وقت نے سب کچھ بدل ڈالا

کوہلو کےبیل کیطرح گھومنے والوں اور ترقی کا راگ الاپنے والوں رک کرسوچو کہ تم مشین کا پرزہ نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان ہو


کمرشل ازم نے ایسی تباہی مچائی کہ ہر اس چیز کو انسان کیلئے لازم بنا دیا جواس کی بنیادی ضرورت بھی نہ تھی۔

ORAKZAI AGENCY: ایک وقت تھا جب زندگی بہت آسان اور سہل تھی۔ پیسوں کی اس طرح ریل پیل تو نہ تھی لیکن خواہشات محدود تھیں تو ضرورتیں بھی محدود تھیں۔ ایک شخص گھر میں کماتا اور سب کھا لیتے تھے۔ مہمان بھی دور پار کا سفر کرکے آجایا کرتے تھے لیکن پھر بھی کسی کا دل تنگ نہیں ہوتا تھا۔ روپیہ ابھی اتنا نہیں گرا تھا جتنا آج انسان گرگیا ہے۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کے نام پر بجلی آئی، گیس آئی اور گھر میں ٹی وی اور فون آگیا۔ آغاز تو سب کا بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ تھا۔ بجلی کے آنے اور جانے کی پہلے سے باقاعدہ خبر اشتہار کی صورت اخبار میں شائع ہوتی تھی، اور اس پرعوام سے معذرت بھی کی جاتی تھی۔ گیس کے بارے میں تو تصور بھی نہیں تھا کہ یہ بھی کبھی نایاب ہوگی اسی لئے لوگ ماچس جلانے سے بہتر سمجھتے تھے کہ چولہا جلا کر رکھا جائے۔

ٹی وی ایک ایسی تفریح کا ذریعہ تھا جسے گھر کے سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی چینلز کے بچے جوان ہوگئے تو اشتہارات کی دوڑ میں اچھے اور بُرے کی تمیز ہی ختم ہوگئی۔ کمرشل ازم نے ایسی تباہی مچائی کہ ہر اس چیز کو انسان کیلئے لازم بنا دیا جو اس کی بنیادی ضرورت بھی نہ تھی۔ فون رابطوں کو آسان کرنے کے لئے آیا تھا لیکن اس نے ہمیں میل ملاقات سے روک دیا۔ جب فون پر روز بات ہوجاتی ہے تو کیا ضرورت ہے ملنے کی؟ ہمیں اپنے وقت کے ضائع ہونے کا اتنا افسوس نہ ہوتا جتنا گھنٹے کا پیکیج ضائع ہونے کا ہوتا ہے۔ ہمیں کمرشل ازم نے کچھ ایسا الجھا دیا کہ اب وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہمیں احساس بھی نہ ہوا۔

اس ترقی نے انسان کی ہوس میں اتنا اضافہ کیا کہ بچوں کے کھیل کے میدان، چوڑی گلیاں، راستے غرض قبرستان تک پر قبضہ ہونے لگا، سڑکیں اتنا تنگ ہونے لگیں کہ آج سڑکوں پر گزرنا مشکل ہوگیا ہے۔ کل تک جہاں سفر کے لئے ٹرانسپورٹ بسیں اور لوکل ٹرین استعمال ہوتی تھی آج بینکوں کی آسان اقساط نے ہر شخص کو گاڑی کا مالک بنا دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں بھی نئی نویلی گاڑیاں نظر آنے لگیں۔ جس گلی میں جائیں وہاں آپ کو گاڑی راستہ تنگ کئے ضرور کھڑی دکھائی دے گی۔

جب بینکوں کا قرضہ سود کی صورت میں عوام کی رگوں میں اترا تو پھر اسے ادائیگی کے لئے ایک نوکری کے بعد دوسری نوکری کی ضرورت پڑنے لگی۔ گھر کا مرد گھر کی ضرورت پوری نہ کرسکا تو عورت کو گھر چھوڑ کرمعاشی میدان میں اترنا پڑا۔ مرد اورعورت کو ایک ایسی گاڑی کا پہیہ بنا دیا گیا جس کا اسٹیئرنگ کسی اور کے ہاتھ میں تھا، اس سے گھر کی گاڑی تو چل پڑی لیکن بچے تربیت سے محروم ہونے لگے۔ کمرشل ازم نے ان کے بچوں کو بھی گود سے چھین کر اسکولوں کے حوالے کردیا۔ گود سے محروم یہ ننھے منے دودھ پیتے روتے بچے جب بڑے ہونے لگے تو رشتوں کا احترام بھول گئے۔ ترقی کی دوڑ میں رشتے ویسے بھی اہم نہیں ہوا کرتے۔

گزرتے وقت نے بچوں کو سکھایا کہ کس طرح قلم استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور پھر دوسرا خرید لیا جاتا ہے۔ صرف قلم ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو پرانی ہوجائے اسے گھر سے نکال دینا چاہیئے کیونکہ چیزیں اب سستی ہوئیں تو اتنی ناقابل بھروسہ ہوگئیں کہ انہیں ٹھیک کرنے پر جتنی لاگت آتی اتنے میں نئی آجاتیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر چیز تعداد اور حجم میں سکڑنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے چھوٹے ساشے دکانوں کی زینت بننے لگے۔

کمرشل ازم نے ہمیں یہ سبق سکھایا کہ 'سب بیچ دے' اور پھر سب کچھ بکنے لگا۔ سب سے پہلے ہم نے اپنا ایمان بیچا، پھر اپنا ضمیر بیچا اور پھر بکتے بکتے یہاں تک نوبت آگئی کہ اب بیچنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی دوڑ میں ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ہم اب کچھ سوچنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ہمارے ذہنوں میں ترقی کا جنون سوار ہے۔

ہم کوہلو کے بیل کی طرح ہر روز گول گول گھوم رہے ہیں اور اس سے واقف نہیں کہ ہماری منزل کیا ہے۔ ایک دن جب ہم چلتے چلتے بوڑھے ہوجائیں گے اور پھر جب ہماری آنکھوں سے یہ ترقی کی پٹی ہٹائی جائے گی تو ہمیں پتا چلے گا کہ ہم کہیں بھی نہیں پہنچے۔ اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ کمرشل ازم ہمارے ساتھ بالکل وہی سلوک کرتا ہے جو اس بیل کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے استعمال کے بعد جب وہ مزید چلنے کے قابل نہیں رہتا تو پھر اسے ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کرلیا جاتا ہے۔

ترقی کا راگ الاپنے والوں رک کر سوچو کہ تم مشین کا پرزہ نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے انسان ہو۔ تمہیں خود کو پہچاننا ہے اور جب تم اس قابل ہوجاؤ تو پھر اسے بھی پہچان جاؤ گے جس نے تمہاری تخلیق کی اور تمہیں خلق کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ وہ تو تمہاری ہر وقت خبر گیری کے لیے تیار ہے۔ اس نے ہمیں ایک لمحہ کے لئے اکیلا نہیں چھوڑا لیکن ہم نے ہی اسے چھوڑ دیا ہے اور اس کو چھوڑ کر ہم نے ہزاروں در پکڑ لیے ہیں۔ لیکن اس کا در چھوڑ کر ہم آج اس حال میں پہنچ گئے ہیں کہ زندگی تنگ سی ہوگئی ہے اور سکون ہم سے کوسوں دور چلا گیا ہے۔ چلو آج اس ترقی کی دوڑ سے نکل کر اس کا در تھامیں جو ہماری ہی راہ تک رہا ہے۔

[poll id="1096"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔