کرپشن سے نبردآزما تین نوجوان

ان دلیر برازیلی نوجوانوں نے اپنے کرپٹ حکمران طبقے کو بے نقاب کرکے قانون و انصاف کے ہاتھ مضبوط کر ڈالے

ان دلیر برازیلی نوجوانوں نے اپنے کرپٹ حکمران طبقے کو بے نقاب کرکے قانون و انصاف کے ہاتھ مضبوط کر ڈالے ۔ فوٹو : فائل

DHAKA:
آسٹریا کے مشہور ادیب، کارل کراؤس کا قول ہے: ''کرپشن جسم فروشی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔اول الذکر سے صرف فرد کی اخلاقیات متاثر ہوتی ہے مگر کرپشن پورے ملک کی اخلاقیات تباہ کرڈالتی ہے۔''

یہ بات سولہ آنے سچ ہے۔ یہ کرپشن ہی ہے جس کی وجہ سے آج کئی ترقی پذیر ممالک غربت و جہالت کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے کرپٹ حکمران طبقہ سارے قومی وسائل پہ قابض ہوگیا۔ یہ منحوس کرپشن ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ملک کو بھی پٹڑی سے اتار کر دوبارہ مایوسی و غم کے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے۔اب برازیل کا معاملہ لیجیے جس کی سیاسی و معاشی تاریخ ہندوستان سے ملتی جلتی ہے۔ اپریل 1500ء میں اسلحے کے بل پہ پرتگالیوں نے برازیل قبضے میں لیا۔ پھر یورپی استعمار اگلے ساڑھے تین سو برس تک برازیل میں لوٹ کھسوٹ کرتا اور وہاں کے قیمتی وسائل اپنے استعمال میں لاتا رہا۔ اس دوران پرتگالیوں نے مقامی سرداروں، جاگیرداروں اور سرکاری انتظامیہ کی مدد سے عوام کو اپنا محکوم بنائے رکھا۔

خدا خدا کرکے برازیل کو ستمبر 1822ء میں آزادی ملی۔ مگر جلد ہی طاقتور اور بااثر مٹھی بھر ٹولہ نئی مملکت پر مسلط ہوگیا۔ اس ٹولے میں جاگیردار، تاجر اور سرکاری و فوجی افسر شامل تھے۔ اس ٹولے کو پرتگالیوں نے پروان چڑھایا تھا اور ان کی رخصتی کے بعد وہی قومی وسائل پر قابض ہوگیا۔ یہ ٹولہ باری باری حکومت کرنے لگا۔ کبھی جاگیردار سیاست داں اقتدار میں آجاتے، کبھی سرکاری و فوجی افسر حکومت کرنے کا مزہ چکھتے۔حکومت پر مخصوص ٹولے کی اجارہ داری کا نتیجہ یہ نکلا کہ برازیل میں رشوت ستانی عام ہوگئی۔

عام لوگ سرکاری محکموں میں رشوت دے کر ہی اپنا کام کراپاتے۔ بالائی سطح پر وزیر مشیر اپنا کمیشن لے کر کمپنیوں کو ٹھیکے دیتے۔ رفتہ رفتہ برازیلی معاشرے میں کرپشن کا زہر اس حد تک پھیلا کہ اسے کڑوی گولی سمجھ کر قبول کرلیا گیا۔کرپشن کو بطور چلن قبول کرنے کے باعث حکمران طبقہ اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کیے بغیر دن دیہاڑے رشوت ستانی کرنے لگا۔ کسی مائی کے لال کی جرات نہ تھی کہ اس کا راستہ روکتا۔ قانون اور عدالتیں بھی اس کے آگے باندیاں بن گئیں۔

صورت حال میں کچھ تبدیلی 1995ء میں آئی۔ اس سال ایک ماہر تعلیم اور عمرانیات داں، فرنیڈو کاردوسو برازیل کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ پہلے برازیلی حکمران ہیں جنہوں نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کی خاطر ''محتسب'' اور ''پبلک پراسیکیوٹر'' کے عہدے قائم کیے۔ نیز عملِ اصلاحات کی مدد سے وفاقی پولیس اور ججوں کو بااختیار بنایا تاکہ وہ کرپٹ مگرمچھوں کی گردنیں پکڑسکیں۔

جنوری 2003ء میں لولا دا سلوا صدر بنے، تو انہوں نے بھی کرپشن کے خلاف جہاد جاری رکھا۔ لولا کا تعلق انتہائی غریب خاندان سا تھا۔ لڑکپن میں جوتے پالش کرنے والے کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جماعت تک پڑھ سکے، مگر زندگی کے تجربات نے انہیں عوام کی امنگوں کا نباض سیاست داں بناکر مسند اقتدار تک پہنچادیا۔صدر لولا نے اپنے دور (2003 ء تا 2011ء) میں نہ صرف کرپشن مخالف ا قدامات کیے بلکہ اپنی جامع پالیسیوں سے برازیل کو دنیا کی ابھرتی معاشی طاقت بنا دیا۔ کہا جانے لگا کہ برازیل کا شمار اکیسویں صدی کی سپرپاورزمیں ہو گا ۔ اسی دور میں برازیل کی سرکاری تیل کمپنی، پیٹروبراس(Petrobras) دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے ایک بن گئی۔ لیکن افسوس کہ اس ابھرتی سیاسی و معاشی طاقت کو کرپشن کی کالی نظر جا لگی ۔

تحقیقات کا آغاز
اس داستان عجب کا آغاز برازیلی ریاست پارانا کے صدر مقام، کوریتیبا سے ہوا جہاں کرپشن سے نفرت کرنے والے تین نوجوانوں... ایک تاجر، ایک وکیل اور ایک جج نے قومی تاریخ بدل ڈالی اور قانون و انصاف کو نئی توانائی بخش دی۔ہوا یہ کہ 2008ء میں کوریتیبا کے ایک نوجوان تاجر، ہرمیس ماگنس (Hermes Magnus) نے مقامی انتظامیہ کو مطلع کیا کہ بعض لوگ اس کی الیکٹرونکس کمپنی کے ذریعے اپنا سیاہ دھن سفید بناناچاہتے ہیں۔

ہرمیس نے انکار کردیا کیونکہ وہ محب وطن شہری کی حیثیت سے کرپشن کی لعنت کا خاتمہ چاہتا تھا۔ہرمیس کی خوش قسمتی کہ کوریشیا میں ایک نوجوان وکیل دلتان دلاگونل (Deltan Dallagnol) اور ایک نوجوان جج، سرگیو فرنینڈومورو (Sérgio Moro) جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف بہت زیادہ متحرک تھے۔ وہ خصوصاً کرپٹ لوگوں کو قانون کی گرفت میں لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہرمیس ماگنس سے تمام معلومات لیں اور مشکوک ملزمان کے پیچھے اپنے جاسوس و مخبر چھوڑ دیئے۔

پانچ برس گزرگئے مگر انہیں کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ تاہم انہوں نے حوصلہ نہ ہارا اور خفیہ طور پر کرپٹ شخصیات کی نگرانی کرتے رہے۔ آخر مئی 2013ء میں ان کے ہاتھ ایک بڑا سراغ لگ گیا۔ انہیں مخبر سے پتا چلا کہ منی لانڈرنگ مافیا کے ایک اہم مہرے، البرٹو یوسف نے پاؤلو رابرٹوکوسٹا کو لگژری کار خرید کر دی ہے۔ پاؤلو رابرٹو پیٹرو براس کا ڈائریکٹر رہ چکا تھا۔ اس اطلاع پر دلتان دلاگونل کے کان کھڑے ہوگئے۔ وہ سوچنے لگا کہ ایک معزز ڈائریکٹر اور جرائم پیشہ فرد کا کیا سمبندھ ہو سکتا ہے؟

اگلے ہی دن دلتان نے البرٹو یوسف کو دھرلیا۔ پوچھ گچھ سے انکشاف ہوا کہ لگژری کار خرید کر پاؤلو رابرٹو نے اپنا سیاہ دھن سفید کرایا ہے۔ اس مخبری پر پاؤلو کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ دلتان نے دونوں سے تفتیش کی، تو دبیز پردوں کے پیچھے سے برازیل کی تاریخ کا سب سے بڑا اور شرمناک کرپشن اسکینڈل عیاں ہو گیا۔ہوا یہ کہ پاؤلو رابرٹو اور البرٹو یوسف وعدہ معاف گواہ بن بیٹھے اور انہوں نے حکمران طبقے کا طریق واردات افشا کردیا۔


کرپٹ برازیلیوں کا طریق واردات
پاؤلو اور البرٹو کے بیانات سے معلوم ہوا ہے کہ جب پیٹروبراس کمپنی تیل کی فروخت سے کروڑوں ڈالر کمانے لگی، تو حکمران طبقے میں شامل لالچی اور ہوس پرست افراد کی رالیں ٹپک پڑیں۔ انہوں نے پھر اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ایک سکیم تیار کرلی۔ سکیم یہ تھی کہ پیٹروبراس کے ہر ترقیاتی منصوبے میں بڑھا چڑھا کر اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا۔جب پیٹروبراس کمپنی کے کرتا دھرتا یہ منصوبہ منظور کرلیتے، تو لاگت سے زائد رقم کرپٹ شخصیات میں تقسیم ہوجاتی۔

کرپٹ افراد کے درج بالا ٹولے میں میں اعلیٰ سرکاری افسر،پیٹروبراس کے ڈائریکٹر اور مملکت کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں (ورکرز پارٹی، پروگریسو پارٹی اور برازیلین ڈیموکریٹک موومنٹ پارٹی) سے تعلق رکھنے والے اہم سیاست داں اور کاروباری افراد شامل تھے۔ درج بالا حقیقت سے واضح ہے کہ جب برازیل کے حکمران طبقے نے پیٹروبراس تیل کمپنی کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی میں تبدیل ہوتے دیکھا، تو وہ گدھوں کی طرح اس کے گرد جمع ہوگئے۔ حکمران طبقے کے کرپٹ ارکان نے پھر اس سونے کی مرغی کا خوب خون چوسا اور خود کو امیر کبیر بنالیا۔

خیال ہے کہ 1998ء سے لے کر 2015ء تک کرپٹ برازیلی افراد پیٹروبراس کے منافع میں سے ''دس تا چالیس ارب ڈالر'' چوری کرکے ڈکار گئے۔ ایک قومی کمپنی میں وسیع پیمانے پر شرمناک لوٹ مار واضح کرتی ہے کہ کرپٹ حکمران طبقہ کن گھناؤنے طریقوں سے قومی وسائل پر ڈاکے مارتا اور لوٹی گئی رقم سے اپنے ملکی و غیر ملکی بینک اکاؤنٹس بھرتا ہے۔ برازیلی اشرافیہ کے کرپٹ افراد نے پیٹروبراس سے جو کالی رقم چرائی، وہ بذریعہ منی لانڈرنگ سفید دھن میں تبدیل کرلی گئی۔

البرٹو اور پاؤلو کی گواہیوں سے لیس ہوکر دلتان دلاگونل اورسرگیو مورو نے طبقہ ذی اثر کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ انہوں نے کئی کرپٹ شخصیات کو گرفتار کرلیا جن میں اعلیٰ سرکاری افسر،بااثر سیاست داں، جرائم پیشہ افراد اور کاروباری لوگ شامل ہیں۔ چونکہ یہ کرپٹ افراد بالعموم کاریں دھونے والے سروس اسٹیشنوں کے ذریعے کالا دھن سفید کراتے تھے، اسی لیے برازیلی میڈیا نے اس مہا کرپشن اسیکنڈل کو ''آپریشن کار واش'' کا نام دیا۔جلد ہی آپریشن کار واش کا چرچا پورے برازیل میں پھیل گیا۔ اسی دوران انکشاف ہوا کہ موجودہ برازیلی صدر، دیلما روسف بھی 2003ء تا 2010ء پیٹروبراس کی ڈائریکٹر رہی ہیں۔ جب برازیلی عوام کو اس بات کا علم ہوا، تو وہ غم وغصے کے مارے مارچ 2015ء سے حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔

دریں اثنا انکشاف ہوا کہ 2013ء اور 2014ء میں صدر دیلما نے بینکوں سے گیارہ ارب ڈالر کی خطیر رقم بطور قرضہ لی۔ اس رقم سے مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ 2014ء کے الیکشن میں دیلما روسوف پھر صدر منتخب ہوسکیں۔ وہ الیکشن جیت تو گئیں، مگر بینکوں کو گیارہ ارب ڈالر کی بڑی رقم مع سود واپس کرنا مسئلہ بن گیا۔ حتیٰ کہ اس مسئلے نے حکومت کو مالیاتی بحران میں گرفتار کرادیا۔

برازیل اپنی آمدن کا بڑا حصّہ تیل اور فولاد کی فروخت سے حاصل کرتا ہے۔ جب عالمی سطح پر ان اشیاء کی قیمتیں کم ہوئیں، تو اس امر نے بھی برازیل کو معاشی مسائل میں مبتلا کردیا۔ کئی لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بیروزگاری بڑھ گئی جبکہ مہنگائی کم نہ ہوئی۔ ان دگرگوں معاشی حالات میں حکمران طبقے کی کرپشن طشت ازبام ہوئی تو لاکھوں برازیلی سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔

جب کرپشن کے خلاف عوام نے زبردست غم و غصّے کا اظہار کیا،تو اس سے دلتان دلاگونل اورسرگیو مورو کو اپنی جنگ میں بہت مدد ملی۔ انہیںکرپشن کے خلاف جاری اپنی جنگ میں سب سے بڑا خطرہ یہ لاحق تھا کہ طاقتور کرپٹ افسر و سیاست داں ان کا راستہ روکنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔ مگر عوامی حمایت پاکر دونوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ دوسری طرف زبردست عوامی احتجاج دیکھ کر کرپٹ افراد کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ قانون کی راہ روک سکیں۔چناں چہ دلتان اور سرگیوکی تفتیش جاری رہی اور سابق صدر لولا بھی اس کی زد میں آگئے۔

ان پر الزام ہے کہ انہیں بھی پیٹروبراس میں لوٹ مار سے مالی حصہ ملا اور اس رقم سے انہوں نے عالی شان گھر تعمیر کرائے۔غرض صرف دو دیانت دار سرکاری افسروں نے طاقتور حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے کرپٹ ٹولے کو ننگا کردیا اور اس کی بنیادیں ہلا ڈالیں۔ یہ ہوتی ہے سچائی اور قانون کی طاقت! یہ سطور قلمبند ہونے تک قومی اسمبلی صدر دیلما کا مواخذہ کرچکی اور اب معاملہ برازیلی سینٹ میں ہے۔ جبکہ دیگر بیسیوں بااثر سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور کاروباریوں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں اور بعض کو سزائیں بھی مل چکیں۔ دلچسپ بات یہ کہ تفتیشی افسران کرپٹ ٹولے سے کروڑوں ڈالر وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کراچکے جو ایک حوصلہ افزا نشانی ہے۔

اندھیرے سے پھوٹی کرن
حکمران طبقے کی وسیع پیمانے پر کرپشن دیکھ کر برازیلی عوام غم و غصّے میں ہیں مگر انہیں یہ جان کر خوشی بھی ہوئی کہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط ہورہے ہیں۔ اس امر نے انہیں نئی امید عطا کردی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جوں جوں برازیلی معاشرے میں قانون کی رٹ قائم ہوئی، کرپشن کا زہر کم ہوتا چلا جائے گا۔اسی لیے آپریشن کار واش کی وجہ سے برازیل میں معاشی بدامنی و ابتری کی جو لہر چلی،اسے بھی مستقبل کے ضمن میں مفید تصّور کیا جا رہا ہے۔

آج برازیل میں فٹ بال کے لیجنڈری کھلاڑیوں ،پیلے اور رونالڈو کے ساتھ ساتھ دلتان دلاگونل اورسرگیو مورو بھی قومی ہیرو کا درجہ حاصل کر چکے۔ دونوں کو اپنی ایمانداری، دلیری اور قانون پسندی کے باعث ہی یہ ارفع مقام حاصل ہوا۔ ان کی تابناک مثال سامنے رکھ کر پاکستان سمیت ایسے تمام ترقی پذیر ممالک کے عوام اور دیانتدار سرکاری افسر کرپشن کے خلاف لڑتے ہوئے نیا جوش وولولہ پاسکتے ہیں جہاں حکمران طبقے کا خاصا حصہ کرپٹ ہوچکا اور خود کو قانون و اخلاق سے ماورا جاننے لگا ہے۔
Load Next Story