کوئی مانے یا نہ مانے۔۔۔ ہم تو ’’ملک‘‘ ہیں

خودمختار ریاست ہونے کے دعوے دار دنیا کے 10خطےجنھیں ملک کی حیثیت سے ماننے پر کوئی تیار نہیں

خودمختار ریاست ہونے کے دعوے دار دنیا کے 10خطےجنھیں ملک کی حیثیت سے ماننے پر کوئی تیار نہیں ۔ فوٹو : فائل

ہمارا کرۂ ارض ہمارا خاندان ہے۔ اس کے سینے پر بسنے والے تمام انسان انسانیت کے ناتے ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، جب کہ مختلف ممالک اس خاندان میں ایک دوسرے سے تعارف کا ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نسلی، ثقافتی اور مذہبی تفاوت کے باوجود کرۂ ارض کے باسیوں کو کسی نہ کسی صورت ایک دوسرے کی ضرورت رہتی ہے اور اسی بنیاد پر وہ ایک دوسرے کے ممالک کا سفر کرتے ہیں۔

چاہے وہ سیاحت ہو یا کاروباری سفر یا پھر اعلیٰ تعلیم کا حصول ہو یا مذہبی بنیادوں پر زیارتوں کا معاملہ ہو، ہر انسان ایک دوسرے سے کسی نہ کسی صورت نہ صرف جڑا ہوا ہے بل کہ جغرافیائی حدود وقیود کو ختم کرنے کے لیے اس نے قانون وضع کیے ہوئے ہیں جنہیں، پورا کرنے کے بعد ایک ملک کا شہری دوسرے ملک میں بہ آسانی داخل ہوسکتا ہے۔

اس کے باوجود دنیا میں کچھ ایسے ممالک یا علاقے بھی ہیں، جو اپنے طور پ مکمل ملک کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن مختلف وجوہات کے باعث ابھی تک یہ ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ممبر بننے سے محروم ہیں اور ان کا پرچم نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر ایک سو ترانوے ممالک کے پرچموں میں جگہ بنانے سے محروم ہے۔ گویا یہ ممالک ملک ہوتے ہوئے بھی ملک نہیں ہیں۔ زیرنظر تحریر میں ایسے ہی منفرد ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر سیاحوں کے لیے بھی پُرکشش مقام ہیں۔

1 ۔گرین لینڈ(Greenland)
برف کی عظیم سطحوں پر مشتمل گرین لینڈ دنیا کی سب سے بڑی غیرآزاد ریاست ہے جو ڈنمارک کے شاہی خاندان کے زیرتسلط ہے۔ گرین لینڈ نہ صرف سب سے بڑی غیرآزاد ریاست ہے بل کہ اپنے رقبے اور جغرافیائی محل وقوع کے باعث دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ بھی ہے، جو زمانہ قدیم سے مختلف آبادکاروں کا مسکن رہا ہے۔ ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ دوئم نے سن دو ہزار نو میں گرین لینڈ کا دورہ کرنے کے بعد اسے جزوی خودمختاری دینے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت ماسوائے امور خارجہ ، اموردفاع اور معاشی شعبہ کے تمام دیگر امور مملکت گرین لینڈ کی پارلیمنٹ کو حاصل ہوگئے ہیں۔

تاہم گرین لینڈ ایک خودمختار ریاست ہونے کے باوجود عالمی سطح پر ڈنمارک ہی کا حصہ ہے۔ بحرمنجمد شمالی اور بحراوقیانوس کے درمیان واقع اس ریاست کا مجموعی رقبہ اکیس لاکھ چھیاسٹھ ہزار چھیاسی مربع کلومیٹر ہے، جس میں سترہ لاکھ پچپن ہزار چھے سو سینتیس مربع کلومیٹر رقبے پر برف ہے۔ اس طرح گرین لینڈ کے کُل رقبے کا اکیاسی فی صد برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ آئینی بادشاہت کے زیرانتظام چلنے والے اس جمہوری نظام حکومت میں شہریوں کو ہر طرح کی آئینی آزادی حاصل ہے۔ واضح رہے کہ گرین لینڈ کی آبادی محض چھپن ہزار کے لگ بھگ ہے۔

گرین لینڈ کے قریب ترین پڑوسی ممالک کینیڈا اور آئس لینڈ ہیں۔ ایک طرف دنیا کے دیگر ممالک کی جانب سے ملک تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود گرین لینڈ اپنے مخصوص محل وقوع اور پوشیدہ معدنی ذخائر کے باعث نہایت اہمیت رکھتا ہے تو دوسری طرف برف سے ڈھکے اس انتہائی خوب صورت اور دیدہ زیب مناظر سے آراستہ خطہ زمین پر سال بھر سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔

2 ۔صومالی لینڈ (Somaliland)
خلیج عدن کے شمالی ساحل سے متصل یہ افریقی خطہ زمین مکمل ملک کی خصوصیات کا حامل ہونے کے باوجود ابھی تک خودمختار ملک کا درجہ حاصل کرنے سے محروم ہے۔ مسلم آبادی پر مشتمل صومالی لینڈ نے انیس سو اکناوے میں صومالیہ کے فوجی آمر سیاد بری کی آمریت سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ ابھی تک اپنے جداگانہ وجود کو تسلیم کرانے میں ناکام ہے۔

واضح رہے کہ جمہوریہ صومالی لینڈ کی غیرتسلیم شدہ حکومت کی اپنی پارلیمنٹ، کرنسی اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کا سسٹم بھی ہے، جب کہ حکومت اپنے ملک کے شہریوں کو بایو میٹرک پاسپورٹ بھی جاری کرتی ہے۔ صومالی لینڈ کی آبادی چالیس لاکھ ہے، جب کہ رقبہ ایک لاکھ سینتیس ہزار چھے سو مربع کلومیٹر ہے۔ صومالی لینڈ کی معیشت کا انحصار اونٹ اور بھیڑ بکریوں کی تجارت پر ہے۔ صومالیہ کی سرحد پر واقع ہونے کے باعث صومالی لینڈ کی سرحدیں ایتھوپیا اور جبوتی کی سرحدوں سے متصل ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے صومالیہ میں جاری خانہ جنگی اور بدامنی کے باعث یہ خطہ زمین باقی ماندہ دنیا سے لاتعلق نظر آتا ہے۔

3 ۔باروٹسی لینڈ(Barotseland)
براعظم افریقہ میں چاروں جانب سے پانچ مختلف افریقی ممالک میں گھرا یہ خطہ بھی آزاد اور خودمختار مملکت ہونے کا دعوے دار ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک ایسا خطۂ زمین ہے جو افریقہ کے ''دریائے زام بزی'' کے نشیب میں واقع ہے اور جب دریا کا پانی چڑھتا ہے تو اس علاقے کے افراد پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور پانی اترنے پر واپس آجاتے ہیں۔ اس بنا پر اسے ''متحرک ریاست'' بھی کہا جاتا ہے۔

باروٹسی لینڈ نے انیس سو چونسٹھ میں ایک معاہدے کے ذریعے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔ تاہم اس وقت کی عالمی طاقتوں نے اسے آزاد کرنے کے بجائے پڑوسی ملک زمبیا کے حوالے کردیا تھا۔ اس عمل کوباروٹسی لینڈ کے عوام نے رد کرتے ہوئے دوہزار بارہ میں زمبیا سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہاں کے شاہی خاندان نے خودمختار مملکت کا اعلان کردیا۔ تاہم تادم تحریر دنیا کے کسی ملک نے باروٹسی لینڈ کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ تقریباً پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل اس خطے کا رقبہ تین لاکھ اڑسٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے، جس میں موجود وسیع عریض لیوا نیشنل پارک ایک اہم سیاحتی مقام ہے، جہاں قدرتی ماحول میں بھاگتے دوڑتے جانوروں کی حرکات سے محظوظ ہوا جاسکتا ہے۔ تاہم مناسب سہولیات کی عدم دست یابی کے باعث لیوا نیشنل پارک میں سیاحوں کی آمد محدود ہے۔

4 ۔ ٹرینس نیسٹریا (Transnistria )
مشرقی یورپ کے ملک یوکرین سے نکلنے والے دریائے ڈینسٹر کے کنارے ''ٹرینس نیسٹریا'' نام کا ایک خطہ زمین ہے، جس کے شہریوں نے انیس سو نوے سے آزادی کا اعلان کررکھا ہے۔ انہوں نے یہ آزادی سقوط سوویت یونین کے بعد آزاد ہونے والی ریاست مالدووا سے حاصل کی ہے۔ تاہم ان کے اس اعلان آزادی کو ابھی تک عالمی سطح پر پذیرائی نہیں ملی ہے۔

واضح رہے کہ ٹرینس نیسٹریا کے عوام نے اپنے لیے مالدووا کے نظام حکومت کے متوازی صدارتی جمہوریہ نظام حکومت منتخب کیا ہوا ہے۔ لاتعداد خوب صورت مناظرِ فطرت سے آراستہ اس خطہ زمین کی آبادی پانچ لاکھ انیس ہزار ہے، جب کہ رقبہ چار ہزار ایک سو تریسٹھ مربع کلومیٹر ہے۔ ٹرینس نیسٹریا کا مجوزہ دارالحکومت ٹیراسپول ہے جہاں آج بھی سیاحوں کو سابق سوویت یونین کے آثارخوش آمدید کہتے ہیں۔

5 ۔ میسکیتو (Miskito )
وسطی امریکا کے ممالک نکاراگوا کے شمال مشرق اور ہنڈراس کے انتہائی مشرق میں موسکیتا قبیلے کے لوگ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ عرصۂ دراز سے آباد اس قبیلے نے دو ہزار نو میں اپنے سیاسی قائد ہیکٹر ولیمز کی قیادت میں آزادی کا اعلان کرکے ''خودمختار ریاست برائے موسکیتا کمیونٹی'' قائم کی، لیکن تاحال اس ریاست کا عالمی سطح پر کوئی ہم نوا نہیں ہے۔


ہیکٹر ولیمز کی سربراہی میں کام کرنے والی پارلیمنٹ، جسے کونسل آف ایلڈرز بھی، کہا جاتا ہے، کو توقع ہے کہ وہ عنقریب اپنی خودمختار حیثیت دنیا سے منوالیں گے۔ معاشی طور پر ابتری کے شکار اس خطۂ زمین میں داخل ہونے کا صرف ایک راستہ ہے، جو جزیرے ''کورن'' سے ہوتا ہوا جاتا ہے، جہاں پر سیاح زیرآب جاکر سمندری مناظر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

6 ۔ آئل آف مین (Isle of Man)
لگ بھگ پچاسی ہزار نفوس پر مشتمل یہ جزیرہ برطانیہ کی ملکیت ہے، لیکن اس کے باشندے خود کو برطانیہ سے علیحدہ ملک قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ نظام مملکت چلانے کے ان کے اپنے اصول ہیں، جو برطانیہ کے تابع نہیں ہیں۔ تاہم صدیوں سے آباد اس جزیرے کے وزارت خارجہ اور دفاع کے معاملات برطانیہ کے ذمے ہیں برطانیہ اور آئرلینڈ کے درمیان بحیرہ آئرش میں واقع اس جزیرے کا رقبہ پانچ سو بہتر مربع کلومیٹر ہے۔ جمہوری پارلیمانی آئینی بادشاہت پر مشتمل نظام حکومت کے حامل اس نیم خودمختار جزیرے پر سیاحوں کے لیے سائیکلنگ، موٹرسائیکلنگ اور آبی کھیلوں سمیت تفریح کے کثیر مواقع میسر ہیں۔

7 ۔ لا کوتھ (Lakotah)
امریکا کی پانچ ریاستوں سے متصل لاکوتھ کا خطہ مقامی ''سائیواوکس'' قبائل کا آبائی علاقہ ہے۔ اٹھارہ سو اڑسٹھ میں امریکی حکومت نے سائیواوکس قبائل کو ایک معاہدے کے تحت مذہبی رسومات کے لیے مذہبی پہاڑی ''بلیک ہل'' ہمیشہ کے لیے ان کی ملکیت میں دے دی تھی۔ تاہم کچھ عرصے بعد جب اس مقام سے سونا نکلنے لگا تو امریکی حکومت نے فیصلہ بدل کر اسے اپنی ملکیت میں لے لیا، جس کے بعد سے یہ خطہ متنازعہ بنا ہوا ہے۔

تقریباً ڈیڑھ صدی بعد دو ہزار سات میں مقامی قبائل کی چوتھی نسل نے ''جمہوریہ لاکوتھ'' قائم کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور نظام حکومت چلانے کی کوشش شروع کی ہے۔ تاہم فی الحال دنیا کے کسی بھی ملک نے اس خودمختاری کو منظور نہیں کیا ہے۔ تقریباً دو لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط اس علاقے کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ امریکا کی پانچ ریاستوں شمالی ڈکوٹا، جنوبی ڈکوٹا، نیبراسکا، وائیومنگ اور مونٹانا سے متصل ہونے کے باعث اس خطے میں سیاحوں کے لیے بھانت بھانت کی دل چسپیاں پھیلی ہوئی ہیں۔

8 ۔ تبت (Tibet)
تبت دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کا جائے وقوع ہے۔ سطح سمندر سے اوسطاً چار ہزار نوسو میٹر بلند اس مقام کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خطہ چین کی حکومت اور تبتی عوام کے درمیان عرصہ دراز سے متنازعہ بنا ہوا ہے۔ انیس سو بارہ سے انیس سو اکیاون تک ایک آزاد ملک کی حیثیت رکھنے والا یہ خطہ اب چین کی ملکیت میں ہے۔ تاہم تبت کے مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے مذہبی پیشوا چودھویں دلائی لاما ''تنزن گیاتسو'' کی سرکردگی میں آج بھی ایک آزاد مملکت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

تاہم ان کے اس دعوے کی اب تک دنیا کے کسی بھی ملک کی جانب سے شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ تنزن گیاتسو کے زیرنگرانی مرکزی تبتی حکومت کام کرتی ہے، جس کا صدر دفتر شمالی ہندوستان کے شہر دھرم شالہ میں ہے۔ چاروں جانب فلک بوس پہاڑوں سے گھرے اس خطے کا اہم ترین شہر لہاسا ہے، جہاں بدھ مت کے پیروکاروں کا سب سے متبرک ''جوک ہنگ'' مندر ہے، جہاں سال بھر عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔

9 ۔ مغربی پاپوا (West Papua)
انڈونیشیا کے جزیرے نیوگنییا کے مغرب میں مغربی پاپوا کا علاقہ ہے۔ یہ خوب صورت علاقہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ولندیزیوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ اس خطے میں انیس سو ساٹھ کی دہائی ہی سے آزادی کی تحریک منظم پیمانے پر جاری ہے۔

لندن میں مقیم اس تحریک کے مرکزی راہ نما اور قبائلی سردار ''بینی ویندا'' اور ان کے ساتھی یہاں کا نظام زندگی ایک خودمختار ریاست کے طور پر چلانے کے دعوے دار ہیں۔ تاہم بین الااقوامی سطح پر اس دعوے کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ چار لاکھ بیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے اس علاقے میں قبائل کی آبادی چوالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ وہ سیاح اور ماہرین جو منفرد پرندوں اور انوکھے پھولوں کے شوقین ہیں ان کے لیے مغربی پاپوا کا علاقہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

10۔ موراوری (Murrawarri)
آسٹریلیا میں بسنے والے اس خطے کے قدیم باسیوں کو ''ایبو ریجینل'' کہا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے دو صوبے نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنزلینڈ میں بسنے والے ایبوریجینل قبیلے کے وہ افراد جن کا موراوری نسل سے تعلق ہے، نے سن دو ہزار تیرہ سے اپنی خود مختار ریاست بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے ان کے مرکزی راہ نما اور عبوری کونسل کے چیئرمین''فرڈ ہوپر'' کا کہنا ہے کہ ان کی ریاست کو عنقریب دنیا بھر کے پُرامن ممالک تسلیم کرلیں گے۔ تقریباً اکیاسی ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط اس مجوزہ ریاست سے متصل کلگوا نیشنل پارک سیاحوں اور مناظر فطرت سے لطف اندوز ہونے والے افراد کے لیے انتہائی پُرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔

غیر نمائندہ اقوام اور لوگوں کی تنظیم
Unrepresented Nations and Peoples Organization



جس طرح اقوام متحدہ دنیا بھر کے باضابطہ ممالک کی نمائندہ تنظیم کی حیثیت رکھتی ہے بالکل اسی طرح گیارہ فروری انیس سواکناوے کو اسٹونیا سے تعلق رکھنے والے ماہرسماجیات اور سیاست داں ''لین آرٹ مال'' نے اپنے دیگر دو ساتھیوں مشرقی ترکستان کے ''ایرکن الپتکن'' اور تبت سے تعلق رکھنے وا لے ''لوڈی گیاری'' کے ساتھ مل کر Unrepresented Nations and Peoples Organization ''یو این پی او'' (UNPO) یعنی ''غیرنمائندہ اقوام کی تنظیم'' کی داغ بیل ڈالی۔ یواین پی او ایک ایسی تنظیم ہے جس کا نصب العین غیرتسلیم شدہ اقلیتوں ، مختلف گروہوں اور مقبوضہ علاقوں کو حق خود ارادیت دلانے میں ان کی معاونت ا ور وکالت فراہم کرنا ہے اور اس حوالے سے وہ اپنے ارکان کو تربیت بھی فراہم کرتی ہے۔ تنظیم کا مرکزی صدر دفتر ہالینڈ کے شہر ہیگ میں بین الااقوامی عدالت برائے انصاف اور بین الااقوامی عدالت برائے جرائم کے پہلو میں واقع ہے۔



تنظیم کی ویب سائٹ پر موجود ارکان کی تعداد بیالیس ہے۔ یہ غیرتسلیم شدہ ریاستوں کے ممبرز ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کے خطے کو عالمی سطح پر آزاد اور خودمختار ریاست کا درجہ دیا جائے۔ اس فہرست میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی تین ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو اپنی جداگانہ حیثیت منوانے کے لیے یو این پی او میں شامل ہیں۔ ان تنظیموں میں چودہ اپریل دوہزار آٹھ سے بلوچستان نیشنل پارٹی، یکم اکتوبر دوہزار آٹھ سے گلگت بلتستان ڈیموکریٹک الائنس اور پچیس مارچ دو ہزار آٹھ سے ورلڈ سندھی انسٹی ٹیوٹ نے ''یواین پی او'' میں شمولیت اختیار کی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں یو این پی او کے چھے ایسے ملک بھی ممبر رہے ہیں جو اب آزاد ملک کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس وقت اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ ان ممالک میں آرمینیا، اسٹونیا، جارجیا، لٹویا، پالاؤ اور مشرقی تیمور شامل ہیں، جنہیں اپنی آزادی کی تحریک کے دوران یو این پی او کی بھرپور قانونی اور اخلاقی معاونت حاصل تھی۔
Load Next Story