متحدہ کارکن کی ہلاکت ذمے داروں کو سخت ترین سزا دی جائے

مرحوم آفتاب احمد کی میڈیکولیگل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان پر شدید تشدد ہوا ہے۔


Editorial May 05, 2016
مرحوم آفتاب احمد کی میڈیکولیگل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان پر شدید تشدد ہوا ہے۔ فوٹو؛ فائل

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد جو منگل کو کراچی کے جناح اسپتال میں انتقال کر گئے تھے' ان کی ہلاکت کا معمہ حل گزشتہ روز ہو گیا ہے' مرحوم آفتاب احمد کی میڈیکولیگل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان پر شدید تشدد ہوا ہے اور ان کے جسم کے 35سے40فیصد حصے پر زخموں کے نشانات موجود ہیں۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ آفتاب کے جسم کے مختلف حصوں پر سیاہ اور سرخی مائل زخم پائے گئے۔ ان کے الٹے پاؤں کا ناخن آدھا اکھڑا ہوا تھا اور ان کے جسم کے مختلف حصوں پر خراشیں اور نیل کے نشانات پائے گئے۔ آفتاب کے سر سمیت جسم کے سات حصوں پر تشدد کے نشانات موجود ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دونوں کن پٹیوں پر نیل کے نشانات ملے ہیں۔ اس کے علاوہ سینے' پسلیوں کے اوپر' بازوؤں کے سامنے اور پیچھے دونوں کولہوں'دونوں رانوں کے اگلے اور پچھلے حصوں' دونوں ٹانگوں' پاؤں کے اوپر اور تلووں پر بھی گہرے نیل کے نشانات پائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کھوپڑی اور دماغ کے درمیان خون نظر نہیں آیا لیکن دماغ کے مختلف حصوں پر سوجن موجود تھی۔

واقعات کے مطابق آفتاب احمد کو چار روز قبل اتوار کو رینجرز نے کراچی سے حراست میں لیا تھا اور پیر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے دہشت گردی کے الزامات کے تحت90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا۔ منگل کو صبح سویرے آفتاب احمد کو کراچی کے جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج انتقال کر گئے تھے۔ بعدازاں ایم کیو ایم نے دعویٰ کیا تھا کہ آفتاب احمد رینجرز کی حراست میں ہلاک ہوئے جب کہ رینجرز کا موقف تھا کہ انھیں سینے میں تکلیف کے بعد اسپتال منتقل کیا گیا اور وہ دوران علاج چل بسے۔ اب میڈیکولیگل رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد صورت حال مکمل طور پر واضح ہو گئی ہے کہ ان پر دوران حراست شدید تشدد ہوا اور ان کی موت بھی یقیناً اس تشدد کے نتیجے میں ہوئی۔

سوشل میڈیا پر بھی آفتاب احمد کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئی تھیں جن میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔ آفتاب احمد کی ہلاکت کے خلاف ایم کیو ایم نے گزشتہ روز یوم سوگ بھی منایا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے آفتاب احمد کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ سندھ رینجرز کے ڈی جی میجر جنرل بلال اکبر جنہوں نے ابتدا میں آفتاب حمد کی ہارٹ اٹیک سے ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا' بعدازاں دوران حراست تشدد کا اعتراف کرتے ہوئے موت کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی تھی۔ رینجرز نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس واقعہ میں ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کتنے اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے جب کہ یہ بھی سامنے نہ آ سکا کہ معطل ہونے والے اہلکاروں میں صرف اہلکار شامل ہیں یا کسی اعلیٰ افسر کو بھی معطل کیا گیا ہے۔

میڈیکولیگل رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اب یہ حقیقت تو سامنے آ گئی ہے کہ آفتاب احمد پر بدترین تشدد کیا گیا لہٰذا اب کسی قسم کی تحقیقاتی کمیٹی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔کمیٹی نے بھی یہی تعین کرنا تھا کہ آفتاب احمد پر تشدد ہوا ہے یا نہیں یا اس کی موت تشدد سے ہوئی ہے یا نہیں' اب ساری حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ اب اگلا مرحلہ آفتاب احمد پر تشدد میں ملوث اور اس کی موت کے ذمے دار سیکیورٹی اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک قانون کی حکمرانی کا تصور قائم نہیں ہوتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب کسی زیرحراست شخص پر اتنا شدید تشدد ہو گا تو اس کا زندہ رہنا کیسے ممکن ہے۔ آفتاب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

پاکستان میں زیرحراست افراد پر سیکیورٹی اداروں کا تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی بہت سی ہلاکتیں ہو چکی ہیں لیکن اب یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔ رینجرز کی ذمے داری کراچی میں امن و امان قائم کرنا ہے اور جو ملزم بھی گرفتار ہوتا ہے تو اس کے خلاف تفتیش و انکوائری قانون اور ضابطے کے مطابق ہونی چاہیے۔ پاکستان میں یہ روایت ہے کہ سیکیورٹی ادارے بغیر وجہ بتائے لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں' پھر انھیں کئی کئی ماہ یا کئی کئی ہفتے بغیر کسی ایف آئی آر درج کیے حراست میں رکھا جاتا ہے ۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اسے ایک دو ہفتے جیل میں رکھا گیا' اور پھر اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی گئی۔ اب یہ سلسلے بند ہونے چاہئیں۔ آفتاب احمد کی رینجرز حراست میں موت بڑے دکھ اور کرب کی بات ہے۔ اب اس معاملے کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے جو لوگ بھی اس واقعے میں ملوث ہیں ان کے عہدے اور نام سامنے آنے چاہئیں اور اس کے بعد ان لوگوں کو عبرت کا نشان بنایا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی افسر یا اہلکار قانون کو اپنے ہاتھ میں لے اور نہ سیکیورٹی اداروں کی بدنامی کا باعث بنے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں