شیک ہینڈ
آپ کو یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل پی پی اور پی ٹی آئی میں خاصا فاصلہ تھا، دونوں کے عدل و انصاف کے پیمانے بھی جدا تھے
آپ کو یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل پی پی اور پی ٹی آئی میں خاصا فاصلہ تھا، دونوں کے عدل و انصاف کے پیمانے بھی جدا تھے، پی پی فرینڈلی اپوزیشن کے نام سے پکاری جاتی تھی، یہاں تک کہ جب پانامہ لیکس کا چرچا ہوا تو میاں نواز شریف نے لندن میں آصف زرداری سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر پی پی کے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور اعتزاز احسن نے مسٹر زرداری کو مشورہ دیا کہ سماں ٹھیک نہیں، لہٰذا وہ میاں نواز شریف کی کشتی کو یونہی بھنور میں چھوڑ کر چلے گئے اور پیپلز پارٹی رفتہ رفتہ اپنے تیور بدلنے لگی اور اب صورت حال یہ ہے کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو براہ راست 30 اپریل کو میاں صاحب پر کوٹلی میں گولہ باری کرنے لگے اور تمام ملکی اور بین الاقوامی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گفتگو کرتے رہے۔
ذرا ان کی عمر دیکھیں اور تجربہ۔ جب لیاری میں قتل عام ہو رہا تھا اور گینگ وار جاری تھی تو کوئی مجرموں کو زبانی کلامی روکنے کے لیے تیار نہ تھا اور صورتحال بد سے بدتر ہوتی گئی، مگر کوٹلی میں جس انداز میں گفتگو کی گئی ذرا ملاحظہ فرمائیے ''مودی کے یار کو، گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو''۔ جب کہ یکم مئی کو لاہور میں جو جلسہ عمران خان نے کیا، اس میں آداب نہ سہی مگر لچر پن نہ تھا۔ عمران خان نے جلسے کو نہایت عمدہ طریقے سے چلنے دیا، انبوہ مقررین نہ ہونے دیا اور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچنے دیا۔
پی ٹی آئی کا جو قافلہ سندھ میں پڑاؤ کر رہا ہے وہ اپنے طریقے سے آگے بڑھ رہا تھا اور اس کو آزادی سے آگے بڑھنے دیا گیا، کیونکہ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے مابین تناؤ کم ہوگیا تھا، لہٰذا پی ٹی آئی نے زرداری کی ماضی کی کوتاہیوں کو بالکل نظر انداز کردیا کہ کراچی میں عزیر بلوچ کے گناہوں کی پردہ پوشیوں کو فی الحال دہرایا نہیں جارہا ہے۔ کراچی خصوصاً لیاری میں جو کچھ ہوا، سیکڑوں اموات، پولیس کی تعیناتی اور دیگر جرائم جو سامنے آرہے ہیں اس پر اب کوئی لب کشائی نہیں کر رہا اور آج لگا کہ پی پی حزب اختلاف کا رول ادا کر رہی ہے۔
مگر غیر ملکی آداب بالائے طاق رکھ کر آپ اپنے ملک کے حاکموں کو جو کہنا چاہیں کہیں، مگر اپنے پڑوسی ملکوں سے گفتگو کا ایک اور شائستہ انداز چاہیے، یہ نہیں کہ پڑوسی ملکوں سے دشمنی اور لیبیا اور سوڈان سے دوستی، وہ بھی ایسا ملک جس نے دنیا میں جمہوریت کو پریکٹس کرکے اپنی ساکھ بنا رکھی ہو، اس سے ہم کو نقصان ہوا۔ جو لوگ بھی مسٹر بلاول کو اسباق سیاست پڑھا رہے ہیں، ان کو چاہیے کہ آداب فارن ریلیشن کی تربیت ضرور دیں۔ کم ازکم یہ آداب عمران خان سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عمران خان کے ذہن میں واضح تصور ہے کہ پاکستان میں کیسی حکومت وہ چاہتے ہیں، وہ واضح کرتے جارہے ہیں کہ پاکستان میں انداز حکومت وہی ہوگا جو مغرب کے سرمایہ دارانہ ممالک کا ہے، مگر سرمایہ داری کے ہمراہ سہولت کاری بھی ہے، جیساکہ برطانیہ عظمیٰ میں ہے۔ موجودہ وزیراعظم اور عمران خان کے مابین زبردست کشمکش ہے، بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک عمران خان کی بھی حمایتی ہے۔ اس بات کا اندازہ لاہور کے جلسے کو دیکھتے ہوئے ہوا، کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب یہ نہیں چاہتے تھے کہ مرکزی شہر میں پی ٹی آئی کا جلسہ ہو مگر جلسہ وہیں ہوا جہاں عمران خان کی خواہش تھی اور ظاہر ہے مرکز کے جو اثرات ہوتے ہیں وہی ہوئے۔ اس طرح رفتہ رفتہ (ن) لیگ کے حلقے میں عمران خان داخل ہو رہے ہیں۔ عمران خان کو ایک بہت بڑی بہتری جو حاصل ہے وہ یہ کہ عمران خان اگر چاہتے تو وہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہوتے مگر ان کی نگاہ بلند ہے، اس لیے وہ وزیراعظم کی کرسی کی طرف نگاہ کیے ہوئے ہیں۔
مغرب میں حکمرانوں کو اعلیٰ ترین کردار کا مالک ہونا ضروری ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم نے کس طریقے سے پانامہ لیکس کا دفاع کیا، کیونکہ یہ ان کے مرحوم باپ کے اثاثے تھے۔ انھوں نے ہر ایک اسباب کا انکم ٹیکس سرٹیفکیٹ اور دیگر یادداشتیں پیش کیں۔ یہ انداز تو پاکستان کے لیڈروں کا ہے نہیں۔ اس نئی تہذیب و تمدن کے لیے ملک کو نیا تمدن دینا ہوگا۔
ایک اور اہم جلسہ گوکہ نسبتاً چھوٹا تھا، مگر قابل ذکر ہے، وہ سراج الحق صاحب کا تھا۔ ان کے جلسے کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ مزدوروں میں موجود خود کو ڈی کلاس کیے ہوئے انداز میں موجود تھے۔ کلام اور طعام بھی انھی کے ساتھ تھا، اس کے علاوہ وہ دانشوروں اور شاعروں کی محفل میں بھی حصہ لے رہے ہیں اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود ہوتے ہیں۔
یہ ان کا ایک نیا انداز ہے جو کسی بھی جماعت اسلامی کے لیڈر نے اپنایا ہے، جو اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ ان کا یہ انداز تکلم کب بہتر نتائج نکالے گا؟ جہاں انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت میں تھوڑی بہت بظاہر نمایاں تبدیلی کی ہے ان کو اب اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ رکن سازی کے مراحل میں بھی کچھ نرمیاں پیدا کریں۔ آخر پی ٹی آئی سے اتحاد برقرار رکھا ہے اور اپنی سیاسی اور مذہبی روش پر قائم ہیں۔
عمران خان اور جماعت اسلامی کا اتحاد تو سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ دونوں دائیں بازو کی پارٹیاں ہیں، بین الاقوامی معاملات میں دونوں کی سوچ قریب تر ہے، لیکن جیسے فوج کی سوچ میں تبدیلی پیدا ہوئی ویسے ہی دونوں جماعتوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا، مگر (ن) لیگ کی روش نہ بدلی اور کراچی میں تباہی اور بربادی روکنے میں فوج نے اہم کردار ادا کیا، اس میں (ن) لیگ کا اہم کردار نہیں ہے بلکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج نے ضرب عضب پہلے شروع کیا، بعد میں سیاست دانوں نے ہاں میں ہاں ملائی، مگر پیپلز پارٹی کو ساتھ ملاکر نواز لیگ کو گرانے کے لیے یہ سیاست کی انوکھی چال ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر حزب اختلاف زرداری صاحب کی آمد کا انتظار کرتی اور قیادت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دیتے۔
مجھے نظر نہیں آتا کہ یہ معاملات اتنی آسانی سے سلجھ جائیں گے، کیونکہ مدمقابل بھی اخلاقی طریقوں سے ملک کی حاکمیت چھوڑ دیں گے، یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ تو اس وقت ممکن ہے جب قلم چھوڑ تحریک ملکی اداروں میں شروع ہوجائے اور حزب اختلاف پر عوام کو مکمل اعتماد ہو، تمام دفاتر اور اداروں میں کام کاج بند ہوجائے۔ حزب اختلاف کا تو عالم یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تجارت پر گفتگو کرنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر سال کم ازکم پاکستان کو 30 ارب کا خسارہ ہوتا ہے، کیونکہ بھارت سے جو سب سے اہم نقصان کا ہدف ہے وہ پان، چھالیہ اور تمباکو، آیرویدک ادویات، کاسمیٹکس ہیں۔ لہٰذا دنیا کی مارکیٹ کا عالم اب یہ ہے کہ ایکسپورٹ کے لیے پروڈکٹس کا معیاری ہونا ضروری ہے۔
پھر پاکستان کی پروڈکٹس کا مہنگا ہونا ایک عام سی بات ہے کیونکہ پاکستانی پروڈکٹس بجلی اور گیس اور لیبر کی وجہ سے مہنگی ہیں، اس لیے مارکیٹ میں وہ مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر کوئی نہ کوئی ایسی صورت حال درمیان میں آجاتی ہے، وہ کرپشن ہے۔ عام لوگ حکومت بدلنے کے لیے کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں، لوگوں کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ مہنگائی سے مت ڈرو، کرپشن کرکے اپنی ذات کو سکون پہنچاؤ، قوم جائے بھاڑ میں۔ آپ کے سامنے کی بات ہے، کے ای ایس سی کی جگہ کے ای ہوگئی، آخر کراچی کے عوام کو کیا سکون ملا؟ بجلی سب سے مہنگے ریٹ پر بھی موجود نہیں۔ متحدہ اپوزیشن ابھی تک ایک پوائنٹ پر جمع نہ ہوسکی، یہ اپنے کھوکھلے نعروں پر متحد ہیں، کیونکہ دو جماعتیں ایسی ہیں جن کی دو صوبوں میں حکومتیں ہیں، جن میں سے ایک کی تو کراچی سندھ میں ہے۔
جہاں بدعملی اور بدنظمی اپنے عروج پر تھی، اسی لیے لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ یہ متبادل ان کے سامنے آنے والا ہے کہ ہٹانے پر سب یکجا ہیں، مگر نواز شریف کو ہٹانے کے بعد کون سی حکومت برسر اقتدار آنے کو ہے؟ عوام کو بہتر متبادل ملے تو ٹھیک، مگر یہ لیڈران جو جلسہ گاہ میں اپنے اپنے جہاز لے کر چلتے ہیں اور غریبی مٹاؤ کا نعرہ لگاتے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے۔ پیپلز پارٹی کو دیکھیے وہ بھارت دشمنی میں اندھی ہوچکی ہے، اس کا بس چلے تو وہ سفارتی تعلقات ہی منقطع کرلے۔ آج دنیا بدل چکی ہے، ایٹمی جنگ بھی مسائل کا حل نہیں، بات چیت اور ہینڈ شیک ہی مسائل کا حل ہے۔ برصغیر کی ڈیڑھ ارب کی آبادی کو ایٹمی جنگ کی نذر نہیں کرسکتے، میز پر بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا ہوگا، صوبہ سندھ اللہ اللہ کرکے قتل و غارت گری کی ابھی بھی پیٹ کی باقیات میں ہے۔