وفاقی وزیرکے ایماپرعذیرکی جے آئی ٹی سے اہم نام نکال دیے گئے

اہم شخصیات کے نام آنے پرسندھ حکومت نے رینجرزاختیارات کانوٹیفکیشن روک لیاتھا،ذرائع


نام ہٹ جانے کے بعدہی ایس ایس پی فداحسین جانوری نے جے آئی ٹی رپورٹ پردستخط کیے فوٹو: فائل

اہم شخصیات اورپولیس افسران کے نام نکالنے کے بعدایس ایس پی سٹی فداحسین جانوری نے منگل کی شب لیاری گینگ وار کے گرفتارملزم عذیر بلوچ کی جوائنٹ انٹیروگیشن رپورٹ فائنل کرکے دستخط کردیے جس کے فوری بعدرینجرزکے اختیارات میں اضافے کانوٹیفکیشن بھی جاری کردیاگیا۔

یہ بات ایک تفتیشی افسرنے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر ایکسپریس کوبتائی۔انھوں نے بتایا کہ عذیزبلوچ سے تفتیش میں شامل تمام اداروں کے افسران نے دستخط کردیے تھے تاہم سندھ حکومت کے خدشات کے باعث ٹیم میں شامل سندھ پولیس کے افسر ایس ایس پی سٹی فداحسین جانوری نے دستخط نہیں کیے تھے اوریہ بہانہ کر دیا تھا کہ کیونکہ دوران تفتیش انھیں بلایا نہیں گیا اس لیے وہ دستخط نہیں کریںگے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں اہم سیاسی شخصیات اورپولیس افسران کے نام شامل تھے جبکہ رپورٹ میں ایک حساس ادارے کے افسر کا نام بھی شامل تھا۔ذائع نے بتایا کہ عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل کچھ اہم شخصیات کے ناموں پرخدشات کے باعث سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات میں اضافے کے نوٹیفکیشن میں دیر کر رہی تھی تاہم گزشتہ روزایک وفاقی وزیر کی مداخلت پر رپورٹ میں سے مبینہ طورپراہم شخصیات و پولیس افسران کے نام نکال دیے گئے جبکہ سیاسی شخصیات اورپولیس افسران کے نام نکالنے پرحساس ادارے کے افسرکانام بھی رپورٹ میں سے نکال دیاگیا۔

جس کے بعد منگل کی ایس ایس پی فدا حسین جانوری نے جوائنٹ انٹروگیشن رپورٹ پر اپنے دستخط کردیے جبکہ اسی وقت رینجرزکے اختیارات میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔پولیس کے تفتیشی افسرنے بتایا کہ عذیر بلوچ سے تفتیش کے لیے ڈی ایس پی علی انور شاہ رینجرزکے آفس گئے تھے تاہم رینجرز نے ڈی ایس پی کوعذیر بلوچ کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی اور دور سے ہی دکھا دیا۔ابھی ڈی ایس پی عذیرسے ملاقات کرنے کے لیے بات چیت کر رہے تھے کہ انھیں مبینہ طور پر ایس پی سٹی فدا حسین جانوری کا فون آیا اور ان سے فوری طور پر سخت لہجے میں واپس آنے کی ہدایت کی گئی جس پر وہ خاموشی سے واپس آگئے۔تفتیشی افسر نے بتایا کہ عذیربلوچ کو11 مئی کو پہلی پیشی پرہی جوڈیشنل ریمانڈ پرجیل کسٹڈی کردیاجائے گا۔

تفتیشی افسر نے مزیدبتایاکہ سال2011 سے 2014 کے دوران لیاری ٹاؤن کے تھانوں میں تعینات ایس ایچ اوز کو عذیر بلوچ 35 لاکھ روپے ماہانہ دیا کرتا تھاجبکہ ان ایس ایچ اوز کو اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا اوروہ جتنی چاہیں رشوت وصول کرسکتے ہیں،ان تمام مراعات کے بدلے عذیربلوچ کے کمانڈر اور دیگر کارندے رات کی تاریکی پھیلتے ہی پولیس کی وردیاں پہن کرپولیس کی موبائلوں میں سوار ہو کرعلاقے کا گشت کرتے تھے جبکہ پولیس تھانوں تک محدودہوجاتی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں