بے آئین بلوچستان کی الم ناک کہانی
دوبارہ وہی پتھر کا دور، وہی فرسودہ سرداری نظام، وہی جرگے بحال کر دیے گئے۔
سیاستدانوں نے پارلیمان کی طاقت سے بلوچستان کو دوبارہ سر زمین بے آئین بنا دیا ہے۔ جس کے بعد آج بلوچستان جل رہا ہے اور ہم بے بسی سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔
بلوچستان کے حالات ہماری اجتماعی حماقتوں اور انفرادی مصلحت پسندی کا آئینہ دار ہیں۔ سر شام ٹی وی اسکرینوں پر جلوہ گر ہونے والے بونے ہوں یا طوفان کا سامنا کرنے کے بجائے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے والے سیاست کار، سب نوشتہ دیوار پڑھنے کے بجائے حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ مشرف نے قوم پر کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے،اس کے گناہوں کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے اور وہ لندن اور دبئی میں طبلے پر مشق فرما رہے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے، ریاست کی رٹ اور آئین کے نفاذ کے لیے مشرف کے دور میں درست سمت پیش قدمی کی گئی تھی۔ یہ ظفر اﷲ جمالی کا نمائشی دور تھا۔
بلوچستان میں امن و امان کے مسئلہ پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی مشرف صدارت کر رہے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی بریفنگ کے دوران حاضرین خاموشی اور انہماک سے در پیش مسائل کی لامتناہی کہانی سن رہے تھے لیکن نرم و گرم چشیدہ معالج انھیں مسائل کا حل بھی بتا رہا تھا، اس کی تفصیلات سے آگاہ کر رہا تھا کہ اُس نے 1976میں اے ایس پی کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز بلوچستان سے کیا تھا اور پھر 1980 میں ایس پی بن کر پی ایچ ڈی کرنے کے لیے انگلستان بھی کوئٹہ سے ہی گیا تھا ۔ ڈاکٹر شعیب سڈل خاموش ہوئے تو ہال میں ہر سو سناٹا تھا۔ عالی دماغ حاضرین مبہوت، عقل و دانش اور جدید ٹیکنالوجی کے تال میل سے تخلیق پانے والی بریفنگ کے سحر میں گرفتار تھے کہ ان شہ دماغ حکمت کاروں نے بے جان اعداد و شمار اور گرافکس کے ساتھ شاید پہلی بار دکھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والی فریاد سنی تھی۔ ''حل موجود ہے اگر بچا سکتے ہو تو بلوچستان کو بچالو۔''
جنرل پرویز مشرف نے صرف ایک سوال کیا ''کتنا وقت اور بجٹ درکار ہو گا''۔ جواب بڑا مختصر تھا۔'' 10ارب روپے اور 5 سال''۔ ''کیا وقت کچھ کم نہیں ہوسکتا؟'' ایسا ممکن نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی بریفنگ ختم ہو گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کو فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں صدیوں کے بعد ایسا مقام آتا ہے جب دور اندیش قیادت ایسے مثبت اقدامات کیا کرتی ہے۔
2003 میں سارے بلوچستان کو ''اے'' ایریا بنانے کا مرحلہ وار سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے ظفر اللہ جمالی کے آبائی ضلع نصیر آباد اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام یوسف کے ضلع لسبیلہ سے آغا ز ہوا۔ پروگرام کے مطابق ہر سال 5اضلاع کو ''اے'' ایریا میں تبدیل کرکے آئین اور قانون کا نفاذ کرنا تھا۔ اس دوران بلوچستان پولیس کے تین سربراہ تبدیل ہوئے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل، محمد یعقوب اور طارق کھوسہ ۔ لیکن کام رکا نہیں اور آخرکار2008 میں یوسف رضا گیلانی کے وزیراعظم بننے سے پہلے سارا کام مکمل ہو چکا تھا لیکن اسی اثناء میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کا سانحہ ہوگیا جس کے بعد حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے ناگزیر تھا کہ پولیس کے نظام کو مستحکم بنا کر امن و امان قائم کیا جاتا لیکن برا ہو سیاسی مصلحتوں کا کہ دورِ جمہور میں بلوچ عوام کو اُن کے مسلمہ آئینی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔
دوبارہ وہی پتھر کا دور، وہی فرسودہ سرداری نظام، وہی جرگے بحال کر دیے گئے۔ اس کے لیے بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر باضابطہ قرار داد پاس کر کے مطالبہ کیا تھا۔پرانے نظام کی بحالی کی قرار داد کو خاکم ِبدہن پاکستان سے علیحدگی کی قرار داد بنانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ 10 ارب تو گئے بھاڑ میں، اصل قیمت تو وقت کی تھی، جو اب تیزی سے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ پھر آغاز حقوق بلوچستان آیا، جس کا فائدہ سیاسی بازیگروں اور سرداروں کو تو ہوا لیکن غریب عوام کے ہاتھ کچھ نہ آیا ۔
بلوچستان میں پرانے نظام کی واپسی نے پارلیمان کے چہرے کو داغ دار کر دیا ہے۔ سب کچھ جانتے بوجھتے بلوچستان اسمبلی میں قومی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ''بی'' ایریا بحال کرانے کی قرار داد کی حمایت کیوں کی، انھوں نے آخر پاکستان کی اساس پر کیوں ضرب لگائی۔ سب سے بڑھ کر جمعیت علماء اسلام کے مختلف دھڑوں نے اس قرار داد کی حمایت کیوں کی؟ سوالات کی یلغار ہے کہ بند باندھنا مشکل ٹھہرا۔ عرض یہ ہے کہ روشن خیال ہوں یا اسلام کے دعویدار ، مولوی ہو یا سردار، بلوچ عوام کے خلاف تمام متحد ہیں ۔
پاکستان کے غم میں دُبلے ہونے والے مسلم لیگ کے دونوں دھڑے، پیپلزپارٹی کے عوام دوست اور روشن خیال قائدین، مولانا فضل الرحمن اور قال قال رسول اللہؐ کی مقدس صدائیں بلند کرنے والے اُن کے مخالف علماء ہوں سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔ ان تمام نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی عملداری کسی کو بھی پسند نہیں۔
میرے دوست طارق چوہدری راوی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک مرکزی رہنما اس بات پر جناب نواز شریف کی موجودگی میں شدید ناراض ہو گئے کہ ان پاس موجود سرکاری گاڑیوں کی تعداد کم کیوں بتائی گئی۔ وہ جب کبھی صوبائی وزیر تھے تو انھوں نے وزارت کے خاتمے کے بعد درجنوں سرکاری گاڑیاں واپس کرنا پسند نہیں کیا تھا کہ یہ بلوچستان کی سر زمین بے آئین کی روایت ہے جس کی پاسداری تمام ''منتخب'' نمایندے اور رہنما دل و جان سے کر رہے ہیں۔
اگر لیویز کا نظام اور جرگہ سسٹم اتنا اچھا ہے تو اسے سارے پاکستان پر نافذ کرنا چاہیے۔ صرف غریب بلوچ عوام ہی کیوں اس سے مستفید ہوں۔ لیویز ہمارے سرداروں، رہبروں اور علماء اور منتخب جمہوری نمایندوں کو صرف اس لیے مرغوب ہے کہ ان کی بھرتی اور تنخواہوں کا انحصار ان کی صوابدید پر ہے۔ لیویز ہر حال میں مقامی رُکن بلوچستان اسمبلی کے احکامات کی پابند ہے کیونکہ تنخواہ تو اسے سرکاری خزانے کے بجائے ایم پی اے کے ذریعے ملتی ہے جس کی حیثیت ذاتی ملیشیا سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ بلوچستان کے جن اضلاع میں سردار کمزور اور مولوی طاقتور ہوا ہے وہاں صدیوں پرانا نظام ختم کرنے کے بجائے مولوی اس کا متبادل بن چکا ہے۔ مولوی نے بھی لیویز کو اپنی ذاتی ملیشیا بنا لیا ہے اور سرکاری خرچ پر وہ ''وار لارڈ'' بن گیا ہے۔
ڈاکٹر شعیب سڈل کہتے ہیں کہ جنرل مشرف چلا گیا لیکن میں تو موجود ہوں ، آئین کی عملداری اور قانون کے نفاذ کے جرم میں ہر عدالت اور کٹہرے میں کھڑا ہونے کو تیار ہوں۔ بلوچستان کو پرانے دور میں واپس دھکیلنا جرم ہے یا سارے صوبے پر آئین اور قانون کا یکساں نفاذ کرنا ، اب اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہیے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم نے قوم کے اس مایہ ناز فرزند کو، جس کی شہری علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی مہارت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اُس ڈاکٹر شعیب سڈل کو بگڑے ہوئے ارسلان افتخار اور ٹھیکیدار ملک ریاض کے اسکینڈلوں سے آلودہ گندے کپڑے دھونے پر لگا دیا گیا ۔
تف ہے ایسی عقل اور دانش مند ی پر۔ بلوچستان کے حوالے سے فوج کو ایک سوچی سمجھی سازش کے ساتھ حرف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ حقائق کچھ یوں ہیں کہ مسلح افواج بلوچستان کی 7 چھائونیوں تک محدود ہیں جن میں سے کوئٹہ، ژوب، سبی، لورالائی اور چمن کی 5 چھائونیاں برطانوی سامراج نے قائم کیں تھیں ۔ قیام پاکستان کے بعد صرف خضدار اور گوادر میں دو نئی چھائونیاں بنائی گئیں جن پر اپنے بیگانے سب طعن زن ہیں۔ کوہلو اور سوئی میں زیر تعمیر چھائونیوں پر کام کب کا بند پڑا ہے۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر سوئی میں چھائونی کو پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی مرکز میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ ایف سی کے مظالم پر بڑا شور مچایا جا رہا ہے جو کہ براہ راست وزارت داخلہ کے ماتحت، جنابِ رحمن ملک کے احکامات کی پابند ہے۔
95% بی ایریا میں سرداروں کی وفادار لیویز بروئے کار ہیں۔ بلوچستان میں پانچ فیصد اے ایریا میں پولیس بھی بے حال ہو چکی ہے۔ سیاسی وابستگیاں اسے غیر موثر بلکہ مکمل طور پر مفلوج کر چکی ہیں۔ اس سر زمین بے آئین کے دستور نرالے ہیں۔ جہاں پر کوئی انتظامی افسر، کوئی پولیس اہل کار، محکمہ صحت کا ضلعی افسر یا کوئی مسکین اُستاد ، مقامی رُکن بلوچستان اسمبلی کی رضامندی کے بغیر متعین نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی وجہ سے عملاً حکومت ختم ہوچکی ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟
آخر میں بلوچستان کے حوالے سے ایک خوشخبری۔ کہتے ہیں کہ بیوروکریسی کی موجودہ تقرر و تبادلہ پالیسی کے مطابق تمام گروپوں کے لیے بلوچستان میں تین سالہ مدت ملازمت کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے، جس پر وزیراعظم پرویز اشرف نے سختی سے عملدرآمد شروع کرایا ہے ورنہ گیلانی کی بادشاہت میں تو ایسے تمام احکامات طاقتور کے ہاتھ موم کی ناک بن جایا کرتے تھے۔
بلوچستان کے حالات ہماری اجتماعی حماقتوں اور انفرادی مصلحت پسندی کا آئینہ دار ہیں۔ سر شام ٹی وی اسکرینوں پر جلوہ گر ہونے والے بونے ہوں یا طوفان کا سامنا کرنے کے بجائے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے والے سیاست کار، سب نوشتہ دیوار پڑھنے کے بجائے حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ مشرف نے قوم پر کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے،اس کے گناہوں کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے اور وہ لندن اور دبئی میں طبلے پر مشق فرما رہے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے، ریاست کی رٹ اور آئین کے نفاذ کے لیے مشرف کے دور میں درست سمت پیش قدمی کی گئی تھی۔ یہ ظفر اﷲ جمالی کا نمائشی دور تھا۔
بلوچستان میں امن و امان کے مسئلہ پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی مشرف صدارت کر رہے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی بریفنگ کے دوران حاضرین خاموشی اور انہماک سے در پیش مسائل کی لامتناہی کہانی سن رہے تھے لیکن نرم و گرم چشیدہ معالج انھیں مسائل کا حل بھی بتا رہا تھا، اس کی تفصیلات سے آگاہ کر رہا تھا کہ اُس نے 1976میں اے ایس پی کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز بلوچستان سے کیا تھا اور پھر 1980 میں ایس پی بن کر پی ایچ ڈی کرنے کے لیے انگلستان بھی کوئٹہ سے ہی گیا تھا ۔ ڈاکٹر شعیب سڈل خاموش ہوئے تو ہال میں ہر سو سناٹا تھا۔ عالی دماغ حاضرین مبہوت، عقل و دانش اور جدید ٹیکنالوجی کے تال میل سے تخلیق پانے والی بریفنگ کے سحر میں گرفتار تھے کہ ان شہ دماغ حکمت کاروں نے بے جان اعداد و شمار اور گرافکس کے ساتھ شاید پہلی بار دکھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والی فریاد سنی تھی۔ ''حل موجود ہے اگر بچا سکتے ہو تو بلوچستان کو بچالو۔''
جنرل پرویز مشرف نے صرف ایک سوال کیا ''کتنا وقت اور بجٹ درکار ہو گا''۔ جواب بڑا مختصر تھا۔'' 10ارب روپے اور 5 سال''۔ ''کیا وقت کچھ کم نہیں ہوسکتا؟'' ایسا ممکن نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی بریفنگ ختم ہو گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کو فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں صدیوں کے بعد ایسا مقام آتا ہے جب دور اندیش قیادت ایسے مثبت اقدامات کیا کرتی ہے۔
2003 میں سارے بلوچستان کو ''اے'' ایریا بنانے کا مرحلہ وار سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے ظفر اللہ جمالی کے آبائی ضلع نصیر آباد اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام یوسف کے ضلع لسبیلہ سے آغا ز ہوا۔ پروگرام کے مطابق ہر سال 5اضلاع کو ''اے'' ایریا میں تبدیل کرکے آئین اور قانون کا نفاذ کرنا تھا۔ اس دوران بلوچستان پولیس کے تین سربراہ تبدیل ہوئے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل، محمد یعقوب اور طارق کھوسہ ۔ لیکن کام رکا نہیں اور آخرکار2008 میں یوسف رضا گیلانی کے وزیراعظم بننے سے پہلے سارا کام مکمل ہو چکا تھا لیکن اسی اثناء میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کا سانحہ ہوگیا جس کے بعد حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے ناگزیر تھا کہ پولیس کے نظام کو مستحکم بنا کر امن و امان قائم کیا جاتا لیکن برا ہو سیاسی مصلحتوں کا کہ دورِ جمہور میں بلوچ عوام کو اُن کے مسلمہ آئینی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔
دوبارہ وہی پتھر کا دور، وہی فرسودہ سرداری نظام، وہی جرگے بحال کر دیے گئے۔ اس کے لیے بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر باضابطہ قرار داد پاس کر کے مطالبہ کیا تھا۔پرانے نظام کی بحالی کی قرار داد کو خاکم ِبدہن پاکستان سے علیحدگی کی قرار داد بنانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ 10 ارب تو گئے بھاڑ میں، اصل قیمت تو وقت کی تھی، جو اب تیزی سے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ پھر آغاز حقوق بلوچستان آیا، جس کا فائدہ سیاسی بازیگروں اور سرداروں کو تو ہوا لیکن غریب عوام کے ہاتھ کچھ نہ آیا ۔
بلوچستان میں پرانے نظام کی واپسی نے پارلیمان کے چہرے کو داغ دار کر دیا ہے۔ سب کچھ جانتے بوجھتے بلوچستان اسمبلی میں قومی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ''بی'' ایریا بحال کرانے کی قرار داد کی حمایت کیوں کی، انھوں نے آخر پاکستان کی اساس پر کیوں ضرب لگائی۔ سب سے بڑھ کر جمعیت علماء اسلام کے مختلف دھڑوں نے اس قرار داد کی حمایت کیوں کی؟ سوالات کی یلغار ہے کہ بند باندھنا مشکل ٹھہرا۔ عرض یہ ہے کہ روشن خیال ہوں یا اسلام کے دعویدار ، مولوی ہو یا سردار، بلوچ عوام کے خلاف تمام متحد ہیں ۔
پاکستان کے غم میں دُبلے ہونے والے مسلم لیگ کے دونوں دھڑے، پیپلزپارٹی کے عوام دوست اور روشن خیال قائدین، مولانا فضل الرحمن اور قال قال رسول اللہؐ کی مقدس صدائیں بلند کرنے والے اُن کے مخالف علماء ہوں سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔ ان تمام نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی عملداری کسی کو بھی پسند نہیں۔
میرے دوست طارق چوہدری راوی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک مرکزی رہنما اس بات پر جناب نواز شریف کی موجودگی میں شدید ناراض ہو گئے کہ ان پاس موجود سرکاری گاڑیوں کی تعداد کم کیوں بتائی گئی۔ وہ جب کبھی صوبائی وزیر تھے تو انھوں نے وزارت کے خاتمے کے بعد درجنوں سرکاری گاڑیاں واپس کرنا پسند نہیں کیا تھا کہ یہ بلوچستان کی سر زمین بے آئین کی روایت ہے جس کی پاسداری تمام ''منتخب'' نمایندے اور رہنما دل و جان سے کر رہے ہیں۔
اگر لیویز کا نظام اور جرگہ سسٹم اتنا اچھا ہے تو اسے سارے پاکستان پر نافذ کرنا چاہیے۔ صرف غریب بلوچ عوام ہی کیوں اس سے مستفید ہوں۔ لیویز ہمارے سرداروں، رہبروں اور علماء اور منتخب جمہوری نمایندوں کو صرف اس لیے مرغوب ہے کہ ان کی بھرتی اور تنخواہوں کا انحصار ان کی صوابدید پر ہے۔ لیویز ہر حال میں مقامی رُکن بلوچستان اسمبلی کے احکامات کی پابند ہے کیونکہ تنخواہ تو اسے سرکاری خزانے کے بجائے ایم پی اے کے ذریعے ملتی ہے جس کی حیثیت ذاتی ملیشیا سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ بلوچستان کے جن اضلاع میں سردار کمزور اور مولوی طاقتور ہوا ہے وہاں صدیوں پرانا نظام ختم کرنے کے بجائے مولوی اس کا متبادل بن چکا ہے۔ مولوی نے بھی لیویز کو اپنی ذاتی ملیشیا بنا لیا ہے اور سرکاری خرچ پر وہ ''وار لارڈ'' بن گیا ہے۔
ڈاکٹر شعیب سڈل کہتے ہیں کہ جنرل مشرف چلا گیا لیکن میں تو موجود ہوں ، آئین کی عملداری اور قانون کے نفاذ کے جرم میں ہر عدالت اور کٹہرے میں کھڑا ہونے کو تیار ہوں۔ بلوچستان کو پرانے دور میں واپس دھکیلنا جرم ہے یا سارے صوبے پر آئین اور قانون کا یکساں نفاذ کرنا ، اب اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہیے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم نے قوم کے اس مایہ ناز فرزند کو، جس کی شہری علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی مہارت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اُس ڈاکٹر شعیب سڈل کو بگڑے ہوئے ارسلان افتخار اور ٹھیکیدار ملک ریاض کے اسکینڈلوں سے آلودہ گندے کپڑے دھونے پر لگا دیا گیا ۔
تف ہے ایسی عقل اور دانش مند ی پر۔ بلوچستان کے حوالے سے فوج کو ایک سوچی سمجھی سازش کے ساتھ حرف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ حقائق کچھ یوں ہیں کہ مسلح افواج بلوچستان کی 7 چھائونیوں تک محدود ہیں جن میں سے کوئٹہ، ژوب، سبی، لورالائی اور چمن کی 5 چھائونیاں برطانوی سامراج نے قائم کیں تھیں ۔ قیام پاکستان کے بعد صرف خضدار اور گوادر میں دو نئی چھائونیاں بنائی گئیں جن پر اپنے بیگانے سب طعن زن ہیں۔ کوہلو اور سوئی میں زیر تعمیر چھائونیوں پر کام کب کا بند پڑا ہے۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر سوئی میں چھائونی کو پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی مرکز میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ ایف سی کے مظالم پر بڑا شور مچایا جا رہا ہے جو کہ براہ راست وزارت داخلہ کے ماتحت، جنابِ رحمن ملک کے احکامات کی پابند ہے۔
95% بی ایریا میں سرداروں کی وفادار لیویز بروئے کار ہیں۔ بلوچستان میں پانچ فیصد اے ایریا میں پولیس بھی بے حال ہو چکی ہے۔ سیاسی وابستگیاں اسے غیر موثر بلکہ مکمل طور پر مفلوج کر چکی ہیں۔ اس سر زمین بے آئین کے دستور نرالے ہیں۔ جہاں پر کوئی انتظامی افسر، کوئی پولیس اہل کار، محکمہ صحت کا ضلعی افسر یا کوئی مسکین اُستاد ، مقامی رُکن بلوچستان اسمبلی کی رضامندی کے بغیر متعین نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی وجہ سے عملاً حکومت ختم ہوچکی ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟
آخر میں بلوچستان کے حوالے سے ایک خوشخبری۔ کہتے ہیں کہ بیوروکریسی کی موجودہ تقرر و تبادلہ پالیسی کے مطابق تمام گروپوں کے لیے بلوچستان میں تین سالہ مدت ملازمت کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے، جس پر وزیراعظم پرویز اشرف نے سختی سے عملدرآمد شروع کرایا ہے ورنہ گیلانی کی بادشاہت میں تو ایسے تمام احکامات طاقتور کے ہاتھ موم کی ناک بن جایا کرتے تھے۔