کراچی کا قتل…پاکستان کا قتل
ڈبل سواری پر پابندی کے بعد قتل کے واقعات میں کمی آئے یا نہ آئے مگر پولیس والوں کی چاندی ضرور ہوجاتی ہے۔
کراچی کی آگ جو مسلسل تیز ہوتی جارہی ہے اور اس کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں اس شہر کو کبھی سیاسی، مذہبی تو کبھی فرقہ وارانہ فسادات کی گھناؤنی سازش کے لیے نذر آتش کیا جاتا رہا۔
یہی کراچی ملک کی شہ رگ ہے اس حقیقت سے بھی ملک کے عوام اچھی طرح سے واقف ہیں اور اس بات سے بھی لاعلم نہیں کہ یہی شہر اور اس کے باسی ملک کو اپنے کاندھوں پر کھڑا کیے ہوئے ہیں جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے کم وبیش 70 فیصد سے زائد ریونیو قومی خزانے میں دیتے ہیں اور اسی ریونیو کے سبب اس ملک کی معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ہر انتخابی ادوار میں حکومت بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے۔
جب کہ اس کے باسیوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی، امن کا گہوارہ بنانے اور اسے روشنیوں کے شہر بنانے میں نہ صرف مسلسل جدوجہد کی بلکہ اسے عملی جامعہ بھی پہنایا۔ کراچی میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام اور اسے سرسبز و شاداب بنانے کے سبب مصطفیٰ کمال کو دنیا کے دوسرے بہترین میئر کا اعزاز بھی اسی شہر کے باسیوں کے مرہون منت ہے جو فخر پاکستان ہے۔کراچی کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسے آگ و خون میں نہلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کراچی میں منصوبے کے تحت دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی کی وارداتیں، معصوم بچوں کو اغواء کرنے کے بعد انھیں بے دردی سے قتل کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ سے یہاں کا امن و امان بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ مختلف لوگوں کی ہلاکتوں کو جواز بناکر اس شہر کو ہڑتال اور احتجاج کی آڑ میں لوٹا جاتا رہا ہے، تو کہیں بھتہ مافیا اور مختلف گینگ وار کے دہشت گرد عناصر اسلحے کے زور پر اسے یرغمال بنالیتے ہیں۔ آئے دن قتل و غارت گری اس شہر کا مقدر بنا دیا گیا ہے، گھر سے نکلنے والے شہری کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ خیریت سے اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ پائے گا یا خیریت سے اپنے گھر واپس آسکے گا، ہر وقت خوف کے بادل شہرِ کراچی کے باسیوں پر منڈلاتے رہتے ہیں، قتل وغارت گری کے واقعات کے سبب روشنیوں کے شہر کو اب آہوں اور سسکیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔
جب کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ لیکن مذموم مقاصد کے حصول کے لیے معصوم شہریوں کا ناحق خون بہایا جارہا ہے۔ جب کہ غور طلب بات یہ ہے کہ شہر بھر میں مختلف سیکیورٹی اداروں کے اہلکار ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں،رینجرز اور پولیس موبائلوں کا گشت، جگہ جگہ پولیس چوکیاں، اور سول اہلکاروں کی موجودگی میں بھی شہریوں کے قتل کے واقعات کی روک تھام میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں یا پھر وہ کسی مصلحت کے تحت ان واقعات میں ملوث دہشت گرد عناصر کو قانون کے شکنجے میں لینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسی بھی قتل کے واقعے کے بعد ڈبل سواری پر فوری طور پر پابندی عائد کردی جاتی ہے جب کہ اس پابندی کے بعد بھی ان قتل و غارت گری کے واقعات میں مزید تیزی آجاتی ہے۔
ڈبل سواری پر پابندی کے بعد قتل کے واقعات میں کمی آئے یا نہ آئے مگر پولیس والوں کی چاندی ضرور ہوجاتی ہے اور وہ بے قصور شہریوں کو بلاوجہ نہ صرف تنگ کرتے ہیں بلکہ ان کی گرفتاری کے بعد رہائی کے لیے معقول رقم بھی لیتے ہیں جو معنی خیز ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا 70 فیصد سے زائد ریونیو دینے والے، ملک کی معیشت کو مستحکم اور صنعت کے پہیے کو رواں رکھنے والے شہر کو کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ ملک کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کے سربراہان ہر قتل کے واقعے پر محض روایتی مذمتی بیان اور حسبِ عادت ایک جماعت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جب کہ حکومت سب اچھا ہے کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ کرلیتی ہے ایسے لوگ دراصل ان واقعات میں ملوث عناصر کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی کے مرتکب دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان واقعات میں کون عناصر ملوث ہیں۔
اس شہر میں نہ صرف عام شہری کو قتل کیا جا رہا ہے بلکہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذمے داران و کارکنان کے علاوہ تاجر، ڈاکٹرز، وکلاء، علمائے کرام، عالم دین، انجینئرز، سرجن، افسران، دانشور، شعراء کرام سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو ملک کا اہم سرمایہ ہوتے ہیں اس طرح کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ رونما ہونا یقیناً معنی خیز بلکہ غور طلب ہے جب کہ سوالیہ نشان بھی ہے۔ ملک کے عوام باشعور ہیں اور وہ ان تمام صورتحال سے واقف ہیں کہ معاشی حب کو نقصان پہنچانے میں کون لوگ ملوث ہیں اور کون ان قاتلوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔
اتنا ضرور ہے کہ بڑھتے ہوئے قتل و غارت گری کے واقعات کی فوری طور پر روک تھام کے لیے ارباب اختیار اور ملک کے سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے معصوم شہریوں کے مزید قتل و غارت گری کے واقعات کو روکنے کے لیے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا اور قیمتی انسانی جانوں کو تحفظ کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ کراچی کے شہریوں کا قتل دراصل کراچی کا قتل ہے اور کراچی کا قتل پاکستان کے قتل کے مترادف ہے۔
یہی کراچی ملک کی شہ رگ ہے اس حقیقت سے بھی ملک کے عوام اچھی طرح سے واقف ہیں اور اس بات سے بھی لاعلم نہیں کہ یہی شہر اور اس کے باسی ملک کو اپنے کاندھوں پر کھڑا کیے ہوئے ہیں جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے کم وبیش 70 فیصد سے زائد ریونیو قومی خزانے میں دیتے ہیں اور اسی ریونیو کے سبب اس ملک کی معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ہر انتخابی ادوار میں حکومت بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے۔
جب کہ اس کے باسیوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی، امن کا گہوارہ بنانے اور اسے روشنیوں کے شہر بنانے میں نہ صرف مسلسل جدوجہد کی بلکہ اسے عملی جامعہ بھی پہنایا۔ کراچی میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام اور اسے سرسبز و شاداب بنانے کے سبب مصطفیٰ کمال کو دنیا کے دوسرے بہترین میئر کا اعزاز بھی اسی شہر کے باسیوں کے مرہون منت ہے جو فخر پاکستان ہے۔کراچی کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسے آگ و خون میں نہلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کراچی میں منصوبے کے تحت دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی کی وارداتیں، معصوم بچوں کو اغواء کرنے کے بعد انھیں بے دردی سے قتل کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ سے یہاں کا امن و امان بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ مختلف لوگوں کی ہلاکتوں کو جواز بناکر اس شہر کو ہڑتال اور احتجاج کی آڑ میں لوٹا جاتا رہا ہے، تو کہیں بھتہ مافیا اور مختلف گینگ وار کے دہشت گرد عناصر اسلحے کے زور پر اسے یرغمال بنالیتے ہیں۔ آئے دن قتل و غارت گری اس شہر کا مقدر بنا دیا گیا ہے، گھر سے نکلنے والے شہری کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ خیریت سے اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ پائے گا یا خیریت سے اپنے گھر واپس آسکے گا، ہر وقت خوف کے بادل شہرِ کراچی کے باسیوں پر منڈلاتے رہتے ہیں، قتل وغارت گری کے واقعات کے سبب روشنیوں کے شہر کو اب آہوں اور سسکیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔
جب کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ لیکن مذموم مقاصد کے حصول کے لیے معصوم شہریوں کا ناحق خون بہایا جارہا ہے۔ جب کہ غور طلب بات یہ ہے کہ شہر بھر میں مختلف سیکیورٹی اداروں کے اہلکار ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں،رینجرز اور پولیس موبائلوں کا گشت، جگہ جگہ پولیس چوکیاں، اور سول اہلکاروں کی موجودگی میں بھی شہریوں کے قتل کے واقعات کی روک تھام میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں یا پھر وہ کسی مصلحت کے تحت ان واقعات میں ملوث دہشت گرد عناصر کو قانون کے شکنجے میں لینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسی بھی قتل کے واقعے کے بعد ڈبل سواری پر فوری طور پر پابندی عائد کردی جاتی ہے جب کہ اس پابندی کے بعد بھی ان قتل و غارت گری کے واقعات میں مزید تیزی آجاتی ہے۔
ڈبل سواری پر پابندی کے بعد قتل کے واقعات میں کمی آئے یا نہ آئے مگر پولیس والوں کی چاندی ضرور ہوجاتی ہے اور وہ بے قصور شہریوں کو بلاوجہ نہ صرف تنگ کرتے ہیں بلکہ ان کی گرفتاری کے بعد رہائی کے لیے معقول رقم بھی لیتے ہیں جو معنی خیز ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا 70 فیصد سے زائد ریونیو دینے والے، ملک کی معیشت کو مستحکم اور صنعت کے پہیے کو رواں رکھنے والے شہر کو کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ ملک کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کے سربراہان ہر قتل کے واقعے پر محض روایتی مذمتی بیان اور حسبِ عادت ایک جماعت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جب کہ حکومت سب اچھا ہے کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ کرلیتی ہے ایسے لوگ دراصل ان واقعات میں ملوث عناصر کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی کے مرتکب دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان واقعات میں کون عناصر ملوث ہیں۔
اس شہر میں نہ صرف عام شہری کو قتل کیا جا رہا ہے بلکہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذمے داران و کارکنان کے علاوہ تاجر، ڈاکٹرز، وکلاء، علمائے کرام، عالم دین، انجینئرز، سرجن، افسران، دانشور، شعراء کرام سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو ملک کا اہم سرمایہ ہوتے ہیں اس طرح کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ رونما ہونا یقیناً معنی خیز بلکہ غور طلب ہے جب کہ سوالیہ نشان بھی ہے۔ ملک کے عوام باشعور ہیں اور وہ ان تمام صورتحال سے واقف ہیں کہ معاشی حب کو نقصان پہنچانے میں کون لوگ ملوث ہیں اور کون ان قاتلوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔
اتنا ضرور ہے کہ بڑھتے ہوئے قتل و غارت گری کے واقعات کی فوری طور پر روک تھام کے لیے ارباب اختیار اور ملک کے سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے معصوم شہریوں کے مزید قتل و غارت گری کے واقعات کو روکنے کے لیے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا اور قیمتی انسانی جانوں کو تحفظ کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ کراچی کے شہریوں کا قتل دراصل کراچی کا قتل ہے اور کراچی کا قتل پاکستان کے قتل کے مترادف ہے۔