پاکستان میں یوم مئی کی چھٹی کیسے ہوئی
ہر سال کی طرح اس سال بھی یکم مئی آیا اور چلا گیا۔ روایت کے مطابق جلسے، جلوس، سیمینار وغیرہ کا اہتمام کیا گیا،
ہر سال کی طرح اس سال بھی یکم مئی آیا اور چلا گیا۔ روایت کے مطابق جلسے، جلوس، سیمینار وغیرہ کا اہتمام کیا گیا، پرجوش تقریبات ہوئیں، شکاگو کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا، مزدوروں کے اوپر ہونے والے مظالم کے تذکرے ہوئے، ان حوالوں سے روایت کے مطابق مطالبات پیش کیے گئے۔ یوں بات آئی گئی ہوگئی۔ ہر شخص اپنی اپنی جہد و بقا میں مصروف ہوگیا۔
اب ایک سال بعد جب یکم مئی آئے گا تو یہی سب کچھ دہرایا جائے گا۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا لیکن مزدور کی زندگی میں کسی بامعنی تبدیلی کا کوئی امکان اس وقت تک نہیں رہے گا جب تک مئی ڈے منانے والے اس مزدور، کسان دشمن اور اس کے ایجنٹوں کو ان کے منطقی انجام تک نہیں پہنچائیں گے۔ میں یہ کالم لکھ رہا تھا کہ برادرم اے آر عارف اور ظفر اسلم کے فون آئے، انھوں نے یہ افسوسناک خبر سنائی کہ ڈاکٹر رشید حسن خان کا انتقال ہوگیا۔ ڈاکٹر رشید حسن خان اسی کھیل کا ایک حصہ بنے جو کھیل کرہ ارض پر ہزاروں سال سے جاری ہے یعنی ''لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے... اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے''۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ حیات اور موت کے درمیان جو وقفہ ہے اس کا استعمال کیسے ہو۔ ایک طرف اس بدبخت نظام کی ترغیب ہے کہ ہر شخص دولت کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ اس دوڑ میں کون زخمی ہو رہا ہے، کون کچلا جا رہا ہے، کون پورے تحفظ کے ساتھ کامیابی سے اس دوڑ میں شامل ہے۔ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب شکاگو کے مزدوروں نے تلاش کرنے کی کوشش میں جانیں دیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس جابرانہ عیار نظام نے ایک ایسا خودکار نظام وضع کیا ہے کہ حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو قتل کرنے کا کام ان ہی حقوق مانگنے والے طبقات سے ہوتا ہے۔ بس فرق یہ ہوتا ہے کہ اس نظام کے عیار ان لوگوں کے جسموں پر وردی یا یونیفارم ڈال کر انھیں قانون کے محافظوں کا نام دے دیتے ہیں، یہ ایک ایسی گہری سازش ہے جسے سمجھے بغیر حقوق کی لڑائی نہ ڈھنگ سے لڑی جاسکتی ہے نہ جیتی جاسکتی ہے۔
اس لڑائی کو لڑنے اور جیتنے کے لیے سب سے پہلے سادہ لوح انسانوں میں طبقاتی شعور اور طبقاتی نظام کے اسرار و رموز سے آگہی ضروری ہے۔ڈاکٹر رشید حسن خان یہ ذمے داری طلبا تنظیموں میں رہ کر بھی انجام دیتے رہے اور ہمارے ساتھ مزدور بستیوں میں کام کرکے بھی یہ ذمے داری ادا کرتے رہے۔ ڈاکٹر رشید حسن خان اور ان جیسے بے شمار لوگ اپنے مشن میں اس لیے کامیاب نہ ہوسکے کہ یہ ٹکڑوں و دھڑوں میں بے معنی طور پر بٹ گئے تھے، اس تفریق کو اس قدر گہرا بنا دیا گیا تھا کہ ہم نے جیلوں میں بھی رشید حسن خان اور کاظمی گروپوں کی شکل میں اس احمقانہ تفریق کو دیکھا۔
یہ تفریق اب اس قدر پھیل گئی ہے یا پھیلا دی گئی ہے کہ سیاست ٹریڈ یونین سمیت زندگی کے ہر شعبے میں اس کے جلوے دیکھے جاسکتے ہیں۔ آج کل میں اس تفریق کو میں انجمن ترقی پسند مصنفین میں دیکھ رہا ہوں۔ ان حوالوں سے کام کرنے والے لوگ اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں پر سخت اور اخلاق سے گری ہوئی تنقید کرنے سے باز نہیں آتے، انھیں دلوں کو جوڑنے اختلافات کو دور کرنے کا فن نہیں آتا، نہ ان کا ظرف اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ذاتی جذبات کو اجتماعی مفادات کے نیچے رکھیں۔
یوم مئی اور آج کے دور کے مزدور مسائل پر بات کرنے سے پہلے میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا کہ ''پاکستان میں یوم مئی کو سرکاری طور پر منانے کا واقعہ کس طرح پیش آیا؟'' بھٹو صاحب جو اقتدار میں آنے سے پہلے مزدور کسان راج کی بات کرتے تھے، جب اقتدار میں آئے تو ریاستی مشینری کے ذریعے مزدوروں کو اس بری طرح کچلنے پر اتر آئے کہ ملک سے ٹریڈ یونین کا ہی خاتمہ کردیا۔ کراچی میں سائٹ کے صنعتی علاقے میں بے گناہ مزدوروں پر گولیاں چلوا کر اور لانڈھی کے صنعتی علاقے میں مزدوروں کے قتل عام سے جو کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس کا مداوا کرنے کے لیے بھٹو صاحب نے اپنے وزیر محنت رانا حنیف کو کراچی بھیجا۔ یہ 1972 کی بات ہے۔
رانا حنیف نے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں مزدور رہنماؤں کی ایک میٹنگ بلائی اور ان سے کراچی کے مزدوروں کے مسائل پر طویل مشاورت کی۔ میں خاموشی سے اس ڈرامے کو دیکھتا رہا آخر رانا حنیف نے مجھ سے کہا کہ بیدری صاحب! آپ کی کوئی تجویز ہے؟ رانا صاحب نے مزدور رہنماؤں سے جن مسائل پر گفتگو کی تھی وہ عمومی تھے اور ان کو حل کرنے کے طریقے بھی غیر منطقی تھے۔
میں نے سوچا کہ یوم مئی کے حوالے سے کوئی ایسی تجویز کیوں نہ پیش کی جائے جو شکاگو کے مزدوروں کی قربانیوں کو جاوداں بنادے۔ اس سے پہلے پاکستان میں یوم مئی مزدور تنظیمیں اپنے طور پر مناتی تھیں، نہ یہ دن سرکاری طور پر منایا جاتا تھا نہ اس دن ملک میں چھٹی ہوتی تھی۔ سو میں نے رانا حنیف سے کہا۔ رانا صاحب! میرے دو مطالبے ہیں ایک یہ کہ یوم مئی پر عام تعطیل ہو اور یوم مئی سرکاری طور پر بھی منایا جائے، دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ مزدوروں کے شہید رہنما کی شہادت کے دن عام تعطیل کا اعلان کرکے مزدوروں کے لیے حسن ناصر کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے۔
بھٹو حکومت نے یوم مئی کو عام تعطیل کا ہمارا مطالبہ مان لیا۔ یوں پاکستان میں پہلی بار یوم مئی پر عام تعطیل اور یوم مئی سرکاری طور پر منانے کا اہتمام ہوا، لیکن حکومت نے یوم حسن ناصر پر چھٹی کا مطالبہ نہیں مانا۔2016ء کے یوم مئی پر مزدور رہنماؤں کی طرف سے بہت سارے مطالبے پیش کیے گئے جن کا تعلق مزدوروں کی مختلف مراعات سے ہے لیکن اصل مسئلہ محنت کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا ہے۔ سرمایہ حکومتی بینکوں سے قرض کی شکل میں بھی آتا ہے، وراثت میں بھی آتا ہے اور عوام کی لوٹ کھسوٹ کی شکل میں بھی، لیکن سرمایہ معاشرے میں عزت و احترام کا وسیلہ بن جاتا ہے جب کہ پیداوار کا اصل عامل محنت ذلت و بے توقیری کی نذر ہوجاتا ہے۔
اس ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے محنت کی عظمت کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ مزدور حقارت کا حقدار نہیں عزت و احترام کا حقدار ہے اور مزدور کی عزت و احترام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ سرمائے کا برابر کا پارٹنر نہ ہو اور مزدور اس وقت تک عزت و احترام کا مستحق نہیں بن سکتا جب تک اسے اس کی اجرت کے ساتھ مالک کے منافع کا پچاس فیصد حصے دار نہ بنایا جائے۔ اب مزدوروں اور یوم مئی کا یہی مطالبہ ہونا چاہیے۔