فلم مالک پابندی کا شکار
1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو کسی بھی قسم کی تفریح کا تصور ناممکن تھا۔
ISLAMABAD:
1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو کسی بھی قسم کی تفریح کا تصور ناممکن تھا۔ فلم یا تھیٹر کے حوالے سے اگر بات کریں تو چند باہمت لوگوں نے فلم سازی کا آغازکیا اور پاکستان کی اولین فلم ''تیری یاد'' بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
پھر فلم سازی کا سلسلہ چل نکلا۔ فلم ''تیری یاد'' 1948ء میں سینماؤں کی زینت بنی چنانچہ محدود وسائل کے باوجود لوگوں نے مثالی کارکردگی دکھائی اور ایسی فلمیں پیش کیں جنہوں نے بھارت کی بھاری لاگت سے تیار ہونے والی فلموں کا خوب مقابلہ کیا۔
یہ ضرور تھا کہ ان فلموں میں ایک ہیرو ایک ہیروئن اور ایک عدد ولن کا تصور بھی ہوتا تھا اور یہ خیال پیش کیا تھا فلمی مصنف حزیں قادری نے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ جب فلموں میں ایک کی بجائے دو تین ہیروز و ہیروئن و ولن پیش کے جانے لگے اور طویل عرصے تک یہ فارمولا چلتا رہا اور موضوع ہوتے رومانوی، ایکشن، گھریلو، مزاحیہ، تاریخی و تحریک آزادی۔ یہ ضرور تھا کہ ان فلموں میں مقصدیت کا فقدان ہوتا تھا البتہ خلیل قیصر و ریاض شاہد نے اپنی اکثر فلموں میں سامراج کے گھناؤنے عزائم کو بے نقاب کرنے کی بھرپور سعی کی اور نتیجہ یہ کہ خلیل قیصرکو قتل کر دیا گیا اور قتل کے 55 برس بعد بھی قاتل آج تک نامعلوم ہیں جب کہ ریاض شاہد بلڈ کینسر میں مبتلا ہو کر ابدی نیند جا سوئے۔
بہرکیف 1990ء کے بعد ہماری فلم انڈسٹری مکمل زوال کا شکار ہو گئی 2000ء ہزار تک پاکستان فلم تقریباً ختم ہو گئی البتہ سال بھر میں 12 سے 15 علاقائی فلمیں سینما اسکرین کی زینت بن جاتیں۔ حکومت کے لیے لازم تھا کہ معیاری فلمیں تخلیق کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی، ٹیکسز میں کمی بھی کی جا سکتی تھی مگر اس جانب کوئی توجہ نہ دی گئی۔ البتہ کوئی دو چار برس قبل چند لوگوں نے یہ عزم کیا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے اور ان پرعزم لوگوں نے چند معیاری فلمیں پیش کیں۔ کم بجٹ کی ان فلموں نے عام لوگوں کو تفریح کے ساتھ اپنے تخلیق کاروں کو مالی فوائد بھی دیے۔
ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک صاحب آگے بڑھے اور ایک فلم ''مالک'' تخلیق کر ڈالی یہ صاحب ہیں عاشر عظیم۔ یہ بڑے ہی عجیب و غریب مزاج کے مالک ہیں۔ یہ صاحب شوبز میں نووارد نہیں ہیں بلکہ کوئی 20 برس قبل ایک مقبول ٹی وی ڈرامہ ''دھواں'' بھی تیارکر کے پیش کر چکے ہیں۔ ڈرامہ ''دھواں'' آج بھی دیکھنے والوں کے ذہن سے محو نہیں ہوا۔ جو ڈرامہ ''دھواں'' کے معیاری ہونے کی دلیل ہے۔
ڈرامہ ''دھواں'' میں عاشر عظیم کو چار ایوارڈ مختلف شعبوں میں دیے گئے اور جب یہ چار ایوارڈ عاشر عظیم کو دیے جا رہے تھے تو لیجنڈ فنکار معین اختر مرحوم نے ازراہ مذاق کہا تھا کہ عاشر عظیم دوچار ایوارڈ باقی ہیں وہ بھی لے جاؤ۔ معین اختر کے اس جملے پر بھرپور قہقہہ لگا تھا۔ حاضرین کی جانب سے ڈرامہ ''دھواں'' کے بعد عاشر عظیم طویل عرصے تک شوبز کی دنیا سے دور رہے اور 20 برس کے بعد عاشر عظیم کی انٹری ایک دھماکہ خیز انداز میں فلم ''مالک'' کی صورت میں ہوئی۔
فلم ''مالک'' کے بارے میں کوئی رائے دینے سے قبل مناسب ہو گا کہ ان دو باتوں کا ذکرکر دیں جن کا تعلق عاشر عظیم سے ہے۔ عاشر عظیم پاکستانی عوام کے مزاج آشنا ہیں اور یہ صلاحیت کم ہی لوگوں میں ہوتی ہے البتہ معذرت کے ساتھ عاشر عظیم کے اندر ایک خامی بھی ہے وہ یہ کہ شوبز میں عاشر عظیم ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں جو حکمرانوں کے مزاج کے سو فیصد خلاف ہوتی ہیں یہی سب فلم ''مالک'' میں پیش کیا گیا ہے۔ اول تو فلم میں سیاست دانوں کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جو کھلی حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کے قول و فعل میں سو فیصد تضاد ہے مگر جب یہ صداقت سینما اسکرین پر پیش کی جائے گی تو کیا ہمارے یہ سیاستدان یہ صداقت ہضم کر پائیں گے؟ یقینا جواب نفی میں ہو گا۔ دوم جو عاشر عظیم نے چیز پیش کی ہے اپنی فلم ''مالک'' میں وہ یہ ہے کہ اس ملک کے عوام ہی اس ملک کے حقیقی مالک ہیں۔
کاش عاشر عظیم اس بات پر بھی غور فرما لیتے کہ کیا ہمارے حکمران اس عوام کو مالک تسلیم کرنے کو تیار بھی ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب بھی ضرور نفی ہی آئے گا۔ سوم جو مسئلہ عاشر عظیم نے اٹھایا ہے وہ ہے کرپشن کا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سماج کو کرپشن نے کھوکھلا کر دیا ہے مگر اس حقیقت کو تمام پاکستانی تسلیم کرتے ہیں بشمول ہمارے حکمران۔ مگر جرم تو وہ ہوتا ہے جسے ثابت کیا جا سکے۔
بھلا ہمارے حکمران ایسے سادہ لوح ہیں کہ کرپشن بھی کریں اور اپنے پیچھے ثبوت بھی چھوڑ جائیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس قدر بھی کرپٹ لوگ ہیں ان کی پشت پر حکمران کھڑے ہیں بصورت دیگر کرپشن کلچر اس قدر فروغ نہ پاتا۔ چہارم فلم ''مالک'' کو 8 اپریل 2016ء کو عام نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے یہ وہ وقت تھا جب اس فلم کی نمائش سے چار روز قبل پانامہ لیکس کا ہنگامہ شروع ہو چکا تھا۔ عاشر عظیم کا موقف ہے کہ وہ تو 2 سال قبل ہی اس فلم کو پیش کر دیتے مگر ناگزیر وجوہات کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔
اب تھوڑا ذکر فلم ''مالک'' کے سنسر سرٹیفکیٹ کا بھی کر لیں تو سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے یہ گمان کر لیا گیا ہو گا کہ ایک فلسفیانہ قسم کی فلم ہے اور ایسی فلمیں دیکھتا ہی کون ہے بعدازاں معلوم ہوا کہ فلم تو رفتہ رفتہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور عوام کی شعوری بیداری کا باعث بن رہی ہے تو پھر فلم پر وفاقی حکومت نے پابندی عائد کر دی، مگر وفاقی حکومت کے احکامات KPK نے تسلیم کرنے سے انکارکر دیا۔
چنانچہ KPK میں فلم ''مالک'' کی نمائش جاری ہے البتہ فلم ''مالک'' پر پابندی عائد ہونے سے یہ ہوا ہے کہ جن لوگوں نے فلم ''مالک'' نہیں دیکھی وہ بھی اپنے ذرایع سے اس فلم کو دیکھیں گے اور یہ بات موجودہ حکومت کے خلاف ہی جائے گی۔ واضح رہے کہ فلم پر 26 اپریل 2016ء کو پابندی عائد کی گئی دیگر یہ کہ اس فلم کا معاملہ اب عدالت میں چلا گیا ہے۔
عاشرعظیم کو چند اہم سیاستدانوں کی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے لہٰذا یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اسے انصاف ملے گا اور فلم پر سے پابندی ہٹا لی جائے گی مگر اب عاشر عظیم کے سامنے دو راستے ہیں یا تو وہ اس قسم کی فلمیں مستقبل میں نہ تیار کریں جن کو دیکھنے والوں کو یہ شعور حاصل ہوتا ہو کہ وہ بھی اس ملک کے مالک ہیں اور ان کے بھی کچھ حقوق ہیں اور پھر ایسی فلمیں تیار کریں جن میں ناچ گانے ہوں، بے مقصد مار دھاڑ ہو۔ مگر ہمارا خیال ہے عاشر عظیم اپنی روش تبدیل نہیں کریں گے کیونکہ جبر کے خلاف لڑنا عاشر عظیم کی فطرت میں شامل ہے اور فطرت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ عاشر عظیم سے گزارش ہے ''مالک'' جیسی جذبہ حب الوطنی پر مبنی مزید فلمیں بنائیں کیونکہ عوام کی اخلاقی حمایت عاشر عظیم کو حاصل ہے اور یہ حمایت ہی کسی بھی تخلیق کارکا حقیقی سرمایہ ہوتا ہے۔