’’کاہوکیا‘‘ شمالی امریکا کا پہلا شہر
جو کبھی امریکا کا روم کہلاتا تھا، آج بُھلادیا گیا ہے
''کاہوکیا'' ماضی قدیم کا وہ شہر ہے جو کبھی یورپ کے متعدد شہروں بہ شمول لندن سے بھی بڑا تھا۔ اس شہر میں کم و بیش 120پہاڑیاں یا ٹیلے ہوا کرتے تھے، جن پر 10 سے 20 ہزار افراد آباد تھے جو لگ بھگ 6مربع میل (16مربع کلومیٹر) پر پھیلے ہوئے تھے۔ یہ شہر دریائے مسسس سپی کے پار آج کے دور کے سینٹ لوئی شہر کے ساتھ واقع ہے اور میکسیکو کے شمال میں کولمبیائی عہد سے پہلے سب سے بڑا شہر تھا۔ ''کاہوکیا'' کے مکین اس دور میں تحریری نظام استعمال نہیں کرتے تھے، اس لیے اسے سمجھنے کے لیے آج کے محقق صرف آرکیالوجی پر انحصار کرتے ہیں۔
٭تحقیقی مطالعہ:اس کے ثقافتی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ چنکی نام کا ایک کھیل کھیلتے تھے اور کیفین سے بھرا ہوا مشروب پیتے تھے۔ ''کاہوکیا'' کی پہاڑیاں اور ٹیلے کولنز ویل، الینوئس کے قریب واقع ہیں۔ ماضی کا یہ شہر 600 سے1400عیسوی کے درمیان اس کرۂ ارض پر موجود تھا۔ یہاں وسطی اور مشرقی و شمالی امریکا میں بڑے اور مہذب معاشروں نے ترقی کی۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں واقع 20عالمی ثقافتی ورثوں والی سائٹس میں شامل ہے۔ یہاں لکڑی سے بنا ہوا ایک ایسا ڈھانچا بھی کھڑا ہے جو بالکل اسٹون ہینج جیسا ہے۔
٭Monks Mound : Monks Mound ''کاہوکیا'' میں ایک طرح کا ہرم ہے، الینوئس میں واقع یہ مقام اب یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ میں شامل ہے۔1988میں بتایا گیا تھا کہ یہ ہرم یعنی مونکس ماؤنڈ مٹی سے تیار کردہ لگ بھگ 100 فیٹ بلند، 955 فیٹ طویل اور 775 فیٹ چوڑا ہے۔ اس ٹیلے کا پلیٹ فارم خاصا مستحکم ہے، جسے لکڑی کے ایک ڈھانچے نے سہارا دے رکھا ہے۔ اہرام مصر تو پتھر سے تیار کیے گئے تھے، مگر یہ ہرم یعنی مونکس ماؤنڈ پورا کا پورا مٹی سے تیار کیا گیا ہے اور یہ مٹی ٹوکریوں میں بھربھر کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئی ہوگی۔ اس ہرم کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ اس پر گرنے والی بارش کا پانی اوپر جمع ہونے کے بجائے تیزی سے بہہ جائے۔
٭ ''کاہوکیا'' کی آبادی اور اس کی مرکزی حیثیت:اپنے بام عروج پر ''کاہوکیا'' اپنے قرب و جوار میں واقع میکسیکو کے شہروں میں سب سے بڑا شہری مرکز تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں اس کی آبادی کافی کم تھی، مگر بعد میں جب اس نے ترقی کے مدارج طے کرنے شروع کیے تو اس کی آبادی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ جب یہ شہر اپنی ترقی کے عروج پر پہنچا تو اس کی آبادی 8000 سے40000کے درمیان پہنچ گئی تھی۔ اس زمانے میں یہ آبادی کافی زیادہ تھی۔ لیکن اس کی آبادی کا بڑا حصہ مضافاتی علاقوں اور دیہات میں رہائش پذیر تھا، جو اس کے شہری مراکز کو کھانے پینے کی اور دیگر چیزیں فراہم کرتی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 1250عیسوی میں اس کی آبادی لندن کی آبادی سے بھی زیادہ تھی۔ اگر ہم اس کی آبادی کے اعدادوشمار کو درست مان لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ''کاہوکیا'' ریاست ہائے متحدہ امریکا میں 1800تک سب سے بڑا شہر تھا، بعد میں فلاڈیلفیا کی آبادی 40000 سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ اس کی شکار گاہیں 2,200 ایکڑ یا 3.5مربع میل پر محیط تھیں۔
٭ ''کاہوکیا'' کے تاریخی ٹیلے: کچھ تاریخی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شہر میں لگ بھگ 80ٹیلے یا چھوٹی پہاڑیاں تھیں، مگر قدیم شہر کی حدود اس سے کہیں زیادہ تھیں۔ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ ان ٹیلوں یا پہاڑیوں کی تعداد 120کے قریب تھی، مگر وہ سب انسانی ہاتھ کے بنائے ہوئے تھے۔
اپنے عروج اور خوش حالی کے دور میں ''کاہوکیا'' میں انسان نے پتھر اور مٹی سے اپنی مہارت کے بڑے جوہر دکھائے تھے اور طرح طرح کی چیزیں تیار کی تھیں جن سے وہ مختلف کام لیتے تھے۔ ماضی کے ''کاہوکیا'' میں دریائے مسس سپی کی اس دور کی ترقی یافتہ تہذیبوں نے جنم لیا، آج یہ شہر وسطی اور جنوب مشرقی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شامل ہے۔ آج کا ''کاہوکیا'' اپنے ٹیلوں اور چھوٹی پہاڑیوں کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتا ہے، اس کے ان پیچیدہ ٹیلوں کو ماہرین آثاریات بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں، ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ماضی کے اہل ''کاہوکیا'' نے انہیں کس طرح بنایا تھا۔ دنیا بھر کے سیاح ان آثار کو دیکھنے کے لیے بہت دور دور سے سفر کرکے یہاں پہنچتے ہیں۔
٭قدیم تاریخ و ثقافت: ''کاہوکیا'' کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شہر اس زمانے میں ظہور میں آیا تھا جب یہاں سبزہ، گھاس اور میدان تھے۔ اسی دور میں مسس سسپی تہذیب کے دور نے جنم لیا تھا۔ اس کے ٹھوس شواہد تو موجود ہیں، لیکن اس کے مکینوں نے کوئی تحریری ریکارڈ نہیں چھوڑا، البتہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے مٹی سے برتنوں، خول، تانبے، لکڑی اور پتھر سے تراشیدہ اشیا بناکر ان پر مختلف علامات بھی بنائی تھیں جو اس عہد کا واحد تہذیبی اور ثقافتی ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ لکڑی سے تیار کردہ ووڈ ہینج، ٹیلے اور ان کی قبریں بتاتی ہیں کہ یہ ایک اعلیٰ اور تہذیب یافتہ معاشرہ تھا۔
٭ ''کاہوکیا'' کا اصل نام: ''کاہوکیا'' کے ٹیلوں اور چھوٹی پہاڑیوں کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کا اصل نام کیا تھا، لیکن بعد میں ''کاہوکیا'' نامی قبیلے کی وجہ سے اس کا نام بھی ''کاہوکیا'' ہوگیا۔ بعد میں اس خطے میں دوسرے قبیلے اور گروپ بھی آباد ہوتے چلے گئے۔
ان میں Osage, Kaw, Omaha, Ponca, اور Quapaw لوگ بھی شامل تھے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ یہ لوگ اصل میں وادی اوہایو کے مشرق سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے اور بعد میں ''کاہوکیا'' میں مستقل طور پر آباد ہوگئے۔ وقت اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی متعدد مقامی امریکی قبیلے یہاں آکر آباد ہوتے چلے گئے۔ان کے درمیان لڑائیاں بھی ہوئیں۔
اس ساری معلومات کی روشنی میں ماہرین کہتے ہیں کہ یہ لوگ وہ نہیں ہیں جنہوں نے ''کاہوکیا'' کے ٹیلے بنائے تھے، بل کہ یہ ٹیلے ان سے بھی پہلے اس خطے میں رہنے والے افراد کی تعمیراتی مہارت کا شاہ کار ہیں جو صدیوں پہلے یہاں آئے تھے۔
٭ڈینیل ریکٹر کیا کہتے ہیں: معروف تاریخ داں ڈینیل ریکٹر کا کہنا ہے کہ اس شہر یعنی ''کاہوکیا'' کو اصل عروج عہد وسطیٰ میں ملا تھا، یہ دور خاصا گرم دور تھا جس میں شمالی امریکا کے بالائی علاقوں میں زرعی انقلاب آیا تھا۔ پھلیاں، مکئی، بیج، کدو، پیٹھا وغیرہ اسی دور میں پیدا کیے گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کی گرم اور مرطوب آب و ہوا مذکورہ بالا اجناس کے لیے بہترین تھی۔ ریکٹر نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعد میں جب برفانی دور آیا تو اس شہر کی بدقسمتی شروع ہوئی، مگر پھر بھی اس کی زراعت حسب سابق قائم رہی۔
٭ایک اہم تجارتی مرکز: ''کاہوکیا'' ان لوگوں کے لیے ہمیشہ ہی ایک اہم ترین مرکز رہا جو آج مسس سسی پیئنز کہلاتے ہیں۔ ان کی آبادیاں ریاست ہائے متحدہ امریکا کے مختلف خطوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ دریائے مسس سپی، دریائے مسوری اور دریائے الینوئس کے سنگم پر رہتے تھے جو جغرافیائی اعتبار سے ایک بہت اہم مقام تھا۔ اس مقام نے قرب و جوار کے علاوہ دور دراز مقامات کے ساتھ تجارتی روابط بھی قائم کررکھے تھے۔
یہ تجارت ہی تھی جس کی وجہ سے ''کاہوکیا'' نے خوب معاشی ترقی کی اور اس کے لوگ خوش حالی کی راہ پر گام زن ہوئے۔ یہاں سب جگہوں سے اشیائے تجارت جمع ہوتی تھیں اور پھر وہ اندرون ملک بھی تقسیم ہوتی تھیں اور دوسرے ملکوں کو بھی بھجوائی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ''کاہوکیا'' کے تیار کردہ برتن اور دوسری اشیاء دور دراز کے مقامات سے بھی ملی ہیں جو ان کی قدیم تجارت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ 21ویں صدی کے اوائل میں جب ''کاہوکیا'' میں جب آثار قدیمہ والوں نے کھدائی کی تو ماہرین وہاں نئے رہائشی علاقے دیکھ کر حیران رہ گئے جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ''کاہوکیا'' کی آبادی اس سے کہیں زیادہ ہوگی جو ماہرین سمجھتے یا اندازہ لگاتے ہیں۔
٭ ''کاہوکیا'' کے ابتدائی مسائل: ویسے تو اہل ''کاہوکیا'' کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا، مگر ان میں سب سے اہم اور مرکزی مسئلہ خوراک کی مسلسل اور مستقل فراہمی تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کی آبادی اپنا استعمال شدہ کوڑا کرکٹ (فضلہ) کہاں ٹھکانے لگاتی، کیوں کہ اس وقت اس کی آبادی خاصی گنجان ہوچکی تھی، دریا اور جھیلیں آلودہ ہوچکی تھیں اور اہل ''کاہوکیا'' میں وبائی امراض پھیلنے لگے تھے۔ چوں کہ ''کاہوکیا'' والوں کی نظر میں یہ جگہ اب رہنے کے قابل نہیں رہی تھی، اس لیے یہاں سے نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر اس شہر میں شرح اموات بڑھنے سے بھی یہاں آبادی میں کمی واقع ہونے لگی تھی۔
٭بیسویں صدی میں ''کاہوکیا'' کا زوال: پھر بیسویں صدی آئی تو ''کاہوکیا'' کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوچکی تھی۔ یہاں سے جانے والے واپس آنے کو تیار نہیں تھے، اس لیے اب یہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے تھے، مقامی قبیلے بھی اب اس کی ترقی میں کوئی دل چسپی نہیں لے رہے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے ذمے دار مختلف عناصر تھے جن میں ماحولیاتی عناصر سب سے بڑا سبب تھے۔
پھر لوگوں نے ضرورت سے زیادہ شکار کرکے اس خطے کے جانور ہی ختم کرڈالے تھے، اور ساتھ ہی جنگلات کو بھی کاٹ کاٹ کر اپنے لیے ایک بڑا ماحولیاتی خطرہ پیدا کردیا تھا۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ''کاہوکیا'' کے زوال کا ایک سبب بیرونی حملہ آوروں کی آمد تھی۔ ان کے ساتھ مقامی لوگوں کی لڑائیوں نے ماضی کی اس شان دار اور ترقی یافتہ شہر کو اجاڑ دیا تھا۔ وہ اس ضمن میں یہ ثبوت دیتے ہیں کہ انہیں اس قدیم مقام کے آثار سے آلات حرب بھی ملے ہیں۔ پھر وبائی امراض بھی اس خطے کو تباہ کرنے کا سبب بنے۔
٭اسے سیلاب نے بھی تباہ کیا: ماہرین کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ انہوں نے ''کاہوکیا'' کے زوال کا ایک اور سبب بھی تلاش کیا ہے جو اس خطے میں آنے والے خوف ناک سیلاب تھے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ تمام سیلاب 1100 سے 1260 اور 1340سے 1460کے درمیان آئے تھے۔ یہ تھا احوال ماضی کے اس شہر کا جو عہد قدیم میں نہایت ترقی یافتہ تھا، جس نے تجارت کے میدان میں دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا، جس نے معاشی اور اقتصادی شعبوں میں غیرمعمولی کارنامے انجام دے کر دنیا کی قوموں کو جینے کا ایک نیا سلیقہ عطا کیا۔
جس نے یہ درس بھی دیا کہ عہد ماضی سے عہدحاضر اور پھر عہد مستقبل میں کس طرح جایا جاتا ہے۔ بے شک! آج اس شہر یعنی ''کاہوکیا'' کا صرف نام باقی رہ گیا ہے، لیکن ہم نے اس کے تذکرے کو بھی سنبھال کر رکھا ہے، تاکہ دنیا کو یہ بتاسکیں کہ زندہ قومیں اپنے ماضی سے اپنا ناتا کبھی نہیں توڑتیں، بل کہ اسے سینے سے لگاکر رکھتی ہیں اور اس کے آئینے میں ترقی کرتی اور آگے بڑھتی ہیں۔ بے شک زندہ قومیں ماضی کی بنیادوں کو منہدم کرنے کے بجائے ان بنیادوں کو ازسرنو مستحکم کرکے ایک نئے دور کی داغ بیل ڈالتی ہیں۔ ''کاہوکیا'' زندہ باد!
٭تحقیقی مطالعہ:اس کے ثقافتی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ چنکی نام کا ایک کھیل کھیلتے تھے اور کیفین سے بھرا ہوا مشروب پیتے تھے۔ ''کاہوکیا'' کی پہاڑیاں اور ٹیلے کولنز ویل، الینوئس کے قریب واقع ہیں۔ ماضی کا یہ شہر 600 سے1400عیسوی کے درمیان اس کرۂ ارض پر موجود تھا۔ یہاں وسطی اور مشرقی و شمالی امریکا میں بڑے اور مہذب معاشروں نے ترقی کی۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں واقع 20عالمی ثقافتی ورثوں والی سائٹس میں شامل ہے۔ یہاں لکڑی سے بنا ہوا ایک ایسا ڈھانچا بھی کھڑا ہے جو بالکل اسٹون ہینج جیسا ہے۔
٭Monks Mound : Monks Mound ''کاہوکیا'' میں ایک طرح کا ہرم ہے، الینوئس میں واقع یہ مقام اب یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ میں شامل ہے۔1988میں بتایا گیا تھا کہ یہ ہرم یعنی مونکس ماؤنڈ مٹی سے تیار کردہ لگ بھگ 100 فیٹ بلند، 955 فیٹ طویل اور 775 فیٹ چوڑا ہے۔ اس ٹیلے کا پلیٹ فارم خاصا مستحکم ہے، جسے لکڑی کے ایک ڈھانچے نے سہارا دے رکھا ہے۔ اہرام مصر تو پتھر سے تیار کیے گئے تھے، مگر یہ ہرم یعنی مونکس ماؤنڈ پورا کا پورا مٹی سے تیار کیا گیا ہے اور یہ مٹی ٹوکریوں میں بھربھر کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئی ہوگی۔ اس ہرم کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ اس پر گرنے والی بارش کا پانی اوپر جمع ہونے کے بجائے تیزی سے بہہ جائے۔
٭ ''کاہوکیا'' کی آبادی اور اس کی مرکزی حیثیت:اپنے بام عروج پر ''کاہوکیا'' اپنے قرب و جوار میں واقع میکسیکو کے شہروں میں سب سے بڑا شہری مرکز تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں اس کی آبادی کافی کم تھی، مگر بعد میں جب اس نے ترقی کے مدارج طے کرنے شروع کیے تو اس کی آبادی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ جب یہ شہر اپنی ترقی کے عروج پر پہنچا تو اس کی آبادی 8000 سے40000کے درمیان پہنچ گئی تھی۔ اس زمانے میں یہ آبادی کافی زیادہ تھی۔ لیکن اس کی آبادی کا بڑا حصہ مضافاتی علاقوں اور دیہات میں رہائش پذیر تھا، جو اس کے شہری مراکز کو کھانے پینے کی اور دیگر چیزیں فراہم کرتی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 1250عیسوی میں اس کی آبادی لندن کی آبادی سے بھی زیادہ تھی۔ اگر ہم اس کی آبادی کے اعدادوشمار کو درست مان لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ''کاہوکیا'' ریاست ہائے متحدہ امریکا میں 1800تک سب سے بڑا شہر تھا، بعد میں فلاڈیلفیا کی آبادی 40000 سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ اس کی شکار گاہیں 2,200 ایکڑ یا 3.5مربع میل پر محیط تھیں۔
٭ ''کاہوکیا'' کے تاریخی ٹیلے: کچھ تاریخی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شہر میں لگ بھگ 80ٹیلے یا چھوٹی پہاڑیاں تھیں، مگر قدیم شہر کی حدود اس سے کہیں زیادہ تھیں۔ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ ان ٹیلوں یا پہاڑیوں کی تعداد 120کے قریب تھی، مگر وہ سب انسانی ہاتھ کے بنائے ہوئے تھے۔
اپنے عروج اور خوش حالی کے دور میں ''کاہوکیا'' میں انسان نے پتھر اور مٹی سے اپنی مہارت کے بڑے جوہر دکھائے تھے اور طرح طرح کی چیزیں تیار کی تھیں جن سے وہ مختلف کام لیتے تھے۔ ماضی کے ''کاہوکیا'' میں دریائے مسس سپی کی اس دور کی ترقی یافتہ تہذیبوں نے جنم لیا، آج یہ شہر وسطی اور جنوب مشرقی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شامل ہے۔ آج کا ''کاہوکیا'' اپنے ٹیلوں اور چھوٹی پہاڑیوں کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتا ہے، اس کے ان پیچیدہ ٹیلوں کو ماہرین آثاریات بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں، ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ماضی کے اہل ''کاہوکیا'' نے انہیں کس طرح بنایا تھا۔ دنیا بھر کے سیاح ان آثار کو دیکھنے کے لیے بہت دور دور سے سفر کرکے یہاں پہنچتے ہیں۔
٭قدیم تاریخ و ثقافت: ''کاہوکیا'' کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شہر اس زمانے میں ظہور میں آیا تھا جب یہاں سبزہ، گھاس اور میدان تھے۔ اسی دور میں مسس سسپی تہذیب کے دور نے جنم لیا تھا۔ اس کے ٹھوس شواہد تو موجود ہیں، لیکن اس کے مکینوں نے کوئی تحریری ریکارڈ نہیں چھوڑا، البتہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے مٹی سے برتنوں، خول، تانبے، لکڑی اور پتھر سے تراشیدہ اشیا بناکر ان پر مختلف علامات بھی بنائی تھیں جو اس عہد کا واحد تہذیبی اور ثقافتی ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ لکڑی سے تیار کردہ ووڈ ہینج، ٹیلے اور ان کی قبریں بتاتی ہیں کہ یہ ایک اعلیٰ اور تہذیب یافتہ معاشرہ تھا۔
٭ ''کاہوکیا'' کا اصل نام: ''کاہوکیا'' کے ٹیلوں اور چھوٹی پہاڑیوں کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس کا اصل نام کیا تھا، لیکن بعد میں ''کاہوکیا'' نامی قبیلے کی وجہ سے اس کا نام بھی ''کاہوکیا'' ہوگیا۔ بعد میں اس خطے میں دوسرے قبیلے اور گروپ بھی آباد ہوتے چلے گئے۔
ان میں Osage, Kaw, Omaha, Ponca, اور Quapaw لوگ بھی شامل تھے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ یہ لوگ اصل میں وادی اوہایو کے مشرق سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے اور بعد میں ''کاہوکیا'' میں مستقل طور پر آباد ہوگئے۔ وقت اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی متعدد مقامی امریکی قبیلے یہاں آکر آباد ہوتے چلے گئے۔ان کے درمیان لڑائیاں بھی ہوئیں۔
اس ساری معلومات کی روشنی میں ماہرین کہتے ہیں کہ یہ لوگ وہ نہیں ہیں جنہوں نے ''کاہوکیا'' کے ٹیلے بنائے تھے، بل کہ یہ ٹیلے ان سے بھی پہلے اس خطے میں رہنے والے افراد کی تعمیراتی مہارت کا شاہ کار ہیں جو صدیوں پہلے یہاں آئے تھے۔
٭ڈینیل ریکٹر کیا کہتے ہیں: معروف تاریخ داں ڈینیل ریکٹر کا کہنا ہے کہ اس شہر یعنی ''کاہوکیا'' کو اصل عروج عہد وسطیٰ میں ملا تھا، یہ دور خاصا گرم دور تھا جس میں شمالی امریکا کے بالائی علاقوں میں زرعی انقلاب آیا تھا۔ پھلیاں، مکئی، بیج، کدو، پیٹھا وغیرہ اسی دور میں پیدا کیے گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کی گرم اور مرطوب آب و ہوا مذکورہ بالا اجناس کے لیے بہترین تھی۔ ریکٹر نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعد میں جب برفانی دور آیا تو اس شہر کی بدقسمتی شروع ہوئی، مگر پھر بھی اس کی زراعت حسب سابق قائم رہی۔
٭ایک اہم تجارتی مرکز: ''کاہوکیا'' ان لوگوں کے لیے ہمیشہ ہی ایک اہم ترین مرکز رہا جو آج مسس سسی پیئنز کہلاتے ہیں۔ ان کی آبادیاں ریاست ہائے متحدہ امریکا کے مختلف خطوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ دریائے مسس سپی، دریائے مسوری اور دریائے الینوئس کے سنگم پر رہتے تھے جو جغرافیائی اعتبار سے ایک بہت اہم مقام تھا۔ اس مقام نے قرب و جوار کے علاوہ دور دراز مقامات کے ساتھ تجارتی روابط بھی قائم کررکھے تھے۔
یہ تجارت ہی تھی جس کی وجہ سے ''کاہوکیا'' نے خوب معاشی ترقی کی اور اس کے لوگ خوش حالی کی راہ پر گام زن ہوئے۔ یہاں سب جگہوں سے اشیائے تجارت جمع ہوتی تھیں اور پھر وہ اندرون ملک بھی تقسیم ہوتی تھیں اور دوسرے ملکوں کو بھی بھجوائی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ''کاہوکیا'' کے تیار کردہ برتن اور دوسری اشیاء دور دراز کے مقامات سے بھی ملی ہیں جو ان کی قدیم تجارت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ 21ویں صدی کے اوائل میں جب ''کاہوکیا'' میں جب آثار قدیمہ والوں نے کھدائی کی تو ماہرین وہاں نئے رہائشی علاقے دیکھ کر حیران رہ گئے جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ''کاہوکیا'' کی آبادی اس سے کہیں زیادہ ہوگی جو ماہرین سمجھتے یا اندازہ لگاتے ہیں۔
٭ ''کاہوکیا'' کے ابتدائی مسائل: ویسے تو اہل ''کاہوکیا'' کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا، مگر ان میں سب سے اہم اور مرکزی مسئلہ خوراک کی مسلسل اور مستقل فراہمی تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کی آبادی اپنا استعمال شدہ کوڑا کرکٹ (فضلہ) کہاں ٹھکانے لگاتی، کیوں کہ اس وقت اس کی آبادی خاصی گنجان ہوچکی تھی، دریا اور جھیلیں آلودہ ہوچکی تھیں اور اہل ''کاہوکیا'' میں وبائی امراض پھیلنے لگے تھے۔ چوں کہ ''کاہوکیا'' والوں کی نظر میں یہ جگہ اب رہنے کے قابل نہیں رہی تھی، اس لیے یہاں سے نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر اس شہر میں شرح اموات بڑھنے سے بھی یہاں آبادی میں کمی واقع ہونے لگی تھی۔
٭بیسویں صدی میں ''کاہوکیا'' کا زوال: پھر بیسویں صدی آئی تو ''کاہوکیا'' کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوچکی تھی۔ یہاں سے جانے والے واپس آنے کو تیار نہیں تھے، اس لیے اب یہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے تھے، مقامی قبیلے بھی اب اس کی ترقی میں کوئی دل چسپی نہیں لے رہے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے ذمے دار مختلف عناصر تھے جن میں ماحولیاتی عناصر سب سے بڑا سبب تھے۔
پھر لوگوں نے ضرورت سے زیادہ شکار کرکے اس خطے کے جانور ہی ختم کرڈالے تھے، اور ساتھ ہی جنگلات کو بھی کاٹ کاٹ کر اپنے لیے ایک بڑا ماحولیاتی خطرہ پیدا کردیا تھا۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ''کاہوکیا'' کے زوال کا ایک سبب بیرونی حملہ آوروں کی آمد تھی۔ ان کے ساتھ مقامی لوگوں کی لڑائیوں نے ماضی کی اس شان دار اور ترقی یافتہ شہر کو اجاڑ دیا تھا۔ وہ اس ضمن میں یہ ثبوت دیتے ہیں کہ انہیں اس قدیم مقام کے آثار سے آلات حرب بھی ملے ہیں۔ پھر وبائی امراض بھی اس خطے کو تباہ کرنے کا سبب بنے۔
٭اسے سیلاب نے بھی تباہ کیا: ماہرین کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ انہوں نے ''کاہوکیا'' کے زوال کا ایک اور سبب بھی تلاش کیا ہے جو اس خطے میں آنے والے خوف ناک سیلاب تھے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ تمام سیلاب 1100 سے 1260 اور 1340سے 1460کے درمیان آئے تھے۔ یہ تھا احوال ماضی کے اس شہر کا جو عہد قدیم میں نہایت ترقی یافتہ تھا، جس نے تجارت کے میدان میں دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا، جس نے معاشی اور اقتصادی شعبوں میں غیرمعمولی کارنامے انجام دے کر دنیا کی قوموں کو جینے کا ایک نیا سلیقہ عطا کیا۔
جس نے یہ درس بھی دیا کہ عہد ماضی سے عہدحاضر اور پھر عہد مستقبل میں کس طرح جایا جاتا ہے۔ بے شک! آج اس شہر یعنی ''کاہوکیا'' کا صرف نام باقی رہ گیا ہے، لیکن ہم نے اس کے تذکرے کو بھی سنبھال کر رکھا ہے، تاکہ دنیا کو یہ بتاسکیں کہ زندہ قومیں اپنے ماضی سے اپنا ناتا کبھی نہیں توڑتیں، بل کہ اسے سینے سے لگاکر رکھتی ہیں اور اس کے آئینے میں ترقی کرتی اور آگے بڑھتی ہیں۔ بے شک زندہ قومیں ماضی کی بنیادوں کو منہدم کرنے کے بجائے ان بنیادوں کو ازسرنو مستحکم کرکے ایک نئے دور کی داغ بیل ڈالتی ہیں۔ ''کاہوکیا'' زندہ باد!