ایٹم بم سے بھی خطرناک آخری حصہ

ایسے بھی گھرانے ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر مرد کماکر لاتے ہیں


Shabbir Ahmed Arman May 03, 2016
[email protected]

SUKKUR: ایسے بھی گھرانے ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر مرد کماکر لاتے ہیں، جس کی وجہ سے گھر میں مہینے کا راشن لانا مشکل ہوتا ہے،ایسے گھرانوں میں ایک دن کے کچن کا سامان انتہائی کم مقدار میں لایا جاتا ہے اور وہ بھی مہنگا پڑتا ہے، یہ وہ گھرانے ہوتے ہیں جہاں گوشت کھانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ گائے کے گوشت کی قیمت 450اوربکرے کی 800روپے فی کلو تک ہے، ایسے میں ان گھرانوں میں ہفتے میں ایک بار ہی گوشت مل جانا بڑی بات ہوگی ۔ سچی بات یہ ہے کہ مہنگائی کا جن بے قابوہوچکا ہے،اب ایک فرد کے کمانے سے گزر بسر مشکل ہے۔

ایک محاورہ ہے کہ جتنی چادرہو اتنے پاؤں پھلاؤ لیکن حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ چادر سے کم سے بھی پاؤں پھیلاؤ پھر بھی خود کو مکمل ڈھانپ نہیں سکتے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ان غریب خاندانوں میں شاپنگ کرنا، فیشن پر مبنی لباس خریدنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ، خواتین اب تو صرف قمیص خرید کر ہی مختلف دوپٹوں ، شلوار اور پاجاموں کے ساتھ پہنی جارہی ہیں ، مرد حضرات لنڈے بازار کا پہناوا پہنتے ہیں ۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی فہرست میں دنیا کے 169ممالک میں سے پاکستا ن کا نمبر 125ہے جس میں پاکستان کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں میں کمی کا سامنا ہے ۔

کیا کسی کو اس بات کا احساس ہے کہ پرانے زمانے میں جہاں خواتین کی ملازمت کو معیوب سمجھا جاتا تھا اوروالدین کو بہتر رشتوں کے حصول میں دشواری کا سامنا رہتا تھا، وہیں موجودہ دور میں پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور مشترکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث،گھرکی معاشی صورت حال میں ساتھ دینے کے لیے باہنر اورملازمت پیشہ خواتین کے رشتوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔

ماضی میں پاکستان میں تعلیم کی کمی، تنگ نظری پر مبنی رویوں اور معاشرتی دباؤکی وجہ سے خواتین کی نوکری کو پسند نہیں کیا جاتا تھا اور لڑکے کے والدین اپنے بیٹے کے لیے امورخانہ داری میں ماہر لڑکی کے متلاشی رہتے تھے وہ خواتین جو ملازمت پیشہ تھیں یا گھریلوکاروبارکرتی تھیں ان سے اپنے بیٹوں کی شادی نہیں کرائی جاتی تھی، والدین کے خیال میں ملازمت پیشہ خواتین بچوں کی بہتر نگہداشت نہیں کر پاتیں اورگھرکا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، خواتین کے گھر سے باہر جانے سے ان کی ازدواجی زندگی پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں،شوہر اور بیوی کے مابین عدم اعتماد بڑھ جاتا ہے لیکن موجودہ زمینی حقائق کے تناظر میں پاکستان میں مہنگائی،غربت اور بے روزگاری میں ہوشربا اضا فہ دیکھنے آرہا ہے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں برسرروزگار خواتین کی تعداد گزشتہ ایک دہائی کے دوران 56لاکھ 90 ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ 21 لا کھ سے زیادہ ہوچکی ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بالخصوص شہری علاقوں میں گھرکی معاشی کفالت کرنے اور بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت کے لیے مرد کے ساتھ عورت کا بھی کام کرنا ناگزیر ہوگیا ہے اب ایک فرد کی کمائی سے گھرکا گزارہ مشکل ہوگیا ہے،اگر ایک فرد کی ماہانہ تنخواہ 20سے25ہزار روپے ہے تو گھرکا خرچہ چلانے کے علاوہ بھاری بھرکم بجلی وگیس کے بل ادائیگی ، بچوں کی تعلیم اور علاج کے اخراجات پورے کرنا ایک فرد کے بس کی بات نہیں رہی۔ اسی وجہ سے بیشتر لڑکوں کے والدین اپنے بیٹوں کے رشتے کے لیے ملازمت پیشہ یا ہنرمند لڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں غربت کے تدارک کے لیے پہلے سالانہ اسے 35کھرب ڈالرزکی ضرورت تھی لیکن اب یہ بڑھ کر 50کھرب ڈالر تک جاپہنچی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی مہنگائی کے باعث ملک میں ہر 3میں سے ایک شخص غریب ہے ۔پاکستان میں 5کروڑ 90لاکھ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف49 لاکھ30ہزار خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جارہی ہے ۔

یہ بھی المیہ ہے کہ ملک میں غربت ومفلسی کے باعث اسپیشل بچوں کے والدین ان کی بہتر طور پر دیکھ بھال نہیں کر پاتے جس کے باعث وہ انھیں دارالسکون چھوڑ جاتے ہیں، 90فیصد اسپیشل بچوں کے والدین ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں جب کہ 10فیصد والدین اپنی اولاد کی دیکھ بھال کے حوالے سے دارالسکون سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ ملک میں غربت، فاقہ کشی اور بے روزگاری کے باعث خودکشی کے رحجان میںتیزی سے اضافہ ہورہا ہے، برسراقتدار حکومتوں کے دعوؤں کے باوجود غربت کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے گھر،گھر لڑائی وجھگڑا اور علیحدگی کے علاوہ خودکو موت کے منہ میں دھکیلنے کا سلسلہ جاری ہے ۔25مئی سے 25جون 2015ء تک ملک بھر میں 195افراد نے خودکشی کی، پاکستان میں خودکشی کے حوالے سے کراچی پہلے نمبر پر ہے ۔

پاکستان کی کل آبادی 19کروڑ17لاکھ تک پہنچ چکی ہے ، شہری آبادی 7کروڑ51لاکھ اور دیہی آبادی 11کروڑ 65 لاکھ ہے ، 35 لاکھ80 ہزار لوگ بے روزگار ہیں، شہری ودیہی آبادی میں فرق تیزی سے کم ہو رہا ہے، کیونکہ لوگ روزگار کے لیے دیہات سے شہروں کی طرف جارہے ہیں ، پاکستان میں 5کروڑ 65لاکھ افراد کو روزگار حاصل ہے، ورلڈ بینک کے اعداد وشمارکے مطابق پاکستان میں 37لاکھ30ہزارمحنت کش بے روزگاری کا شکار ہیں ایسے افراد نہ صرف معاشی مسائل کا شکار ہیں بلکہ یہ افراد معاشرے میں اپنا سماجی کردار ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔

حکومت سندھ کے محکمہ محنت کے مطابق ملزمالکان اوردیگر نجی ادارے مزدوروں کوکم ازکم 13ہزار روپے تنخواہ دینے کے پابند ہیں ۔ محکمہ محنت کو چاہیے کہ وہ کم ازکم چار افراد پر مشتمل گھریلو بجٹ بھی بناکردے کہ13ہزار روپے میں کیسے گزارہ کیا جاسکتا ہے؟مذکورہ بالا صورت حال کے باجود حکومت کا اصرار ہے کہ ملک میں شرح غربت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔

اس کے علاوہ مزید 2کروڑ لوگ ایسے ہیں جو غربت کے قریب قریب ہیں اورکوئی بھی سانحہ انھیں خط غربت کے نیچے دھکیل سکتا ہے ۔کیا پاکستان میں لوگوں کے غریب ہونے کی سب سے بڑی وجہ بدقسمتی سے غریب خاندان میں پیدا ہونا ہے؟کیا وہ اس لیے غریب ہیں کہ وہ غیر قانونی ذرایع سے نہیں کماتے؟ کیا وہ محنتی نہیں ہوتے ہیں؟ کیا روزگار کے لیے بیرون ملک نہیں جاتے ؟ کیا ناخواندگی کو غربت کی وجہ قراردیا جاسکتا ہے؟میرے خیال سے وجہ جو بھی ہوغربت ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔خدارا، ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں نہ کہ سردکمرے میں بیٹھ کرکسی فارمولے کے تحت غربت میں کمی کی جائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں