توشۂ خاص اُردو کیوں ناگزیر ہے ایک فکر انگیز تحریر
ہر گزرتا عشرہ کنفیوژڈ لبرلز (CONFUSED LIBERALS) یا مذہبی و نسلی انتہا پسندوں کا ایسا گروہ پیدا کررہا ہے
اگرکوئی درد مند پاکستانی ملک کو درپیش مسائل کی فہرست بنانا شروع کردے تو فوری توجہ طلب مسائل میں ناقابل رشک شرح خواندگی کے ساتھ ساتھ زبوں حال نظام تعلیم یقیناً فوری توجہ کے مستحق قرار پائیں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جہالت اور لاعلمی سے پیدا ہونے والی متوقع صورت حال کی پیش بینی تو کسی حد تک کی جاسکتی ہے مگر بظاہر سند یافتہ افراد میں پائی جانے والی لاعلمی اور بعض اوقات قومی زبان میں پڑھنے لکھنے سے معذوری ہمیں تیزی سے ایک ان جانے مگر مہیب مستقبل کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ایک وسیع تناظر میں دیکھیں تو کراچی سے گلگت تک پھیلے ہوئے بے شمار تعلیمی اداروں سے ہر سال ہزارہا طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کی مادری زبان بھی اردو ہے، کچھ دیگر زبانیں بولتے ہیں مگر اکثریت کو نصابی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنے یا لکھنے کو دیا جائے تو ان کی استعداد پرائمری میں زیرتعلیم بچے جیسی ہوتی ہے۔
حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ نوجوان بے قصور نظر آتے ہیں، کیوں کہ ان کو شروع سے تعلیم کے نام پر ایک ایسی دوڑ کا حصہ بنادیا گیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف کاغذ کا وہ ٹکڑا لے کر نکلنا ہے جس کے ذریعے کاغذی کارروائی کی خانہ پری کرکے ملازمت یا سماج میں سر اٹھاکر رہنے کے لیے درکار لیبل کا حصول ممکن ہوسکے۔
اس صورت حال پر میرا بھی دل ڈوب جاتا ہے جب میں یہ دیکھتی ہوں کہ علامہ اقبالؒ کے نام سے تو ملک کا بچہ بچہ واقف ہے لیکن ان کی شاعری میں نوجوانوں کے لیے موجود پیغامات سے کسی کی آشنائی ہی نہیں۔ قائداعظمؒ کے معمار پاکستان ہونے سے سب واقف ہیں لیکن انھوں نے قوم کے سامنے امانت، صداقت، دیانت اور بلا کی ذہانت کا جو معیار پیش کیا اس پر اس قوم کی علمی کم مائیگی کی وجہ سے دھند چھائی ہوئی ہے۔ چناںچہ موقع شناس، قائداعظم کو اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اسلام کے سچے سپاہی سے لے کر مکمل لبرل سیکولر لیڈر تک کچھ بھی بناکر پیش کردیتے ہیں۔
مذہبی معاملات میں منافرت کو فروغ دینا اور بھی آسان ہوجاتا ہے جب مطالعے سے نابلد افراد خود کسی قسم کی علمی استعداد کے بغیر تحقیق شدہ مسائل تک کو یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ آج کے دور میں یہ قابل عمل نہیں اور پھر یہ کہ اس امر پر تو سب متفق ہیں کہ قرآن کریم ہدایت و راہ نمائی کا حتمی سرچشمہ ہے، تاہم اس کے آفاقی پیغام کو سمجھنے کے لیے جس علمی قابلیت اور زبان و بیان سے واقفیت کی ضرورت ہے اس تک ہمارے نظام تعلیم نے ہماری رسائی ہی نہیں رہنے دی۔ تاریخ سے حاصل اسباق کو بھی اسی طرح رد کرنے کا ''فیشن'' فروغ پارہا ہے۔
چناںچہ اپنی تاریخ سے گریز کی ایک راہ یہ بھی نکلی ہے کہ عربوں سے بالخصوص اور دیگر اہل عجم سے بالعموم صدیوں کے تاریخی، اتفاقی اور مذہبی رشتے توڑ کر خود کو سو فی صد راجا پورس یا موئن جو داڑو والوں کی باقیات ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے، مگر پھر ایسا سوچنے والوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو کس مذہبی و تہذیبی ورثے کے تحفظ کے لیے علیحدہ وطن بنانے کی ضرورت پڑی؟ ساتھ ہی وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہی رہتے ہیں کہ برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے یہاں آنے والے کسی راجہ پورس، موئن جو داڑو اور ہڑپہ کی کشش میں نہیں بل کہ برصغیر کی ہزار سالہ مسلم تاریخ کے تسلسل اور فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے یہاں آئے تھے۔
یہ تمام فکری مسائل صرف زبوں حال نظام تعلیم سے نکلنے والے طلبہ و طالبات کے ساتھ ہی نہیں ہیں بل کہ انگلش میڈیم طرز تعلیم میں پروان چڑھتے نوجوان بھی اسی قدر تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔
موجودہ زبوں حال نظام تعلیم سے نکلنے والے افراد انگریزی سے تو نابلد ہوتے ہی ہیں اور قومی زبان پر بھی علمی گرفت نہیں رکھتے۔ اس طرح چوں کہ علم حاصل کرنے کے لیے درکار میڈیم یعنی زبان تک ان کی رسائی ہی نہیں رہتی چناںچہ وہ علم و دانش کے موتی چننے کے قابل ہی نہیں ہوپاتے ہیں۔ دوسری طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی جو پاکستان اور بیرون ملک کے قابل فخر اداروں سے سندیں لے کر آتے ہیں وہ اکثر سوچ اور فکر کے ایسے ڈھانچے میں ڈھل جاتے ہیں جو ان کو عوام الناس کے لیے اجنبی سا بنادیتا ہے۔ ان کی عمومی فکر اور سوچ اپنے ملک کے سماجی ڈھانچے سے مکمل عدم مطابقت رکھے ہوئے ناقابل عمل سی نظر آتی ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی قوم کو یہ بتانے کے قابل ہی نہیں ہوتے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں فلاحی مملکت کیسے تشکیل دی جاسکتی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کا کون سا ماڈل قابل عمل ہوسکتا ہے۔
اسی صورت حال کا غیر جانب داری سے جائزہ لیں تو یہ دل خراش حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ عوام الناس اور ملک و بیرون ملک کے اعلیٰ اداروں سے فارغ التحصیل افراد میں فرق صرف تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہونے کا نہیں ہے، نہ ہی یہ معمول کا طبقاتی فرق ہے یہ تو سیدھا سادھا فکری محور کا فرق ہے کہ دونوں نے اپنی سوچ اور تجربے کو الگ الگ ماخذ سے لیا ہے۔ ساتھ ہی عوام الناس میں عام ملکی اداروں سے تعلیم یافتہ افراد بالخصوص اردو میں کم زور ہونے کو لیاقت کی ایک دلیل سمجھتے ان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں جو وہ روایتی نظام تعلیم سے اخذ کرسکتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف جہالت اور ناخواندگی ہی ہمارا مسئلہ نہیں ہے بل کہ ہم کم زور تعلیمی نظام کے خنجر سے بھی قتل ہورہے ہیں۔
ہر گزرتا عشرہ کنفیوژڈ لبرلز (CONFUSED LIBERALS) یا مذہبی و نسلی انتہا پسندوں کا ایسا گروہ پیدا کررہا ہے جو فلم اور ٹی وی ٹاک شوز سے لے کر ہتھیاروں تک کے ذریعے اپنے من پسند نظریات زبردستی دوسروں پر مسلط کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ تاہم نہ تو اس طرح قومی یک جہتی کے کسی تصور کو فروغ مل رہا ہے نہ ہی سوچ اور منطقی فکر کے دائرے وسیع ہورہے ہیں۔
اگر اس مہیب صورت حال سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جائے تو یقیناً ہمیں قائداعظمؒ کے اس فرمان سے مدد ملے گی کہ ''پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی'' قائد کی اصول پسندی، غیر جانب داری اور قوم کے لیے صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔
ان کی اپنی مادری زبان تو اردو بھی نہیں تھی، نہ ہی وہ کسی طور اردو داں تھے۔ اپنے بنائے ہوئے پاکستان کے لیے قومی زبان کا انتخاب کرتے ہوئے دیگر زبانیں ان کے پیش نظر رہی ہوں گی۔
ان میں یقیناً انگریزی، عربی، فارسی اور بنگالی اپنی وسعت اور ترقی کے لحاظ سے اس ملک کی قومی زبان بننے کی دعوے دار ہوسکتی تھیں، مگر اردو کی غالباً ایک ہی خوبی تھی جو وسعت اور ترقی پذیری میں ان زبانوں سے کم تر ہونے کے باوجود سب پر بازی لے گئی اور وہ تھی اردو کی وہ اعلیٰ ظرفی جس کے ذریعے یہ ہر فکر اور خیال کو خود میں جذب کرتے ہوئے ملک کے کسی ایک حصے میں رہنے والوں کے خیالات کو نہ صرف دوسرے حصے تک بہ آسانی پہنچاسکی ہے بل کہ اس میں برصغیر کی مسلم تاریخ کی سوندھی خوشبو، فکر عرب کی گونج اور تہذیب عجم کی دل آویزی بھی پوری توانائی سے پنہاں ہے۔ اردو کی ہمہ گیریت نے اسے یہ صلاحیت عطا کردی ہے کہ ایک طرف اس کے دامن میں اپنے بولنے اور سیکھنے والوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے، دوسری طرف اسے کسی بھی مقامی یا بین الاقوامی زبان سے کسی بھی لفظ اور خیال کو لینے، اپنانے اور اپنا بنالینے میں کسی قسم کی جھجک نہیں ہے۔
اردو کو قومی زبان کا درجہ دیے جانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہاں کے باسیوں کو وہ فکری اساس میسر آجائے جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہوئے ایک مربوط سوچ رکھنے والی مضبوط نظریاتی قوم کو جنم دے۔ قومی زبان یقیناً ایک ایسی زبان ہی ہوسکتی ہے جس میں بیش بہا علمی، ادبی، تاریخی اور سب سے بڑھ کر نظریاتی ورثہ موجود ہو اور جو رابطے کی مضبوط زنجیر کے طور پر ہر علاقائی زبان کے آہنگ کو ملک کے دیگر حصوں تک لے جاسکے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس قدر توانائی اور ہمہ گیریت کے ہوتے ہوئے بھی جب قومی زبان کو نظر انداز کرتے ہوئے ذریعہ تعلیم انگریزی یا کسی علاقائی زبان کو بنایا جائے تو ایسی قابل رحم قوم وجود میں آتی ہے جو نہ گھر کی رہتی ہے نہ گھاٹ کی۔
بھٹائی کے ترانوں سے لے کر بلھے شاہ کے صوفیانہ کلام تک اور عمر خیام کی رباعیوں سے لے کر سعدی شیرازی کی گلستان و بوستان تک عقل و دانش کا وسیع ذخیرہ اردو کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی گرفت میں رہتا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ انگریزی کے مقابلے میں ہماری علاقائی زبانوں سے اخذ شدہ خیالات و تجربات ہمارے ماحول اور سماجی ڈھانچے کی عملی ضروریات کو پورا کرنے کی کہیں زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں سیاق و سباق کے مطابق راہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔
اپنے سیاق و سباق سے ہٹ کر تعلیم حاصل کرنے والی پریشان فکر قومیں اغیار کا تر نوالہ بن جاتی ہیں اور اس صورت حال کی سنگینی ہمارے معاملے میں اس لیے کئی گنا زیادہ ہے کہ ہم ایک نظریاتی قوم ہیں اگر نظریے سے محروم ہوگئے تو صرف ہجوم ہی رہ جائیںگے جس کا ہر فرد دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہوئے ان جانی سمتوں میں دوڑتا نظر آئے گا اور سچ پوچھیں تو ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہو بھی رہا ہے۔
یہ والدین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور پوری پاکستانی قوم کے لیے بھی کہ صرف حکومت یا رویہ زوال نظام تعلیم کے آلۂ کار تعلیمی اداروں پر ہی تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائیں خود ناگزیر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے بچے کی لسانی اور تہذیبی تربیت کی فکر کریں۔ اردو زبان میں کم زور بچے صرف زبان میں کم زور نہیں رہ جائیں گے وہ فکر، شعور، تہذیب اور نظریاتی ورثے سے بھی محروم ہوجائیں گے۔
ہمیں بلاشبہہ کُھلے ذہن کے حامل افراد چاہییں، جو علم کو مومن کی گم شدہ میراث سمجھتے ہوئے دنیا کے ہر ملک اور ہر زبان سے اکتساب علم کے لیے تیار رہیں، لیکن اگر یہ افراد خود اپنی قومی زبان اور اقدار سے ناآشنا رہ گئے تو آخر وہ یہ فیصلہ کیسے کرسکیں گے کہ دوسروں سے انھیں کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں سیکھنا۔ ہماری قومی زبان میں صرف تعلیم ہی نہیں بل کہ ذہنی تربیت کا بھی پورا سامان موجود ہے۔ تہذیبی اقدار اور فکر کو مہمیز دینے کے لیے اردو کے پاس صدیوں کا ورثہ اور برصغیر سمیت پورے وسطی ایشیا کی زبانوں سے اخذ کردہ تجربات کا خزانہ موجود ہے۔
اگرچہ اردو کی عمر کم ہے، تاہم اس کی جنیاتی ساخت کا کمال ہے کہ اس نے فارسی، عربی، ترکی جیسی ترقی یافتہ زبانیں بولنے والوں کے میل ملاپ سے جنم لیا ہے اور جب اسے دہلی، لکھنؤ، دکن، پنجاب ہر جگہ ہی محبت کے جھولوں میں جھلایا گیا تو یہ ایک پیدائشی استحقاق کے ساتھ ان عظیم تجربات و خیالات کی وارث ٹھہری جو اس سے پہلے انفرادی زبانوں کی ملکیت تھے۔
اس خوش قسمت اتفاق سے بہرہ مند نہ ہونا بدنصیبی کے سوا کیا کہلاسکتا ہے۔ ہمارے سامنے شاعر مشرق کی مثال موجود ہے، جنھوں نے ترقی یافتہ زبانوں اور علوم پر عبور حاصل کیا اور پھر برطانیہ اور جرمنی کے قابل رشک تعلیمی اداروں تک پہنچے تو پروفیسر آرنلڈ سے عقیدت اور نتشے کے فلسفے سے خوشہ چینی کے بعد بھی وہ بڑے اعتماد سے یہ کہہ سکے کہ:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے، میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
یہ ایک سچی علمی تحقیق اور اپنے شجر سے پیوستہ رہنے ہی کا کمال تھا کہ اقبالؒ ہمیں برصغیر کے مسلم مسئلے کے حل کا ایک ایسا نظریاتی سانچہ دے گئے ہیں جس میں آج پاکستان، نظریہ پاکستان اور پاکستان کے عوام بہ آسانی سمائے ہوئے ہیں۔
آج یقیناً ہمیں اپنی صورت حال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے زبوں حال مروجہ نظام تعلیم سے نمٹنے کی ذمے داری اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہے، ورنہ اقبالؒ ہی کی یہ تنبیہ کہیں حقیقت نہ بن جائے کہ:
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اس کی وجہ یہ ہے کہ جہالت اور لاعلمی سے پیدا ہونے والی متوقع صورت حال کی پیش بینی تو کسی حد تک کی جاسکتی ہے مگر بظاہر سند یافتہ افراد میں پائی جانے والی لاعلمی اور بعض اوقات قومی زبان میں پڑھنے لکھنے سے معذوری ہمیں تیزی سے ایک ان جانے مگر مہیب مستقبل کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ایک وسیع تناظر میں دیکھیں تو کراچی سے گلگت تک پھیلے ہوئے بے شمار تعلیمی اداروں سے ہر سال ہزارہا طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ کی مادری زبان بھی اردو ہے، کچھ دیگر زبانیں بولتے ہیں مگر اکثریت کو نصابی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنے یا لکھنے کو دیا جائے تو ان کی استعداد پرائمری میں زیرتعلیم بچے جیسی ہوتی ہے۔
حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ نوجوان بے قصور نظر آتے ہیں، کیوں کہ ان کو شروع سے تعلیم کے نام پر ایک ایسی دوڑ کا حصہ بنادیا گیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف کاغذ کا وہ ٹکڑا لے کر نکلنا ہے جس کے ذریعے کاغذی کارروائی کی خانہ پری کرکے ملازمت یا سماج میں سر اٹھاکر رہنے کے لیے درکار لیبل کا حصول ممکن ہوسکے۔
اس صورت حال پر میرا بھی دل ڈوب جاتا ہے جب میں یہ دیکھتی ہوں کہ علامہ اقبالؒ کے نام سے تو ملک کا بچہ بچہ واقف ہے لیکن ان کی شاعری میں نوجوانوں کے لیے موجود پیغامات سے کسی کی آشنائی ہی نہیں۔ قائداعظمؒ کے معمار پاکستان ہونے سے سب واقف ہیں لیکن انھوں نے قوم کے سامنے امانت، صداقت، دیانت اور بلا کی ذہانت کا جو معیار پیش کیا اس پر اس قوم کی علمی کم مائیگی کی وجہ سے دھند چھائی ہوئی ہے۔ چناںچہ موقع شناس، قائداعظم کو اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اسلام کے سچے سپاہی سے لے کر مکمل لبرل سیکولر لیڈر تک کچھ بھی بناکر پیش کردیتے ہیں۔
مذہبی معاملات میں منافرت کو فروغ دینا اور بھی آسان ہوجاتا ہے جب مطالعے سے نابلد افراد خود کسی قسم کی علمی استعداد کے بغیر تحقیق شدہ مسائل تک کو یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ آج کے دور میں یہ قابل عمل نہیں اور پھر یہ کہ اس امر پر تو سب متفق ہیں کہ قرآن کریم ہدایت و راہ نمائی کا حتمی سرچشمہ ہے، تاہم اس کے آفاقی پیغام کو سمجھنے کے لیے جس علمی قابلیت اور زبان و بیان سے واقفیت کی ضرورت ہے اس تک ہمارے نظام تعلیم نے ہماری رسائی ہی نہیں رہنے دی۔ تاریخ سے حاصل اسباق کو بھی اسی طرح رد کرنے کا ''فیشن'' فروغ پارہا ہے۔
چناںچہ اپنی تاریخ سے گریز کی ایک راہ یہ بھی نکلی ہے کہ عربوں سے بالخصوص اور دیگر اہل عجم سے بالعموم صدیوں کے تاریخی، اتفاقی اور مذہبی رشتے توڑ کر خود کو سو فی صد راجا پورس یا موئن جو داڑو والوں کی باقیات ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے، مگر پھر ایسا سوچنے والوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو کس مذہبی و تہذیبی ورثے کے تحفظ کے لیے علیحدہ وطن بنانے کی ضرورت پڑی؟ ساتھ ہی وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہی رہتے ہیں کہ برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے یہاں آنے والے کسی راجہ پورس، موئن جو داڑو اور ہڑپہ کی کشش میں نہیں بل کہ برصغیر کی ہزار سالہ مسلم تاریخ کے تسلسل اور فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے یہاں آئے تھے۔
یہ تمام فکری مسائل صرف زبوں حال نظام تعلیم سے نکلنے والے طلبہ و طالبات کے ساتھ ہی نہیں ہیں بل کہ انگلش میڈیم طرز تعلیم میں پروان چڑھتے نوجوان بھی اسی قدر تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔
موجودہ زبوں حال نظام تعلیم سے نکلنے والے افراد انگریزی سے تو نابلد ہوتے ہی ہیں اور قومی زبان پر بھی علمی گرفت نہیں رکھتے۔ اس طرح چوں کہ علم حاصل کرنے کے لیے درکار میڈیم یعنی زبان تک ان کی رسائی ہی نہیں رہتی چناںچہ وہ علم و دانش کے موتی چننے کے قابل ہی نہیں ہوپاتے ہیں۔ دوسری طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی جو پاکستان اور بیرون ملک کے قابل فخر اداروں سے سندیں لے کر آتے ہیں وہ اکثر سوچ اور فکر کے ایسے ڈھانچے میں ڈھل جاتے ہیں جو ان کو عوام الناس کے لیے اجنبی سا بنادیتا ہے۔ ان کی عمومی فکر اور سوچ اپنے ملک کے سماجی ڈھانچے سے مکمل عدم مطابقت رکھے ہوئے ناقابل عمل سی نظر آتی ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی قوم کو یہ بتانے کے قابل ہی نہیں ہوتے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں فلاحی مملکت کیسے تشکیل دی جاسکتی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کا کون سا ماڈل قابل عمل ہوسکتا ہے۔
اسی صورت حال کا غیر جانب داری سے جائزہ لیں تو یہ دل خراش حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ عوام الناس اور ملک و بیرون ملک کے اعلیٰ اداروں سے فارغ التحصیل افراد میں فرق صرف تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہونے کا نہیں ہے، نہ ہی یہ معمول کا طبقاتی فرق ہے یہ تو سیدھا سادھا فکری محور کا فرق ہے کہ دونوں نے اپنی سوچ اور تجربے کو الگ الگ ماخذ سے لیا ہے۔ ساتھ ہی عوام الناس میں عام ملکی اداروں سے تعلیم یافتہ افراد بالخصوص اردو میں کم زور ہونے کو لیاقت کی ایک دلیل سمجھتے ان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں جو وہ روایتی نظام تعلیم سے اخذ کرسکتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف جہالت اور ناخواندگی ہی ہمارا مسئلہ نہیں ہے بل کہ ہم کم زور تعلیمی نظام کے خنجر سے بھی قتل ہورہے ہیں۔
ہر گزرتا عشرہ کنفیوژڈ لبرلز (CONFUSED LIBERALS) یا مذہبی و نسلی انتہا پسندوں کا ایسا گروہ پیدا کررہا ہے جو فلم اور ٹی وی ٹاک شوز سے لے کر ہتھیاروں تک کے ذریعے اپنے من پسند نظریات زبردستی دوسروں پر مسلط کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ تاہم نہ تو اس طرح قومی یک جہتی کے کسی تصور کو فروغ مل رہا ہے نہ ہی سوچ اور منطقی فکر کے دائرے وسیع ہورہے ہیں۔
اگر اس مہیب صورت حال سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جائے تو یقیناً ہمیں قائداعظمؒ کے اس فرمان سے مدد ملے گی کہ ''پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی'' قائد کی اصول پسندی، غیر جانب داری اور قوم کے لیے صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔
ان کی اپنی مادری زبان تو اردو بھی نہیں تھی، نہ ہی وہ کسی طور اردو داں تھے۔ اپنے بنائے ہوئے پاکستان کے لیے قومی زبان کا انتخاب کرتے ہوئے دیگر زبانیں ان کے پیش نظر رہی ہوں گی۔
ان میں یقیناً انگریزی، عربی، فارسی اور بنگالی اپنی وسعت اور ترقی کے لحاظ سے اس ملک کی قومی زبان بننے کی دعوے دار ہوسکتی تھیں، مگر اردو کی غالباً ایک ہی خوبی تھی جو وسعت اور ترقی پذیری میں ان زبانوں سے کم تر ہونے کے باوجود سب پر بازی لے گئی اور وہ تھی اردو کی وہ اعلیٰ ظرفی جس کے ذریعے یہ ہر فکر اور خیال کو خود میں جذب کرتے ہوئے ملک کے کسی ایک حصے میں رہنے والوں کے خیالات کو نہ صرف دوسرے حصے تک بہ آسانی پہنچاسکی ہے بل کہ اس میں برصغیر کی مسلم تاریخ کی سوندھی خوشبو، فکر عرب کی گونج اور تہذیب عجم کی دل آویزی بھی پوری توانائی سے پنہاں ہے۔ اردو کی ہمہ گیریت نے اسے یہ صلاحیت عطا کردی ہے کہ ایک طرف اس کے دامن میں اپنے بولنے اور سیکھنے والوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے، دوسری طرف اسے کسی بھی مقامی یا بین الاقوامی زبان سے کسی بھی لفظ اور خیال کو لینے، اپنانے اور اپنا بنالینے میں کسی قسم کی جھجک نہیں ہے۔
اردو کو قومی زبان کا درجہ دیے جانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہاں کے باسیوں کو وہ فکری اساس میسر آجائے جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہوئے ایک مربوط سوچ رکھنے والی مضبوط نظریاتی قوم کو جنم دے۔ قومی زبان یقیناً ایک ایسی زبان ہی ہوسکتی ہے جس میں بیش بہا علمی، ادبی، تاریخی اور سب سے بڑھ کر نظریاتی ورثہ موجود ہو اور جو رابطے کی مضبوط زنجیر کے طور پر ہر علاقائی زبان کے آہنگ کو ملک کے دیگر حصوں تک لے جاسکے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس قدر توانائی اور ہمہ گیریت کے ہوتے ہوئے بھی جب قومی زبان کو نظر انداز کرتے ہوئے ذریعہ تعلیم انگریزی یا کسی علاقائی زبان کو بنایا جائے تو ایسی قابل رحم قوم وجود میں آتی ہے جو نہ گھر کی رہتی ہے نہ گھاٹ کی۔
بھٹائی کے ترانوں سے لے کر بلھے شاہ کے صوفیانہ کلام تک اور عمر خیام کی رباعیوں سے لے کر سعدی شیرازی کی گلستان و بوستان تک عقل و دانش کا وسیع ذخیرہ اردو کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی گرفت میں رہتا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ انگریزی کے مقابلے میں ہماری علاقائی زبانوں سے اخذ شدہ خیالات و تجربات ہمارے ماحول اور سماجی ڈھانچے کی عملی ضروریات کو پورا کرنے کی کہیں زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں سیاق و سباق کے مطابق راہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔
اپنے سیاق و سباق سے ہٹ کر تعلیم حاصل کرنے والی پریشان فکر قومیں اغیار کا تر نوالہ بن جاتی ہیں اور اس صورت حال کی سنگینی ہمارے معاملے میں اس لیے کئی گنا زیادہ ہے کہ ہم ایک نظریاتی قوم ہیں اگر نظریے سے محروم ہوگئے تو صرف ہجوم ہی رہ جائیںگے جس کا ہر فرد دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہوئے ان جانی سمتوں میں دوڑتا نظر آئے گا اور سچ پوچھیں تو ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہو بھی رہا ہے۔
یہ والدین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور پوری پاکستانی قوم کے لیے بھی کہ صرف حکومت یا رویہ زوال نظام تعلیم کے آلۂ کار تعلیمی اداروں پر ہی تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائیں خود ناگزیر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے بچے کی لسانی اور تہذیبی تربیت کی فکر کریں۔ اردو زبان میں کم زور بچے صرف زبان میں کم زور نہیں رہ جائیں گے وہ فکر، شعور، تہذیب اور نظریاتی ورثے سے بھی محروم ہوجائیں گے۔
ہمیں بلاشبہہ کُھلے ذہن کے حامل افراد چاہییں، جو علم کو مومن کی گم شدہ میراث سمجھتے ہوئے دنیا کے ہر ملک اور ہر زبان سے اکتساب علم کے لیے تیار رہیں، لیکن اگر یہ افراد خود اپنی قومی زبان اور اقدار سے ناآشنا رہ گئے تو آخر وہ یہ فیصلہ کیسے کرسکیں گے کہ دوسروں سے انھیں کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں سیکھنا۔ ہماری قومی زبان میں صرف تعلیم ہی نہیں بل کہ ذہنی تربیت کا بھی پورا سامان موجود ہے۔ تہذیبی اقدار اور فکر کو مہمیز دینے کے لیے اردو کے پاس صدیوں کا ورثہ اور برصغیر سمیت پورے وسطی ایشیا کی زبانوں سے اخذ کردہ تجربات کا خزانہ موجود ہے۔
اگرچہ اردو کی عمر کم ہے، تاہم اس کی جنیاتی ساخت کا کمال ہے کہ اس نے فارسی، عربی، ترکی جیسی ترقی یافتہ زبانیں بولنے والوں کے میل ملاپ سے جنم لیا ہے اور جب اسے دہلی، لکھنؤ، دکن، پنجاب ہر جگہ ہی محبت کے جھولوں میں جھلایا گیا تو یہ ایک پیدائشی استحقاق کے ساتھ ان عظیم تجربات و خیالات کی وارث ٹھہری جو اس سے پہلے انفرادی زبانوں کی ملکیت تھے۔
اس خوش قسمت اتفاق سے بہرہ مند نہ ہونا بدنصیبی کے سوا کیا کہلاسکتا ہے۔ ہمارے سامنے شاعر مشرق کی مثال موجود ہے، جنھوں نے ترقی یافتہ زبانوں اور علوم پر عبور حاصل کیا اور پھر برطانیہ اور جرمنی کے قابل رشک تعلیمی اداروں تک پہنچے تو پروفیسر آرنلڈ سے عقیدت اور نتشے کے فلسفے سے خوشہ چینی کے بعد بھی وہ بڑے اعتماد سے یہ کہہ سکے کہ:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے، میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
یہ ایک سچی علمی تحقیق اور اپنے شجر سے پیوستہ رہنے ہی کا کمال تھا کہ اقبالؒ ہمیں برصغیر کے مسلم مسئلے کے حل کا ایک ایسا نظریاتی سانچہ دے گئے ہیں جس میں آج پاکستان، نظریہ پاکستان اور پاکستان کے عوام بہ آسانی سمائے ہوئے ہیں۔
آج یقیناً ہمیں اپنی صورت حال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے زبوں حال مروجہ نظام تعلیم سے نمٹنے کی ذمے داری اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہے، ورنہ اقبالؒ ہی کی یہ تنبیہ کہیں حقیقت نہ بن جائے کہ:
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں