لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

حکومت نے ابتدا میں تو ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن پر زور دیا


Dr Mansoor Norani May 04, 2016
[email protected]

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے جب گزشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں ملک کے اندر ''اکراس دی بورڈ'' یعنی بلا امتیاز و تفریق احتساب کی ضرورت پر زور دیا تو ہرطرف سے اُن کے اُس بیان کا زبردست خیرمقدم کیا گیا۔ مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن نے بھی اُس کی بھرپور تائید و حمایت کی، لیکن اِسی دوران پانامہ پیپرز کے منظرِعام پر آ جانے کی وجہ سے ہمارے یہاں کا سیاسی ماحول اچانک گرم اور انتہائی تلخ ہو گیا اور حزب ِ اختلاف کی جانب سے فوراً ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی نگرانی میں ایک جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

حکومت نے ابتدا میں تو ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن پر زور دیا لیکن بعدازاں وہ اپوزیشن کی مطالبے پر حاضر سروس چیف جسٹس کی تحت جوڈیشل کمیشن بنانے پر رضا مند ہو گئی، لیکن اِس کے بعد جھگڑا جوڈیشل کمیشن کے لیے '' ٹی آر اوز'' ترتیب دینے کا شروع ہو گیا۔ حکومتی اکابرین نے اِس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے صرف پانامہ لیکس سے متعلق تحقیقاتی کمیشن بنانے کی بجائے ملک میں اب تک ہونے والی کرپشن کی تمام بڑی بڑی وارداتوں کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اِس سلسلے میں ایک ایسا'' ٹی آر اوز'' پیش کر ڈالا جس پر اپوزیشن کی بہت سے حلقے مطمئن ہو جانے کی بجائے مضطرب اور پریشان دکھائی دینے لگے۔

وہ نہیں چاہتے کہ بیک وقت اُن سب کا احتساب ہو جنہوں نے اپنے اپنے دور میں مختلف طریقوں سے ملکی دولت پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ گرچہ اِس سے قبل وہ آرمی چیف کی ''اکراس دی بورڈ'' احتساب کی تجویزکی پر زور حمایت کر رہے تھے، لیکن اب ایسا کیا ہو گیا کہ اُنہیں صرف اور صرف وزیرِاعظم میاں نواز شریف کا یک طرفہ احتساب مطلوب ہے۔ حزبِ اختلاف کی صفوں سے کہا جا رہا ہے کہ اِس طرح توکئی سال لگ جائیں گے اور احتساب مکمل نہیں ہو پائے گا، لیکن فرض کیا جائے کہ اگر اُن کی تجویز کو یعنی صرف وزیرِاعظم کے احتساب کو اولین ترجیح بھی دے دی جائے تو کیا وہ سمجھتے ہیں کہ فرانزک آڈٹ کے تحت تمام امورکی تحقیقات چند مہینوں میں مکمل ہو پائے گی، جب کہ ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

آف شورکمپنیز کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا کہ تصورکیا جا رہا ہے۔ اول توآف شوراکاؤنٹ تک جوڈیشل کمیشن کے ممبران کی رسائی ایک مشکل اور پیچیدہ مرحلہ ہے۔ پھر یہ پتہ لگانا کہ اُن کمپنیز میں لگایاگیا پیسہ جائزآمدنی کے ذرایع سے حاصل کیا گیا تھا یہ پھرکرپشن یا ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے ذریعے خورد برد کیا گیا تھا ایک اور بھی کٹھن اور دشوار کام ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اپنا معمول کا تمام کام چھوڑ کر بھی اگرصرف اِسی ایک کام میں لگ جائیں تو بھی یہ تحقیقات ایک دو سال میں بھی مکمل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔

جب کہ دوسری جانب ہم یہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ قومی بینکوں سے قرض لے کر خود کو دیوالیہ ظاہرکرنے والے ہمارے بہت سے سیاست دان آج کروڑ پتی اور ارب پتی بن چکے ہیں اور اُن کے ناموں کی ایک مکمل فہرست ہمارے اسٹیٹ بینک کے پاس بھی محفوظ ہے اور اُن کے خلاف تحقیقات کوئی اتنا مشکل مسئلہ بھی نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اِن نام نہاد نیک صفت شریف النفس افراد میں سے بیشتر کا تعلق زیادہ تر اپوزیشن کی جماعتوں سے ہے اِس لیے وہ اِس سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہ رہی ہیں۔ میاں برادران تو اکثر ببانگِ دہل یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم پر قرض لے کر ہڑپ کرنے کا الزام کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔ ہم نے سارے قرضے بمع سود ادا کر دیے ہیں۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ''ٹی آر اوز'' میں یہ شق ہرگز شامل نہیں کرتے اور شاید یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ اپوزیشن اِس کا سامنا کرتے ہوئے ہچکچا رہی ہے۔خود خان صاحب بیشک کتنے ہی پاک صاف اور نیک صفت ہوں لیکن اُنہوں نے اپنے ارد گرد جن لوگوں کو جمع کیا ہوا ہے وہ کسی طور اِس فعل قبیحہ سے مبرا نہیں ہیں۔ اِن کے علاوہ چوہدری برادران سمیت سندھ کے بڑے بڑے لیڈر اور وڈیرے قوم کے اِن پیسوں سے اپنی جاگیریں بناتے رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ بینکوں میں رکھا ہو ا روپیہ خالصتاً اِس ملک کے غریب اور نادار لوگوں کا ہوتا ہے۔ جسے یہ مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کہنے کو توکرپٹ لوگوں سے پیسہ واپس دلانے کے لیے اقتدار میں آئے تھے، مگر خود اُن کے دور میں سیکڑوں لوگوں نے مال بنانے کے اِن آزمودہ، سہل اور آسان سنہری طریقوں سے خوب فائدہ اُٹھایا اور بہتی گنگا میں خوب اشنان کیا۔

آج کرپشن مٹاؤ اور ملک بچاؤ کی باتیں بڑے زور شور سے کی جا رہی ہیں لیکن کوئی خلوص ِ نیت سے اِس کے سدِ باب کے لیے تیار نہیں۔ سب کی اپنی اپنی مجبوریاں اور مصلحتیں ہیں، اِسی لیے وہ بلا امتیاز احتساب کے لیے کسی ایک فارمولے پر تیار ہی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قرض لے کر خود کو دیوالیہ ظاہرکرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی آج تک حقیقی طور پر مفلس اور کنگال نہیں ہوا، بلکہ اُنہوں نے اِن پیسوں سے خود کو اِس قدر مضبوط اور توانا کر لیا کہ وہ چاہیں تو آج ہر کسی کو خرید سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی صفوں کے اندر ہمیں آج جو بے چینی، چپقلش اور انتشار نظر آتا ہے وہ بھی اِسی قسم کی کرپشن کا شاخسانہ ہے۔

خان صاحب کے دائیں بائیں ایسے ہی لوگوں کا اثرورسوخ بہت بڑھتا جا رہا ہے اور جن کی وجہ سے پارٹی اپنے بنیادی اصولوں سے ہٹتی جا رہی ہے۔ اُصول پرست، شریف اور ایماندار لوگوں کی پارٹی میں اب کوئی اہمیت اور حیثیت باقی نہیں رہی۔ جس کے پاس جتنا زیادہ مال ہے وہی خان صاحب کی نظر میں مقدم اور محترم ٹھہرا۔ خواہ وہ پیسہ کسی بھی طرح سے حاصل کیا گیا ہو۔ خان صاحب اُن کو مکمل تحفظ فراہم کرتے رہتے ہیں۔ وہ اُن کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ وہ اب اُنہی لوگوں کو احتساب سے بچانے کے لیے ایک نیا سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ حکومتی''ٹی آر اوز'' کو نا ماننے کی منطق کے پیچھے کچھ ایسا ہی ڈر اور خوف چھپا ہوا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ ایک بار پھر احتجاجی سیاست کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آیندہ آنے والے دنوں میں مزید انکشافات بھی سامنے آنے والے ہیں۔

پانامہ پیپرز کی دوسری قسط9 مئی کو آنے والی ہے اور بہت ممکن ہے اُس لسٹ میں ہمارے کئی شرفاء اور بظاہر نیک اور ایماندار لوگوں کے نام بھی شامل ہوں۔ حفظِ ماتقدم کے طور پرجہانگیر خان ترین نے ہزیمت سے بچنے کے لیے اب خود ہی اِس کا اعتراف کر لیا ہے کہ اُن کے بچوں کے نام پر بھی کئی آف شورکمپنیاں بھی ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے ہرکوئی جو آج کل بہت شور مچا رہا ہے منہ چھپاتا دکھائی دے گا۔ ''لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا'' کے مصداق خان صاحب اب خود اپنے ہی جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

اُن کی سار ی پاک دامنی دھری کی دھری رہ گئی جب وہ اپنی پارٹی کے کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لیے نت نئی توجیحات اور وضاحتیں پیش کرتے پھر رہے ہیں۔ قوم یہ اچھی طرح جان چکی ہے کہ سیاست کے اِس گندے حمام میں کوئی بھی نیک اور پارسا نہیں ہے اور کوئی بھی خلوص نیت کے ساتھ بلاامتیاز احتساب کے لیے تیار نہیں ہے۔ جن کی دامن پر پہلے ہی بدعنوانیوں کی کئی داغ لگے ہوئے ہوں وہ بھلا کس طرح بے رحم اوربے لاگ احتساب کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ پانامہ لیکس کا بہانہ بنا کر دراصل ملک کے اندر بے چینی اور بے یقینی کی فضا پیدا کرنا مقصود ہے اور اپنی بچی کچی سیاسی ساکھ کو مزید گرنے سے بچانا ہے۔ بس اِس کے سوا اورکچھ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں