ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات کہاں ہیں
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ بچے بھوک سے مر رہے ہیں، وزیراعظم اربوں کے منصوبوں کا افتتاح چھوڑ کر تھر جائیں۔ کمیٹی نے تھر پارکر میں انسانی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے سندھ حکومت کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ اگر ضلع میں فی کس ڈھائی من گندم تقسیم کی گئی ہے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر 5 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں تو پھر بھوک اور بیماریوں سے بچے کیوں مر رہے ہیں؟ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر محسن لغاری کی سربراہی میں ہوا جس میں بتایا گیا کہ سندھ میں28 ہزار ٹن گندم تقسیم کی جا چکی ہے، 5 ارب روپے پینے کے پانی اور ساڑھے 3ارب تعلیم کے لیے جاری کیے جا چکے ہیں۔
بلاشبہ کمیٹی نے ایک اہم انسانی مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیراعظم کو صائب مشورہ دیا ہے کہ ملک کے اس حصہ میں جا کر اپنی آنکھوں سے تھر کے عوام کی بے بسی کا جائزہ لیں اور صحت، خوراک، رہائش اور تعلیم و روزگار کے جن مسائل کا تھری عوام کو سامنا ہے انھیں وہ حل کرانے کی ہدایات دیں۔ اس حقیقت سے اہل اقتدار سمیت مذکورہ شعبوں کے وزراء و سربراہان سمیت کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وفاقی و صوبائی بجٹ میں تعلیم، صحت خوراک کی مد میں اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں، یہ الگ بحث ہے کہ صحت و تعلیم کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح نہیں رہی، مثلاً 2015 ء کا وفاقی بجٹ 43 کھرب 13ارب سے زائد کا تھا ۔
جس میں ترقیاتی پروگرام کے لیے 15 کھرب 14 ارب مختص کیے گئے، حکومت نے دیہی طلبا کے لیے 12 کروڑ 50 لاکھ روپے کے تعلیمی وظائف دینے کا فیصلہ کیا، اسی طرح پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا سمیت اسلام آباد کے لیے صحت و تعلیم اور روزگار کی سہولتوں کے لیے جتنے فنڈز فراہم کیے ان کے حقیقی ثمرات نظر نہیں آتے۔ غریب آدمی اپنا علاج کرنے سے قاصر ہے جب کہ حکمراں طبقہ اور اہل ثروت معمولی علاج کے لیے بیرون ملک جا کر اپنا طبی معائنہ کراتے ہیں جو افسوسناک طرز عمل ہے، وہ اپنے ملک میں علاج کریں گے تب ہی ان اسپتالوں کی قسمت جاگے گی۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے بتایا گیا کہ گندم کی تقسیم ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے بجائے مقامی کنٹریکٹرز کے ذریعے ہوئی اس لیے خورد برد ہوئی ہے۔ کمیٹی نے تھر میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کو وفاقی اور صوبائی حکومت کی غفلت اور نا اہلی قرار دیتے ہوئے جس شدید برہمی کا اظہار کیا ہے وہ تھر کی صورت حال پر صوبائی حکومت کی بریفنگ کو مسترد کرنے کا جواز بھی بنا۔ کمیٹی ارکان کے مطابق حکومت سندھ کی بے حسی بیان کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈنا مشکل ہیں، ریاست اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دیہات اور دور افتادہ علاقوں میں تعلیم و صحت اور خوراک کی کمی کا جو حال ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
سندھ میں 80 لاکھ طالب علم جن کی عمریں 5اور 9سال کے درمیان ہیں پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے اسکول جانا بند کر دیتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کا اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ تعلیم غربت بیروزگاری اور عدم مساوات کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہے، مگر اہل سیاست کو اس سے کیا غرض وہ تو پانامہ لیکس میوزیکل چیئرز تماشے میں مگن ہیں۔
بلاشبہ کمیٹی نے ایک اہم انسانی مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیراعظم کو صائب مشورہ دیا ہے کہ ملک کے اس حصہ میں جا کر اپنی آنکھوں سے تھر کے عوام کی بے بسی کا جائزہ لیں اور صحت، خوراک، رہائش اور تعلیم و روزگار کے جن مسائل کا تھری عوام کو سامنا ہے انھیں وہ حل کرانے کی ہدایات دیں۔ اس حقیقت سے اہل اقتدار سمیت مذکورہ شعبوں کے وزراء و سربراہان سمیت کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وفاقی و صوبائی بجٹ میں تعلیم، صحت خوراک کی مد میں اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں، یہ الگ بحث ہے کہ صحت و تعلیم کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح نہیں رہی، مثلاً 2015 ء کا وفاقی بجٹ 43 کھرب 13ارب سے زائد کا تھا ۔
جس میں ترقیاتی پروگرام کے لیے 15 کھرب 14 ارب مختص کیے گئے، حکومت نے دیہی طلبا کے لیے 12 کروڑ 50 لاکھ روپے کے تعلیمی وظائف دینے کا فیصلہ کیا، اسی طرح پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا سمیت اسلام آباد کے لیے صحت و تعلیم اور روزگار کی سہولتوں کے لیے جتنے فنڈز فراہم کیے ان کے حقیقی ثمرات نظر نہیں آتے۔ غریب آدمی اپنا علاج کرنے سے قاصر ہے جب کہ حکمراں طبقہ اور اہل ثروت معمولی علاج کے لیے بیرون ملک جا کر اپنا طبی معائنہ کراتے ہیں جو افسوسناک طرز عمل ہے، وہ اپنے ملک میں علاج کریں گے تب ہی ان اسپتالوں کی قسمت جاگے گی۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے بتایا گیا کہ گندم کی تقسیم ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے بجائے مقامی کنٹریکٹرز کے ذریعے ہوئی اس لیے خورد برد ہوئی ہے۔ کمیٹی نے تھر میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کو وفاقی اور صوبائی حکومت کی غفلت اور نا اہلی قرار دیتے ہوئے جس شدید برہمی کا اظہار کیا ہے وہ تھر کی صورت حال پر صوبائی حکومت کی بریفنگ کو مسترد کرنے کا جواز بھی بنا۔ کمیٹی ارکان کے مطابق حکومت سندھ کی بے حسی بیان کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈنا مشکل ہیں، ریاست اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ دیہات اور دور افتادہ علاقوں میں تعلیم و صحت اور خوراک کی کمی کا جو حال ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
سندھ میں 80 لاکھ طالب علم جن کی عمریں 5اور 9سال کے درمیان ہیں پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے اسکول جانا بند کر دیتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کا اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ تعلیم غربت بیروزگاری اور عدم مساوات کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہے، مگر اہل سیاست کو اس سے کیا غرض وہ تو پانامہ لیکس میوزیکل چیئرز تماشے میں مگن ہیں۔