رویوں کا زہر
انسان کے پاس اگر انتخاب کرنے کا اختیار نہیں ہے تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔
ISLAMABAD:
انسان کے پاس اگر انتخاب کرنے کا اختیار نہیں ہے تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔ وہ کوئی ناپسندیدہ سمجھوتہ کر کے خودکشی کر لے اور محض سانس لیتی ہوئی مشین بن کر رہ جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ طبعی طور پر اپنا خاتمہ کر ڈالے اور روز روز مرنے کی اذیت سے آزاد ہو جائے۔ انسان خود سے نہیں مرتا بلکہ اسے منفی رویے مار ڈالتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں دن بہ دن رویوں کا زہر پھیل رہا ہے۔ یہ رویے گھروں سے لے کر آفس اور باہر کی دنیا تک جابجا ملتے ہیں۔ احساس محرومی، شک، خوف اور عدم تحفظ ہر برے رویے کی جڑ میں سانس لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں اکثر خودکشی کے واقعات بڑھنے لگتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں دو نوجوان طالب علموں کی خودکشی کی خبریں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ کچھ خبریں منظر عام پر آ جاتی ہیں جب کہ اکثر ایسے واقعات بے حسی کی دھند میں لپٹے رہتے ہیں۔
یہ منفی رویوں کا سیلاب ہے، جس میں انسانی قدریں بہہ جاتی ہیں۔ کئی بچے اسکول جانا نہیں چاہتے۔ وہ پڑھائی درمیان میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اسکول یا کالج میں دوسرے بچوں کے اذیت پسندانہ رویے، اساتذہ کی طرف سے ڈالا جانے والا بے جا ذہنی دباؤ ان بچوں کو ذہنی مریض بنا دیتا ہے۔ بقول ایک خاندان کے کہ ''ہمارا بچہ اے لیولز کے پہلے سال میں ذہنی مریض بن گیا۔ آج کل وہ ایک نفسیاتی اسپتال میں زیر علاج ہے۔
ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اس کا طویل علاج چلے گا۔'' ایک اور واقعہ بھی کچھ اس طرح ہے کہ والدین نے پہلے تو اپنے بیٹے کو سندھ کے کیڈٹ کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ میٹرک کے بعد اسے سندھ سے باہر کسی بڑے کالج میں بھیج دیا۔ جہاں لڑکوں کا ایک گروپ اسے بہت تنگ کرتا تھا۔ وہ لڑکا جب گھر لایا گیا تو اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ سات سال سے وہ نفسیاتی ماہر کے زیر علاج ہے۔ ماں دکھ سے کہہ رہی تھی ''ہم اپنے بچوں پر اپنی خواہشات کا بوجھ لاد دیتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ بچہ خود کیا چاہتا ہے۔''
یہ حقیقت ہے کہ آج کل کے دور کے بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ والدین کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ، اسکول میں اساتذہ کے ناروا رویے اور ساتھی بچوں کا منفی سلوک اکثر حساس بچوں یا ٹین ایجرز کو پڑھائی سے متنفر کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک اخبار میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق چودہ سالہ یعقوب نے پستول سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر ڈالا جو اساتذہ اور والدین کے جارحانہ رویوں سے بہت دل برداشتہ تھا۔ یہ یعقوب آج کے معاشرے میں جابجا پائے جاتے ہیں۔ چاہے زندگی کا خاتمہ کر ڈالیں یا غیر طبعی موت اپنا لیں نشہ آور اشیا کا استعمال کرتے ہوئے۔
ٹین ایج (نو عمری یا سن بلوغت) کا دور بہت نازک ہوتا ہے۔ یہ معصومیت، بھولپن اور بے وقوفی کا دور ہے، جسے والدین و اساتذہ کی بھرپور رہنمائی چاہیے، جو کہ اکثر ان بچوں کو میسر نہیں ہوتی۔
ایک رپورٹ کے مطابق، ایشیا میں چودہ سال سے اٹھارہ سال تک کے بچوں میں خودکشی کا رجحان بڑھا ہے۔ جس کی وجہ امتحان میں ناکامی اور مطلوبہ گریڈ حاصل نہ کر سکنے کا ملال ہے۔ خاندانی اور سماجی دباؤ الگ ان بچوں کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق، خودکشی کرنے والے نوجوان، کسی نہ کسی ذہنی عارضے میں مبتلا رہتے ہیں۔ زیادہ تر یہ بچے والدین کی طرف سے کسی نہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین کی آپس میں لڑائیاں، خاندانی جھگڑے، معاشی مسائل وغیرہ آگے چل کر نوجوانوں کے ذہنوں کو مزید الجھا دیتے ہیں۔
یہ بچے جو خود سن بلوغت کے قریب ذہنی، جذباتی و جسمانی تبدیلیوں کے تحت الجھے رہتے ہیں۔ منفی رویوں کا شکار ہو کر راہ سے بھٹک جاتے ہیں۔ خودکشی کی خبریں بھی مزید ایسے رجحانات کو فروغ دیتی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں چوالیس فیصد خودکشی کی وجہ گھریلو تنازعات تھے۔ اس کے بعد معاشی حالات و دیگر معاشرتی مسائل ہیں۔ لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں زیادہ غیر انسانی رویوں کا سامنا کرتی ہیں۔ ان میں ڈپریشن کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔ لہٰذا لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ ملتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا صحت کا مسئلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی طور پر خودکشی کی شرح گزشتہ پچاس سال میں بڑھی ہے۔ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ نسلی و مذہبی تنازعات، معاشی نا آسودگی و ماحولیاتی آلودگی، وجود کی بقا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ذہنی انتشار میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی صورتحال رہی تو 2020ء تک خودکشی کی یہ شرح 1.53 ملین تک جا پہنچے گی۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بناوٹ، دکھاوے اور طبقاتی کشمکش کی وجہ سے عوامی سطح پر بے یقینی اور احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔ خود انحصاری کی جگہ خود رحمی نے لے رکھی ہے۔ فقط مسائل کی تکرار ہے جب کہ حکمت عملی کا دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ مسائل کو وقت پر ترجیحی بنیادوں پر حل نہ کیا جائے تو نہ فقط جڑ پکڑتے ہیں بلکہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں مادیت پرستی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اشیا سے محبت بڑھی ہے۔ جب کہ انسان ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ مثلاً موبائل نہ ملنے پر اٹھارہ سالہ لڑکے نے خودکشی کر لی۔ اکثر چھوٹی باتوں پر ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن کے پس منظر میں رویوں کا زہر اور طنزیہ جملے کارفرما ہوتے ہیں۔ موبائل کے لیے زندگی کا خاتمہ غیر عقلی رویہ ہے۔ معاشرہ ایسے رویوں سے جہنم کدہ بن رہا ہے۔ یعنی ایک موبائل انسانی جان کا نعم البدل ٹھہرا۔ جب کہ والدین، زندگی اور تمام تر روابط بے معنی ہو گئے۔ دوسری جانب یہی موبائل، نوجوان نسل میں اضطراب، سماجی خوف اور ذہنی امراض کا سبب بن رہا ہے۔ سونے جاگنے کے اوقات بدلنے سے، ذہنی و جسمانی کارکردگی براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
معاشرتی مزاج میں دو رویے مفقود ہیں۔ خود احتسابی اور ذاتی تجزیے کی صلاحیت کی کمی جو ضد، غصہ، ہٹ دھرمی، ناانصافی اور استحصال جیسے منفی رویوں کا محرک بن جاتی ہے۔ آپ اس امر سے بخوبی واقف رہتے ہیں کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ جب کہ اپنی ذات کے حوالے سے ہم خود فراموشی کے عالم میں رہتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ذہنی آزادی کو مصلوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرے کو اپنی بات کہنے کا موقع کم دیتے ہیں۔ مزاج کے خلاف ہر بات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ دوسرے کو اپنے ذہن کے تابع کرنے کے بجائے اسے اپنے انداز سے بڑھنے، پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیتے۔ ہمیں جنگلی پھولوں کو گلدان میں سجانے کا بڑا شوق ہے۔ ظاہری ترتیب اور دکھاوے کے پیچھے ہی اکثر بڑے المیے جنم لیتے ہیں۔