جنوبی ایشیا کوتعصبات سے نجات دلانے کی سوچ پہلاحصہ
قومی، مذہبی، نسلی، صنفی اورذات پات کے تعصبات لوگوں کے ذہن کو دھندلادیتے ہیں۔
قومی، مذہبی، نسلی، صنفی اورذات پات کے تعصبات لوگوں کے ذہن کو دھندلادیتے ہیں۔ مختلف مسائل کے بارے میں مثبت طریقے سے اورعقلی انداز میں سوچنے کی صلاحیت بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔تعصبات ، مسائل کو پیچیدہ بنادیتے ہیںاوران کا حل مشکل اور بعض اوقات خونی ہوجاتا ہے۔ مختلف ملکوں کے درمیان تناؤ ہو، جنگیں ہوں یا داخلی جھگڑے، عام لوگ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
لوگوں کی اکثریت اتنے کشادہ ذہن کی مالک نہیں ہوتی کہ وہ اس قسم کے تعصبات کو نظرانداز کر دے اورانھیں خاطر میں نہ لائے۔ وہ انسان دوستی کے نکتہ نگاہ سے سوچتے ہیں اور ان کا مختلف پالیسیوں کو پرکھنے کا پیمانہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ان سے عام آدمی کا بھلا ہوتا ہے یا نہیں۔
کولمبو میں،جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایسے روشن خیال دوستوں سے ملاقات نے اس یقین کو پختہ کیاکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالے ایسے فعال کارکن ابھی موجود ہیں جو اپنے اپنے ملک میںلوگوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف بے خوف ہوکرآوازاٹھا رہے ہیں۔
یہ موقع ساؤتھ ایشینزفارہیومن رائٹس(SAHR) تنظیم کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا۔ افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے ان باشعور کارکنوں کو تنظیم کی صدرحنا جیلانی کی طرف سے دعوت دی گئی تھی۔ بھارت کے سوا جنوبی ایشیا کے باقی تمام ملکوں میں جمہوریت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ مختلف اداکاروں کی طرف سے داخلی تنازعات حل کرنے کے لیے جو غیرجمہوری طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا ان ملکوں میں حقوق انسانی کی صورت حال کا جائزہ اسی پس منظر میں لینا چاہیے۔
اگرچہ بھارتی جمہوریت کو لگ بھگ 70 سال ہوچکے ہیں، مگر اس کے باوجود پچھلے چند برسوں میں وہاں ریاست اورانتہاپسندگروپوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی مندوبین کو اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی پر تشویش تھی۔ مودی حکومت کے بیانیہ نے غیر ریاستی اداکاروں کو یہ گنجائش مہیا کی ہے کہ وہ غیر ہندو بھارتیوں کے خلاف، جن میں دلت بھی شامل ہیں، ہندوتوا کی انتہا پسندی کا پرچارکریں۔
مودی کی انتخابی مہم کے دوران انتہا پسندانہ سوچ، فرقہ وارانہ اور حد سے زیادہ قوم پرستانہ سیاست عیاں تھی۔ مجھے پچھلے بارہ ماہ کے دوران بھارت میں مختلف فورمز میں بات کرنے کا تین بار موقع ملا، جہاں میں نے زوردے کرکہا کہ پاکستان نے شروع ہی میں مذہب کو سیاست کے ساتھ گڈمڈ کر کے غلطی کی تھی اور اب وہ اس خطرناک سیاسی ترکیب کی خون خرابے کی صورت میں بھاری قیمت چکا رہا ہے۔میں نے واضح کیا کہ بھارت کو ہماری غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اوریاد رکھنا چاہیے کہ مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے سے معاشرے میں عدم برداشت کی افزائش ہو گی۔
آج پوری دنیا میں حقوق انسانی کے کارکن بھارت میں عدم برداشت کی اونچی ہوتی ہوئی لہر اور آزادی اظہارکی محدود ہوتی ہوئی گنجائش کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ رومیلا ٹھاپر اور ارون دتی رائے جیسے ممتازدانشوروں اور متعدد فنکاروں نے معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دینے پر حکومت کی کھل کر مذمت کی ہے۔
مگر میں ہمیشہ پر امید رہا ہوں کہ مودی کی ہندوتوا سے آگے ایک سیکولر بھارت بھی موجود ہے۔یہاں ہم مذہب کی بنیاد پر بھارت کی آبادی کا جائزہ لیتے ہیں۔2001ء کی مردم شماری کے مطابق 1028 ملین کی آبادی میں سے 80.5 فیصد ہندو مذہب کے ماننے والے ہیں،13.4 فیصد مسلمان ہیں(تازہ ترین سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 14.6 فیصد کے قریب ہوچکی ہے) 2.3 فیصد عیسائی ہیں، 1.9 فیصد سکھ،0.80 فیصدبودھ مت کے ماننے والے اور 0.4 فیصد جین ہیں۔ اس کے علاوہ 6 ملین سے زیادہ لوگ دیگر مذاہب اور عقائد پر یقین رکھتے ہیں، ان میں قبائلی مذاہب بھی شامل ہیں جو چھ بڑے مذاہب سے مختلف ہیں۔یونین کی بعض ریاستوں میں غیر ہندو آبادی کا تناسب 20 فیصد سے زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی دلتوں کی ملی جلی آبادی ہے اور یہ ایسے گروپوں پر مشتتمل ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں اور مختلف مذاہب پر عمل کرتے ہیں۔سرکاری طور پر ان کی تشریح شیڈول کاسٹ کی حیثیت سے کی گئی ہے،ان کا تناسب16.6 فیصد ہے اور8 فیصد شیڈول قبائل کو ملا کر بھارت کی آبادی میں ان کی شرح25 فیصدبنتی ہے، اگر چہ سرکاری دستاویزات میں دلت یا شیڈول کاسٹ کو ہندو ظاہرکیا گیا ہے مگر بھارتی آئین کے معمار ڈاکٹر بی آرامبیدکار سے لے کر Kancha Ilaiah تک جو "Why I am not a Hndu" کے مصنف ہیں، دلت دانشور واضح طور پرکہتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں حتیٰ کہ وہ جن دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔
ان کا تعلق بھی برہمن ازم سے نہیں ہے۔اب اگر 20 فیصد غیر ہندو آبادی اور25 فیصد دلتوں اور دوسروں کو علیحدہ کر دیا جائے تو اس 45 فیصدآبادی کو برہمن ازم/ ہندوتوا کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ ان لوگوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی کھل کر بات کی۔ایک نوجوان خاتون صحافی الکا نے نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے بہت سے کشمیریوں کو اٹھا لیا تھا اورکئی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ان کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ان لوگوں کی بیویاں سخت مشکلات میں مبتلا ہیںکیونکہ وہ اپنے لاپتہ شوہروں کی جائیداد سے اپنے حصے کا دعویٰ نہیں کرسکتیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایسی عورتوں کونصف بیوہ کہا جاتا ہے۔ڈاکٹر نملکا فرنانڈوکی قیادت میں سری لنکا کے حقوق انسانی کے کارکنوں نے بھی تامل حقوق کے لیے لڑی جانیوالی طویل جنگ کا شکار ہونیوالوں کے بارے میںایسی ہی داستانیں سنائیں۔اگرچہ 2009ء میں اس جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا تھا، مگر تاملوں کی ازسرنوآباد کاری ابھی تک ایک مسئلہ ہے۔اس جنگ میں متعدد تامل جنگجو مارے گئے تھے،انھوں نے اپنے پیچھے جو تھوڑی بہت جائیداد چھوڑی تھی، ان کی بیویاں اس پر اپنے حق کا دعویٰ کرنے کے لیے دردرکی ٹھوکریں کھارہی ہیںکیونکہ یہ لوگ حالت جنگ میں تھے۔
اس لیے تامل خواتین کے لیے ایسی ضروری دستاویزات پیش کرنا انتہائی مشکل ہے جن سے وہ اس جائیداد پر اپنے دعوے کو ثابت کر سکیں۔آزادی کی اس جنگ میں تامل خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا، مگر اب ان خواتین کے لیے شادی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے کیونکہ مرد،آزادی کے لیے جنگ لڑنے والی عورتوں کے ساتھ شادی کرنا نہیں چاہتے۔جنوبی ایشیا کی ثقافت میںمرد شادی کے لیے ایسی عورت کو ترجیح دیتے ہیں جس کو وہ دبا کر رکھ سکیں اور جو اپنے حق کی بات اور لڑائی جھگڑا نہ کرے۔
تامل علاقوں میںچھاؤنیوں اور دوسری فوجی سہولتوں کے قیام سے مقامی لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ بڑی تعداد میں تاملوں کو بے گھرکردیا گیا ہے اور یہ لوگ بہت ابترحالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت نے ایسے تاملوں کو معاوضہ دینے کا وعدہ کیا ہے جو طویل جنگ سے متاثر ہوئے تھے مگر عملاًکوئی خاص کام نہیں کیا گیا۔تاہم سری لنکا کے فعال کارکنوں کو امید ہے کہ جو لوگ تامل خواتین کی منظم طریقے سے آبروریزی میں ملوث تھے، انھیں اب سزائیں دی جا سکیں گی۔یہ کارکن اپنی جدوجہد کے ذریعے عدالت سے ان چار فوجیوں کو 25 سال قیدکی سزا دلوانے میں کامیاب رہے جو تامل خواتین کی آبروریزی میں ملوث تھے۔ (جاری ہے)
لوگوں کی اکثریت اتنے کشادہ ذہن کی مالک نہیں ہوتی کہ وہ اس قسم کے تعصبات کو نظرانداز کر دے اورانھیں خاطر میں نہ لائے۔ وہ انسان دوستی کے نکتہ نگاہ سے سوچتے ہیں اور ان کا مختلف پالیسیوں کو پرکھنے کا پیمانہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ان سے عام آدمی کا بھلا ہوتا ہے یا نہیں۔
کولمبو میں،جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایسے روشن خیال دوستوں سے ملاقات نے اس یقین کو پختہ کیاکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالے ایسے فعال کارکن ابھی موجود ہیں جو اپنے اپنے ملک میںلوگوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف بے خوف ہوکرآوازاٹھا رہے ہیں۔
یہ موقع ساؤتھ ایشینزفارہیومن رائٹس(SAHR) تنظیم کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا۔ افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے ان باشعور کارکنوں کو تنظیم کی صدرحنا جیلانی کی طرف سے دعوت دی گئی تھی۔ بھارت کے سوا جنوبی ایشیا کے باقی تمام ملکوں میں جمہوریت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ مختلف اداکاروں کی طرف سے داخلی تنازعات حل کرنے کے لیے جو غیرجمہوری طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا ان ملکوں میں حقوق انسانی کی صورت حال کا جائزہ اسی پس منظر میں لینا چاہیے۔
اگرچہ بھارتی جمہوریت کو لگ بھگ 70 سال ہوچکے ہیں، مگر اس کے باوجود پچھلے چند برسوں میں وہاں ریاست اورانتہاپسندگروپوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی مندوبین کو اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی پر تشویش تھی۔ مودی حکومت کے بیانیہ نے غیر ریاستی اداکاروں کو یہ گنجائش مہیا کی ہے کہ وہ غیر ہندو بھارتیوں کے خلاف، جن میں دلت بھی شامل ہیں، ہندوتوا کی انتہا پسندی کا پرچارکریں۔
مودی کی انتخابی مہم کے دوران انتہا پسندانہ سوچ، فرقہ وارانہ اور حد سے زیادہ قوم پرستانہ سیاست عیاں تھی۔ مجھے پچھلے بارہ ماہ کے دوران بھارت میں مختلف فورمز میں بات کرنے کا تین بار موقع ملا، جہاں میں نے زوردے کرکہا کہ پاکستان نے شروع ہی میں مذہب کو سیاست کے ساتھ گڈمڈ کر کے غلطی کی تھی اور اب وہ اس خطرناک سیاسی ترکیب کی خون خرابے کی صورت میں بھاری قیمت چکا رہا ہے۔میں نے واضح کیا کہ بھارت کو ہماری غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اوریاد رکھنا چاہیے کہ مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے سے معاشرے میں عدم برداشت کی افزائش ہو گی۔
آج پوری دنیا میں حقوق انسانی کے کارکن بھارت میں عدم برداشت کی اونچی ہوتی ہوئی لہر اور آزادی اظہارکی محدود ہوتی ہوئی گنجائش کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ رومیلا ٹھاپر اور ارون دتی رائے جیسے ممتازدانشوروں اور متعدد فنکاروں نے معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دینے پر حکومت کی کھل کر مذمت کی ہے۔
مگر میں ہمیشہ پر امید رہا ہوں کہ مودی کی ہندوتوا سے آگے ایک سیکولر بھارت بھی موجود ہے۔یہاں ہم مذہب کی بنیاد پر بھارت کی آبادی کا جائزہ لیتے ہیں۔2001ء کی مردم شماری کے مطابق 1028 ملین کی آبادی میں سے 80.5 فیصد ہندو مذہب کے ماننے والے ہیں،13.4 فیصد مسلمان ہیں(تازہ ترین سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 14.6 فیصد کے قریب ہوچکی ہے) 2.3 فیصد عیسائی ہیں، 1.9 فیصد سکھ،0.80 فیصدبودھ مت کے ماننے والے اور 0.4 فیصد جین ہیں۔ اس کے علاوہ 6 ملین سے زیادہ لوگ دیگر مذاہب اور عقائد پر یقین رکھتے ہیں، ان میں قبائلی مذاہب بھی شامل ہیں جو چھ بڑے مذاہب سے مختلف ہیں۔یونین کی بعض ریاستوں میں غیر ہندو آبادی کا تناسب 20 فیصد سے زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی دلتوں کی ملی جلی آبادی ہے اور یہ ایسے گروپوں پر مشتتمل ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں اور مختلف مذاہب پر عمل کرتے ہیں۔سرکاری طور پر ان کی تشریح شیڈول کاسٹ کی حیثیت سے کی گئی ہے،ان کا تناسب16.6 فیصد ہے اور8 فیصد شیڈول قبائل کو ملا کر بھارت کی آبادی میں ان کی شرح25 فیصدبنتی ہے، اگر چہ سرکاری دستاویزات میں دلت یا شیڈول کاسٹ کو ہندو ظاہرکیا گیا ہے مگر بھارتی آئین کے معمار ڈاکٹر بی آرامبیدکار سے لے کر Kancha Ilaiah تک جو "Why I am not a Hndu" کے مصنف ہیں، دلت دانشور واضح طور پرکہتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں حتیٰ کہ وہ جن دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔
ان کا تعلق بھی برہمن ازم سے نہیں ہے۔اب اگر 20 فیصد غیر ہندو آبادی اور25 فیصد دلتوں اور دوسروں کو علیحدہ کر دیا جائے تو اس 45 فیصدآبادی کو برہمن ازم/ ہندوتوا کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ ان لوگوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی کھل کر بات کی۔ایک نوجوان خاتون صحافی الکا نے نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے بہت سے کشمیریوں کو اٹھا لیا تھا اورکئی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ان کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ان لوگوں کی بیویاں سخت مشکلات میں مبتلا ہیںکیونکہ وہ اپنے لاپتہ شوہروں کی جائیداد سے اپنے حصے کا دعویٰ نہیں کرسکتیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایسی عورتوں کونصف بیوہ کہا جاتا ہے۔ڈاکٹر نملکا فرنانڈوکی قیادت میں سری لنکا کے حقوق انسانی کے کارکنوں نے بھی تامل حقوق کے لیے لڑی جانیوالی طویل جنگ کا شکار ہونیوالوں کے بارے میںایسی ہی داستانیں سنائیں۔اگرچہ 2009ء میں اس جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا تھا، مگر تاملوں کی ازسرنوآباد کاری ابھی تک ایک مسئلہ ہے۔اس جنگ میں متعدد تامل جنگجو مارے گئے تھے،انھوں نے اپنے پیچھے جو تھوڑی بہت جائیداد چھوڑی تھی، ان کی بیویاں اس پر اپنے حق کا دعویٰ کرنے کے لیے دردرکی ٹھوکریں کھارہی ہیںکیونکہ یہ لوگ حالت جنگ میں تھے۔
اس لیے تامل خواتین کے لیے ایسی ضروری دستاویزات پیش کرنا انتہائی مشکل ہے جن سے وہ اس جائیداد پر اپنے دعوے کو ثابت کر سکیں۔آزادی کی اس جنگ میں تامل خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا، مگر اب ان خواتین کے لیے شادی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے کیونکہ مرد،آزادی کے لیے جنگ لڑنے والی عورتوں کے ساتھ شادی کرنا نہیں چاہتے۔جنوبی ایشیا کی ثقافت میںمرد شادی کے لیے ایسی عورت کو ترجیح دیتے ہیں جس کو وہ دبا کر رکھ سکیں اور جو اپنے حق کی بات اور لڑائی جھگڑا نہ کرے۔
تامل علاقوں میںچھاؤنیوں اور دوسری فوجی سہولتوں کے قیام سے مقامی لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ بڑی تعداد میں تاملوں کو بے گھرکردیا گیا ہے اور یہ لوگ بہت ابترحالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت نے ایسے تاملوں کو معاوضہ دینے کا وعدہ کیا ہے جو طویل جنگ سے متاثر ہوئے تھے مگر عملاًکوئی خاص کام نہیں کیا گیا۔تاہم سری لنکا کے فعال کارکنوں کو امید ہے کہ جو لوگ تامل خواتین کی منظم طریقے سے آبروریزی میں ملوث تھے، انھیں اب سزائیں دی جا سکیں گی۔یہ کارکن اپنی جدوجہد کے ذریعے عدالت سے ان چار فوجیوں کو 25 سال قیدکی سزا دلوانے میں کامیاب رہے جو تامل خواتین کی آبروریزی میں ملوث تھے۔ (جاری ہے)