غیر ذمے دارانہ سیاسی رویے
نجی سطح پر عوام میں جنرل راحیل شریف موضوع گفتگو ہی نہیں رہتے
وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو ابھی تین سال بھی مکمل نہیں ہوئے مگر حکومت اور حکومت مخالف سیاست دانوں نے ملک کی سیاسی فضا کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی اور عوام کو اس قدر سیاست سے بیزار کر دیا ہے کہ عوام کی خاموش اکثریت آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ایسی توقعات وابستہ کر بیٹھی ہے جیسے ملک کے تمام مسائل کا حل صرف ان ہی کے پاس ہو۔
نجی سطح پر عوام میں جنرل راحیل شریف موضوع گفتگو ہی نہیں رہتے، بلکہ بعض بڑے شہروں خصوصاً ملک کے دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں جنرل راحیل شریف کی نمایاں تصاویر ان کی حمایت میں آویزاں نظر آتی ہیں جن میں ان سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا ہے، تو اخبارات میں بھی غیر سیاسی لوگوں کے بیانات کی اشاعت بھی جاری ہے کہ وہ ابھی ریٹائر نہ ہوں بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کی طرح ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو کرپشن کے ناسور سے نجات دلائیں۔
آئینی طور پر پاک فوج منتخب عوامی حکومت کی ماتحت ہے اور حکومت کے احکامات پر عمل کی پابند ہے۔ فوج کا دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہوئے علاقوں میں جاری آپریشن بھی حکومت کے کہنے پر ہی شروع ہوا تھا، جس میں نمایاں کامیابی بھی ملی اور دہشت گردوں کو ہلاک، گرفتار اور بھگا کر فوج نے ریاست کی رٹ بحال کرا دی۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک سے اب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا مگر پاک فوج نے دستیاب وسائل کا بھرپور استعمال کیا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے افسروں اور جوانوں کی جانوں کی قربانی دے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو نمایاں کامیابی حاصل کی وہ ملک میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کی گئی اور انھیں ہر جگہ سراہا گیا۔
جب ملک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا اور ملک میں آئے دن بم دھماکے، سیکیورٹی فورسز پر حملے اور دہشتگردی روز کا معمول بنی ہوئی تھی اور سیاسی حکومتوں کی طرف سے صرف سیاسی بیانات پر اکتفا کیا جاتا تھا اور حکمران دکھاوے کے ایسے بیانات دیتے تھے جیسے دہشتگرد ان سے اجازت لے کر دہشتگردی کرتے ہوں۔ اطلاعات کے مطابق سیاسی حکومتیں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ، مخلص اور تیار نہیں تھیں مگر دہشتگردی کی اہم وارداتوں اور بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کے بعد حکومت کو ہوش آیا تھا۔ سابق آرمی چیف جنرل کیانی بھی اس سلسلے میں جنرل راحیل کی طرح سنجیدہ نہیں تھے اور دہشتگردی کے خلاف عملی جنگ جنرل راحیل کے آنے کے بعد لڑی گئی جس کے موثر نتائج برآمد ہوئے۔
اطلاع کے مطابق آرمی کے دباؤ پر ہی حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ شروع کرنے پر راضی ہوئی تھی، جس کی کامیابی کا کریڈٹ سابق پی پی حکومت لینے کے دعوے کرتی تھی مگر حقیقت میں یہ کامیابی فوج کی مرہون منت تھی۔
سابق پی پی حکومت کے پانچ سال میں دہشتگردی کے بعد کرپشن کو بڑی شہرت ملی اور پی پی حکومت اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتی تھی، کرپشن، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور بڑھتے ہوئے جرائم سے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس طرح حاصل کی گئی غیر قانونی رقم دہشتگردی اور دہشتگردوں کی مالی معاونت میں استعمال ہوتی تھی، جس پر کراچی آپریشن شروع ہوا، جو پی پی کی وفاقی حکومت کے بعد شروع ہوا، جس سے بعض سیاسی جماعتوں کے مفادات متاثر ہوئے اور بڑے جرائم میں سرپرستی کے الزامات پیپلزپارٹی کی قیادت، بعض وزیروں اور رہنماؤں پر لگے۔
جس پر پی پی قیادت نے وزیراعظم نواز شریف سے مدد چاہی تو وہ مجبوری میں کچھ نہ کر سکے اور رینجرز، نیب اور ایف آئی اے کے چھاپوں نے سندھ کے حکمرانوں کو پریشان کر دیا۔ مگر جب کراچی میں صورتحال بہتر ہوئی تو اس کا کریڈٹ بھی پاک فوج کو ملا، جس کے بلا امتیاز اقدامات سے عوام میں یہ تاثر بڑھا کہ ساری بڑی پارٹیاں فوج کے بغیر ختم نہیں ہو سکتیں اور سیاسی حکومتیں اور حکمران ملک و قوم کا مجموعی مفاد نہیں بلکہ اپنا سیاسی مفاد مدنظر رکھتے ہیں اور ان کا کام صرف ملک کو لوٹ کر مال کمانا اور کرپشن کی رقم ملک سے باہر لے جا کر محفوظ کرنا ہے، جس کے نتائج پانامہ لیکس کے ذریعے ظاہر ہوئے ہیں۔
تین سال قبل نواز حکومت بھاری اکثریت سے اقتدار میں آئی تھی اور اس نے پیپلزپارٹی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دے کر اس سے اپنی طرح فرینڈلی اپوزیشن کی توقعات وابستہ کی تھیں اور پیپلزپارٹی نے اپنا فرینڈلی کردار عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں میں نبھایا اور جمہوریت کے نام پر نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا، مگر دھرنوں کے بعد جب سندھ میں پیپلزپارٹی کے مفادات پر ضرب پڑی اور سابق صدر آصف علی زرداری دھمکیاں دے کر اپنے مفادات کا تحفظ نہ کر سکے اور نواز شریف سے مایوس ہو کر ملک چھوڑ گئے اور طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی واپس نہیں آ رہے تو عوام بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ وزیراعظم نواز شریف اس نازک وقت میں سابق صدر کی مدد نہ کر سکے، البتہ انھوں نے شکایات کے باوجود سندھ میں پی پی حکومت کی مکمل سیاسی مدد جاری رکھی اور اس خوشنودی کی وجہ سے سندھ میں مسلم لیگ ن اپنی ساکھ کھو بیٹھی۔
میاں نواز شریف نے عمران خان کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کو مرضی کے خلاف کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کیا اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ رہ سکے اور آصف زرداری نے پس پردہ رہ کر اپنے صاحبزادے بلاول زرداری سے نواز شریف پر حملے شروع کرائے، جنھوں نے عمران خان ہی کو نہیں بلکہ اپنے والد کے سیاسی دوست متحدہ کے قائد کو بھی للکارا۔ بلاول زرداری کے رویے میں آنے والی اچانک تبدیلی جارحانہ الزامات اور اب وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے سے اب پی پی اپنے کٹر مخالف عمران خان کے قریب آ چکی ہے۔
2013ء کے الیکشن میں عمران خان کو سو فیصد اپنے وزیراعظم بننے کی توقع تھی، ان سے صبر نہ ہوا اور دھاندلی کے الزامات لگا کر اسلام آباد فوجی مدد کے آسرے پر لانگ مارچ کیا اور دھرنے کے بعد اپنے سارے دعوؤں کے بعد ناکام لوٹے اور واضح کیا کہ حکومت چار حلقے کھول دیتی تو دھرنا نہ ہوتا۔ مگر دو تہائی اکثریت کے گھمنڈ میں وزیراعظم نہ مانے اور سیاسی کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے میں ذمے داری دکھا سکے نہ سیاسی رویے میں لچک لائے اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اسلام آباد میں اپوزیشن کی طرف سے اکثر وزیراعظم سے استعفیٰ کا متفقہ مطالبہ ہو جاتا تو ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھتی، جس کا اشارہ خورشید شاہ نے استعفیٰ کے لیے سڑکوں پر آ جانے کا دیا تھا۔ جس سے حکمرانوں کے حامیوں اور مخالفین میں سڑکوں پر تصادم اگر خونریز ہو جاتا تو فوج کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑتی، جس سے سسٹم ڈی ریل ہو سکتا تھا، مگر دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی ضد کو دو چھوٹی پارٹیوں نے کامیاب نہ ہونے دیا اور ذمے داری کا مظاہرہ کرکے دکھایا ہے۔
ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے غیر ذمے دارانہ کردار سے عوام میں مایوسی بڑھی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کے نزدیک عوام کی نہیں بلکہ پارٹی مفادات کی اہمیت زیادہ ہے۔ عوام کے لیے کوئی سیاسی پارٹی لانگ مارچ کرتی ہے نہ دھرنا دیتی ہے، عوام کے مسائل مہنگائی، لوڈشیڈنگ کے خلاف کوئی سڑکوں پر نہیں آتا۔ حکومت کی مخالفت میں پانامہ لیکس کو بنیاد بنا کر ذاتی مفاد کے لیے سب ایک ہو جاتے ہیں، جس کے باعث مایوس ہوکر عوام کو پھر فوج سے امید لگانا پڑتی ہے، جو کم از کم وفادار تو ہے۔