اے ٹی ایم ایجاد کرنے والے کو اس کا معاوضہ صرف 15 ڈالر ملا
دنیا کی پہلی اے ٹی ایم 1967 میں برطانوی بینک میں نصب کی گئی جسے اسکاٹش شہری جیمز گڈفیلو نے بنایا۔
دنیا بھر میں بینکنگ سروس سے فائدہ اٹھانے والے افراد اس کی سب سے اہم ٹیکنالوجی ''اے ٹی ایم'' سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے تحت کسی بھی وقت آپ اپنی رقم بآسانی نکال سکتے ہیں جب کہ اس اے ٹی ایم کی ایجاد کرنے والے کا معاوضہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے جس میں اس کے مؤجد نے انکشاف کیا ہے کہ اے ٹی ایم کی ایجاد کے عوض اسے صرف 15 ڈالر دیئے گئے۔
آج کل اے ٹی ایم کون استعمال نہیں کرتا، اس مشین نے مالی لین دین کا نظام بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس سال اے ٹی ایم اپنی 50 سالگرہ منا رہی ہے اس لیے اگلی مرتبہ جب آپ اے ٹی ایم استعمال کرنے جائیں تو اس کے موجد کو دل ہی دل میں شکریہ ضرور کریں جسے اس ایجاد کے عوض صرف 15 ڈالر کی رقم حاصل ہوئی تھی۔
کچھ لوگ ایسے قسمت کے دھنی ہوتے ہیں کہ ان کی ایجاد انہیں دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل کر دیتی ہے جیسے کہ مارک زکربرگ فیس بک کی بدولت آج ان کی دولت 50 بلین ڈالر کو پہنچ چکی ہے جب کہ دوسری طرف اسکاٹ لینڈ کے رہائشی جیمز گڈفیلو ہیں جنہوں نے اے ٹی ایم ایجاد کی اور یہ مشین آج دنیا کے ہر کونے میں موجود ہے اور لوگوں کی ایک بڑی آبادی اسے استعمال بھی کرتی ہے لیکن اس کے بدلے 79 سالہ جیمز گڈفیلو کو کسی قسم کی آمدنی نہیں ہوتی۔ پہلی دفعہ یہ مشین فروخت کرتے ہوئے انہیں پندرہ ڈالر ضرور حاصل ہوئے تھے اس کے بعد انہیں اس کے عوض ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔
جیمز کا کہنا ہےکہ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بینکوں میں کام کرنے والے سالانہ ایک ملین یورو سے زائد کی رقم بونس کی مدد میں حاصل کرتے ہیں اور بھلا کسی نے مجھ سے زیادہ بینکوں کی خدمت کی ہے؟ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے کہ یہی دنیا کا نظام ہے۔
جیمز کے مطابق یہ یہ بات 1960 کی ہے جب وہ گلاسکو کی ایک فرم میں ڈیویلپمنٹ انجینئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ان دنوں انییں ایک پروجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا جس میں ایک ایسی مشین تیار کرنی تھی جو لوگوں کو ان کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کسی بھی وقت فراہم کر سکے کیونکہ اکثر افراد اپنے کام کی مصروفیات کی وجہ سے دن میں بینک نہیں جا پاتے تھے اور انہیں چھٹی والے دن رقم کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ پروجیکٹ اے ٹی ایم کی صورت میں سامنے آیا اور پہلی اے ٹی ایم 1967 میں برطانوی بینک ویسٹ منسٹر میں نصب کی گئی تاہم اس بینک کو نیٹ ویسٹ بینک کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو واقعی یہ حقیقت ہے کہ آج کل اے ٹی ایم کے بغیر بینکوں کا تصور ہی محال ہے۔ ہماری جیب میں پڑے اے ٹی ایم کارڈ سے ہمیں یہ ضمانت حاصل ہوتی ہے کہ ہم جب چاہیں بینک میں پڑی اپنی رقم نکال سکتے ہیں۔ اگر دن میں بینک نہیں جا سکے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں کیونکہ اے ٹی ایم 24 گھنٹے دستیاب ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی ایجاد کے موجد کو کیا حاصل ہوا؟ ایک طرف مارک زکربرگ کی مثال ہے جو آج دنیا کے امیرترین افراد میں شامل ہیں امریکا کے اہم ترین شہروں میں ان کی جائیدادیں اور دوسری طرف جیمز گڈفیلو ہیں جو آج بھی اپنے تین کمروں کے مکان میں مقیم ہیں جب کہ دونوں کی ایجادات کا موازنہ کیا جائے تو گڈفیلو کہیں آگے نظر آتے ہیں۔
آج کل اے ٹی ایم کون استعمال نہیں کرتا، اس مشین نے مالی لین دین کا نظام بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس سال اے ٹی ایم اپنی 50 سالگرہ منا رہی ہے اس لیے اگلی مرتبہ جب آپ اے ٹی ایم استعمال کرنے جائیں تو اس کے موجد کو دل ہی دل میں شکریہ ضرور کریں جسے اس ایجاد کے عوض صرف 15 ڈالر کی رقم حاصل ہوئی تھی۔
کچھ لوگ ایسے قسمت کے دھنی ہوتے ہیں کہ ان کی ایجاد انہیں دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل کر دیتی ہے جیسے کہ مارک زکربرگ فیس بک کی بدولت آج ان کی دولت 50 بلین ڈالر کو پہنچ چکی ہے جب کہ دوسری طرف اسکاٹ لینڈ کے رہائشی جیمز گڈفیلو ہیں جنہوں نے اے ٹی ایم ایجاد کی اور یہ مشین آج دنیا کے ہر کونے میں موجود ہے اور لوگوں کی ایک بڑی آبادی اسے استعمال بھی کرتی ہے لیکن اس کے بدلے 79 سالہ جیمز گڈفیلو کو کسی قسم کی آمدنی نہیں ہوتی۔ پہلی دفعہ یہ مشین فروخت کرتے ہوئے انہیں پندرہ ڈالر ضرور حاصل ہوئے تھے اس کے بعد انہیں اس کے عوض ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔
جیمز کا کہنا ہےکہ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بینکوں میں کام کرنے والے سالانہ ایک ملین یورو سے زائد کی رقم بونس کی مدد میں حاصل کرتے ہیں اور بھلا کسی نے مجھ سے زیادہ بینکوں کی خدمت کی ہے؟ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے کہ یہی دنیا کا نظام ہے۔
جیمز کے مطابق یہ یہ بات 1960 کی ہے جب وہ گلاسکو کی ایک فرم میں ڈیویلپمنٹ انجینئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے ان دنوں انییں ایک پروجیکٹ پر کام کرنے کا موقع ملا جس میں ایک ایسی مشین تیار کرنی تھی جو لوگوں کو ان کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کسی بھی وقت فراہم کر سکے کیونکہ اکثر افراد اپنے کام کی مصروفیات کی وجہ سے دن میں بینک نہیں جا پاتے تھے اور انہیں چھٹی والے دن رقم کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ پروجیکٹ اے ٹی ایم کی صورت میں سامنے آیا اور پہلی اے ٹی ایم 1967 میں برطانوی بینک ویسٹ منسٹر میں نصب کی گئی تاہم اس بینک کو نیٹ ویسٹ بینک کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو واقعی یہ حقیقت ہے کہ آج کل اے ٹی ایم کے بغیر بینکوں کا تصور ہی محال ہے۔ ہماری جیب میں پڑے اے ٹی ایم کارڈ سے ہمیں یہ ضمانت حاصل ہوتی ہے کہ ہم جب چاہیں بینک میں پڑی اپنی رقم نکال سکتے ہیں۔ اگر دن میں بینک نہیں جا سکے تو کوئی پریشانی کی بات نہیں کیونکہ اے ٹی ایم 24 گھنٹے دستیاب ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی ایجاد کے موجد کو کیا حاصل ہوا؟ ایک طرف مارک زکربرگ کی مثال ہے جو آج دنیا کے امیرترین افراد میں شامل ہیں امریکا کے اہم ترین شہروں میں ان کی جائیدادیں اور دوسری طرف جیمز گڈفیلو ہیں جو آج بھی اپنے تین کمروں کے مکان میں مقیم ہیں جب کہ دونوں کی ایجادات کا موازنہ کیا جائے تو گڈفیلو کہیں آگے نظر آتے ہیں۔