بتاؤ تو سہی کہ کیا صحافی بھی ہو

ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ صحافت جتنی آزاد ہے اتنا ہی معاشرے پر مثبت اثر بھی ڈال رہی ہے۔

کیمرہ سب دیکھتا بھی ہے اور دکھاتا بھی ہے، اب کیمرے کو گھما کر خود کو اسی نظر سے دیکھنا ہوگا، اور اپنی خرابیوں پر بھی ٹاک شوز کرنا ہوں گے۔

3 مئی، آزادی صحافت کا دن ہے۔ کم از کم آج کے دن صحافت کے ایک طالب علم کو بولنے دیں، چونکہ ان دنوں بقول وجاہت مسعود احتساب کا راگ دیپک کے الاپنے کے دن ہیں سو محض راگ الاپنا بامعنی احتسابی جائزہ لینے دیں۔

آج کے دن صحافیوں کو اپنی آزادی کا ڈھول پیٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہوگا۔ کیا ہم بھی اپنی آزادی کا اسی طرح ناجائز استعمال تو نہیں کر رہے جس طرح ایک پولیس والا اپنی وردی کا، ایک بیووکریٹ اپنے اختیارات کا اور ایک سیاستدان اپنی کرسی کا کرتا ہے؟ اور کچھ ایسی مقدس گائیں بھی ہیں جو اپنے اختیارات کا بے شک ناجائز استعمال کرتی ہیں لیکن ان کا نام آج آزادی صحافت کے دن بھی نہیں لیا جاسکتا۔ کیونکہ میڈیا آزاد ہے اور صرف اتنا ہی آزاد ہے جتنی ''اجازت'' دی جائے۔

پاکستان میں پرنٹ میڈیا کی آزادی کی تاریخ جتنی تاریک تھی، الیکٹرانک میڈیا نے آتے ہی آزادی میں بجلی بھر دی لیکن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، بجلی کے جھٹکے صرف ان کو پڑتے رہے جو نسبتاً کمزور تھے۔ میڈیا نے بھینس کے آگے بین بھی بجائی اور بَین بھی کیا، لیکن طاقت کے اس ''مقامی دیوتا'' کے کان پر جوں تک نہ رینگی، بلکہ طاقت کے اس ''مقامی دیوتا'' نے اپنے کان ہی بند کرلئے اور رہا نو مولود آزاد میڈیا تو اُس نے یا تو منہ بند کرلیا یا پھر اس کا منہ بند کرادیا گیا۔ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو سمجھ آئی کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا فارمولا نیوٹن کے فارمولے کی طرح کام کرتا ہے۔ جس طرح زمین ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے اسی طرح طاقت کی کشش کے آگے مزاحمت کہاں تک کرو گے؟



اس لئے کیوں نہ طاقت کا مقابلہ کرنے کے بجائے طاقت کا حصہ بن جائیں اور نظریہ ضرورت کے تحت اپنی ضرورتیں جی بھر کر پوری کریں؟ میڈیا کو بھی اب سمجھ آنا شروع ہوگیا ہے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ اب سرکار کی بھی عقل داڑھ بھی نکل آئی ہے۔ ہر سرکاری محکمے میں تعلقات عامہ کا دفتر الگ سے ہوتا ہے جس کی ذمہ داری میڈیا میں محکمے یا حکومت کی پروموشن کروانا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں پبلک ریلیشن آفیسر مقامی صحافیوں سے بہتر تعلقات استوار کرتا ہے اور پھر اپنے ڈی سی او، وزیر یا وزیراعلیٰ کا فوٹو سیشن اور بیانات ٹی وی اسکرین کے ٹکرز اور اسکرین کی زینت بنوانے کے ساتھ ساتھ اخبار کے صفحے کا پیٹ بھی بھرتا ہے۔ اگر خبر نہ لگے تو بیچارے سرکاری پبلک ریلیشن آفیسر کی کُٹ لگ جاتی ہے۔ لاکھ احتجاج کرے کہ اس نے اپنا کام پورا کیا، رپورٹر نے میری درخواست پر خبر اپنے ادارے کے ہیڈ آفس میں فائل بھی کردی لیکن نیوز روم نے جگہ یا نیت نہ ہونے کے باعث اسے قبول کرنا مناسب نہ سمجھا۔

لیکن اب سرکار نے اس مسئلے کا حل بھی نکال لیا ہے۔ جس طرح بڑے لوگ جرم کرنے کے بعد کہتے ہیں ناں ''ہم وکیل نہیں جج کرلیتے ہیں'' اسی طرح سیاستدانوں نے بھی میڈیا ہاؤسز میں اپنے اینکرز بھرتی کرلئے ہیں۔ تھرو پراپر چینل سے جانے کی اب ضرورت ہی کہاں ہے، چینل کا اینکر اپنا ہی تو ہے۔

کسی صدیقی نے اپنا عرفان کھو کر صحافتی صدق کو سرکاری رزق سے وابستہ کیا ہے، تو کوئی ناجی حکومت کے لئے نذیر (ڈرانے والا) بننے کی بجائے سرکاری سچ بولنے میں ہی بے نظیر ہے۔ کوئی سیٹھی سیٹی بجانے والا بننے کی (Whistle Blower) بجائے حکومتی گود میں بیٹھ کر آسمان سے ان کے لئے نجم توڑنے کی بات کرتا ہے، تو کوئی صحافت کا نیم حکیم لقمان الٹے سیدھے صحافتی کشتے دے کر عوام کی نفسیاتی صحت خراب کرنے کے در پر ہے تو کسی میر کو لوگ میر جعفر سے جوڑتے نہیں تھکتے۔ کوئی خان اپنے ہی ڈولتی نیا سے کود کر کامران ہوجاتا ہے تو کسی صافی کو اپنے خیالات ہی صاف نہیں لگتے پتہ نہیں عقل سلیم کہاں گئی؟

صحافی حضرات کام بے شک سیٹھ کے لئے کرتے ہیں لیکن کم از کم صحافت اپنے لئے کرنی چاہیئے۔ صحافی بہت آزاد ہیں، آزاد ہیں پٹواری کو صحافتی کوڑے مارنے میں، آزاد ہیں پولیس کے کسی ''سپاٹے'' کی صحافتی چھترول کرنے میں، آزاد ہیں کمزور سیاسی جماعتوں پر جمہوریت کے نام پرآزادی اظہار کے حملے کرنے میں، آزاد ہیں سرکار کے''یتیم'' افسران پر صحافتی حکم چلانے میں، آزاد ہیں کھلاڑیوں کے جذبات سے کھیلنے میں، آزاد ہیں اداکاروں کے خلاف صحافتی اداکاری کرنے میں، آزاد ہیں بندر کا تماشا دکھانے میں، آزاد ہیں کسی ٹینکی پر چڑھے نوٹنکی باز کی نوٹنکی دکھانے میں، آزاد ہیں ماڈل ایان کا کیس ماڈل بنانے میں، آزاد ہیں نان ایشوز کو ایشو بنانے میں لیکن قید ہیں اشتہارات کے حوالات میں، درباری ہیں جابر سلطان کے، پجاری ہیں ڈنڈے کے، ملازم ہیں سرمایہ دار کے۔ قصہ مختصر طاقت کے آگے آزاد میڈیا کی ساری طاقت نکل جاتی ہے اور صحافتی زور صرف کمزور پر چلتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ماجے پھجے اور گامے کے آگے کلمہ حق کہنا آزادی صحافت ہے اور جابر سلطان کی ہاں میں ہاں ملانا بھی آزادی صحافت ہی ہے۔


اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ صحافت جتنی آزاد ہے اتنا ہی معاشرے پر مثبت اثر بھی ڈال رہی ہے، اور ایسا بھی نہیں کہ مندرجہ بالا جو نکات رکھے گئے تمام ہی صحافی ایسا کررہے ہیں، نہیں نہیں جناب کہ پاکستان میں بہت سے صحافی آزادی اظہار کی خاطر جان دے چکے ہیں اور تمام تر سخت حالات میں انقلابی تحریکیں چلا کر اور کوڑے کھا کر صحافت کو آباد کرایا۔

ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اگر میڈیا عوامی امنگوں پر پورا اترنے میں ناکام رہا، اور وہ کچھ دکھانے سے قاصر رہا جس کی اُمید عوام کرتے ییں تو اُن کے لیے اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ اس حوالے سے بہت ہی کارآمد ثابت ہورہے ہیں۔



 

لیکن اس کے باوجود جس طرح ہر کام میں سیکھنے کی گنجائش باقی رہتی ہے، بالکل اُسی طرح خرابی کا عنصر بھی باقی رہتا ہے جسے مسلسل کوشش کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے، اس لیے ہمیں اب یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ کہیں صحافتی آزادی کا غلط استعمال تو نہیں ہو رہا۔ کیمرہ سب دیکھتا بھی ہے اور دکھاتا بھی ہے، اب کیمرے کو گھما کر خود کو اسی نظر سے دیکھنا ہوگا اور اپنی خرابیوں پر بھی ٹاک شوز کرنا ہوں گے۔ صحافت صرف پلاٹ اور مراعات لینا یا پی ٹی وی اور پیمرا کا چیئرمین بننا ہی نہیں بلکہ اپنے قلم سے 'اسٹیٹس کو' کو چیلنج کرنا بھی ہے۔
اینکر ہو، رپورٹر ہو، پروڈیوسر ہو، ڈائریکٹر بھی ہو، لیکن بتاؤ تو سہی کہ کیا صحافی بھی ہو؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

Load Next Story