حکومت کا بینکوں سے 1240ارب کا ریکارڈقرضہمہنگائی میں اضافہ

70فیصد بجٹ خسارہ بینکوں سے قرض لیکر پورا کیا گیا، 505ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپے گئے


ایکسپریس July 21, 2012
70فیصد بجٹ خسارہ بینکوں سے قرض لیکر پورا کیا گیا، 505ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپے گئے۔ فائل فوٹو

مالی سال 2011-12کے دوران 70فیصد بجٹ خسارہ بینکوں سے قرض لے کر پورا کیا گیا، 505ارب روپے کے نئے نوٹ چھاپے گئے، حکومت نے 1240ارب روپے کے قرضے لے کر نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق قرضوں کے لیے بینکاری نظام پر حکومت کا انحصار خطرے کے نشان تک پہنچ گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے ذریعے نوٹ چھاپ کر لیے گئے قرضے افراط زر میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، دوسری جانب کمرشل بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرض گیری کے باعث نجی شعبے کے لیے قرضوں کی فراہمی محدود ہورہی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح خطے میں کم ترین سطح پر ہے، دوسری جانب حکومت قرض لے کر سبسڈی پروگرام چلا رہی ہے ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال اور بجلی کے بحران کے سبب غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی کا سامنا ہے جس سے روزگار کے مواقع کم سے کم ہورہے ہیں ،

اس صورتحال میں بینکاری نظام سے بڑھتی ہوئی قرض گیری قرضوں کو محدود کرنے کے فسکل ریسپانسبلیٹی ایکٹ 2005اور اسٹیٹ بینک ایکٹ اپریل 2012کی خلاف ورزی کے ساتھ معاشی عدم توازن کو مزید خراب کررہی ہے۔ مجموعی طور پرحکومت نے بینکاری نظام سے 1.24ٹریلین (ایک ہزار 240ارب روپے) کے قرضے حاصل کیے جس میں سے 693ارب روپے کے قرضے شیڈول بینکوں اور 505ارب روپے کے قرضے مرکزی بینک سے حاصل کیے،

شیڈول بینکوں سے حاصل کردہ قرضوں کی مالیت 2010-11کے مقابلے میں 16فیصد زائد رہی حکومت نے توانائی کے بحران کے لیے پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے ذریعے 391ارب روپے حاصل کیے جس میں کمرشل بینکوں نے 301ارب روپے فراہم کیے۔ مالی سال 2010-11 کے دوران بینکاری نظام سے حاصل کردہ قرضوں کی مالیت 580ارب روپے رہی تھی حکومت نے 2010-11کے دوران 52فیصد بجٹ خسارہ بینکاری نظام سے قرض لے کر پورا کیا جبکہ مالی سال 2011-12کے دوران 70فیصد بجٹ خسارہ بینکاری نظام سے قرض لے کر پورا کیا گیا۔

حکومت نے مالی سال 2011-12کے دوران اسٹیٹ بینک سے 505ارب روپے کے قرضے لیے جبکہ مالی سال 2010-11کے دوران حکومت 8ارب روپے کے قرضے واپس کیے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں