نبی کریم ﷺ کا سفر معراج
حضور سرور کائنات ﷺ کو اس ماہ رجب المرجب میں اﷲ رب العزت نے قربتوں کی ایسی انتہاؤں تک پہنچا دیا۔
حضور سرور کائنات ﷺ کو اس ماہ رجب المرجب میں اﷲ رب العزت نے قربتوں کی ایسی انتہاؤں تک پہنچا دیا جن پر ابتدائے آفرینش سے ابد تک کوئی نہ پہنچا نہ کوئی پہنچ سکے گا۔ واقعہ معراج کا پس منظر یہ ہے کہ محبوب رب العالمین حضور سرور کائناتؐ مکہ اور اس کے مضافات کے مکینوں کے بے رحمانہ اور معاندانہ طرز عمل سے سخت پریشان تھے۔
آپؐ کی طبع نازک پر ان ازلی بدبختوں کی بے وجہ اور اذیت ناک مخالفت سے بڑی گراں باری پائی جاتی تھی۔ اہل طائف نے محسن ِ انسانیت ﷺ کے ساتھ جو سفاکانہ سلوک روا رکھا اس سے حضور نبی کریمؐ مغموم رہتے مگر ایک لحظے کے لیے بھی آپؐ مایوس نہیں ہوئے کیوںکہ آپؐ کی چشمِ دُوررس اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ یہ دینِ فطرت ایک روز ادیانِ عالم پر غالب آکر رہے گا اور حق عیاں اور باطل نہاں ہوکر رہے گا۔
اس لیے اﷲ نے اپنے حبیب مکرمؐ کے احساس ِ تنہائی اور اداسی کو دور کرنے اور اس وقت کے سماجی اور معاشرتی حالات میں انقلاب آگیں تبدیلی لانے کے لیے حبیب دو عالمؐ کو اپنی بارگاہ میں انتہائی قرب کا ایسا محبت آمیز شرف بخشا جو سیدنا آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک کسی نبی اور رسول کو نہیں بخشا گیا۔ ان انبیاء و رسلؑ سے اﷲ کے اظہار قربت کا انداز اور تھا، وہ انبیاء خلیل اﷲ ؑ اور کلیم اﷲ ؑ ضرور تھے مگر حبیب اﷲ حضور سرورِ کائنات ﷺ ہی کو یہ لقب عطا ہوا۔
تما م سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ ستائیس رجب اور حضور ﷺ کی بعثت کے بارہ برس بعد یعنی ہجرت سے ایک سال تین مہینے بعد پیش آیا۔ یوں تو ہر اسلامی مہینہ اپنے جلو میں کوئی نہ کوئی تاریخی تقدیس و تحریم رکھتا ہے مگر عزت و حرمت، شوکت و حشمت اور رفعت و عظمت کے اعتبار سے رجب ایسا عظیم الشان مہینہ ہے جس میں حضور سرور کون و مکاں، انسانِ کامل حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی ذاتِ والا صفات کو اﷲ نے اپنی بارگاہ اقدس میں مہمان بنانے کا شرف بخشا۔ حضورؐ کی منفرد عظمت ملاحظہ فرمائیں کہ سینہ موسیٰ کلیم اﷲ ایک طویل عرصے تک قربِ خالقِ کائنات کے لیے تمناؤں کا مسکن بنا رہا۔
زبان سے رب ارنی کی صداؤں نے عرش عظیم کے گرد ہالہ باندھے رکھا مگر حضرت موسیٰ کے تمام تر اثاثہ ِ نیاز و ناز کے باوجود تواتر سے آسمان سے لن ترانی کی ندا آتی رہی۔ اس لیے کہ ذات ِ خداوندی کی بے عدیل حکمتوں اور مصلحتوں کے نزدیک کلیم اﷲ کا وجود نور ِخدا کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، البتہ جب موسیٰؑ کا اصرار حد سے بڑھا تو طورِ سینا کی فلک بوس چوٹی پر بلا بھیجا کہ کہیں ہیبت خدا وندی کی لمعہ افشانیاں کسی آبادی کو خاکستر نہ کر دیں۔ حضرت موسیٰ ؑ خدائے بزرگ و برتر کی رفعتوں سے آشنائی کا ذوق لیے طور سینا پر تشریف لے گئے مگر نورِ خدائے لم یزل کی ادنیٰ سی تجلی بھی کلیم اﷲ پر وہ گراں باری چھوڑ گئی کہ آپ غش کھا کر گر پڑے اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ نے اپنی انتہائی قربتوں کا یہ لازوال تحفہ روز ازل سے ہی آمنہ کے درِ یتیم ﷺ کے لیے محفوظ رکھا گیا تھا۔
مقام حبیب یہ ہے کہ مظاہرِ فطرت کی بُوقلمونیاں حضور ﷺ کے رُخ انور پر نثار ہونے کو بے قرار ہیں۔ ذراتِ خاکی حضور ﷺ کی انگشتِ مبارک کے ایک اشارے پر ہی ستاورں کا روپ دھارنے کے لیے تیار ہیں۔
حضور اپنی جبین مبارک اﷲ رب العزت کے حضور جھکائے ہوئے ہیں اس دوران سردارِ ملائکہ جناب جبریلؑ امین بہ صد احترام حاضر ہوکر سلام عرض کرتے ہیں کہ اے دانائے سُبل، اے مولائے کُل، اے ختم ِ رسل، اے ناموسِ ماوطین، اے رحمت اللعالمین، اے سراج مکان و لامکاں، اے اُمی حکیم، اے خُلق کی بُرھان ِ عظیم، اے صاحب ِ لطفِ عمیم، اے حبیب ربِ کریم، اے نازش ِتابشِ نجوم و قمر، اے فخرِ جمالِ سحر، اے عالمِ انسانیت کے دلوں کی دھڑکنوں کے مکین، اے اولاد آدم کی فتح ِ مبین، اے رشکِ جان و بہار، اے لطافتوں کی حسین و مقدس جوئے بار، اے آفتابِ تیرہ خاک داں، اے سرِ وحدت کے رازداں، اے آرائشِ آب و گل کا حسنِ جاوداں، اے مرکز محبت ِ ملائکہ، اے حسینان ِ عالم میں حسین تر، اے محبوب ِ ربِ دو جہاں خدائے عزوجل آپ ﷺ کو عرشِ اعظم پر بلا کر آپؐ کے جمالِ جہاں آرا کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں۔
اسرارِ کائنات کے محرم، فخرِ موجودات حضور سرور ِ کونین، وجہِ حسن ِ تقویم روزگار حضور ﷺ براق پر فروکش ہوتے ہیں اور چشم ِ زدن میں مسجد اقصیٰ میں تشریف لے جاتے ہیں۔ کیوں کہ آپؐ کے سفر ارتفاع کی منازل اور ٹھہراو کا تعین ٹھیک حکمت خدا کے مطابق تھا وہاں آدمؑ سے حضرت مسیحؑ تک انبیاء و رسلؑ آپؐ کی زیارت و استقبال کے لیے بے چین کھڑے ہیں۔
امام الا انبیاء ﷺ کے سر اقدس پر امامت کا تاج سجایا گیا۔ چشم ِ فلک اشک ہائے تشکر و امتنان لیے حضور ﷺ کی عظمت و رفعت اور کمال و جمال کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ تمام انبیاء اور مرسلینؑ اس نبیِ رحمت ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں، جس کا امتی ہونے کی وہ تمنا کیا کرتے تھے۔ یہاں اﷲ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ اوجِ کمال مصطفی ﷺ کا بھی اظہار و اقرار ہو رہا ہے۔ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد حضور ﷺ کے جسمانی اوجِ کمال کا ایسا سفر شروع ہوا جس نے حیات انسانی کے فکری رجحانات کا رخ موڑ دیا۔ حضرت علامہ اقبال نے ایسی لامثال بات کہی جس پر افلاطونِ زمن اپنی طلاقت نثار کرتے رہیں گے۔
اقبال فرماتے ہیں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
گویا معراجِ مصطفی ﷺ نے مسجود ملائک حضرت انسان کی تخیلاتی قوتوں اور رفعتوں کو وہ پرِ پرواز بخشا کہ عقاب بھی رشک کرنے لگے۔ نسلِ آدمیت کو وہ توقیر بخشی گئی کہ کائناتِ عالم کی ہر چیز اس کی عظمت کے سامنے دم بہ خود اور فردوس بہ داماں نظر آنے لگی۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور خورشید کی کرنوں کو مسخر کرنے کا جذبہ بے کرانہ سینۂ آدمیت میں کروٹیں لینے لگا۔ واقعۂ معراج نے انسانی تفکر و تدبر کو وہ مہمیز لگائی کہ اس کا خوابیدہ ذوق جستجو منزل کو پالینے کے لیے بے قرار ہوگیا۔
زمین پر رہتے ہوئے اشہب ِ انسانی بصیرت و دانش، خلاؤں کی جہتوں سے آشنا ہوکر خود اپنے ارتقا کا تعین کرنے لگا۔ دنیا بھر کے صاحبان ِفراست آج تک اس حیرت میں سوچتے ہوئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق بعد از خدا بزرگ توئی کی مصداق ہستی راتوں رات آسمانوں سے بھی اوپر مظاہر ِ خدا وندی کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے بعد واپس تشریف لے آئی۔ اس دوران زنجیر بھی ہلتی رہی، بستر بھی رہا گرم یعنی ساری دنیا کی مخلوق نیند کی وادیوں میں کھوئی رہی، نظام کائنات بھی رواں دواں رہا بلاشبہ یہ منفرد اعجاز مصطفی ﷺ مغرب کے مدبرین و مفکرین کو قیامت تک جھنجھوڑتا رہے گا۔
تو جو چاہے تو ہر شب ہو مثالِ شب ِاسریٰ
تیرے لیے دو چار قدم عرشِ بریں ہے
آپؐ کی طبع نازک پر ان ازلی بدبختوں کی بے وجہ اور اذیت ناک مخالفت سے بڑی گراں باری پائی جاتی تھی۔ اہل طائف نے محسن ِ انسانیت ﷺ کے ساتھ جو سفاکانہ سلوک روا رکھا اس سے حضور نبی کریمؐ مغموم رہتے مگر ایک لحظے کے لیے بھی آپؐ مایوس نہیں ہوئے کیوںکہ آپؐ کی چشمِ دُوررس اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ یہ دینِ فطرت ایک روز ادیانِ عالم پر غالب آکر رہے گا اور حق عیاں اور باطل نہاں ہوکر رہے گا۔
اس لیے اﷲ نے اپنے حبیب مکرمؐ کے احساس ِ تنہائی اور اداسی کو دور کرنے اور اس وقت کے سماجی اور معاشرتی حالات میں انقلاب آگیں تبدیلی لانے کے لیے حبیب دو عالمؐ کو اپنی بارگاہ میں انتہائی قرب کا ایسا محبت آمیز شرف بخشا جو سیدنا آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک کسی نبی اور رسول کو نہیں بخشا گیا۔ ان انبیاء و رسلؑ سے اﷲ کے اظہار قربت کا انداز اور تھا، وہ انبیاء خلیل اﷲ ؑ اور کلیم اﷲ ؑ ضرور تھے مگر حبیب اﷲ حضور سرورِ کائنات ﷺ ہی کو یہ لقب عطا ہوا۔
تما م سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ ستائیس رجب اور حضور ﷺ کی بعثت کے بارہ برس بعد یعنی ہجرت سے ایک سال تین مہینے بعد پیش آیا۔ یوں تو ہر اسلامی مہینہ اپنے جلو میں کوئی نہ کوئی تاریخی تقدیس و تحریم رکھتا ہے مگر عزت و حرمت، شوکت و حشمت اور رفعت و عظمت کے اعتبار سے رجب ایسا عظیم الشان مہینہ ہے جس میں حضور سرور کون و مکاں، انسانِ کامل حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی ذاتِ والا صفات کو اﷲ نے اپنی بارگاہ اقدس میں مہمان بنانے کا شرف بخشا۔ حضورؐ کی منفرد عظمت ملاحظہ فرمائیں کہ سینہ موسیٰ کلیم اﷲ ایک طویل عرصے تک قربِ خالقِ کائنات کے لیے تمناؤں کا مسکن بنا رہا۔
زبان سے رب ارنی کی صداؤں نے عرش عظیم کے گرد ہالہ باندھے رکھا مگر حضرت موسیٰ کے تمام تر اثاثہ ِ نیاز و ناز کے باوجود تواتر سے آسمان سے لن ترانی کی ندا آتی رہی۔ اس لیے کہ ذات ِ خداوندی کی بے عدیل حکمتوں اور مصلحتوں کے نزدیک کلیم اﷲ کا وجود نور ِخدا کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، البتہ جب موسیٰؑ کا اصرار حد سے بڑھا تو طورِ سینا کی فلک بوس چوٹی پر بلا بھیجا کہ کہیں ہیبت خدا وندی کی لمعہ افشانیاں کسی آبادی کو خاکستر نہ کر دیں۔ حضرت موسیٰ ؑ خدائے بزرگ و برتر کی رفعتوں سے آشنائی کا ذوق لیے طور سینا پر تشریف لے گئے مگر نورِ خدائے لم یزل کی ادنیٰ سی تجلی بھی کلیم اﷲ پر وہ گراں باری چھوڑ گئی کہ آپ غش کھا کر گر پڑے اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ نے اپنی انتہائی قربتوں کا یہ لازوال تحفہ روز ازل سے ہی آمنہ کے درِ یتیم ﷺ کے لیے محفوظ رکھا گیا تھا۔
مقام حبیب یہ ہے کہ مظاہرِ فطرت کی بُوقلمونیاں حضور ﷺ کے رُخ انور پر نثار ہونے کو بے قرار ہیں۔ ذراتِ خاکی حضور ﷺ کی انگشتِ مبارک کے ایک اشارے پر ہی ستاورں کا روپ دھارنے کے لیے تیار ہیں۔
حضور اپنی جبین مبارک اﷲ رب العزت کے حضور جھکائے ہوئے ہیں اس دوران سردارِ ملائکہ جناب جبریلؑ امین بہ صد احترام حاضر ہوکر سلام عرض کرتے ہیں کہ اے دانائے سُبل، اے مولائے کُل، اے ختم ِ رسل، اے ناموسِ ماوطین، اے رحمت اللعالمین، اے سراج مکان و لامکاں، اے اُمی حکیم، اے خُلق کی بُرھان ِ عظیم، اے صاحب ِ لطفِ عمیم، اے حبیب ربِ کریم، اے نازش ِتابشِ نجوم و قمر، اے فخرِ جمالِ سحر، اے عالمِ انسانیت کے دلوں کی دھڑکنوں کے مکین، اے اولاد آدم کی فتح ِ مبین، اے رشکِ جان و بہار، اے لطافتوں کی حسین و مقدس جوئے بار، اے آفتابِ تیرہ خاک داں، اے سرِ وحدت کے رازداں، اے آرائشِ آب و گل کا حسنِ جاوداں، اے مرکز محبت ِ ملائکہ، اے حسینان ِ عالم میں حسین تر، اے محبوب ِ ربِ دو جہاں خدائے عزوجل آپ ﷺ کو عرشِ اعظم پر بلا کر آپؐ کے جمالِ جہاں آرا کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں۔
اسرارِ کائنات کے محرم، فخرِ موجودات حضور سرور ِ کونین، وجہِ حسن ِ تقویم روزگار حضور ﷺ براق پر فروکش ہوتے ہیں اور چشم ِ زدن میں مسجد اقصیٰ میں تشریف لے جاتے ہیں۔ کیوں کہ آپؐ کے سفر ارتفاع کی منازل اور ٹھہراو کا تعین ٹھیک حکمت خدا کے مطابق تھا وہاں آدمؑ سے حضرت مسیحؑ تک انبیاء و رسلؑ آپؐ کی زیارت و استقبال کے لیے بے چین کھڑے ہیں۔
امام الا انبیاء ﷺ کے سر اقدس پر امامت کا تاج سجایا گیا۔ چشم ِ فلک اشک ہائے تشکر و امتنان لیے حضور ﷺ کی عظمت و رفعت اور کمال و جمال کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ تمام انبیاء اور مرسلینؑ اس نبیِ رحمت ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہیں، جس کا امتی ہونے کی وہ تمنا کیا کرتے تھے۔ یہاں اﷲ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ اوجِ کمال مصطفی ﷺ کا بھی اظہار و اقرار ہو رہا ہے۔ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد حضور ﷺ کے جسمانی اوجِ کمال کا ایسا سفر شروع ہوا جس نے حیات انسانی کے فکری رجحانات کا رخ موڑ دیا۔ حضرت علامہ اقبال نے ایسی لامثال بات کہی جس پر افلاطونِ زمن اپنی طلاقت نثار کرتے رہیں گے۔
اقبال فرماتے ہیں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
گویا معراجِ مصطفی ﷺ نے مسجود ملائک حضرت انسان کی تخیلاتی قوتوں اور رفعتوں کو وہ پرِ پرواز بخشا کہ عقاب بھی رشک کرنے لگے۔ نسلِ آدمیت کو وہ توقیر بخشی گئی کہ کائناتِ عالم کی ہر چیز اس کی عظمت کے سامنے دم بہ خود اور فردوس بہ داماں نظر آنے لگی۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور خورشید کی کرنوں کو مسخر کرنے کا جذبہ بے کرانہ سینۂ آدمیت میں کروٹیں لینے لگا۔ واقعۂ معراج نے انسانی تفکر و تدبر کو وہ مہمیز لگائی کہ اس کا خوابیدہ ذوق جستجو منزل کو پالینے کے لیے بے قرار ہوگیا۔
زمین پر رہتے ہوئے اشہب ِ انسانی بصیرت و دانش، خلاؤں کی جہتوں سے آشنا ہوکر خود اپنے ارتقا کا تعین کرنے لگا۔ دنیا بھر کے صاحبان ِفراست آج تک اس حیرت میں سوچتے ہوئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق بعد از خدا بزرگ توئی کی مصداق ہستی راتوں رات آسمانوں سے بھی اوپر مظاہر ِ خدا وندی کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے بعد واپس تشریف لے آئی۔ اس دوران زنجیر بھی ہلتی رہی، بستر بھی رہا گرم یعنی ساری دنیا کی مخلوق نیند کی وادیوں میں کھوئی رہی، نظام کائنات بھی رواں دواں رہا بلاشبہ یہ منفرد اعجاز مصطفی ﷺ مغرب کے مدبرین و مفکرین کو قیامت تک جھنجھوڑتا رہے گا۔
تو جو چاہے تو ہر شب ہو مثالِ شب ِاسریٰ
تیرے لیے دو چار قدم عرشِ بریں ہے