پاکستان میں غریب ہونا 302 سے بڑا جرم ہے سپریم کورٹ
خانیوال میںخاتون کی سنگساری کے ملزمان گرفتارنہ ہوئے توآئی جی پنجاب کی معطلی کاحکم دینگے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں عظمٰی ایوب کے بھائی کے قتل کیس میں نامزد ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس میں کہاہے کہ اس ملک (پاکستان) میں غریب ہونا 302 (قتل عمد)سے بڑا جرم ہے اور غریب ہوکر بولنا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔
جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کرک میں اجتماعی زیادتی کی شکارعظمٰی ایوب کے بھائی کے قتل کیس میںملزموں کی ضمانت منسوخی کیلیے دائر اپیل کی سماعت کی، عظمیٰ ایوب کے وکیل ذوالفقارنقوی نے عدالت کوبتایا کہ ملزمان نے پہلے عظمٰی ایوب کواغواکرکے زیادتی کا نشانہ بنایاجس کے خلاف آواز اٹھانے پر پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سوموٹونوٹس لیا تو اے ایس آئی حکیم اللہ سمیت چارپولیس والوںکومعطل کرکے انکوائر ی شروع کی گئی تاہم ملزمان کوٹرائل کے دوران پولیس کی جانب سے رعایت دی جاتی رہی جس کا وڈیو بنانے پر عظمیٰ کے بھائی کو قتل کیا گیا۔
ملزموں نے اپنی حمایت میں نکالے جانے والے ایک جلوس کے دوران عدلیہ کے خلاف نعرے بازی بھی کی، عدالت نے کہا کہ ملزموں کے خلاف واقعاتی شہادتوں کے علاوہ کیس میں ملوث ہونے کاکوئی ثبوت نہیں، عدلیہ کے خلاف اکثر باتیں کی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہم قانون کے مطابق موجودہ شہادتوںکے تحت چلنے کے پابند ہیں، فاضل وکیل نے کہاکہ عظمٰی ایوب کے بھائی عالم زیب کو اے ایس آئی حکیم اللہ کی ایمااور پولیس کی ملی بھگت سے قتل کیا گیا تو عدالت نے کہا کہ وہ واقعے کے وقت پولیس کی تحویل میں تھا اور اسے ہتکھڑیا ں بھی لگی تھیں پھر وہ اس واقعہ میں کس طرح ملوث ہو سکتاہے اس طرح وحید پر مقتول کو پکڑنے کا الزام ہے،
جاوید شاہ اور رحمت شاہ کے نام بعد میں ایف آئی آ ر میں شامل کئے گئے ہو سکتاہے کہ پولیس نے حکیم اللہ کے ساتھ رعایت کی ہو لیکن عدالت کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر کس طرح ضمانت منسوخ کر سکتی ہے جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ واقعہ کے بارے میں موبائیل فون کے ذریعے بنائے گئے ویڈیو کی سی ڈی موجود ہے تو عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر وہ ویڈیو عدالت کو دکھائی جائے، ملزموں کے وکیل راجہ عامر نے عدالت کو بتایا کہ مبینہ ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے پر پشاور ہائیکورٹ نے ان کو ضمانت پر رہا کیا ہے جبکہ عظمٰی ایوب کے ساتھ زیادتی کا ڈرامہ اے ایس آئی حکیم اللہ کے ہاتھوں گرفتار ایک بڑے جرائم پیشہ شخص کی ایماء پر رچایا گیا۔
تاہم ڈی این ٹیسٹ اور پولی گرافک ٹیسٹ کا رزلٹ آنے کے بعد پشاورہائیکورٹ نے لیا گیاسوموٹو نوٹس بھی نمٹا دیا ہے۔ بعدازاں عدالت نے مزید سماعت 23 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے متعلقہ پولیس سے واقعہ کی ریکارڈنگ کی سی ڈی طلب کرلی جو آئندہ سماعت پر عدالت میں دکھائی جائے گی۔ آن لائن کے مطابق عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو حکم دیا کہ ملزم ابراہیم کی 8 ماہ سے گرفتاری نہ ہونے کا معاملہ آئی جی خیبر پختونخوا کے نوٹس میں لایا جائے۔
جمعہ کو چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کرک میں اجتماعی زیادتی کی شکارعظمٰی ایوب کے بھائی کے قتل کیس میںملزموں کی ضمانت منسوخی کیلیے دائر اپیل کی سماعت کی، عظمیٰ ایوب کے وکیل ذوالفقارنقوی نے عدالت کوبتایا کہ ملزمان نے پہلے عظمٰی ایوب کواغواکرکے زیادتی کا نشانہ بنایاجس کے خلاف آواز اٹھانے پر پشاورہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سوموٹونوٹس لیا تو اے ایس آئی حکیم اللہ سمیت چارپولیس والوںکومعطل کرکے انکوائر ی شروع کی گئی تاہم ملزمان کوٹرائل کے دوران پولیس کی جانب سے رعایت دی جاتی رہی جس کا وڈیو بنانے پر عظمیٰ کے بھائی کو قتل کیا گیا۔
ملزموں نے اپنی حمایت میں نکالے جانے والے ایک جلوس کے دوران عدلیہ کے خلاف نعرے بازی بھی کی، عدالت نے کہا کہ ملزموں کے خلاف واقعاتی شہادتوں کے علاوہ کیس میں ملوث ہونے کاکوئی ثبوت نہیں، عدلیہ کے خلاف اکثر باتیں کی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہم قانون کے مطابق موجودہ شہادتوںکے تحت چلنے کے پابند ہیں، فاضل وکیل نے کہاکہ عظمٰی ایوب کے بھائی عالم زیب کو اے ایس آئی حکیم اللہ کی ایمااور پولیس کی ملی بھگت سے قتل کیا گیا تو عدالت نے کہا کہ وہ واقعے کے وقت پولیس کی تحویل میں تھا اور اسے ہتکھڑیا ں بھی لگی تھیں پھر وہ اس واقعہ میں کس طرح ملوث ہو سکتاہے اس طرح وحید پر مقتول کو پکڑنے کا الزام ہے،
جاوید شاہ اور رحمت شاہ کے نام بعد میں ایف آئی آ ر میں شامل کئے گئے ہو سکتاہے کہ پولیس نے حکیم اللہ کے ساتھ رعایت کی ہو لیکن عدالت کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر کس طرح ضمانت منسوخ کر سکتی ہے جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ واقعہ کے بارے میں موبائیل فون کے ذریعے بنائے گئے ویڈیو کی سی ڈی موجود ہے تو عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر وہ ویڈیو عدالت کو دکھائی جائے، ملزموں کے وکیل راجہ عامر نے عدالت کو بتایا کہ مبینہ ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے پر پشاور ہائیکورٹ نے ان کو ضمانت پر رہا کیا ہے جبکہ عظمٰی ایوب کے ساتھ زیادتی کا ڈرامہ اے ایس آئی حکیم اللہ کے ہاتھوں گرفتار ایک بڑے جرائم پیشہ شخص کی ایماء پر رچایا گیا۔
تاہم ڈی این ٹیسٹ اور پولی گرافک ٹیسٹ کا رزلٹ آنے کے بعد پشاورہائیکورٹ نے لیا گیاسوموٹو نوٹس بھی نمٹا دیا ہے۔ بعدازاں عدالت نے مزید سماعت 23 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے متعلقہ پولیس سے واقعہ کی ریکارڈنگ کی سی ڈی طلب کرلی جو آئندہ سماعت پر عدالت میں دکھائی جائے گی۔ آن لائن کے مطابق عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو حکم دیا کہ ملزم ابراہیم کی 8 ماہ سے گرفتاری نہ ہونے کا معاملہ آئی جی خیبر پختونخوا کے نوٹس میں لایا جائے۔