سروس کا اگلا پڑاؤ مظفرگڑھ دوسری قسط
مظفّر گڑھ کی ٹریفک دوسرے شہروں کی طرح ہی بے ہنگم تھی۔
RAWALPINDI:
مظفّر گڑھ میں میری تعیناتی1987 میں رہی۔ اس وقت اصلی تے وڈے کھر صاحب (سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفیٰ کھر) غالباً جیل میں تھے اس لیے ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی ۔
اس کے پچیس سال بعد 2012 میں جب میں شیخوپورہ ڈویژن کا ریجنل پولیس آفیسر تھا تو ایک دن میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی، میں نے ھیلو کہا تو دوسری طرف سے آواز آئی "میں مصطفیٰ کھر بول رہا ہوں ،آپ چیمہ صاحب ہیں؟" میں نے کہا 'جی بول رہا ہوں' اُدھر سے پھر آواز آئی "میرا زمیندارا ضلع شیخوپورہ کے علاقے نارنگ منڈی میں ہے اور میں یہاں کے حالات سے واقف ہوں، آپ نے اس ضلعے میں امن و امان کے لیے جو کام کیا ہے وہ پچھلے پچاس سالوں میں نہیں ہوسکا۔
میں یہ کال آپکو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کررہا ہوں" میں نے کہا" ملک صاحب آپکا بہت شکریہ، دعاؤں میں یا د رکھیں" پھر کچھ عرصہ بعد کھر صاحب کی طرف سے آموں کا تحفہ موصول ہوا۔ میں نے لیت و لال سے کام لینے کی کوشش کی تو پھرایک کال آئی"میں مسز غلام مصطفیٰ کھر بول رہی ہوں ، ہم نے اپنی روایت کے مطابق بڑے خلوص سے آپکو آموں کا گفٹ بھیجا ہے اسے قبول کریں" اب انکار کرنا Discourtesy کے زمرے میں آتا تھا ، لہٰذا میں نے تحفہ قبول کرتے ہوئے کھرصاحب اور اُنکی بیگم صاحبہ کا شکریہ ادا کیا۔
مجھے یاد ہے مظفّر گڑھ کے آتشیں موسم میں بھی میرے دفتر میں اے سی نہیں تھا، صرف ایک کولر تھا جس سے ٹمپریچر قدرے کم ہوجاتا تھا۔ مگر اُسوقت کبھی اے سی وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ذہن پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ پورے علاقے کو جرائم سے پاک کرنا ہے اور لوگوں کو انصاف دینا ہے۔
میں ٹینس کا شوقین تھا اور پولیس میں آنے سے پہلے بھی کھیلتا تھا، مگر یہاں صورتِ حال یہ تھی کہ شام تک سائلین کا تانتا بندھا رہتا اور کسی ایک بھی سائل کو چھوڑ کر اٹھنا گوارا نہ تھا اس لیے اکثر اُسوقت آفیسرز کلب کے ٹینس کورٹ میں پہنچتاجب ایک دوسروسوں کے بعد غروبِ آفتاب کے باعث گیم ختم ہوجاتی ۔ ٹینس کھیلنے کا شوق تشنگی کا شکار رہا مگر میں یقین سے کہتا ہوں کہ غریبوں اور مظلوموں کو ریلیف اور انصاف مہیّا کرنے سے جو خوشی ، اطمینان اور لطف نصیب ہوتا ہے وہ کسی گیم ، فلم یا کسی بھی اور entertainment سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
مظفّر گڑھ کی ٹریفک دوسرے شہروں کی طرح ہی بے ہنگم تھی۔میں نے بڑی محنت کرکے اسے Streamline کیا۔ میرے وہاں سے جانے کے بعد بھی مجھے کئی سال تک مظفرگڑھ کے انتظامی افسروں کے فون آتے رہے کہ "کھلی کچہریوں میں لوگ ہمیں کہتے ہیں ٹریفک پھرخراب ہوگئی ہے ۔آپ اسطرح ٹھیک کریں جسطرح چیمہ صاحب نے ٹھیک کی تھی"۔پرانے کولیگ شغل میں فون کرتے کہ "آپ یہاں سے جانے کے بعد بھی ہمیںEmbarrass کرتے رہتے ہیں"۔
ایک روز جب میں مظفر گڑھ شہر میں راؤنڈ کررہا تھا اور ایس پی صاحب کوٹ ادّو کے دورے پر تھے وائرلیس کے ذریعے پیغام ملا کہ لوگوں کی بڑی تعداد نے تھانہ شاہ جمال کا گھیراؤ کرلیا ہے۔ میں نے کنٹرول روم کو مزید معلومات لینے کی ہدایت کی اور خود دو تین گن مینوں کے ساتھ شاہ جمال کی جانب روانہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ حوالات میں چوری کا ملزم ہلاک ہوگیا ہے اس کی لاش تھانے کے اندر ہی پڑی ہے اورلوگوں کا کہنا ہے کہ اسے کو پولیس والوں نے ہلاک کیاہے۔ تھوڑی دیر بعد ایس پی صاحب کا میسج ملا (اس وقت موبائل فون نہیں ہوتے تھے) کہ" موقعے پر جانے کے لیے پولیس کی مناسب نفری ساتھ لے کر جانا معاملہ سنگین ہے اور لوگ Violentبھی ہوسکتے ہیں"۔
پولیس کی نفری اکٹھی کرنے میں وقت لگ سکتا تھااور میں فوراً موقع پر پہنچنا چاہتا تھا، مجھے یہ اطمینان ضرور تھا کہ لوگ چونکہ میرے کام اور ساکھ سے واقف ہیں اس لیے مجھ پر اعتماد کریں گے۔ میں آدھے گھنٹے میں شاہ جمال پہنچ گیا ، بلاشبہ تین چار ہزار افراد نے تھانے کا گھیراؤ کر رکھّا تھا میری جیپ دیکھکر لوگوں نے پولیس کے خلاف زوردار نعرے لگانے شروع کردیے مگر میرے ساتھ کسی نے بدتمیزی نہ کی۔ میں دو گن مینوں کے ساتھ مجمع کو چیرتا ہوا تھانے کے گیٹ پر پہنچ گیا، اندر چند پولیس والے تھے جنہوں نے تھانے کا گیٹ بند کر رکھا تھا، اب میں نعرے لگاتے ہوئے مجمعے سے مخاطب ہوا" میری بات سنیں "مجمع خاموش ہوا تومیں نے پوچھا" آپ کو مجھ پر اعتماد ہے؟" کچھ آوازین بلند ہوئیں "ہاں آپ پر اعتماد ہے۔
آپ کی شہرت اچھی ہے" میں نے کہا " اطمینان رکھیں مکمل انصاف ہوگامگر پہلے میں حقائق معلوم کرلوں۔ انکوائری آپ کے نمائیندوں کی موجودگی میں ہوگی "مجمعے میں سے آوازیں"ہمیں منظورہے"۔ میں نے مجمعے میں سے تین بزرگ آدمیوں کو منتخب کرکے اپنے پاس بلایااور انھیں ساتھ لے کر تھانے کے اندر چلا گیا۔ تھانے کا مضبوط گیٹ پھر بند کردیا گیا۔ تھانے میں موجود چند سپاہیوں سے علیحدہ علیحدہ پوچھاجنہوں نے بتا یا کہ چند روز قبل چوری کے شبے میں ملزم کو بلایا گیا تھا ،ایس ایچ او محمد خان نے اس پر تشدّد کیا تھا جس پر اس کی حالت خراب ہوگئی، اسی حالت میں SHOاسے اسپتال لے گیا مگرڈاکٹروں نے اسے داخل کرنے سے انکا ر کردیا، اسے واپس لاتے ہوئے اس کی موت واقع ہوچکی تھی۔ لاش کو تھانے کی بیرک میں چھوڑ کر ایس ایچ او کہیں غائب ہوگیا ہے، متوفّی کے جسم پر بھی تشدّد کے واضح نشانات موجود تھے۔
میں نے متوفّی کے وارثوں کو بلوایا اور اس کے بھائی کی مدعیّت میںSHO کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا، باہر نکلے تو تینوں میںسے ایک بزرگ نے مجمع کو SHOکے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہونے کی اطلاع دی ۔ میں نے اس میںیہ اضافہ کیا کہ "آپ ایک مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اس کے لیے آپ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں مگر آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ اب مقدّمے میں بھی مظلوم خاندان کا ساتھ دیں اور مقتول کے بے سہارا کنبے کی مالی امداد بھی کریں " ۔ ضروری کارروائی مکمل کرنے کے بعد جب میں مظفّر گڑھ جانے کے لیے تھانے سے نکلا تو مجمع مکمل طور پر چھَٹ چکا تھا۔ نوجوان پولیس افسروں کو یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جہاں انھیں اپنی فورس کا تخفّظ کرنا ہے وہاں عوام کے حقوق کا تخفّظ بھی اُنکی ذمیّ داری ہے، جب کسی پولیس ملازم سے زیادتی ہو تو اس کا ساتھ دیں لیکن جب کوئی پولیس افسر کسی شہری سے زیادتی کرے تو شہری کے ساتھ کھڑے ہوں۔
29مئی1988کوجنرل ضیاء الحق نے بلاوجہ اسمبلیاں توڑ دیں اور جونیجو حکومت کو فارغ کردیا۔اس کے ایک دو روز بعد میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ کھڑکی سے ایم این اے عطا قریشی صاحب نظر آئے جو میرے دفتر کے سامنے سے منہ چھپا کر گذر گئے۔ میں نے اردلی کو بھیج کر قریشی صاحب کو بلوایا، انھیں چائے پلائی اور کہا "قریشی صاحب آپ ایم این اے نہیں رہے پھر بھی اس دفتر میں آپکو پہلے کی طرح عزّت ملے گی، مگر میں ایک بات ضرور کہونگا کہ ممبرانِ اسمبلی کا طرزِ عمل اگر پبلک فرینڈلی ہوتا تو جنرل ضیاء کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف لوگ سڑکوں پر ہوتے" قریشی صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
چند ہفتوںبعد اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شریعہ کورس کے لیے میری سلیکشن ہوگئی، اس وقت یہ کورس جج صاحبان اور پولیس افسران کو اسلامی قوانین سے روشناس کرانے کے لیے کرایا جاتا تھا۔میرے لیے یہ تبدیلی بڑی خوش آئیندتھی، تین مہینے کے اس کورس کے اختتام پر سعودی عرب کا دورہ اور وہاں کے عدالتی نظام کا مطالعہ اور مشاہدہ کرایا جاتا تھا۔ اسی دورے میں زندگی میں پہلی بارخانہ کعبہ کی زیارت اور روضہء رسولؐ پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔
شریعہ کورس کے شرکاء اور فیکلٹی ممبران سمیت ہمارا قریباًتیس افراد کا وفد آٹھ روز مکہّ مکرمہ او ر پانچ روز مدینہ منوّرہ میں قیام پذیر رہا۔ اس دوران بہت سی عدالتوں کے قاضی صاحبان سے ملاقات ہوئی، آٹھ دنوںمیں کئی بار عمرہ کرنے کا موقع ملا۔ خانہ کعبہ کو پہلی بار دیکھنے کا منظر آج تک نہیں بھول سکا ، ایک دو روز میں ہی طواف کی ساری دعائیں یاد ہوگئیں۔ رات کے پچھلے پہر یا فجر کے وقت عجیب روح پرور منظر ہوتا تھا۔ یوں لگتا تھا نورِ الٰہی کی پھوار برس رہی ہے۔ طواف کے دوران جب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتا تو واقعی ایسا محسوس ہوتا کہ بندہ دربارِ الٰہی میں حاضر ہے اور شہنشاہوں کے شہنشاہ کے سامنے فریاد کناں ہے ، اس کی فریاد سنی جارہی ہے اور فریاد پرابھی حکم جاری ہوجائے گا۔ مکہّ اور مدینہ میں پہلی حاضری کا لطف اور سرور کبھی نہیں بھول سکتا۔
کورس کے بعد میں پھر مظفّر گڑھ آگیا، اب گرمی زوروں پر تھی۔کبھی کبھی میں دعا کرتا تھا کہ "یااﷲ کسی ایسی جگہ بھیج دے جو اتنی گرم نہ ہو" دعائیں جلد ہی قبول ہوگئیں اور ایس ایس پی سرگودھا کے کہنے پر میری ٹرانسفر بھلوال ہوگئی۔ مظفّر گڑھ کے ایس پی صاحب مجھے فوری طور پر ریلیو کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ میں جب بھی پوچھتا تو کہہ دیتے اتنی بھی کیا جلدی ہے آپ کو روٹی شوٹی کھلا کر بھیجیں گے اور بالآخر وہ دن بھی آپہنچا۔ ایس پی صاحب نے بہت بڑی الوداعی تقریب کا اہتمام کیا تھا (جو میرے لیے حیران کن تھا) جس میں پوری ڈویژن کے افسران ، ممبران اور شہریان شریک تھے۔ میرے دیرینہ مہربان سابق ایم این اے عطاقریشی صاحب اورسابق ایم پی اے امجد حمید دستی صاحب پہلی صف میں جلوہ افروز تھے ، میرے تبادلے پر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ چہک چہک کر ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار رہے تھے۔ میں نے گزرتے ہوئے پوچھ لیا کس موضوع پر بات ہورہی ہے، دستی صاحب کہنے لگے Rule of Law"پر بات کررہے ہیں، یہی ہمارا پسندیدہ موضوع ہے اور اسی کے ساتھ ہماری وابستگی ہے"۔ میں نے کہا" میری جگہ کوئی اور اے ایس پی آگیا تو رُول آف لاء کے ساتھ آپ کی وابستگی اور بڑھ جائے گی"۔
نوٹ:خانوادۂ کرپشن کے گدّی نشین بھی کرپشن کے "خاتمے" کے لیے استعفے مانگیں تو ہنسی آتی ہے اور کرپشن جیسے حساّس اِشوکو سیاست بازی کے لیے استعمال کیا جائے تو دکھ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کسی فرد کے سحر میں مبتلا ہیں اور اُسی کے جیالے یا متوالے ہیں ان سے مکالمہ بے سود ہے کہ انھوں نے سوچ کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر رکھی ہیں مگر جو صرف پاکستان کا درد رکھتے ہیں اور اس کے بہترین مستقبل کے خواہاں ہیں اور سیاست میں جنکا رول ماڈل محمد علی جناحؒ ہیں اِن سے ضرور پوچھونگا کہ کیا اﷲاور حضرت محمدؐ کے نام پر حاصل کیا گیا یہ ملک اس بات کا حقدار نہیں کہ اس کی قیادت ایسی ہو کہ جسکے دامن پر مالی اور اخلاقی کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو! جوبااصول بھی ہو اور باکردار بھی۔۔ اور جسکی نگاہ بلندبھی ہو اور سخن دلنواز بھی !!
مظفّر گڑھ میں میری تعیناتی1987 میں رہی۔ اس وقت اصلی تے وڈے کھر صاحب (سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفیٰ کھر) غالباً جیل میں تھے اس لیے ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی ۔
اس کے پچیس سال بعد 2012 میں جب میں شیخوپورہ ڈویژن کا ریجنل پولیس آفیسر تھا تو ایک دن میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی، میں نے ھیلو کہا تو دوسری طرف سے آواز آئی "میں مصطفیٰ کھر بول رہا ہوں ،آپ چیمہ صاحب ہیں؟" میں نے کہا 'جی بول رہا ہوں' اُدھر سے پھر آواز آئی "میرا زمیندارا ضلع شیخوپورہ کے علاقے نارنگ منڈی میں ہے اور میں یہاں کے حالات سے واقف ہوں، آپ نے اس ضلعے میں امن و امان کے لیے جو کام کیا ہے وہ پچھلے پچاس سالوں میں نہیں ہوسکا۔
میں یہ کال آپکو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کررہا ہوں" میں نے کہا" ملک صاحب آپکا بہت شکریہ، دعاؤں میں یا د رکھیں" پھر کچھ عرصہ بعد کھر صاحب کی طرف سے آموں کا تحفہ موصول ہوا۔ میں نے لیت و لال سے کام لینے کی کوشش کی تو پھرایک کال آئی"میں مسز غلام مصطفیٰ کھر بول رہی ہوں ، ہم نے اپنی روایت کے مطابق بڑے خلوص سے آپکو آموں کا گفٹ بھیجا ہے اسے قبول کریں" اب انکار کرنا Discourtesy کے زمرے میں آتا تھا ، لہٰذا میں نے تحفہ قبول کرتے ہوئے کھرصاحب اور اُنکی بیگم صاحبہ کا شکریہ ادا کیا۔
مجھے یاد ہے مظفّر گڑھ کے آتشیں موسم میں بھی میرے دفتر میں اے سی نہیں تھا، صرف ایک کولر تھا جس سے ٹمپریچر قدرے کم ہوجاتا تھا۔ مگر اُسوقت کبھی اے سی وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ذہن پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ پورے علاقے کو جرائم سے پاک کرنا ہے اور لوگوں کو انصاف دینا ہے۔
میں ٹینس کا شوقین تھا اور پولیس میں آنے سے پہلے بھی کھیلتا تھا، مگر یہاں صورتِ حال یہ تھی کہ شام تک سائلین کا تانتا بندھا رہتا اور کسی ایک بھی سائل کو چھوڑ کر اٹھنا گوارا نہ تھا اس لیے اکثر اُسوقت آفیسرز کلب کے ٹینس کورٹ میں پہنچتاجب ایک دوسروسوں کے بعد غروبِ آفتاب کے باعث گیم ختم ہوجاتی ۔ ٹینس کھیلنے کا شوق تشنگی کا شکار رہا مگر میں یقین سے کہتا ہوں کہ غریبوں اور مظلوموں کو ریلیف اور انصاف مہیّا کرنے سے جو خوشی ، اطمینان اور لطف نصیب ہوتا ہے وہ کسی گیم ، فلم یا کسی بھی اور entertainment سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
مظفّر گڑھ کی ٹریفک دوسرے شہروں کی طرح ہی بے ہنگم تھی۔میں نے بڑی محنت کرکے اسے Streamline کیا۔ میرے وہاں سے جانے کے بعد بھی مجھے کئی سال تک مظفرگڑھ کے انتظامی افسروں کے فون آتے رہے کہ "کھلی کچہریوں میں لوگ ہمیں کہتے ہیں ٹریفک پھرخراب ہوگئی ہے ۔آپ اسطرح ٹھیک کریں جسطرح چیمہ صاحب نے ٹھیک کی تھی"۔پرانے کولیگ شغل میں فون کرتے کہ "آپ یہاں سے جانے کے بعد بھی ہمیںEmbarrass کرتے رہتے ہیں"۔
ایک روز جب میں مظفر گڑھ شہر میں راؤنڈ کررہا تھا اور ایس پی صاحب کوٹ ادّو کے دورے پر تھے وائرلیس کے ذریعے پیغام ملا کہ لوگوں کی بڑی تعداد نے تھانہ شاہ جمال کا گھیراؤ کرلیا ہے۔ میں نے کنٹرول روم کو مزید معلومات لینے کی ہدایت کی اور خود دو تین گن مینوں کے ساتھ شاہ جمال کی جانب روانہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ حوالات میں چوری کا ملزم ہلاک ہوگیا ہے اس کی لاش تھانے کے اندر ہی پڑی ہے اورلوگوں کا کہنا ہے کہ اسے کو پولیس والوں نے ہلاک کیاہے۔ تھوڑی دیر بعد ایس پی صاحب کا میسج ملا (اس وقت موبائل فون نہیں ہوتے تھے) کہ" موقعے پر جانے کے لیے پولیس کی مناسب نفری ساتھ لے کر جانا معاملہ سنگین ہے اور لوگ Violentبھی ہوسکتے ہیں"۔
پولیس کی نفری اکٹھی کرنے میں وقت لگ سکتا تھااور میں فوراً موقع پر پہنچنا چاہتا تھا، مجھے یہ اطمینان ضرور تھا کہ لوگ چونکہ میرے کام اور ساکھ سے واقف ہیں اس لیے مجھ پر اعتماد کریں گے۔ میں آدھے گھنٹے میں شاہ جمال پہنچ گیا ، بلاشبہ تین چار ہزار افراد نے تھانے کا گھیراؤ کر رکھّا تھا میری جیپ دیکھکر لوگوں نے پولیس کے خلاف زوردار نعرے لگانے شروع کردیے مگر میرے ساتھ کسی نے بدتمیزی نہ کی۔ میں دو گن مینوں کے ساتھ مجمع کو چیرتا ہوا تھانے کے گیٹ پر پہنچ گیا، اندر چند پولیس والے تھے جنہوں نے تھانے کا گیٹ بند کر رکھا تھا، اب میں نعرے لگاتے ہوئے مجمعے سے مخاطب ہوا" میری بات سنیں "مجمع خاموش ہوا تومیں نے پوچھا" آپ کو مجھ پر اعتماد ہے؟" کچھ آوازین بلند ہوئیں "ہاں آپ پر اعتماد ہے۔
آپ کی شہرت اچھی ہے" میں نے کہا " اطمینان رکھیں مکمل انصاف ہوگامگر پہلے میں حقائق معلوم کرلوں۔ انکوائری آپ کے نمائیندوں کی موجودگی میں ہوگی "مجمعے میں سے آوازیں"ہمیں منظورہے"۔ میں نے مجمعے میں سے تین بزرگ آدمیوں کو منتخب کرکے اپنے پاس بلایااور انھیں ساتھ لے کر تھانے کے اندر چلا گیا۔ تھانے کا مضبوط گیٹ پھر بند کردیا گیا۔ تھانے میں موجود چند سپاہیوں سے علیحدہ علیحدہ پوچھاجنہوں نے بتا یا کہ چند روز قبل چوری کے شبے میں ملزم کو بلایا گیا تھا ،ایس ایچ او محمد خان نے اس پر تشدّد کیا تھا جس پر اس کی حالت خراب ہوگئی، اسی حالت میں SHOاسے اسپتال لے گیا مگرڈاکٹروں نے اسے داخل کرنے سے انکا ر کردیا، اسے واپس لاتے ہوئے اس کی موت واقع ہوچکی تھی۔ لاش کو تھانے کی بیرک میں چھوڑ کر ایس ایچ او کہیں غائب ہوگیا ہے، متوفّی کے جسم پر بھی تشدّد کے واضح نشانات موجود تھے۔
میں نے متوفّی کے وارثوں کو بلوایا اور اس کے بھائی کی مدعیّت میںSHO کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا، باہر نکلے تو تینوں میںسے ایک بزرگ نے مجمع کو SHOکے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہونے کی اطلاع دی ۔ میں نے اس میںیہ اضافہ کیا کہ "آپ ایک مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اس کے لیے آپ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں مگر آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ اب مقدّمے میں بھی مظلوم خاندان کا ساتھ دیں اور مقتول کے بے سہارا کنبے کی مالی امداد بھی کریں " ۔ ضروری کارروائی مکمل کرنے کے بعد جب میں مظفّر گڑھ جانے کے لیے تھانے سے نکلا تو مجمع مکمل طور پر چھَٹ چکا تھا۔ نوجوان پولیس افسروں کو یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جہاں انھیں اپنی فورس کا تخفّظ کرنا ہے وہاں عوام کے حقوق کا تخفّظ بھی اُنکی ذمیّ داری ہے، جب کسی پولیس ملازم سے زیادتی ہو تو اس کا ساتھ دیں لیکن جب کوئی پولیس افسر کسی شہری سے زیادتی کرے تو شہری کے ساتھ کھڑے ہوں۔
29مئی1988کوجنرل ضیاء الحق نے بلاوجہ اسمبلیاں توڑ دیں اور جونیجو حکومت کو فارغ کردیا۔اس کے ایک دو روز بعد میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ کھڑکی سے ایم این اے عطا قریشی صاحب نظر آئے جو میرے دفتر کے سامنے سے منہ چھپا کر گذر گئے۔ میں نے اردلی کو بھیج کر قریشی صاحب کو بلوایا، انھیں چائے پلائی اور کہا "قریشی صاحب آپ ایم این اے نہیں رہے پھر بھی اس دفتر میں آپکو پہلے کی طرح عزّت ملے گی، مگر میں ایک بات ضرور کہونگا کہ ممبرانِ اسمبلی کا طرزِ عمل اگر پبلک فرینڈلی ہوتا تو جنرل ضیاء کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف لوگ سڑکوں پر ہوتے" قریشی صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
چند ہفتوںبعد اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شریعہ کورس کے لیے میری سلیکشن ہوگئی، اس وقت یہ کورس جج صاحبان اور پولیس افسران کو اسلامی قوانین سے روشناس کرانے کے لیے کرایا جاتا تھا۔میرے لیے یہ تبدیلی بڑی خوش آئیندتھی، تین مہینے کے اس کورس کے اختتام پر سعودی عرب کا دورہ اور وہاں کے عدالتی نظام کا مطالعہ اور مشاہدہ کرایا جاتا تھا۔ اسی دورے میں زندگی میں پہلی بارخانہ کعبہ کی زیارت اور روضہء رسولؐ پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ۔
شریعہ کورس کے شرکاء اور فیکلٹی ممبران سمیت ہمارا قریباًتیس افراد کا وفد آٹھ روز مکہّ مکرمہ او ر پانچ روز مدینہ منوّرہ میں قیام پذیر رہا۔ اس دوران بہت سی عدالتوں کے قاضی صاحبان سے ملاقات ہوئی، آٹھ دنوںمیں کئی بار عمرہ کرنے کا موقع ملا۔ خانہ کعبہ کو پہلی بار دیکھنے کا منظر آج تک نہیں بھول سکا ، ایک دو روز میں ہی طواف کی ساری دعائیں یاد ہوگئیں۔ رات کے پچھلے پہر یا فجر کے وقت عجیب روح پرور منظر ہوتا تھا۔ یوں لگتا تھا نورِ الٰہی کی پھوار برس رہی ہے۔ طواف کے دوران جب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتا تو واقعی ایسا محسوس ہوتا کہ بندہ دربارِ الٰہی میں حاضر ہے اور شہنشاہوں کے شہنشاہ کے سامنے فریاد کناں ہے ، اس کی فریاد سنی جارہی ہے اور فریاد پرابھی حکم جاری ہوجائے گا۔ مکہّ اور مدینہ میں پہلی حاضری کا لطف اور سرور کبھی نہیں بھول سکتا۔
کورس کے بعد میں پھر مظفّر گڑھ آگیا، اب گرمی زوروں پر تھی۔کبھی کبھی میں دعا کرتا تھا کہ "یااﷲ کسی ایسی جگہ بھیج دے جو اتنی گرم نہ ہو" دعائیں جلد ہی قبول ہوگئیں اور ایس ایس پی سرگودھا کے کہنے پر میری ٹرانسفر بھلوال ہوگئی۔ مظفّر گڑھ کے ایس پی صاحب مجھے فوری طور پر ریلیو کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ میں جب بھی پوچھتا تو کہہ دیتے اتنی بھی کیا جلدی ہے آپ کو روٹی شوٹی کھلا کر بھیجیں گے اور بالآخر وہ دن بھی آپہنچا۔ ایس پی صاحب نے بہت بڑی الوداعی تقریب کا اہتمام کیا تھا (جو میرے لیے حیران کن تھا) جس میں پوری ڈویژن کے افسران ، ممبران اور شہریان شریک تھے۔ میرے دیرینہ مہربان سابق ایم این اے عطاقریشی صاحب اورسابق ایم پی اے امجد حمید دستی صاحب پہلی صف میں جلوہ افروز تھے ، میرے تبادلے پر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ چہک چہک کر ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار رہے تھے۔ میں نے گزرتے ہوئے پوچھ لیا کس موضوع پر بات ہورہی ہے، دستی صاحب کہنے لگے Rule of Law"پر بات کررہے ہیں، یہی ہمارا پسندیدہ موضوع ہے اور اسی کے ساتھ ہماری وابستگی ہے"۔ میں نے کہا" میری جگہ کوئی اور اے ایس پی آگیا تو رُول آف لاء کے ساتھ آپ کی وابستگی اور بڑھ جائے گی"۔
نوٹ:خانوادۂ کرپشن کے گدّی نشین بھی کرپشن کے "خاتمے" کے لیے استعفے مانگیں تو ہنسی آتی ہے اور کرپشن جیسے حساّس اِشوکو سیاست بازی کے لیے استعمال کیا جائے تو دکھ ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کسی فرد کے سحر میں مبتلا ہیں اور اُسی کے جیالے یا متوالے ہیں ان سے مکالمہ بے سود ہے کہ انھوں نے سوچ کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر رکھی ہیں مگر جو صرف پاکستان کا درد رکھتے ہیں اور اس کے بہترین مستقبل کے خواہاں ہیں اور سیاست میں جنکا رول ماڈل محمد علی جناحؒ ہیں اِن سے ضرور پوچھونگا کہ کیا اﷲاور حضرت محمدؐ کے نام پر حاصل کیا گیا یہ ملک اس بات کا حقدار نہیں کہ اس کی قیادت ایسی ہو کہ جسکے دامن پر مالی اور اخلاقی کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو! جوبااصول بھی ہو اور باکردار بھی۔۔ اور جسکی نگاہ بلندبھی ہو اور سخن دلنواز بھی !!