ینگ ڈاکٹرز … ہڑتالیں … اور حکومتی بے حسی

سڑکیں، پُل اور ہر وہ چیز جس میں ان کے مفادات ہوتے ہیں انھیں اولیت دی جاتی ہے


[email protected]

جرمنی کے ایک اسپتال میں داخل بوڑھے شخص نے اپنے ساتھ والے کمرے میں غیر معمولی آمدو رفت، سخت سیکیورٹی کا اہتمام دیکھا تو اپنے ساتھ موجود ورثاء سے اس کا سبب پوچھا۔ بوڑھے کے ورثاء نے بتایا کہ اُس کمرے میں مصر کے صدر حسنی مبارک کو علاج کے لیے ٹھہرایا گیا ہے۔ بوڑھے نے پوچھا، یہ حسنی مبارک کتنے عرصے سے مصر پر صدارت کر رہا ہے؟ بوڑھے کو بتایا گیا کہ اسے صدر رہتے ہوئے پچیس سال ہوگئے ہیں۔

بوڑھے نے کہا، یہ ایک مفسد اور گندا شخص ہے۔ اُس کے ورثاء نے پوچھا ، آپ کیسے جانتے ہیں کہ یہ ایک مفسد اور گندا شخص ہے؟ بوڑھے نے کہا جو شخص اپنے پچیس سالہ دورِ حکومت میں اپنے ملک میں ایک ایسا اسپتال نہیں بنوا سکا جس میں وہ خود اپنا علاج اعتماد کے ساتھ کراسکے ، اس شخص کا اپنے ملک اور عوام کے ساتھ خلوص مشکوک اور اس کے انتظامی، اصلاحی و تعمیری کاموں میں کھوٹ ہے۔ یہی حال ہمارے حکمرانوں کا رہا ہے ۔

سڑکیں، پُل اور ہر وہ چیز جس میں ان کے مفادات ہوتے ہیں انھیں اولیت دی جاتی ہے۔ اپنا چھوٹا موٹا علاج کرانے بھی سرکاری خرچ پر بیرون ملک جاتے ہیں۔ میرے خیال میں تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات حکمرانوں کی نظروں سے شاید اوجھل اس لیے ہیں کہ ان کاموں میں ''بچت'' نہیں ہے۔ یہ ذہنیت قابل مذمت ہے۔ ہمارے حکمران اس بات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں کہ عوام کا ایک بڑا حصہ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہے ۔ بڑے شہروں میں جنھیں یہ سرکاری اسپتال کی سہولت میسر ہے، وہ جب وہاں کا رخ کرتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ اسپتال میں ''ڈاکٹرز'' ہڑتال پر ہیں۔

میں ینگ ڈاکٹرز کا نمایندہ نہیں ہوں لیکن سوچنے پر مجبور ہوں کہ آخر یہ لوگ آئے روز سڑکوں پرکیوں نظر آتے ہیں؟ کیا واقعی یہ لوگ بے حس ہیں یا حکومت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے انھیں سڑکوں پر لانے کے لیے مجبور کرتی ہے، یہ بھی مان لیا کہ عوام ڈاکٹرز کی آئے دن کی ہڑتال سے سخت نالاں نظر آتے ہیں، مگر ان ڈاکٹرز کے بھی کچھ مسائل ہیں ۔ میرے خیال میں اگر مرض کو بڑھنے سے پہلے اس کی تشخیص کر دی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اب ڈاکٹر تنظیموں کی جانب سے رواں ماہ 11مئی کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ اس کے بعد حکومتی ایوانوں کے گھیراؤ کی تیاری کی جا رہی ہیں، لیکن مجال ہے حکومت ان ڈاکٹرز کے پاس جا کر ان کی بات سن لے...

یہ تو وہ مظلوم طبقہ ہے جو اپنے سروس سٹرکچر کی بھیک مانگ رہا ہے۔ جو اس کا بنیادی حق ہے۔ ایک ڈاکٹر کو میڈیکل میں داخلے سے لے کر ماہر ڈاکٹر بننے تک 12سال درکار ہوتے ہیں ، اس کے بعد بھی ڈاکٹر کا شمار ''ینگ ڈاکٹرز'' میں ہوتا ہے۔ اسپتال میں تمام کام ان ڈاکٹرز سے لیے جاتے ہیں۔

24، چھتیس گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد کون سا ڈاکٹر ہے جو تنخواہ بھی نہ لے اور مریضوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش بھی آئے اور ہڑتال کی کال پر بھی لبیک نہ کہے؟

پنجاب حکومت نے 2011ء میں وعدہ کیا تھا کہ تین قسطوں میں ڈاکٹرز کی تنخواہیں عدلیہ کے برابر کردی جائیں گی لیکن آج اس بات کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن وعدہ ایفا نہیں ہو سکا۔ علاوہ ازیں ہیلتھ بجٹ میں 15فیصد کمی کرکے اور ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سے ڈاکٹروں کی آخری ملاقات 2013ء میں ہوئی تھی، وہ بھی احتراماََ اور مروتاََ... اس کے بعد اس ملاقات سے بھی جب کچھ حاصل نہ ہوا تو ڈاکٹرز نے 2015ء میں دوبارہ احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا جو تقریباََ تین ماہ تک چلا۔ وعدہ کیاگیا کہ تمام مسائل کو آٹھ سے دس دن میں حل کیا جائے گا۔ اپریل 2015ء کو کیا جانے والا وعدہ اپریل 2016ء تک پورا نہیں ہو سکا، اب ڈاکٹرز اگر دوبارہ احتجاج کرتے ہیں تو میرا یہ سوال ہے کہ وہ کیا کریں؟

پاکستان میں اس وقت رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار سے بھی زائد ہے، سنا ہے کہ اس میں سے 80فیصد ڈاکٹرز ''ینگ'' کیٹگری میں آتے ہیں جو 32، 32گھنٹے کی نان اسٹاپ ڈیوٹیاں کر رہے ہیں اگر وہ پروفیسر لیول کا نہیں تو نہ اس کو گریجوئٹی مل رہی ہے، نہ اس کے والدین کا علاج ہوتا ہے، نہ اسے پینشن ملتی ہے اور تو اور انھیں کوئی شفٹ پینلٹی بھی نہیں ملتی۔ جب آرمی، پولیس، جج صاحبان، پوسٹ مین حتیٰ کہ کلرکوں تک کا سروس سٹرکچر موجود ہے تو حکومت ڈاکٹروں کو 20سال کے مستقل کنٹریکٹ کے بجائے تین سال کے عارضی کنٹریکٹ پر کیوں بھرتی کرتی ہے؟اب اگر ان ہلاکتوں کی بات کی جائے جو اس ہڑتال کے باعث ہوتی ہیں تو اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے ، یہاں کوئی کسی کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہے ۔

حضرت عمر فاروق ؓ دنیا کے واحد حکمران تھے جو فرمایا کرتے اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو حکمران کو اس جواب دینا پڑے گا۔ مگر یہاں ہر سال اتنی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ! یہاں میرا صرف یہ کہنا ہے کہ خادم اعلیٰ صاحب آپ کی شہرت دیگر سیاستدانوں سے قدرے مختلف ہے۔

آپ ہی اس مسئلے میں کود پڑیں اور ڈاکٹرز کے دیرینا مطالبات پورا کریں جو جائز بھی ہیں اور ان کا حق بھی۔ ورنہ جہاں ہزاروں اعلیٰ پائے کے ڈاکٹرز ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں وہیں جو رہ گئے انھوں نے بھی کسی اچھے پیکیج پر بیرون ملک چلے جانا ہے، پھر آپ کہاں سے ڈاکٹر امپورٹ کریں گے؟ چائنہ سے؟ معذرت کے ساتھ وہاں کی تو جوتی چار دن نہیں نکالتی ڈاکٹرز کیا کریں گے؟ لہذا آپ سے اپیل ہے کہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرکے عوام کو بھی سکھ کا سانس لینے دیں اور اپنی واہ واہ بھی بنوائیں تاکہ آپ بھی اپنے ملک میں علاج کروا کر ایک مثال قائم کریں !!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں