگو میں کامیابی کے جشن میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کی دہائی ختم ہو گئی، بہترین وقت آنیوالا ہے، وہ آیندہ نسلوں کو ایک ایسا ملک ورثے میں دینا چاہتے ہیں جوکہ محفوظ اور پوری دنیا میں باعزت ہو، جس کا دفاع دنیا کی بہترین فوج کرتی ہو۔ کیا صدر اوباما اپنے قول کی لاج رکھ پائیں گے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ چار سال قبل جب باراک اوباما نے پہلی مرتبہ امریکی صدر کے لیے منعقدہ انتخابات میں حصہ لیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نسل پرست گوروں کے ملک میں ایک سیاہ فام شخص امریکی وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر گوروں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، لیکن اوباما اپنی دھن کے پکے تھے اُن کی ساری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے، اوباما نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے تاریخ ساز اور حیران کن جنگ لڑی اور تمام تر منفی پروپیگنڈوں کے باوجود سپرپاور امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے جو یقینا اُن کے رہنمائے اوّل کنگ لوتھر کے خواب کی تعبیر تھی۔
اگرچہ اوباما کی ماں ایک گوری خاتون تھی اور باپ ایک سیاہ فام کینیائی مسلمان تھا۔ اسی نسبت سے ان کا پورا نام باراک حسین اوباما ہے تاہم اوباما نے کسی گوری کی بجائے ایک سیاہ فام لڑکی میشل سے شادی کی جس نے ہر قدم اور ہر فیصلے میں اوباما کا بھرپور ساتھ دیا۔ دوسری مدت کے صدارتی انتخاب کے موقعے پر مختلف مواقعوں پر کیے گئے سروے رپورٹس کی بنیاد پر کہا جارہا تھا کہ مقابلہ کانٹے کا ہوگا، مگر مقابلہ یکطرفہ ہوگیا۔رومنی کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔
ادھر سینڈی طوفان نے بھی عین موقعے پر امریکی ریاستوں میں آفت برپا کردی جو اوباما کے لیے انتخابات سے قبل ایک بڑا چیلنج تھا تاہم خوش قسمتی سے اوباما سینڈی طوفان سے ہونے والی تباہی سے اس جذبے کے ساتھ نمٹے کہ ان کے مخالفین بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ انتخابات سے قبل ہی صورتحال بہتر ہوگئی، زندگی کی رونقیں لوٹ آئیں، کالوں کے علاوہ امریکا کے گورے مردوں اور عورتوں نے بھی اوباما کو بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے جو اوباما پر ان کے اعتماد کا اظہار تھا جس کے باعث صدر اوباما دوسری مدت کے لیے بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوکر وائٹ ہاؤس میں مزید چار سال قیام کرسکیں گے۔
صدر اوباما نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں سابق امریکی صدر بش کی شروع کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی کو آگے بڑھایا حالانکہ انھوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا جو محض اس حد تک ہوئی کہ افغانستان میں جاری جنگ کو 12 سال گزرنے کے باوجود امریکا وہاں کامیابی حاصل نہیں کرسکا لہٰذا 2014تک امریکی و اتحادی فوجوں کی واپسی کا روٹ میپ ضرور دے دیا گیا۔ ماسوائے اس کے اوباما کے پورے دورِ اقتدار میں کوئی نمایاں، قابلِ ذکر اور جوہری تبدیلی نہیں آئی وہ تسلسل کے ساتھ لیبیا، شام اور ایران کے حوالے سے جارحانہ اور جنگجوانہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہے اور اپنے اگلے حکومتی عرصے میں اوباما ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنے کے لیے اس پر حملہ آور ہونے سے بھی گریز نہ کریں جو امریکا کے لیے بھی ایک نیا محاذ جنگ ہوگا اور خطے میں اس کے منفی اثرات سے جاری مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اوباما نے گزشتہ چار سالوں سے ہم پر مسلسل دباؤ رکھا ہوا ہے۔ وقفے وقفے سے ''ڈو مور'' کی گردان کے پہلو بہ پہلو ڈرون حملوں کا دائرہ وسیع کرکے قبائلی علاقوں تک پھیلادیا گیا ہے، شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے تواتر کے ساتھ مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اسام بن لادن کی تلاش میں رات کی تاریکیوں میں امریکا نے ایبٹ آباد پر براہِ راست حملہ کیا جو عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی اور ہماری آزادی، خودمختاری اور سلامتی کو نشانہ بنانے کے مترادف تھا۔ اوباما اسامہ آپریشن کی براہِ راست نگرانی کر رہے تھے، اپنی اس کامیابی کو انھوں نے حالیہ انتخابات میں بڑے سلیقے سے استعمال کیا اور الیکشن سے 3/4 روز قبل Raid on Usama نامی فلم بھی جاری کردی جس نے اوباما کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
اہم سوال یہ ہے کہ صدر اوباما اگلے چار سال میں پاکستان کے حوالے سے کیا حکمتِ عملی اختیار کریں گے؟ اس ضمن میں مبصرین و تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اوباما کے جنگ کی دہائی ختم ہونے کے خوش کن اعلان کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ پاکستان پر دباؤ قائم رکھنے بلکہ اس میں اضافے کی پالیسی جاری رکھیں گے۔ صدر اوباما نہ صرف ڈرون حملوں میں اضافہ کرسکتے ہیں بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع کرکے مشتبہ شہری علاقوں تک بھی پھیلا سکتے ہیں جس کے باعث ڈرون حملوں میں عام آدمیوں کے نشانہ بننے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ نتیجتاً پاکستانی عوام میں نہ صرف غم و غصہ پھیلے گا بلکہ امریکا مخالف نفرتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
اوباما شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے بھی دباؤ بڑھائیں گے اور بہت ممکن ہے کہ ایران کے خلاف کسی امکانی جارحانہ اقدام کی صورت میں پاکستان کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالیں جس کے لیے وہ پاکستان کی امداد میں کٹوتی یا روکنے جیسا ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ امکانات اور خدشات پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے خطرے کی علامت ہیں اور سیاسی و عسکری قیادت کے لیے لمحۂ فکریہ بھی۔ہمیں نہایت سوچ بچار کے بعد قدم اُٹھانا ہوں گے، اگلے سال پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے بعد جو بھی حکومت برسرِ اقتدار ہوگی اس کے لیے فاتح اوباما سے پاکستان کو محفوظ رکھنا یقینا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔